Monthly Archives: April 2020

ﮐﯿﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﮨﮯ؟

ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﻟﯿﻞ ﻭ ﻧﮩﺎﺭ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﻡ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ، ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺤﻮﺭ ﭘﺮ – ساڑھے 67 درجے ﺟﮭﮏ ﮔﺌﯽ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﺭﮨﯿﮟ ، ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮩﺎﺭ ، ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﻣﯽ، ﮐﺒﮭﯽ ﺳﺮﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺰﺍﮞ ﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﺴﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮎ ﺳﺒﺰﯾﺎﮞ ، ﭘﮭﻞ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻣﻠﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ۔

ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺷﻤﺎﻟﺎً ﺟﻨﻮﺑﺎً ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺴﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﮨﯽ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ؟
ﺗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺛﺮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺠﻠﯿﺎﮞ ﮐﮍﮐﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﻮﺍ ﮐﯽﻧﺎﺋﭩﺮﻭﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﺎﺋﭩﺮﺱ ﺁﮐﺴﺎﺋﮉ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﺑﺎﺭﺵ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﭘﻮﺩﻭﮞ کے لئے ﻗﺪﺭﺗﯽ ﮐﮭﺎﺩ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ، ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﭼﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺤﺮﯼ ﺟﮩﺎﺯ ﺁﺑﺪﻭﺯ ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺍﻭٴﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻃﯿﺎﺭﮮ ﺍﺱ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺲ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭘﺎﺋﯿﮟ، ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﮩﻠﮏ ﺷﻌﺎﺋﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻘﻨﺎﻃﯿﺴﯿﺖ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﭘﻠﭧ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺯﻣﯿﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﮩﻠﮏ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﮯ

لا الٰه الا الله

توکّل ؟

ایک دیہاتی گاؤں سے روزانہ شہر مزدوری کرنے جاتا تھا ۔ وہ فجر کی اذان کے وقت گھر سے نکلتا اور عشاء کی اذان کے وقت واپس پہنچتا ۔ روزانہ 2 بار اُس کا گزر گاؤں کی مسجد کے پاس سے ہوتا ۔ اُس وقت امام مسجد وضو کر رہے ہوتے ۔ وہ مزدور سے کہتے ”روزانہ شہر جاتے ہو ۔ کبھی مسجد میں بھی آ جایا کرو“۔
وہ مزدور کہتا ” مولوی صاحب ۔ میری مُشکلات کا بھی کوئی حل ہے یہاں ؟“
امام مسجد کہتے ”ہاں تمام مُشکلوں کا حل یہاں ہے“۔
یہ سُن کر مزدور چلا جاتا
ایک دن مزدور جلدی واپس آ گیا اور سیدھا امام مسجد کے پاس جا کر کہنے لگا ” مولوی صاحب ۔ راستے میںجو برساتی نالہ آتا ہے میں اُس میں سے گزر کا جاتا ہوں ۔ آج اس میں طغیانی تھی تو مجھے پُل پر سے جانا پڑا ۔ پُل 6 میل دُور ہے اس طرح مجھے 12 میل فالتو چلنا پڑا ۔ شہر بہت دیر سے پہنچا ۔ مجھے مزدوری نہیں ملی ۔ میں اور میرے بیوی بچے بھوکے رہیں گے ۔ کوئی ایسا وظیفہ بتائیں کہ طغیانی ہو اور میں نالے میں سے گزر جاؤں“۔
امام صاحب نے کہا ” بس کلمہ شہادت پڑھو اور چھلانگ لگا دو“۔
یہ کلیہ درست ثابت ہوا اور مزدور نے نماز پڑھنا شروع کر دی
کچھ دن بعد مزدور شہر سے واپس آ رہا تھا تو راستے میں امام صاحب مل گئے ۔ دونوں جب نالے پر پہنچے اس میں طغیانی تھی
امام صاحب بولے ” اب کیا ہو گا“
مزدور نے کہا ” مولوی صاحب ۔ آپ نے خود ہی تو بتایا تھا“ اور کلمہ شہادت پڑھ کر پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ امام صاحب نے بھی کلمہ شہادت پڑھا اور چھلانگ لگا دی ۔ مزدور نے دیکھا کہ امام صاحب غوطے کھانے لگے ہیں تو اُنہیں اپنے بائیں بازو میں سنبھالا اور تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا
باہر نکل کر امام صاحب سے مخاطب ہوا ” مولوی صاحب ۔ کیا ہو ا ؟ کیا کلمہ غلط پڑھا تھا ؟“
امام صاحب جو شرمندہ تھے بولے ” بھائی ۔ تیرا توکّل الله پر درست ہے ۔ میں کلمہ کے معنی پر ہی غور کرتا رہا“۔

