Category Archives: سیاست

یومِ یکجہتی کشمیر


ستم شعار سے تجھ کو ہم چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایماء پر شروع کی گئی تھی بلکہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور نام نہاد انسانیت کی حمائتی دُنیا سے مایوس ہونے کے بعد جموں کشمیر کے جوانوں نے جد و جہد آزادی کا بیڑا اُٹھایا ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہرو کی بات مان کر مُسلم اکثریت والے علاقے گورداس پورکو بھارت میں شامل کر کے یہ مسئلہ پیدا کیا۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے ۔ بھارتی فوج اس راستہ سے جموں مین داخل ہوئی اور بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) ۔ ہندو مہا سبھا (اب ہِندتوا اور بی جے پی) اور اکالی دل (سکھ) کے مسلحہ دستے جموں میں داخل ہونا شروع ہوئے اور پورے صوبہ جموں میں مسلمانوں کے کھیتوں کو رات کے وقت آگ لگانا شروع کیا اور ساتھ ہی مسلمانوں کا قتلِ عام بھی ۔ 1947ء سے بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے

وہی راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) اور بھارتیہ جَنَتا پارٹی (بی جے پی) آجکل بھارت پر حکومت کر رہی ہے اور نہ صرف جموں کشمیر بلکہ پورے بھارت میں مسلمانوں پر ظُلم ڈھا رہی ہیں

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہلِ کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ۔ وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں

حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے
جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایماء پر شروع کی گئی تھی بلکہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور نام نہاد انسانیت کی حمائتی دُنیا سے مایوس ہونے کے بعد جموں کشمیر کے جوانوں نے جد و جہد آزادی کا بیڑا اُٹھایا ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہرو کی بات مان کر مُسلم اکثریت والے علاقے گورداس پورکو بھارت میں شامل کر کے یہ مسئلہ پیدا کیا۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے ۔ بھارتی فوج اس راستہ سے جموں مین داخل ہوئی اور بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) ۔ ہندو مہا سبھا (اب ہِندتوا اور بی جے پی) اور اکالی دل (سکھ) کے مسلحہ دستے جموں میں داخل ہونا شروع ہوئے اور پورے صوبہ جموں میں مسلمانوں کے کھیتوں کو رات کے وقت آگ لگانا شروع کیا اور ساتھ ہی مسلمانوں کا قتلِ عام بھی ۔ 1947ء سے بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہلِ کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ۔ وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں

حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے

بقیہ قائد اعظم اور قرآن

یہ 25 دسمبر 2019ء کو شروع کئے گئے مضمون کا بقیہ حصہ ہے
غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران ”بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا“ کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر ”فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے“ کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے ۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں

جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز ۔ از ۔ خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان ۔ اسلام آباد ۔ صفحہ 10 )۔

یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بِدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں ۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے ۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے

19 اگست 1941ء کو ایک interviewمیں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے ۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے ۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے ۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے ۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِ قائداعظمؒ ۔ از ۔ احمد سعید صفحہ 261)۔

قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اور اس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے ۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ”مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے ۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی ۔ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے ۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے ۔ (ہفت روزہ انقلاب 12 جون 1938ء بحوالہ احمد سعید صفحہ 216)۔

قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن ۔ جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر ۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا ۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور قائداعظم محمد علی جناح کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو ۔ میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا ۔ دولت ۔ شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لُطف اٹھائے ۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں ۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی ۔ تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا ۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں ۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل ۔ میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا ۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم ۔ اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے ۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے (انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)

قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن ۔ زندہ ضمیر ۔ اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوفِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا ۔ اسی لئے تو علامہ اقبالؒ جیسا عظیم مسلمان فلسفی ۔ مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا

قائد اعظم اور قرآن

اکثر محفلوں میں یہ سوال پوچھا جاتاہے کہ قائداعظمؒ کی تقاریر میں جابجا قرآن حکیم سے رہنمائی کا ذکر ملتا ہے ۔ کیا انہوں نے قرآن مجید پڑھاہوا تھا اور کیا وہ قرآن مجید سے رہنمائی لیتے تھے؟ اگر جواب ہاں میں ہےتو اس کےشواہد یا ثبوت دیجئے

