Monthly Archives: April 2019

رحمت دا مینہ پا خدایا

میاں محمد بخش میر پور ریاست جموں کشمیر میں 1246ھ بمطابق 1830ء پیدا ہوئے ۔ انہیں رومیءِ کشمیر کہا جاتا ہے ۔ ان کی زیادہ تر شاعری پنجابی میں ہے لیکن فارسی اور اُردو میں بھی ہے ۔ اشعار کا مجموعہ ”سفر العشق“ جو ”سیف الملوک“ کے نام سے معروف ہوئی انہی کی لکھی ہوئی ہے
سیف الملوک شروع اِس دعا سے ہوتی ہے

رحمت دا مینہ پا خدایا باغ سُکا کر ہریا
بوٹا آس اُمید میری دا کردے میوہ بھریا
مٹھا میوہ بخش اجیہا قدرت دی گھت شِیری
جو کھاوے روگ اس دا جاوے دُور ہووے دلگیری
سدا بہار دئیں اس باغے۔کدے خزاں نہ آوے
ہووَن فیض ہزاراں تائیں ہر بھُکھا پھل کھاوے
نعمت اپنی وی کجھ مینوں بخش شناساں پاواں
ہمت دے دِلے نوں میرے، تیرا شکر بجا لیاواں

پھول کی فریاد

یہ نظم میں نے ساتویں جماعت (1949ء تا 1950ء)کی مرقع ادب میں پڑھی تھی

کیا خطا میری تھی ظالم تو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر اس ہنسی کے دردناک انجام کو
میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہنستا نام کو
خورشید کہتا ہے کہ میری کرنوں کی محنت گئی
مہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی

پیار ؟

آدمی اپنے پیاروں سے(یعنی بیوی بچوں سے)
”گزشتہ رات مجھے احساس ہوا کہ دنیا میں وہ بھی ہیں جنہیں حقیقتاً میری ضرورت ہے“۔

اُس کے پیاروں میں سے ایک حیرانگی سے بولا “ اچھا ؟ وہ کون ہیں ؟“
آدمی ” مچھر“۔

چھوٹی چوٹی باتیں ۔ خوبصورتی

دساور میں کسی کے توجہ دلانے پر میں نے ایک بہت خوبصورت چہرہ دیکھا لیکن ابھی لمحہ بھی نہیں گذرا تھا کہ مجھے وہ چہرہ بدصورت لگنے لگا ۔ وجہ ؟

خوبصورتی کی کمی کو اخلاق پورا کر سکتا ہے
لیکن
اخلاق کی کمی کو خوبصورتی پورا نہیں کر سکتی

اخلاق کی خوبصورتی مؤثر اور پائیدار ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ گفتار یا عمل ؟

کل کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ

تم نے کیا خواب دیکھے تھے ؟
تم کیا سوچتے تھے ؟
تمہارے منصوبے کیا تھے ؟
تم نے کتنا بچا کر جمع کیا ؟
تم کیا پرچار کرتے رہے ؟

بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی یہ پوچھے گا کہ
تم نے قرآن پر کتنا عمل کیا ؟
تم نے حقدار کو اُس کا حق پہنچایا ؟
تمہارا دوسروں سے سلوک کیسا تھا ؟

Having sat for many years across many tables from many of the ‘folks’ the US tortured in the global ‘war on terror,’ men like Murat Kurnaz and Mohammed al-Qatani, and having heard first-hand their stories of being beaten, hung from ceilings, sexually assaulted, exposed to extreme temperatures, deprived of sleep, and subjected to numerous other brutal acts, my colleagues and I at the Center for Constitutional Rights can assure you: the important thing about the torture report is not just what we learn from it — it is what we do about it.

مکمل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Preventing Torture