کون انہیں سِکھاتا ہے

ﻣﮑﮍﺍ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﻟﻌﺎﺏ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﺭ ﭘﮑﮍﻧﮯ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺎﻝ ﺑﻨﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺪﯾﺪ ﭨﯿﮑﺴﭩﺎﺋﻞ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮز ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﻔﯿﺲ ﺩﮬﺎﮔﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﯿﮟ۔

ﮔﮭﺮﯾﻠﻮ ﭼﯿﻮنٹیاں ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ موسم سرما ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﯽ ہیں، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺗﯽ ہیں، ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ تنظیم ﺳﮯ ﺭﮨﺘﯽ ہیں ﺟﮩﺎﮞ مینیجمینٹ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺻﻮﻝ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮐﺎﺭﻓﺮﻣﺎ ﮨﯿﮟ۔

ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﭽﮭﻠﯿﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﻃﻦ ﺳﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻭﻃﻦ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔

ﻧﺒﺎﺗﺎﺕ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﻧﮩﯿﮟ، ﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮑﭩﯿﺮﯾﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﻘﺎ ﮐﻮ ﻗﺎﺋﻢ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﮰ ﮨﯿﮟ؟
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﮔﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎﮰ؟
سوشل مینیجمینٹ ﮐﮯ ﯾﮧ اصوﻝ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﺲ ﻧﮯ سکھائے؟

لا الٰه الا الله

دعا

میں نے مُسلم ہائی سکول اصغر مال راولپنڈی سے 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی کا میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا ۔ اس سکول میں ہم پہلی سے دسویں تک کے لڑکے صبح یہ دعا پڑھتے تھے

آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
بادلو ہٹ جاؤ دے دو راہ جانے کے لئے
اے دُعا ہاں عرض کر عرشِ الہی تھام کے
اے خدا اب پھیر دے رُخ گردشِ ایام کے
ڈھونڈتے ہیں اب مداوا سوزشِ غم کے لئے
کر رہے ہیں زخمِ دل فریاد مرہم کے لئے
صُلح تھی کل جن سے اب وہ بر سر پیکار ہیں
وقت اور تقدیر دونوں درپئے آزار ہیں
اے مددگار ِ غریباں، اے پناہِ بے کـساں
اے نصیر ِ عاجزاں، اے مایۂِ بے مائیگاں
رحم کر اپنے نہ آئین کرم کو بھول جا
ہم تجھے بھولے ہیں لیکن تو نہ ہم کو بھول جا
اِک نظر ہو جائے آقا ۔ اب ہمارے حال پر
ڈال دے پردے ہماری شامت اعمال پر
خَلق کے راندے ہوئے، دنیا کے ٹھکرائے ہوئے
آئے ہیں اب تیرے دَر پر ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں، بدکار ہیں، ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی اُمت میں ہیں
حق پرستوں کی اگر کی تُو نے دِلجوئی نہیں
طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں

کلام ۔ آغا حشر (1879ء تا 1935ء)

قابلِ غور یا ناقابلِ سمجھ ؟

ﻧﻮﻣﻮﻟﻮﺩ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﮎ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺭﻭ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺗﻮﺟﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺒﺬﻭﻝ ﮐﺮﺍئے؟
ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺧﻄﺮﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﯿﻨﮧ ﺳﭙﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺑﭽﺎئے۔
ﺍﯾﮏ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﯽ ﭼﮍﯾﺎ شاہین ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ،ﯾﮧ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯾﺎ ؟
ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺣﯿﻮﺍﻧﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﮑﮭﺎﮰﻣﺎﻭٴﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﮯ لئے ﻟﭙﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮐﻮﻥ ﺳﮑﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﻣﺤﺒﺖ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﻮﻧﭽﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻻ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻮﻧﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﯿﮟ ؟
ﯾﮧ ﺁﺩﺍﺏِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ سیکھے؟