رضوان احمد مرحوم نے گہری تحقیق اور محنت سے قائداعظمؒ کی زندگی کے ابتدائی سالوں پر کتاب لکھی۔ اس تحقیق کے دوران انہوں نے قائداعظم ؒ کے قریبی رشتے داروں کے انٹرویو بھی کئے ۔ رضوان احمد کی تحقیق کے مطابق قائداعظمؒ کو بچپن میں قرآن مجید پڑھایا گیا جس طرح سارے مسلمان بچوں کو اس دور میں پڑھایا جاتا تھا

وزیرآباد کے طوسی صاحب کا تعلق شعبہ تعلیم سے تھا اور وہ اعلیٰ درجے کی انگریزی لکھتے تھے ۔ قیام پاکستان سے چند برس قبل انہوں نے بڑے جوش و خروش سے پاکستان کے حق میں نہایت مدلل مضامین لکھے جو انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے ۔ ملازمت کے سبب طوسی صاحب نے یہ مضامین قلمی نام سے لکھے تھے ۔ قائداعظمؒ ان کے مضامین سے متاثر ہوئے اور انہیں ڈھونڈ کر بمبئی بلایا ۔ قائداعظم ان سے کچھ کام لینا چاہتے تھے چنانچہ طوسی صاحب چند ماہ ان کے مہمان رہے جہاں وہ دن بھر قائداعظم ؒ کی لائبریری میں کام کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ قائداعظمؒ کی لائبریری میں قرآن حکیم کے کئی انگریزی تراجم، اسلامی و شرعی قوانین، اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین پر اعلیٰ درجے کی کُتب موجود تھیں اور وہ اکثر سیّد امیر علی کا قرآن کا ترجمہ شوق سے پڑھاکرتے تھے ۔ انہیں مولاناشبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ کا انگریزی ترجمہ بھی بہت پسند تھا جس پر کئی مقامات پر قائداعظمؒ نے نشانات لگا رکھے تھے ۔ کئی دہائیاں قبل طوسی صاحب کے مضامین لاہور کے ایک معاصر اخبار میں شائع ہوئے تھے ۔ مجھے معلوم نہیں کہ انہیں کتابی صورت میں شائع کیا گیا یا نہیں

اس حوالے سے عینی شاہدین کی یادیں ہی بہترین شہادت ہوسکتی ہیں ۔ ایک روز میں جنرل محمد اکبر خان، آرمی پی اے نمبر 1 کی سوانح عمری ’’میری آخری منزل‘‘ پڑھ رہا تھا تو اس میں ایک دلچسپ اور چشم کشا واقعہ نظر سےگزرا ۔ جنرل اکبر نہایت سینئر جرنیل تھے اور قیام پاکستان کے وقت بحیثیت میجر جنرل کمانڈر فرسٹ کور تعینات ہوئے ۔ جن دنوں قائداعظم ؒ زیارت میں بیماری سے برسرپیکار تھے انہوں نے جنرل اکبر اور ان کی بیگم کو 3 دن کے لئے زیارت میں بطور مہمان بلایا اور اپنے پاس ٹھہرایا۔

جنرل اکبر 25 جون 1948ء کو وہاں پہنچے ان کی قائداعظمؒ سے کئی ملاقائیں ہوئیں ۔ ایک ملاقات کاذکر ان کی زبانی سنیئے ۔”ہمارے افسروں کے سکولوں میں ضیافتوں کے وقت شراب سے جام صحت پیا جاتا ہے کیونکہ یہ افواج کی قدیم روایت ہے ۔ میں نے قائداعظمؒ سے کہا کہ شراب کے استعمال کو ممنوع کرنے کا اعلان فرمائیں ۔ قائداعظمؒ نے خاموشی سے اپنے اے ڈی سی کوبلوایا اور حُکم دیا کہ میرا کانفیڈریشن بکس لے آؤ ۔ جب بکس آ گیا تو قائداعظمؒ نے چابیوں کاگُچھا اپنی جیب سے نکال کر بکس کو کھول کر سیاہ مراکشی چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی اور اسے اس مقام سے کھولا جہاں انہوں نے نشانی رکھی ہوئی تھی اور فرمایا جنرل یہ قرآن مجید ہے اس میں لکھا ہوا ہے کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ کچھ تبادلہ خیال کے بعد سٹینو کو بلوایا گیا ۔ قائداعظمؒ نے ایک مسؤدہ تیار کیا، قرآنی آیات کا حوالہ دے کر فرمایا شراب و منشیات حرام ہیں ۔ میں نے اس مسودے کی نقل لگا کر اپنےایریا کے تمام یونٹ میں شراب نوشی بند کرنے کاحُکم جاری کیا جو میری ریٹائرمنٹ تک موثر رہا“۔

