Category Archives: سائنس

6 اگست ۔ ایک یاد گار دن

6 اگست کو بڑے اہم واقعات ہوئے ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ میں پیدا ہوا تھا ۔ دوسرا کہ اس دن ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا تھا ۔ خیر میں تو ایک گمنام آدمی ہوں گو میرے ڈیزائین کردہ بیرل بور والی مشین گن پاکستان جرمنی اور نجانے اور کتنے ممالک کی افواج استعمال کر رہی ہیں لیکن چِٹی چمڑی والا نہ ہونے کے باعث اسے میرے نام سے منسوب نہ کیا جا سکا تھا

لیکن میں بات کرنے لگا ہوں 6 اگست کو پیدا ہونے والے ایک ایسے شخص کی جس نے سائنس میں عروج حاصل کر کے اللہ کو پہچانا ۔ نام تھا ان کا الیگزنڈر فلیمنگ (Sir Alexander Fleming) جس نے 1928ء میں پنسلین دریافت کی ۔ اس دوا نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں ۔ ٹائم میگزین نے بیسویں صدی کے 100اہم ترین لوگوں کی فہرست میں اس عظیم شخص کو شامل کرتے ہوئے لکھا ”اس دریافت نے تاریخ کا دھارا تبدیل کر کے رکھ دیا“۔ الیگزنڈر فلیمنگ کو 1945ء میں طب کے شعبے میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا

الیگزنڈر فلیمنگ نے پنسلین کی ایجاد کی تو دوا ساز کمپنیوں نے اُسے 10 فیصد رائلٹی کی پیشکش کی جو اُس نے کم سمجھ کر قبول نہ کی اُس کا خیال تھا کہ سارا کام تو اُس نے کیا جبکہ کمپنی اُسے فقط 10 فیصد پر ٹرخا نے کی کوشش کر رہی تھی تاہم جب الیگزنڈر فلیمنگ نے 10 فیصد رائلٹی کا تخمینہ لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لاکھوں پاؤنڈ ماہانہ بنتے تھے ۔ اُس نے سوچا کہ اتنی رقم کو وہ کہاں سنبھال کر رکھے گا ۔ اس سلسہ میں اپنی نااہلی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُس نے پنسلین کا نسخہ ایک فیصد رائلٹی کے عوض دوا ساز کمپنی کو اس شرط پر دینے کا فیصلہ کیا کہ معاہدے کی تمام شِقیں الیگزنڈر فلیمنگ کی منشا کے مطابق ہوں گی ۔کمپنی نے یہ بات مان لی

تاہم جب الیگزینڈر فلیمنگ شرطیں ٹائپ کرنے کے لئے بیٹھا تو اُسے لگا کہ ایک فیصد رائلٹی بھی اتنی زیادہ بن رہی تھی کہ وہ ساری عمر ختم نہ ہوتی جبکہ اس کی خواہش سوائے سیر و سیاحت اور تحقیق کے اور کچھ نہیں تھی ۔ یہ سوچ کر الیگزنڈر فلیمنگ نے آدھی رات کے وقت ایک معاہدہ ٹائپ کیا اور لکھا

”میری یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ۔ یہ ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے ۔ اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے اور اس کی ملکیت پوری خدائی ہے ۔ میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دیئے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ،شخصی،جذباتی اور ملکیتی اجازت دیتا ہوں کہ دنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان ، معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ، وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگا اور میرا اس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا“۔

