Category Archives: شاعری

ہلکی پھلکی

مرد ہونی چاہیئے خاتون ہونا چاہیئے
اب گرائمر کا یہی قانون ہونا چاہیئے

رات کو بچّے پڑھائی کی اذیّت سے بچے
ان کو ٹی وی کا بہت ممنون ہونا چاہیئے

دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیئے

نرسری کا داخلہ بھی سرسری مت جانیئے
آپ کے بچّے کو افلاطون ہونا چاہیئے

صرف محنت کیا ہے انور کامیابی کے لئے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہیئے

انور مسعود

دورِ حاضر کی شاعری

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ ۔ ۔ مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے ۔ ۔ ۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویئے امیروں کے نورِ نظر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

احوالِ قوم ۔ 6 ۔ روّيہ

اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دینا
مگر ہاں وہ سرمایہءِ دین و دنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ایک ایک لمحہ ہے اَنمول جس کا
نہیں کرتے خسّت اُڑانے میں اس کے۔ ۔ ۔ بہت ہم سخی ہیں لُٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم۔ ۔ ۔ تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم۔ ۔ یونہی گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیں کوئی گویا خبردار ہم میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریئے کا وہ حُکم بردار کُتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بھیڑوں کی ہر دَم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتّے کا کھڑکا۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھِپرا
گر انصاف کیجئے تو ہے ہم سے بہتر۔ ۔ کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر

بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب ۔ ۔ ۔ لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر ۔ ۔ کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے ۔ مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

احوالِ قوم ۔ 5 ۔ سوچ

سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا اور نبی سے نہیں کام باقی

جہاں مختلف ہوں روایات باہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں

کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں ۔ ۔ ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

تعصب کہ ہے دشمنِ نوعِ انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھرے گھر کئے سینکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا ۔ ۔ ۔ ۔ ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے ۔ ۔ چھپا جس کے پردے میں اک ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

احوالِ قوم ۔ 4 ۔ کردار

زمانے میں ہیں ایسی قومیں بہت سی۔ ۔ ۔ ۔ نہیں جن میں تخصیص فرماں دہی کی
پر آفت کہیں ایسی آئی نہ ہوگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کہ گھر گھر پہ یاں چھا گئی آکے پَستی
چکور اور شہباز سب اَوج پر ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ بے بال و پر ہیں

وہ ملت کہ گردُوں پہ جس کا قدم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک کھونٹ میں جس کا برپا علَم تھا
وہ فرقہ جو آفاق میں محترم تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اُمت لَقَب جس کا خَیرُ الاُمَم تھا
نشاں اس کا باقی ہے صرف اس قدریاں۔ ۔ کہ گِنتے ہیں اپنے کو ہم بھی مسلماں
وگرنہ ہماری رگوں میں لہو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے ارادوں میں اور جستجو میں
دِلوں میں زبانوں میں اور گفتگو میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں فطرت میں عادت میں خُو میں
نہیں کوئی ذرّہ نجابت کا باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہو کسی میں تو ہے اتفاقی

ہماری ہر اک بات میں سفلہ پن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ کمینوں سے بدتر ہمارا چلن ہے
لگا نامِ آبا کو ہم سے گہن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارا قدم ننگِ اہلِ وطن ہے
بزرگوں کی توقیر کھوئی ہے ہم نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرب کی شرافت ڈبوائی ہے ہم نے
نہ قوموں میں عزت، نہ جلسوں میں وقعت۔ ۔ نہ اپنوں سے اُلفت، نہ غیروں سے ملت
مزاجوں میں سُستی، دماغوں میں نخوت۔ ۔ ۔ ۔ خیالوں میں پَستی، کمالوں سے نفرت
عداوت نہاں ۔ دوستی آشکارا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ غرض کی تواضع ۔ غرض کی مُدارا

نہ اہلِ حکومت کے ہمراز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ درباریوں میں سرافراز ہیں ہم
نہ عِلموں میں شایانِ اعزاز ہیں ہم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ صنعت میں حرفت میں مُمتاز ہیں ہم
نہ رکھتے ہیں کچھ مَنزلت نوکری میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ حصہ ہمارا ہے سوداگری میں
تنزل نے کی ہے بُری گَت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت دور پہنچی ہے نکبت ہماری
گئی گزری دنیا سے عزت ہماری۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کچھ ابھرنے کی صورت ہماری
پڑے ہیں اک امید کے ہم سہارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ توقع پہ جنت کی جیتے ہیں سارے

کلام خواجہ الطاف حسين حالی

عشقِ رسول

میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں میڈا ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں،جند جان وی توں
میڈا کعبہ قبلہ مسجد ممبر مُصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں صوم صلاۃ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
میڈا سانول مٹھڑا شام سلونڑا من موہن جانان وی توں
میڈا مرشد ھادی پیر طریقت شیخ حقائق دان وی توں
میڈی آس امید تے کھٹیا وٹیا تکیہ مانڑ تے ترانڑ وی توں
میڈا دھرم وی توں میڈا بھرم وی توں
میڈی شرم وی توں میڈی شان وی توں
میڈا ڈُکھ سُکھ رووَنڑ کھلنڑ وی توں
میڈا درد وی توں درمان وی توں
میڈا خوشیاں دا اسباب وی توں
میڈے سولاں دا سامان وی توں
میڈا حُسن تے بھاگ سُہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام و نشان وی توں

کلام ۔ خواجہ غلام فرید