جنرل اکبر مزید لکھتے ہیں ”میں نے قائداعظمؒ سے عرض کیا کہ ہم نے بنیادی طور پر آپ کی تقریروں سے رہنمائی حاصل کی ۔ آپ نے فرمایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں قرآن مجید سے رہنمائی لینی چاہئے ۔ ہم نے دفاعی نقطہ نظر پر تحقیق شروع کردی ہے اور کچھ موادبھی جمع کرلیا ہے ۔ قائداعظمؒ نے اس تحریک کو پسند فرمایا ۔ ہماری ہمت افزائی ہوگئی“۔ (صفحہ 282-281)

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کا ا ہم انٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ” The Great Leader “ حصہ اوّل میں شامل ہے ۔ یہ انٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو اُن دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا ۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھیئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں“۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب: اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔ دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا ۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے ۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (Mantle Piece) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے ۔ اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ رو پڑتے ہیں ۔ اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار ۔ اچکن
سوال: لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی ۔ شُبہ ہوا کوئی سُرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب: اسی رات ۔ آدھی رات کا وقت تھا ۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا ۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی ۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا ۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی ۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے ۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے ۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی ۔ اس سے اندر کی Movement دیکھی جاسکتی تھی ۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں ۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں ۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں ۔ اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں ۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا ۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے ۔ اس دوران میں وہ کوئی دعا بھی مانگ رہے تھے (صفحات 239، 240)۔

(بقیہ اِن شاء اللہ 30 دسمبر 2019ء کو)

اخلاقی قدریں جو نفرت میں گل سڑ گئی ہیں

جب بھی سفاکیت کے مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں ۔ اس کی زجر و توبیخ کرنے کی بجائے یہ کہہ کر توثیق کر دی جاتی ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔ مانا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن دماغ میں تعفن زدہ خیالات کے سبب اُٹھ رہے بدبو کے بھبھوکے سماجی آلودگی میں اضافے کا سبب نہ بنیں ۔ اس کا اہتمام اور بندوبست تو کیا جا سکتا ہے۔ اگر نفرت کے تیزاب میں گل سڑ جانے والی اخلاقیں قدریں آلائشوں میں تبدیل ہوچکی ہیں تو انہیں ٹھکانے لگانے کی تدبیر کرناچاہیئے اور اگر باوجوہ یہ بھی ممکن نہیں تو جابجا قے کرنے سے گریز کریں تاکہ معاشرہ آپ کے دماغ کی غلاظت سے محفوظ رہ سکے

ممکن ہے آپ عمران خان کے چاہنے والے ہوں یا پھر محمود اچکزئی کے مداح ۔ ہو سکتا ہے آپ جماعت اسلامی کے کارکن ہوں یا پھر آپ کا تعلق جے یو آئی(ف) سے ہو ۔ عین ممکن ہے آپ بھٹو کے جیالے ہوں یا پھر نوازشریف کے متوالے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ بانی ایم کیو ایم کو اپنا قائد مانتے ہوں یا پھر باچا خان کے پیروکار ہوں مگر اس وابستگی کا ہرگز یہ مطلب نہیں آپ مخالفین کو نیچا دکھانے کے لئے انسانیت کی بنیادی قدروں کو ہی روند ڈالیں

بھٹو کیخلاف پی این اے کی تحریک عروج پر تھی تو ایک روز وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملنے ان کی رہائشگاہ اچھرہ پہنچے۔ دونوں ایک دوسرے کے بدترین مخالف تھے ۔ پی این اے کی تحریک میں جماعت اسلامی ہر اول دستے کا کردار ادا کررہی تھی لیکن نہ تو بھٹو نے یہ سوچا کہ مودودی کے در پر حاضر ہونے سے میری شان میں کوئی کمی آجائے گی اور نہ ہی مولانا مودودی نے آدابِ مہمان نوازی سے پہلو تہی کی

