Monthly Archives: January 2019

یاد رکھنے کی باتیں

1 ۔ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا
2 ۔ لوگوں کی رائے آپ کی اصلیت نہیں بتاتی
3 ۔ ہر کسی کی زندگی کا سفر مختلف ہوتا ہے
4 ۔ وقت گزرنے کا ساتھ بہتری آتی ہے
5 ۔ کسی کے متعلق فیصلہ اپنا کردارظاہر کرتا ہے
6 ۔ ضرورت سے زیادہ سوچنا ہریشانی پیدا کرتا ہے
7 ۔ خوشی انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے
8 ۔ مثبت سوچ کے نتائج مثبت ہوتے ہیں

شِفاء اور شفا میں فرق

جو الفاظ ہم روز مرّہ بولتے ہیں اِن میں سے کچھ ہم غلط تلفّظ کے ساتھ بولتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم غلط معنی والا لفظ بول رہے ہیں جبکہ بعض اوقت وہ معنی قابل سر زنش یا ندامت ہوتے ہیں
میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں کہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں فرق ہوتا ۔ پڑھنے سے آدمی پڑھ پُخت تو بن جاتا ہے لیکن عِلم سے محروم رہتا ہے ۔ ہر آدمی کو چاہیئے کہ ہر لفظ جو وہ پڑھے اس کے معنی اُسی وقت تلاش کر کے ذہن نشین کر لے ۔ جب وہ لفظ عادت بن جائے تو اپنی غلطی کا احساس ختم ہو جاتا
اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے احتساب میں تو سرگرداں رہتے ہیں لیکن خود احتسابی کے قریب نہیں جاتے
مسلمان ہونے کے ہم بڑے دعویدار ہیں لیکن الله کریم کا فرمان یا ہم غور سے پڑھتے ہی نہیں یعنی فر فر پڑھ جاتے ہیں اس پر غور نہیں کرتے کیونکہ الله عزّ و جل ہمیں خود احتسابی کا حکم دیا ہے اور عیب جُوئی سے منع فرمایا ہے

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہم غَلَط کو بھی غَلَط بولتے ہوئے غَلَط کی بجائے غَلط کہتے ہیں
ہمیں قرآن شریف کو غور سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اب ایک لفظ جسے غلط بولنے میں بہت سے لوگ ملوّث ہیں
شِفاء کا مطلب ہے صحت ۔ تندرستی
سُوۡرَةُ 17 بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء آیة 82
وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡـقُرۡاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَةٌ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۙ وَلَا يَزِيۡدُ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا خَسَارًا
ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے تو شِفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

شفا کا مطلب ہے موت ۔ گھڑا
سُوۡرَةُ 3 آل عِمرَان آیة 103
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا
ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ‏
سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے

سمندر کی تہہ سے کھربوں ٹن پانی زمین کی گہرائی میں جانیکا انکشاف

زلزلے کے نتیجے میں زمین کی اندرونی پرت (ٹیکٹونک پلیٹس) کے ٹوٹنے اور اس عمل سے جڑی سرگرمیوں کے نتیجے میں سمندر کا پانی بھاری مقدار میں کرۂ ارض میں 20؍ میل تک گہرائی میں جا رہا ہے۔ اور، حیران کن بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کو معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ کب رکے گا اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ سائنس میگزین اور لائیو سائنس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں کے گہرے ترین مقام ماریانہ ٹرینچ (Mariana Trench) میں زلزلہ پیما ماہرین کی ٹیم نے ایک نئی تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ زمین کے اندرونی حصے (Subduction Zones) گزشتہ اندازوں کے مقابلے میں پانی کی تین گنا زیادہ مقدار اپنی جانب کھینچ رہے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ سمندر کی تہہ میں زلزلے کے نتیجے میں آنے والی دراڑوں سے پانی بہہ کر زمین کے اندر جا رہا ہے۔ نئے تخمینوں سے معلوم ہوا ہے کہ یہ مقدار ہر دس لاکھ سال میں تین ارب ٹیرا گرام پانی کے برابر ہے، ایک ٹیرا گرام پانی ایک ارب کلوگرام کے مساوی ہوتا ہے۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے سرکردہ محقق چین کائی کہتے ہیں کہ لوگوں کو اس بات کا علم ہے کہ سبڈکشن زونز پانی زمین میں کھینچ کر لے جاتے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آخر کتنا پانی اندر جا رہا ہے۔ نیچر نامی جریدے میں شایع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین نے زلزلہ پیما مشینوں کی مدد سے ایک سال تک کی زمین کی تھرتھراہٹ اور لرزنے کا ڈیٹا حاصل کیا۔ زلزلہ پیما 19؍ مشینیں ماریانہ ٹرینچ کے قرب و جوار میں نصب کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، ماہرین نے دیگر سمندر میں دیگر مقامات پر نصب کردہ زلزلہ پیما مشینوں (Seismographs) کے ڈیٹا کا سہارا بھی لیا۔ اس سے ماہرین کو اس بات کا جائزہ لینے میں مدد ملی کہ بحرالکاہل (Pacific) میں ٹیکٹونک پلیٹوں کے ٹرینچ میں مڑنے کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے۔ نیشنل سائنس فائونڈ یشن ڈویژن آف اوشن سائنسز کی پروگرام ڈائریکٹر کینڈنس او برائن کہتی ہیں کہ اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سبڈکشن زونز کی وجہ سے زمین کی گہرائی میں کئی میلوں تک پانی جاتا ہے، اور یہ گزشتہ اندازوں سے زیادہ پانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی واٹر سائیکل میں سبڈکشن زونز کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ پلیٹوں کے زمین کی گہرائی میں جانے اور اوپری پرت کے قریب موجود فالٹ لائنوں کے پاس موجود زبردست دبائو اور درجہ حرارت کی صورتحال اور کیمیائی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی غیر مائع شکل اختیار کرتے ہوئے سمندر کی تہہ میں موجود سخت پتھروں اور چٹانوں میں قید ہو جاتا ہے۔ سائنس ڈیلی کی رپورٹ کے مطابق، ہزاروں برسوں سے سمندروں میں پانی کی سطح معتدل رہی ہے اور اس میں کبھی اضافہ نہیں ہوا، جس کا مطلب یہ ہے کہ جو پانی زمین کی تہہ میں سمندروں سے ہوتے ہوئے جا رہا ہے، وہ کہیں نہ کہیں سے باہر بھی نکلتا ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پانی کا لیول بدستور برقرار ہے۔ تاہم، مقدار کے حوالے سے معلومات غیر یقینی ہیں۔ رابرٹ ایس بروکنگز میں زمین اور سیارہ جاتی سائنس کے مایہ ناز پروفیسر ڈگ وائنز کا کہنا ہے کہ اس بات کا شبہ ہے کہ ماریانہ سے جانے والا پانی ممکنہ طور پر الاسکا یا پھر جنوبی امریکی سمندروں سے نکلتا ہوگا لیکن کسی نے بھی آج تک سمندر کی تہہ میں 20؍ میل سے زیادہ گہرائی میں جا کر تحقیق نہیں کی اور یہی کچھ ہم ماریانہ ٹرینچ کے حوالے سے تلاش کر رہے ہیں۔اگرچہ یہ تو معلوم تھا کہ سبڈکشن زونز میں موجود پلیٹیں پانی کو قید رکھتی ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ آخر پانی کی مقدار کتنی ہوتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ تحقیق کا نیا طریقہ زیادہ پائیدار ہے، ارضیاتی تصاویر سے معلوم ہوتا ہے کہ ماریانہ ٹرینچ میں موجود آبیدہ (Hydrated) پتھر سمندر کی تہہ سے 20؍ میل نیچے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماریانہ ٹرینچ دنیا بھر کے سمندروں میں سب سے گہرا ترین مقام ہے جو مغربی بحرالکاہل میں ماریانہ جزیرے کے مشرق میں واقع ہے۔ ٹرینچ بنیادی طور پر ایک کھائی ہے جو 1580؍ میل (2550؍ کلومیٹر) طویل ہے اور اس کی چوڑائی 69؍ کلومیٹر ہے۔ سطح سمندر سے ماریانہ ٹرینچ کے آخری حصے تک مجموعی فاصلہ 11؍ کلومیٹر ہے جس کا نام چیلنجر ڈیپ رکھا گیا ہے۔ 2012ء میں دستاویزی فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون دنیا کے واحد فرد تھے جنہوں نے پہلی مرتبہ اس گہرائی کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس مقام تک جانے کیلئے پانی کا دبائو اتنا ہوتا ہے جتنا آپ اندازہ کریں کہ 100؍ بالغ ہاتھی انسان کے سر پر کھڑے کیے جائیں، جبکہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے ایک سے چار ڈگری تک نیچے ہوتا ہے۔

پیٹھ پیچھے بات

والد صاحب نے کہا ” انسان کو کسی کی عدم موجودگی میں وہی بات کرنا چاہیئے جو وہ اس کے منہ پر بھی دہرا سکے“۔
بات معمولی سی تھی مگر میں نے اس پر عمل بڑا مشکل پایا ہے۔ ہاں جب کبھی اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ملی ہے اس وقت زندگی بڑی ہلکی اور آسان محسوس ہوئی ہے