الیگزنڈر فلیمنگ سے پوچھا گیا کہ ”وہ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ پنسلین کی ایجاد خدا کی طرف سے انہیں ودیعت کی گئی تھی؟“
الیگزنڈر فلیمنگ نے اس بات کا تاریخی جواب دیا
”میں اسے دنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ یا ایک آلہ ضرور تھا لیکن میں اس کا مُوجد یا مُخترع نہیں تھا۔ صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھا اور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خداوند کا کرم اور اس کی عنایت تھی ۔ اصل میں جتنے بھی انکشافات اور دریافتیں ہوتی ہیں وہ خدا کے حُکم سے اور خدا کے فضل سے ہوتے ہیں ۔ خدا جب مناسب خیال کرتا ہے اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے ۔ نہ پہلے نہ بعد میں ، ٹھیک وقت مقررہ پر ، اپنے حکم کی ساعت کے مطابق ۔ میں نے اس اصول کو لندن کے ایک مقامی اسکول میں بچوں کی آسانی کے لئے یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ علم کی بے شمار پوٹلیاں لٹک رہی ہیں ۔ وہ جب چاہتا ہے اور جب مناسب خیال فرماتا ہے ۔ قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حُکم دیتا ہے کہ سنبھالو عِلم آ رہا ہے ۔ ہم سائنسدان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں عرصے سے جھولیاں پھیلا کر اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کی جھولی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب ترین انسان گردانا جاتا ہے“ ۔

مدد چاہیئے ایک باریک بین کی

ایک تیز نظر ۔ تیز دماغ اور فوٹو شاپ قسم کی سافٹ ویئر کے ماہر کی ضرورت ہے جو مندرجہ ذیل تصاویر کا مطالعہ / معائنہ کر کے بتائے کہ کونسی تصویر اصلی ہے اور اس کے ساتھ کوئی چھڑ خانی نہیں کی گئی

مندرجہ ذیل تصاویر کی تصحیح مقصود ہے جو کسی صاحب نے مجھے شاید فیس بُک سے نقل کر کے بھیجی ہیں
پہلی تصویر اسلحہ بردار سکندر کی ہے
دوسری تصویر میں صدر آصف علی زرداری اور سکندر دکھائے گئے ہیں
تیسری تصویر میں بلاول زرداری اور سکندر دکھائے گئے ہیں
چوتھی تصویر میں فردوس عاشق عوان کے ایک طرف سکندر کی بیوی کنول اور دوسری طرف زمرد خان دکھائے گئے ہیں
Sikandar1

Sikandar2

Sikandar3

Sikandar4

بہتر کون ؟

آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے

لیکن

سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے شاید ایسے لوگوں کو پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

ایک نیا مرض

ایک نیا مرض جو بڑھتا جا رہا ہے اور کچھ خاندانوں کیلئے پریشانی کا باعث بن بھی چکا ہے
مُشکل یہ ہے کہ اس مرض کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے
اچنبے کی بات ہے کہ اس مرض سے پریشان اکثر وہی ہیں جو اس کے جراثیم بصد شوق خود ہی لے کر آئے تھے

کہیں آپ بھی اس مرض میں مبتلاء تو نہیں ؟
کیا ہے وہ نیا مرض ؟ خود ہی دیکھ لیجئے

ابتداء یعنی جب مرض کے جراثیم گھر میں آئے خوشی بخوشی

پھر دلچسپی بڑھی

جب شوق عشق میں ڈھل گیا

نوبت یہاں تک پہنچی

انجامِ کار

پھر کمپیوٹر کا استعمال ؟

دیر نہ کیجئے

23 مارچ 2013ء کو دوپہر کے 12 بجنے کو تھے کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔ اُٹھایا تو آواز آئی ”میں الف نظامی بول رہا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے آپ سے بات کرنا ہے“۔ میرے کان ہی نہیں رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید میں نے انجانے میں کوئی گستاخی کردی ہے ۔ لیکن اُنہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہی جو میرے لئے ایک امتحان ہی بن گئی ۔ فرمانے لگے ”درخت انسانی زندگی کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ درخت کاٹنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے بلاگ پر شجرکاری کی صلاح دیں“۔

الف نظامی صاحب تحمکانہ فرمائش کر کے چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سامنے ایک اُونچا پہاڑ ہے جسے میں نے اس بڑھاپے میں سر کرنا ہے