بینظیر کے ہاں بختاور کی پیدائش ہوئی تو نوازشریف وزیراعظم تھے۔ دونوں میں سیاسی محاذ آرائی عروج پر تھی لیکن نواز شریف نے بینظیر کو نہ صرف مبارکباد دی بلکہ گلدستہ بھی بھجوایا۔ آصف زرداری جیل میں تھے تو ان کی بینظیر بھٹو سے ملاقاتوں پر کبھی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ اسی طرح 27 دسمبر 2007ء کو جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو نواز شریف انتخابی مہم ترک کرکے ہاسپٹل پہنچے اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو پُرسا دیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ بینظیر بھٹو نے بھی شہادت سے چند منٹ قبل ناہید خان کو کہا تھا کہ نوازشریف سے رابطہ کریں کیونکہ اس روز مسلم لیگ (ن) کی ریلی پر فائرنگ سے چند کارکن مارے گئے تھے

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان انتخابی مہم کے دوران گر کرزخمی ہوگئے تو تمام تر سیاسی مخالفت کے باوجود نواز شریف ان کی عیادت کرنے گئے اور نیک تمنائوں کا اظہار کیا۔ مجھے نہیں یاد کہ کسی سیاسی کارکن نے عمران خان کی بیماری کا مذاق اُڑایا ہو یا پھر شکوک و شہبات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہا ہو کہ جو اتنی بلندی سے گرا ہو، وہ تو اُٹھ کر نہیں بیٹھ سکتا

لیکن گزشتہ چند برس کے دوران ہمارے ہاں ایسی بیہودگی کو فروغ دیا گیا کہ حزن و ملال کی گھڑی میں بھی بدبودار سیاست سے گریز نہیں کیا جاتا اور سیاسی مخالفین کی بیماری کو ڈھونگ کہہ کر کنفیوژن پیدا کردی جاتی ہے۔ نوازشریف کے پلیٹ لیٹ سیل کم ہونے کی خبر ملنے پر انہیں اسپتال لے جایا گیا تو ایک حکومتی ترجمان نے ایسا بیان دیا کہ اسے دہرایا بھی نہیں جا سکتا۔ کئی لوگوں نے براہ راست بات کرنے کی بجائے معنی خیز انداز میں کہا کہ پلیٹ لیٹ سیلز ایک لاکھ سے کم ہونے پر لوگ بیہوش ہو جاتے ہیں، چالیس ہزار سے کم ہونے پر زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا تو نوازشریف پلیٹ لیٹ سیلز 16000کی کم ترین سطح پر آجانے کے باوجود خود گاڑی سے اتر کر اسپتال کیسے پہنچے؟

آپ کتنے ہی رجائیت پسند کیوں نہ ہوں مگر ان سوالات سے مثبت نتائج اخذ نہیں کئے جا سکتے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے کے دماغ میں کہیں نہ کہیں یہ بات موجود ہے کہ میاں صاحب ٹھیک ٹھاک ہیں اور یہ سب ناٹک ہے۔ مجھ سے بھی یہ سوال کیا گیا تو عرض کیا، یہ ٹیسٹ سرکار کی زیر نگرانی میں اسی پرائیویٹ لیبارٹری میں کئے گئے ہیں جس نے نواز شریف کی رپورٹ پر ایک نہایت قابل اعتراض جملہ لکھ دیا تھا اگر کسی قسم کا کوئی شک ہے تو دوبارہ ٹیسٹ کروایا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے کلثوم نواز صاحبہ کی علالت سے متعلق بھی اسی نوعیت کی بیہودہ باتیں کی گئیں اور انہیں اپنی بیماری کا ثبوت دینے کے لئے مرنا پڑا ۔ نواز شریف کا لندن میں بائی باس آپریشن ہوا تو تب بھی کہنے والوں نے اسی انداز میں سوالات اُٹھائے

ہاں البتہ بعض افراد کو استثنیٰ حاصل ہے اور ان کی نیت پر کسی قسم کے شک و شبے کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ پرویز مشرف نے کہا کہ ان کی کمر میں درد ہے تو سب نے مان لیا۔ ان کی رقص کرنے کی وڈیو سامنے آنے کے باوجود کسی کو کوئی سوال اُٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔ چند ماہ قبل جب سپریم کورٹ نے حاضر ہونے کا آخری موقع دیا تو بتایا گیا کہ انہیں دنیا کی خطرناک ترین بیماری ہے اور وہ سخت علالت کے باعث سفر کرنے سے قاصر ہیں مگر کوئی یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کرتا کہ بستر مرگ پر پڑا بیمار آدمی انٹرویو دینے کے لئے کیسے تندرست ہو جاتا ہے
تحریر ۔ محمد بلال غوری