ﺷﮩﺪ ﮐﯽ ﻣﮑﮭﯿﺎﮞ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﺑﺎﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﭘﮭﻮﻝ ﺳﮯ ﺭﺱ ﭼﻮﺱ ﭼﻮﺱ ﮐﺮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺍﯾﻤﺎﻧﺪﺍﺭﯼ ﺳﮯ ﻻ ﮐﺮ ﭼﮭﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮨﺮ ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﯽ ہیں ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﭘﮭﻮﻝ ﺯﮨﺮﯾﻠﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎتیں۔ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺷﮩﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﻡ ﮐﻮ ﻋﻠﯿﺤﺪە ﻋﻠﯿﺤﺪە ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﻦ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﯽ ہیں۔ ﺟﺐ ﮔﺮﻣﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺷﮩﺪ ﮐﻮ ﭘﮭﮕﻞ ﮐﺮ ﺑﮩﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ کے لئے ﺍپنے ﭘﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﭘﻨﮑﮭﺎ ﭼﻼ ﮐﺮ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﺗﯽ ہیں، ﻣﻮﻡ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﺗﯽ ہیں ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍے ﺁﺭﮐﯿﭩﯿﮑﭧ ﺑﮭﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﺯﺩە ﮨﯿﮟ۔ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻨﻈﻢ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺜﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﺍﮈﺍﺭ ﻧﻈﺎﻡ ﻧﺴﺐ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭە ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﻧﮑﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ کا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻟﺘﯿﮟ۔ انہیں ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎﮰ ؟
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﻋﻘﻞ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺩﯼ؟

لا الٰه الا الله

1450 سال قبل سائنس کہاں تھی

ﺳﺎﮌﮬﮯ ﭼﻮﺩە ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮎ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ﻋﺮﺏ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﺯﺩە ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﮑﻮﻝ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﺞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ ﺍُﭨﮫ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ

ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﺎﺏ ﮐﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ ﮨﯿﮟ ۔ ” اَلشَّمۡسُ وَالۡقَمَرُ بِحُسۡبَانٍ “۔
( سُوۡرَةُ 55 الرَّحمٰن آیة 5 ‏)

ﺳﻤﻨﺪﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ

” بَيۡنَهُمَا بَرۡزَخٌ لَّا يَبۡغِيٰنِ‌ۚ‏ ”
پھر بھی اُن کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔ ‏ (سُوۡرَةُ 55 الرَّحمٰن آیة 20) ‏

وَكُلٌّ فِىۡ فَلَكٍ يَّسۡبَحُوۡنَ
ﺟﺐ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻟﭩﮑﮯ ﮨﻮﮰ ﭼﺮﺍﻍ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻭە ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ۔

سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‏( سُوۡرَةُ 37 یسٓ آیة 40)

ﺟﺐ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﻮ ﺳﺎﮐﻦ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻭە ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ

” وَالشَّمۡسُ تَجۡرِىۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّهَا ‌ؕ ” اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے۔ ‏( سُوۡرَةُ 37 یسٓ آیة 38)

ﺍﻟﺒﺮﭦ ﺁﺋﻦ ﺳﭩﺎﺋﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ” ﻗﻮﺍﻧﯿﻦ ﻗﺪﺭﺕ ﺍﭨﻞ ﮨﯿﮟ ” ﭘﺮ ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﺎ ﺑﺎﻧﯽ ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ اس ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ

سُوۡرَةُ 67 المُلک آیة 3 ۔
الَّذِىۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا‌ ؕ مَا تَرٰى فِىۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ‌ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَۙ هَلۡ تَرٰى مِنۡ فُطُوۡرٍ
جس نے تہ بر تہ سات آسمان بنائے تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟
ﺟﺪﯾﺪ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻗﺎﺑﻞِ ﻓﺨﺮ ﺩﺭﯾﺎﻓﺘﻮﮞ ﭘﺮ 1450 ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺮﺩە ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﺲ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ؟
ﮐﺲ ﻟﯿﺒﺎﺭﭨﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ؟

لا الٰه الا الله