قدرت الله شہاب

تاریخ ۔ جس سے ہم سبق نہیں لیتے

کنفیوشس نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا ” انسان ناسازگار حالات حتیٰ کہ موت کے آس پاس بھی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے بشرطیکہ اسے وہاں ایک مکمل اور آسان انصاف حاصل ہو“۔
مجبوری میں اس ایک لفظ انصاف کا تعاقب کرنے پر آخری سرے پر ناانصافی ہی ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ یہی وہ آتش فشاں ہے جس سے مجبوریوں کے لاوے پھوٹتے اور ہماری زندگیوں کو بھسم کر دیتے ہیں۔ ناانصافی کا یہ لاوا پہلے ہماری اخلاقیات کو نگلتا، اُسے کمزور کرتا اور پھر اپنا راستہ بناتا سماجی زندگی سے لے کر اداروں تک کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا جاتا ہے

یہ پون صدی کا نہیں، صدیوں کا قصہ ہے جب سو سال پہلے کا امریکہ ایک ایسی عجیب و غریب سرزمین تھا جہاں پندرہ سے زیادہ ریاستوں میں سیاہ فام اور سفید فام قانونی طور پر شادی نہیں کر سکتے تھے۔ خواتین کو نہ رائے دہی کا حق حاصل تھا، نہ ہی جائیداد کی مختار ہونے کا۔ کم از کم اجرت کا کوئی قانونی معیار نہ تھا۔ سیاہ فام اور سفید فام نہ ایک اسکول میں پڑھ سکتے، نہ ہی ایک نلکے سے پانی پی سکتے تھے۔ سیاہ فاموں کو جتھے بنا کر بدترین تشدد کے بعد قتل کر دیا جاتا، کسی کو سزا تک نہ ہوتی۔ جان بچانے تک کے لئے عورتوں کو اسقاط حمل کا حق حاصل تھا نہ ہی میراتھن دوڑوں میں حصہ لینے کا۔ گھریلو تشدد عام، بچے فیکٹریوں میں کام کرتے، اقلیتوں کے لئے مذہبی آزادی مفقود۔ ظلم و ناانصافی کی اتنی طویل فہرست ہے کہ داستان الف لیلہ کی طرح پڑھتے چلے جایئے۔

سو سال بعد اگر کوئی مصنف، کوئی ادیب، کوئی محقق یا کوئی تاریخ دان ماضی کے دروازے کھول کر وطن عزیز پاکستان کی آج کی دنیا پر نظر ڈالے تو وہ کیا لکھے گا ؟
یقیناً وہ لکھے گا کہ ملک پاکستان سن 2018ء میں جس کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ اور 60 فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا، بیروزگاری عروج پر تھی، قوانین پر مذہبی اور سرکاری چھاپ تھی، غیرت کے نام پر قتل روزمرہ کا معمول تھا جس کا تحفظ حکومتی وزیر مشیر ایوانوں میں کرتے تھے۔ مثبت سوچ رکھنے والے جلاوطن کر دیئے جاتے، انہیں ہیرو کے بجائے سازشی، کٹھ پتلی، ڈرامہ باز اور کرپٹ قرار دے کر مطعون کیا جاتا، اسی جرم میں بزدل قوم کے بہادر لیڈر پھانسی پر لٹکا دیئے جاتے یا سرعام قتل کر دیئے جاتے اور اس عمل کی حمایت کرنے والے کھلے عام گھومتے۔ سیاست اور سیاسی منظر نامہ پر انہی کا غلبہ تھا۔ جمہوریت کے لبادے میں کٹھ پتلیاں نچانے کا کاروبار عروج پر تھا۔ عقل کی بات کرنے والے مطعون و ملعون اور حریت فکر کے پرچارک شیطان کے ہرکارے کہلاتے۔ ملک کے میدان، بازار، گلیاں، قوانین کے سیلاب کے سپرد تھیں جس سے پوری قوم ذہنی اختلال کا بدترین نمونہ تھی

یہ تاریخ شاید 100 سال بعد لکھی جائے لیکن آج کے انسان کا کیا قصور جو مہذب کہلاتا ہے، اسی آب و ہوا میں سانس لینے پر مجبور ہے جس میں کرپشن اور ناانصافی کا زہر گھلا ہے۔ کیا خدانخواستہ 100 سال بعد ایک ایسی قوم کی تاریخ لکھی جائے گی جس کے قوانین مکڑی کے جالے کی طرح تھے جس میں صرف چھوٹے کیڑے ہی پھنستے، طاقتور اسے توڑتے ہوئے نکل جاتے، ریاست اپنے ذمہ کے کام بھی افراد پر ڈال کر خود اپنے ہاتھ جھاڑ لیتی