آج کے دن

آج سے 68 سال قبل 16اکتوبر کی صبح قائدِ مِلّت راولپنڈی پہنچے ۔ سہ پہر کے وقت کمپنی باغ (اب لیاقت باغ) میں جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا جس میں نئے عام انتخابات کا اعلان کرنا تھا ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان نے تقریر شروع کرتے ہوئے ابھی اتنا ہی کہا تھا ” برادرانِ مِلت ۔ ۔ ۔ “۔ کہ پہلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سَید اکبر نے 2 گولیاں چلائیں ۔ ایک نواب زادہ لیاقت علی خان کے سر اور دوسری پیٹ میں لگی ۔ نواب زادہ لیاقت علی خان گر پڑے ۔ اُن کے آخری الفاظ جو سُنائی دیئے یہ تھے ” اللہ پاکستان کی حفاظت کرے“۔

اگر اس روز یہ اعلان ہوجاتا اور انتخابات ہوجاتے تو تاریخ بدل جاتی اور نوکر شاہی کے سیاسی عزائم خاک میں مل جاتے ۔ بہر کیف قائدِ مِلّت جیسا وزیرِ عظم جو پاکستان کو صحیح جمہوری ملک بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا اور قائد اعظم کے بعد تنہا ملک کی اُمیدوں کا سہارا تھا بغیر کچھ وصیت کئے ایک بیوہ ۔ 2 کم سن بچے اور 4 سگریٹ لائٹروں پر مشتمل جائیداد چھوڑکر ہم سے رخصت ہوگیا

سَید اکبر کو لوگوں نے قابو کر کے اُس کا پستول چھین لیا تھا ۔ پھر ایک پشتو آواز گونجی ”گولی کس نے چلائی ۔ مارو اِسے“۔ یہ آواز ایس پی نجف خان کی تھی ۔ اس حُکم کی تعمیل میں انسپکٹر محمد شاہ نے سَید اکبر پر گولیاں چلا کر اُسے ہلاک کر دیا ۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ کا تبادلہ کچھ دن قبل ہی کیمبلپور (اٹک) سے راولپنڈی کیا گیا تھا ۔ پولیس قوانین کے مطابق قاتل کو زندہ پکڑنا ضروری ہوتا ہے ۔ مقابلہ کرتے ہوئے مارا جائے تو الگ بات ہے ۔ چنانچہ انسپیکٹر محمد شاہ نے جُرم کا ارتکاب کیا تھا لیکن حیرت ہے کہ عدالت میں اُس نے کہا ”میں جذبات میں آ گیا تھا“۔ اور اُسے کچھ نہ کہا گیا
قوم نے صرف اتنا کیا کہ کمپنی باغ کا نام لیاقت باغ اور اُس کے ساتھ والی سڑک کا نام لیاقت روڈ رکھ دیا

نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کا کھُرا امریکہ کی طرف جاتا ہے کیونکہ جب نوازادہ لیاقت علی خان امریکہ کے صدر ٹرومَین کی دعوت پر امریکہ گئے تو اُن پر امریکہ کی حمائت وغیرہ کیلئے دباؤ ڈالا گیا ۔ نوابزادہ لیاقت علی خان نے کہا تھا

“We want to have friendship with USA but will not take dictation from anyone۔”

امریکی خفیہ دستاویزات پر مشتمل کتاب ” The American Roll in Pakistan “ کے صفحہ 61 اور 62 کے مطابق امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اسناد تقرری پیش کرنے کے بعد اپنی درخواست میں اصفہانی صاحب نے لکھا ”ہنگامی حالت میں پاکستان ایسے اڈے کے طور پر کام آسکتا ہے جہاں سے فوجی و ہوائی کارروائی کی جاسکتی ہے“۔ ظاہر ہے یہ کارروائی اس سوویت یونین کےخلاف ہوتی جو ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی سامراج کی آنکھ میں زیادہ کھٹکنے لگا تھا

1949ء میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی رپورٹ میں ہے”پاکستان کے لاہور اور کراچی کے علاقے ۔ وسطی روس کےخلاف کارروائی کیلئے کام آسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے دفاع یا حملے میں بھی کام آسکتے ہیں“۔