میں مضمون کا سِرا تلاش کر رہا تھا تو یاد آیا کہ میں جس سرکاری کوٹھی میں اکتوبر 1984ء سے اگست 1994ء تک رہائش پذیر رہا ۔ اس کے ساتھ 4 کنال کے قریب خالی زمین تھی جس میں کناروں پر باٹل برش کے 2 ۔ سوہانجنا کا ایک اور امرود کے 3 درخت تھے ۔ میں نے ان میں ایک لوکاٹ کا ۔ 2 آلو بخارے کے 3 خوبانی کے درختوں کا اضافہ کیا جو عمدہ قسم کے تھے اور دور دور سے منگوائے تھے ۔ میرے بعد وہاں گریڈ 20 کے جو افسر آئے وہ بھی انجنیئر تھے ۔ میں 1995ء میں کسی کام سے اُن کے ہاں گیا تو میدان صاف تھا ۔ بولے ”بہت گند تھا ۔ میں نے سب درخت کٹوا دیئے ہیں“۔ مجھے یوں لگا کہ کسی نے میرا دل کاٹ دیا ہے ۔ موصوف کو اتنا بھی فہم نہ تھا کہ سُوہانجنا ایک کمیاب درخت ہے اور درجن بھر ایسے امراض کا علاج مہیاء کرتا ہے جو ایلوپیتھتک طریقہ علاج میں موجود نہیں

متذکرہ واقعہ ایک نمونہ ہے میرے ہموطنوں کی عمومی ذہنی حالت کا ۔ جدھر دیکھو درخت کاٹنے پر زور ہے

آج دنیا کی ترقی یافتہ سائنس ماحولیات پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور ساتھ ہی شجر کاری کو صحتمند ماحول کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ دین اسلام کے حوالے سے بات کریں تو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ ”اگر مسلمان ایک درخت لگائے یا فصل بوئے جس میں سے ایک پرندہ یا انسان یا درندہ بھی کھائے تو اس خیرات کا بڑا اجر ہے (صحیح بخاری 2320 ۔ صحیح مُسلم 1553)

درخت گرمی کی حدت کو کم اور بارش برسانے میں کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بارش اپنے اندر کئی صحتمند فوائد لئے ہوتی ہے
درخت ہوا میں اُڑتے کئی قسم کے ذرّات کو روک کر فضا کو صحتمند کرتے ہیں
کئی درخت انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر گھر کے ارد گرد نِیم کے درخت لگا دیئے جائیں تو مچھروں اور کئی اور پتنگوں سے نجات مل سکتی ہے ۔ اگر دیسی سفیدے کے درخت گھر کے گرد لگا دیئے جائیں تو زکام سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں

مارچ کا مہینہ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین ہے درخت لگایئے اپنی اچھی صحت کیلئے اور ساتھ اللہ سے انعام بھی حاصل کیجئے

دوسرے ممالک میں درخت لگانے کا حال کچھ اس طرح ہے کہ میں پہلی بار 1975ء میں متحدہ عرب عمارات گیا تو صرف العین میں ایک کیلو میٹر لمبی سڑک پر کچھ درخت نظر آئے تھے ۔ ابو ظہبی ۔ دبئی شارقہ وغیرہ میں کہیں درخت نظر نہ آئے ۔ مگر سُنا تھا کہ کوشش ہو رہی ہے ۔ اُنہوں نے درخت اُگانے کیلئے مٹی تک دوسرے ملکوں سے بحری جہازوں پر درآمد کر کے بچھائی ۔ پھر ماہرین نے بتایا کہ درختوں کی افزائش کیلئے چڑیاں اور دوسرے چھوٹے پرندے ضروری ہیں تو اُنہوں نے چڑیاں اور چھوٹے پرندے ہزاروں کی تعداد میں درآمد کئے ۔ شروع میں چڑیاں مرتی رہیں مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ میں 2008ء سے اب تک 4 بار دبئی جا چکا ہوں ۔ اب تو وہاں ہر طرف ہریالی اور درخت نظر آتے ہیں

جس زمانہ میں میں جرمنی میں تھا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک درخت کاٹ دے تو اُسے جرمانہ ادا کرنے کے علاوہ ایک کے بدلے 10 درخت لگا کر اُن کی حفاظت بھی کرنا ہو گی

ہم لوگ غیرملکیوں کی برائیاں تو اپنانے میں بڑے تیز ہیں ۔ اپنانا تو اُن کی اچھایاں چاہئیں