ان انسانوں کا کیا حال، جن کے نزدیک زندگی سمندر نہیں نہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین ریت کے گھروندے، وہ جو زندگی کو ایک مستحکم چٹان سمجھتے اور ان کا قانون گویا سنگ تراش کی ایک چھینی ہے جس سے وہ چٹان پر اپنے وجود معنوی کے نقوش کھودتے ہیں مگر کتنی جلدی وہ اپنے ہی بنائے نقوش کو بنا بنا کر مٹاتے اور ہر نئے نقش کو مکمل سمجھتے ہیں۔ پھر ہر نقش تازہ ایک تازہ تر نقش کا محتاج پایا جاتا ہے۔ اس اپاہج کا کیا حال، جو رقص کرنے والوں کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلتا، اپنی لنگڑی ٹانگ، ٹوٹے ہاتھ اور پھوٹی آنکھ کی خوبیوں پر دلیلیں لاتا ہے۔ اس بوڑھے سانپ کا کیا حال، جو اپنے بڑھاپے کی وجہ سے کینچلی نہیں اتار سکتا اور دوسرے نوجوان سانپوں کو کینچلی بدلتے دیکھ کر ننگا اور بے شرم سمجھتا ہے

وہ جو ضیافت میں اکثر بن بلائے بھی قبل از وقت آتا ہے، خوب کھاتا ہے اور کھاتے کھاتے تھک کر معذور ہو جاتا ہے، اٹھ کر چلا جاتا ہے مگر کہتا یہ ہے کہ یہ ضیافتیں قباحتیں ہیں، یہ میزبان قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں جن کی ضیافتوں میں لوگوں کے معدے بھاری اور ہاضمے خراب ہو جاتے ہیں

میرا ذاتی المیہ درد انگیز بھی ہے جس نے میری زبان پر قفل ڈال دیئے، میرے ہاتھوں کو جکڑ دیا، میں اس حال میں زندہ ہوں کہ میرے پاس عزم ہے نہ عمل۔ یہ سچ مجھے ہضم نہیں ہوتا کہ میرے ملک کی بربادی، خاموش بربادی ہے۔ وہ گناہ جس کے نتیجے میں سانپ اور اژدھے جنم لیتے ہیں، اس بربادی کی یہ داستان وہ المیہ تمثیل ہے جس میں نغمہ ہے نہ منظر۔ اس کے باوجود میں خوش ہوں کہ جنہیں میں چاہتا ہوں وہ صلیب پر مارے گئے، وہ مہر بہ لب مارے گئے کہ اپنے دشمنوں سے بزدلوں کی طرح محبت اور اپنے چاہنے والوں سے منکروں کی طرح نفرت نہ کر سکے۔ وہ اس لئے مارے گئے کہ گناہ گار نہ تھے، وہ اس لئے مارے گئے کہ انہوں نے ظالموں تک پر ظلم نہ کیا کہ وہ بلا کے صلح پسند تھے۔ اسی خاطر موت کی آغوش میں سو گئے۔ لیاقت علی خان کے مکے، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بے نظیر کا قتل اور پھر جمہوریت کا بہترین انتقام۔ نواز شریف کے بعد زرداری

یہ تاریخ اب نواز شریف اور زرداری کی کہانی تحریر کرے گی۔ واویلا گردی کے عادی اپنے شور و غوغا سے کان پڑی آواز سننے نہیں دیں گے، نواز شریف کا یہ شعر لوگوں کے سروں پر سے گزر جائے گا

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

دونوں رہنمائوں اور حریت و ترقی پسند دانشوروں کے بارے میں فیصلوں کی روشنی میں یہ تاریخ کہانی کو کیا موڑ دیتی ہے، بولنا تو درکنار بقول نواز شریف رو بھی نہ سکنے والوں کو تاریخ میں کیا مقام نصیب ہوتا ہے، وقت اس کا منصف بنے گا جیسا کہ وقت کی منصفانہ شمشیر ان پر بھی لٹک رہی ہے جنہیں واویلا گردی کی منحوس بلا پوری طرح نگل چکی ہے

تحریر ۔ محمد سعید اظہر
26 دسمبر 2018ء کو شائع ہوئی

الله کا نام

الله کا نام بہت زیادہ لیا جائے یا کم، اپنا اثر ضرور رکھتا ہے
دنیا میں بعض اشیاء ایسی ہیں کہ ان کا نام لینے سے ہی منہ میں پانی بھر آتا ہے
پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے اُس خالقِ کائنات کا نام ” الله “ لیا جائے اور اس میں اثر نہ ہو
خود خالی نام میں بھی برکت ہے

قدرت الله شہاب