یاد رہے کہ روس کے ایٹمی دھماکے اور چین میں کمیونزم آجانے سے امریکہ پاکستان کی جانب متوجہ ہوا چنانچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری جارج کریوز مَیگھی (George Crews McGhee) دسمبر 1949ء میں پاکستان آئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط اور امریکی دورے کی دعوت دی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اہم ملاقات وزیر خزانہ غلام محمد سے کی جنہوں نے میگھی کو تجویز دی ”ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ امریکی انٹیلی جنس کا پاکستانی انٹیلی جنس سے رابطہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ اِن (غلام محمد) کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو“ (صفحہ 106)۔

دسمبر 1949ء میں پاک فوج کے قابل افسران جنرل افتخار اور جنرل شیر خان ہوائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ باقی کسر پنڈی سازش کیس نے
پوری کر دی ۔ ایوب خان ابتداء ہی سے امریکہ کا نظرِ انتخاب تھے ۔ وہ قیام پاکستان کے وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے اور صرف 3 سال بعد میجر جنرل بن گئے۔ وہ کمانڈر انچیف سرڈیگلس گریسی (Commander-in-Chief General Sir Douglas David Gracey) کے ساتھ نائب کمانڈر انچیف تھے

زمامِ اقتدار اس وقت کُلی طور پر امریکی تنخواہ داروں کے ہاتھ آئی جب 16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان قتل کردیئے گئے ۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم ۔ ان کی جگہ وزیر خزانہ غلام محمد گورنر جنرل ۔ اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری (جو آئی سی ایس آفیسر تھا اور ڈیفنس سیکریٹری بننے کے بعد اپنے آپ کو میجر جنرل کا رینک دے دیا تھا) اور ایوب خان کمانڈر انچیف اور یوں امریکی کورم (Quorum) پورا ہوگیا

دوسری طرف امریکہ نے خطے میں روسی خطرے سے نمٹنے کے لئے دیگر اہم ممالک پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی تھی یہاں تک کہ جب اگست 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق نے برطانیہ کے ساتھ تیل کے مسئلے پر تعلقات خراب کرلئے تو امریکہ نے ایران سے بھاگے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو رَوم سے لاکر تخت پر بٹھادیا اور پھر روس کے خلاف ترکی ۔ ایران اور پاکستان کو ایک معاہدے میں نتھی کردیا جسے بغداد پیکٹ کہا گیا

”ہمارا دوست امریکہ کتنا ہی دغاباز کیوں نہ ہو لیکن ہم سے معاملات طے کرتے وقت اس نے منافقت کا کبھی سہارا نہیں لیا ۔ وہ صاف کہتا ہے ”امریکہ کو چاہیئے کہ امریکی دوستی کے عوض پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کرے اور یہ کوشش بھی کرے کہ اس حکومت کے بعد ایسی حکومت برسراقتدار نہ آجائے جس پر امریکہ مخالف کا قبضہ ہو ۔ ہمارا ہدف امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے“۔ (فروری 1954ء میں نیشنل کونسل کا فیصلہ ۔ بحوالہ پاکستان میں امریکہ کا کردار صفحہ 326)

WHO SHOT LAK (Liaquat Ali Khan)?..CIA CONNECTION

1. Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:
[…]It was learned within Pakistani Foreign Office that while UK pressing Pakistan for support re Iran, US demanded Pakistan exploit influence with Iran and support Iran transfer oil fields to US. Liaquat declined request. US threatened annul secret pact re Kashmir. Liaquat replied Pakistan had annexed half Kashmir without American support and would be able to take other half. Liaquat also asked US evacuate air bases under pact. Liaquat demand was bombshell in Washington. American rulers who had been dreaming conquering Soviet Russia from Pakistan air bases were flabbergasted. American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy. USG-Liaquat differences recently revealed by Graham report to SC; Graham had suddenly opposed Pakistan although he had never given such indication. […] Cartridges recovered from Liaquat body were American-made, especially for use high-ranking American officers, usually not available in market. All these factors prove real culprit behind assassin is US Government, which committed similar acts in mid-East. “Snakes” of Washington’s dollar imperialism adopted these mean tactics long time ago.

امریکہ کی مندرجہ ذیل خُفیہ دستاویزات جن سے معلومات حاصل کی گئی تھیں 2010ء تک انٹرنیٹ پر موجود تھیں ۔ جب میں نے 2015کے شروع میں دیکھا تو انٹرنیٹ سے ہٹائی جا چُکی تھیں

1. America’s Role in Pakistan
2. Confidential Teاegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
3. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
4. Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 [only first page located]
5. Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951

پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ

میری 31 جولائی 2010ء کو شائع شدہ تحریر کی دوسری قسط
اتفاق کی بات ہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر پر فوج کی مدد سے مکمل قبضہ کر لیا اور ہم صرف تقریریں کر کے بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ ہم جیت گئے

جو کھیل پرويز مشرف کی حکومت نا جانے کس مقصد کے لئے کھیل گئی پاکستان کے صرف ارباب اختیار کو اس کا ذاتی فائدہ اور بھارت کو سیاسی فائدہ ہوا ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرويز مشرف حکومت نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی جس جگہ کانٹے دار تاریں بچھائی جاسکتی تھیں وہاں کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔ سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور روزانہ دس بارہ افراد شہید کئے جاتے رہے ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جاتی رہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا گيا ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ۔ بگلیہار ڈیم جس پر کام رُکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بڑی تیزی سے مکمل کيا گيا اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی جو مکمل ہو چکے ہیں

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور انسانیت کا علمبردار کہنے والے جموں کشمیر کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔ ان نام نہاد روشن خیال اور امن پسند لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ان کے بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے يا کچھ سالوں بعد قبر ملے جس پر کتبہ لگا ہو کہ يہ پاکستانی دہشت گرد تھا ۔ اگر ان کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی یا بہو کی آبروریزی کی جائے اگر ان کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو وہ کتنے زیادہ روشن خیال اور کتنے زیادہ امن پسند ہو جائیں گے ؟

پروپیگنڈہ اور حقیقت

جب سال 1964ء میں پاکستان میں ٹی وی کی ابتداء ہوئی تو کسی سیانے نے کہا تھا کہ ”شیطانی چرخا آ گیا“۔ اس پر مُسکرایا تو میں بھی تھا لیکن میں ٹھہرا 2 جماعت پاس ۔ پڑھے لکھے لوگوں نے اُس سیانے کو جاہل قرار دیا تھا ۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ شخص واقعی سمجھدار اور دُور اندیش تھا ۔ شیطان غیرمحسوس طور پر انسان کے دل و دماغ پر قبضہ جماتا ہے اور جس کے دل و دماغ کو قابو کر لے اُس کیلئے بُرائی اور بھلائی کی پہچان مُشکل ہو جاتی ہے ۔ ٹی وی کے بعد انٹر نیٹ نے شیطان کا کام اور بھی آسان بنا دیا ہے ۔ لوگ جو کچھ ٹی وی پر اور انٹر نیٹ پر دیکھتے ہیں اُسے صرف حقیقت ہی نہیں حرفِ آخر سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ اب تو سیاسی شعبدہ بازوں نے بھی انٹرنیٹ کو اپنا تختہءِ مشق بنا لیا ہے جس کے نتجے میں لوگ حقائق سے بے بہرا ہو چکے ہیں

اب ملاحظہ کیجئے قائد اعظم کی تقاریر اور خطابات سے صرف ایک درجن اقتباسات اور دیکھیئے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان بنانا چاہتے تھے اور قوم کس ڈگر پر چل نکلی ہے

1 ۔ آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا ”مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا ۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا

2 ۔ 6 دسمبر 1943ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا ”وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟”
پھر خود ہی جواب دیا ”وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے ۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآن مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک اُمت“۔

3 ۔ قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا ”قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے ۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہٰذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں“۔

4 ۔ 10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا ”ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے ۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں ۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی“۔

5 ۔ 1947ء میں انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا
”میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں“۔
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا ”وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں ۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے ۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے ۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے“۔

6 ۔ 2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا ”اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں ۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی ۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے“۔

7 ۔ 14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے ۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو”۔

8 ۔ 13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا ”ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں

9 ۔ یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا ”میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں ۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر پر منڈلا رہی ہے ۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے“۔
مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے
اسی خطاب میں آپ نے فرمایا ”اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی ۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی ۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو ۔ ایسا نظام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے ۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے ۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے ۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت 10 ۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہءِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں ۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی

11 ۔ میں آخر میں قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاؤٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا ”میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی ۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں ۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا“۔

12 ۔ یہاں کلِک کر کے پڑھیئے ” قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء“