Monthly Archives: April 2018

دو اسلام

ڈاکٹر غلام جیلانی برق برصغیر کا عظیم دماغ تھے ۔ یہ 1901ء میں کیمبلپور (موجودہ اٹک) میں پیدا ہوئے ۔ والد گاؤں کی مسجد کے امام تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اِبتدائی تعلیم مدارس میں حاصل کی ۔ مولوی فاضل ہوئے ۔ مُنشی فاضل ہوئے اور ادِیب فاضل ہوئے ۔ میٹرک کیا اور میٹرک کے بعد اسلامی اور مغربی دونوں تعلیمات حاصل کیں ۔ عربی میں Gold Medal لیا ۔ فارسی میں ایم اے کیا اور 1940ء میں پی ایچ ڈی کی ۔ امام ابن تیمیہ پر انگریزی زبان میں Thesis لکھا ۔ امامت سے عملی زندگی شروع کی ۔ پھر کالج میں پروفیسر ہو گئے ۔ آپ کے Thesis کو Oxford اور Harvard یونیورسٹی نے قبولیت بخشی ۔ اسلام پر تحقیق شروع کی ۔ 1949ء میں پاکستان کی تشکیل سے 2 سال بعد ”دو اسلام“ کے نام سے معرکۃ الآراء کتاب لکھی اور پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ یہ کتاب ۔ کتاب نہیں تھی ایک عالمی انقلاب تھا ۔ ”دو اسلام“ کے بعد ”دو قرآن“ اور ”من کی دنیا“ لکھی اور اسلامی دنیا کے پیاسے ذہنوں کو سیراب کیا

”دو اسلام“ اور ”دو قرآن“ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے پاکستان کی عدم برداشت ۔ مذہبی تشدد اور مکالمے کے قبرستان کے مقابلہ میں ماضی کا پاکستان دانش ۔ برداشت ۔ عِلم اور مکالمے میں آج کے پاکستان سے کتنا آگے تھا ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور ان کا پاکستان کس قدر بالغ تھا ۔ جاننے کیلئے ”دو اسلام“ کا صرف ابتدائیہ ملاحظہ کیجئے ۔ آج کا مسلمان ڈاکٹر برق کے مسلمانوں سے بہت پیچھے ہے ۔ ڈاکٹر صاحب جیسے دانشوروں اور مُسلم scholars کی باتیں صرف ماضی میں ہی لکھی اور بیان کی جا سکتی تھیں ۔ ہم لوگ آج ان کا تصور تک نہیں کر سکتے ۔ کیوں ؟ کیونکہ آج کے مسلمان میں سب کچھ ہے اگر نہیں ہے تو اسلام نہیں

ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں
یہ 1918 ء کا ذکر ہے ۔ میں والد صاحب کے ساتھ امرتسر گیا ۔ میں چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا جہاں نہ بلند عمارات ۔ نہ مصفّا سڑکیں ۔ نہ کاریں ۔ نہ بجلی کے قُمقُمے اور نہ اس وضع کی دکانیں ۔ دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔ لاکھوں کے سامان سے سَجی دکانیں اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا تھا ۔ کہیں دُنی چند اگروال ۔ کہیں سَنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند ۔ ہال بازار کے اِس سِرے سے اُس سِرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی ۔ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے ۔ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا ۔ کوئی گدھے لاد رہا تھا ۔ کوئی کسی ٹال پہ لکڑیاں چیر رہا تھا اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا ۔ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا ۔ ہندوؤں کے چہرے پَر رونق ۔ بشاشَت اور چَمَک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ ۔ مُشقّت ۔ فکر اور جھُریوں کی وجہ سے افسردہ اور مسخ

میں نے والد صاحب سے پوچھا ”کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟“
والد صاحب نے کہا ” ہاں“۔
میں نے عرض کیا ”الله نے مسلمان کو بھی ہندو کی طرح دو ہاتھ ۔ دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے ؟“
والد صاحب نے جواب دیا ”یہ دنیا مُردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے مُتلاشی کُتوں سے زیادہ ناپاک ہیں ۔ الله نے یہ مُردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے ۔ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ؟“
میں بولا ”اگر دنیا واقعی مُردار ہے تو پھر آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لئے امرتسر تک کیوں آئے ؟ ایک طرف دنیاوی ساز و سامان خرید کر منافع کمانا اور دوسری طرف اسے مُردار قرار دینا ۔ عجیب قِسم کی مَنطق ہے“
والد صاحب ”بیٹا ۔ بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں ۔ جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے“۔
حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی ۔ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا ۔ اس نے بھی وہی جواب دیا

میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی لیکن میرے قلب و نظر پہ تقلید کے پہرے بیٹھے تھے ۔ عِلم کم تھا اور فہم محدود ۔ اس لئے معاملہ اُلجھتا گیا ۔ میں مسلسل 14 برس تک حصول علم کے لئے مختلف علماء و صوفیاء کے ہاں رہا ۔ درس نظامی کی تکمیل کی ۔ سینکڑوں واعظین کے واعظ سُنے ۔ بِیسِیوں دینی کتب پڑھیں اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ماحاصل یہ ہے ۔ توحید کا اقرار اور صلوٰۃ ۔ زکوٰۃ ۔ صوم اور حج کی بجا آوری ۔ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا ۔ جمعرات ۔ چہلم ۔ گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا ۔ قرآن کی عبارت پڑھنا ۔ الله کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا ۔ قرآن اور درُود کے ختم کرانا ۔ حق ہو کے ورد کرنا ۔ مرشد کی بیعت کرنا ۔ مرادیں مانگنا ۔ مزاروں پر سجدے کرنا ۔ تعویذوں کو مشکل کُشا سمجھنا ۔کسی بیماری یا مصیبت سے نجات کے لئے مولوی جی کی دعوت کرنا ۔ گناہ بخشوانے کے لئے قوالی سننا ۔ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا ۔ طبیعیات ۔ ریاضیات ۔ اقتصادیات ۔ تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا ۔ غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا ۔ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا اور ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت کی بجائے دعاؤں سے کرنا

میں علمائے کرام کے فیض سے جب تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو یہ حقیقت واضح ہوئی خدا ہمارا ۔ رسول ہمارا ۔ فرشتے ہمارے ۔ جنت ہماری ۔ حوریں ہماری ۔ زمین ہماری ۔ آسمان ہمارا ۔ الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے آئی ہیں ۔ ان کی دولت ۔ عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے ۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دیئے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے

زمانہ گزرتا گیا ۔ انگریزی پڑھنے کے بعد علُوم جدیدہ کا مطالعہ کیا ۔ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی ۔ اقوام و مِللّ کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مِٹ چُکی ہیں ۔ حیرت ہوئی کہ جب الله ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا ؟ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا ؟ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا ؟ بلغاریہ ۔ ہنگری ۔ رومانیہ ۔ سرویا ۔ پولینڈ ۔ کریمیا ۔ یوکرائین ۔ یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دیئے ؟ ہمیں فرانس سے بیک بِینی دو گوش کیوں نکالا اور تیونس ۔ مراکو ۔ الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا ؟

میں رفع حیرت کے لئے مختلف علماء کے پاس گیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے اس مسئلے پر پانچ سات برس تک غور و فکر کیا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا ۔ ایک دن میں سحر کو بیدار ہوا ۔ طاق میں قرآن شریف رکھا تھا ۔ میں نے اُٹھایا ۔ کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی ”(ترجمہ) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کر چکے ہیں ۔ ہم نے انہیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمہیں نصیب نہیں ہوئی ۔ ہم ان کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں لیکن جب انہوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں تو ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا”۔

میری آنکھیں کھُل گئیں ۔ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں اور الله کی سُنّت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے ۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا دیکھا ”یہ دنیا دار العمل ہے ۔ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں ۔ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا“۔ ”لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (انسان کیلئے وہی ہے جس کی کوشش خود اُس نے کی)“۔

میں سارا قرآن مجید پڑھ گیا اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صِلہ نہ دیکھا ۔ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات ۔ حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا ۔ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سُنی اور میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھُرمَٹ دیکھے جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لئے جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں کود رہے تھے ۔ وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علَم ہاتھ میں لئے معانی حیات کی طرف باانداز طوفان بڑھ رہے تھے اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے

قرآن مجید کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہو گیا مسلمان ہر جگہ محض اس لئے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل ۔ محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے ۔ وہ اوراد و اوعیہ کے نشے میں مست ہے اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس ۔ اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں ”ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف الله بُلا رہا ہے اور دوسرا وہ اسلام جس کی تبلیغ ہمارے اسّی لاکھ ملا قلم اور پھیپھڑوں کا سارا زور لگا کر کر رہے ہیں“۔
برق کیمبل پور ۔ 25 ستمبر 1949ء

منافق ہر دِلعزیز ہوتا ہے

اپنے انگریزی بلاگ پر 28 ستمبر 2004ء کی تحریر کا اُردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے
منافق (انگریزی ۔ hypocrite) بالعموم ہر دِل عزیز ہوتا ہے اور اس کے احباب کا دائرہ بہت وسیع ہوتا جو اُس کے دوغلے کردار کا مرہونِ منت ہوتا ہے
منافق زبانی زبانی دوست ۔ خیر خواہ اور ہمدرد سب کچھ ہوتا ہے لیکن در حقیقت نہیں ہوتا
با اصول آدمی وعدہ کرنے سے پہلے چند لمحے سوچتا ہے کیونکہ اُس نے وعدہ نبھانا ہوتا ہے
البتہ ضرورت کے وقت فوری وعدہ بہت اہم ہوتا ہے ۔ فوری وعدہ منافق دے سکتا ہے کیونکہ پورا کرنے کا ارادہ نہیں ہوتا چنانچہ ضرورتمند منافق کا غلام بن جاتا ہے

ہم اِتنے بے عِلم کیوں ؟

ناجانے ہمارے مُلک میں کِس کا زَور چلتا ہے کہ تاریخ کو مَسَخ کیا جاتا ہے ۔ حقائق کو بدل دیا جاتا ہے ۔ آج اِس کی ایک مثال پیشِ خدمت ہے

ایک صاحب جنہوں نے اپنا قلمی نام عاشُور بابا رکھا ہے لکھتے ہیں
سقوطِ ڈھاکہ کے بعد جب عوامی نیشنل پارٹی کے راہنماؤں کو پاکستان میں حراست میں لیا گیا تو ایک ایسا شخص تھا جو بہت ہی خستہ حال تھا ۔ اس کو گرفتار کر کے حیدرآباد جیل لایا گیا ۔ جیلر نے اس پریشان حال شخص کو دیکھا اور حقارت سے کہا ”اگر تم عبدالولی خان کے خلاف بیان لکھ کر دے دو تو ہم تم کو رہا کر دیں گے ورنہ یاد رکھو اس کیس میں تم ساری عمر جیل میں گلتے سڑتے رہو گے اور یہیں تمہاری موت ہو گی“۔
یہ سُن کر اس شخص نے جیلر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور مسکرا کر کہا ” جیلر صاحب ۔ جیل میں تو شاید میں چند برس زندہ بھی رہ لوں لیکن اگر میں نے یہ معافی نامہ لکھ دیا تو شاید چند دن بھی نہ جی پاؤں“۔

اصولوں اور عزم و ہمت کی اس دیوار کا نام حبیب جالب تھا اور اس کو جیل میں بھیجنے والا اپنے وقت کا سب سے بڑا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو تھا
میں کل سے حیرت کا بُت بنا بیٹھا ہوں جب سے میں نے بلاول زرداری کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر حبیب جالب کا کلام پڑھتے دیکھا اور کلام بھی وہ جو اس نے بھٹو کے دور میں لکھا تھا ۔ آپ کو یہ سن کر شاید حیرت ہو کہ بھٹو دور میں حبیب جالب نے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا اور الیکشن ہارنے کے بعد وہ بھٹو کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے ۔ ان کو جیل میں ڈال دیا گیا اور ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد ان کو اس کیس سے بری کیا گیا تھا
کاش کہ بلاول کو تاریخ سے تھوڑی سی بھی آگہی ہوتی تو ان کو معلوم ہوتا کہ عظیم انقلابی شاعر حبیب جالب کا بیشتر کلام بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا جس میں سے ایک مشہور نظم پیش خدمت ہے

میں پسرِ شاہنواز ہوں ۔ میں پدرِ بے نظیر ہوں
میں نِکسَن کا غلام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں
میں شرابیوں کا پِیر ہوں ۔ میں لکھ پتی فقیر ہوں
وِہسکی بھرا اِک جام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں
جتنے میرے وزِیر ہیں ۔ سارے بے ضمیر ہیں
میں اِن کا بھی امام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں
دیکھو میرے اعمال کو ۔ میں کھا گیا بنگال کو
پھر بھی میں نیک نام ہوں ۔ میں قائد عوام ہوں

کل جب بھٹو کی برسی پر بلاول حبیب جالب کا کلام پڑھ رہے تھے تو بھٹو دور میں ہونے والے مظالم میری آنکھوں کے سامنے آ گئے۔ حبیب جالب پر اتنا ظُلم ایوب خان اور ضیاءالحق جیسے آمروں کے دور میں نہیں ہوا جتنا ظُلم قائد عوام اور جمہوری لیڈر بھٹو کے دور میں ہوا ۔ جس دن بھٹو نے حبیب جالب کو گرفتار کروایا تھا اس دن جالب کے بیٹے کا سوئم تھا اور وہ چاک گریبان کے ساتھ جیل میں گئے تھے اور اُن کی اپنے بیٹے کی یاد میں لکھی نظم ایک تاریخی انقلابی نظم ہے

کاش کوئی یہ سب باتیں جا کر بلاول کو بتائے کہ رَٹی رَٹائی تقریریں کر لینا بہت آسان ہے لیکن بہتر ہو اگر آپ ان باتوں کا تاریخی پسِ منظر بھی جان لو ۔ جیسی جاہل یہ قوم ہے ویسے ہی جاہل اور تاریخی حقائق سے نابلد اِن کے لیڈر

اُسی دَور میں حبیب جالِب نے یہ اشعار بھی پڑھے تھے مگر 1988ء میں یا اِس کے بعد میڈیا نے اِن اشعار کو ضیاء الحق سے منسُوب کر دیا تھا

دِیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پَلے
ایسے دستُور کو ۔ صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

میں بھی خائف نہیں تختہءِ دار سے
میں بھی منصُور ہوں کہہ دو اَغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زِنداں کی دیوار سے
ظُلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
پھُول شاخوں پہ کھِلنے لگے تُم کہو
جام رِندوں کو ملنے لگے تُم کہو
چاک سِینوں کے سِلنے لگے تُم کہو
اس کھُلے جھُوٹ کو ذہن کی لُوٹ کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

خوش رہنے کا آسان طریقہ

کسی کی مدد یا کام معاوضے کے خیال کے بغیر کرنا خوشی لاتا ہے
اپنے آپ کو دھوکہ نہ دیجیئے کہ آپ دوسرے کی بھلائی کر رہے ہیں کیونکہ آپ اچھائی اپنی ز ندگی بہتر بنانے کیلئے کرتے ہیں
کسی کی تنقید یا کسی کو نصیحت کرتے وقت خیال رکھیئے کہ جو بُرائی آپ دوسرے میں دیکھتے ہیں وہ آپ میں بھی ہوتی ہے ورنہ وہ بُرائی آپ کو نظر نہ آتی
اللہ کسی دوسرے سے کہا گیا آپ کا ہر لفظ پرکھے گا ۔ اسلئے بولنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیجیئے کہ جو آپ کہنے لگے ہیں وہ بلا شک و شُبہ درست ہے

سورت 2 البقرۃ ۔ آیت 44 ۔ کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حُکم کرتے ہو ؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو ۔ کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ؟

صرف محبت یا پیار ہی ایسی چیز ہے جو تقسیم کرنے سے کم نہیں ہوتی
تنازعہ پر مل کر کام کر کے اسے حل کرنے سے محبت مضبوط ہوتی ہےمحبت

روزمرّہ کا معمول ؟

عبادت دل کا بوجھ کم کرتی ہے
بغیر ذاتی فائدہ کے کسی کی مدد اللہ پر یقین کا ثبوت ہے
بُرائی اور گناہ سے بچنا شان بڑھاتا ہے
اگر آپ اچھائی کرتے ہیں تو قرآن شریف آپ کی کامیابی کا ثبوت ہے
اگر آپ غلط کام کرتے ہیں تو قرآن شریف آپ کی قباحت یا ناکامی کا ثبوت ہے

80 سال بعد

یہ بنیادی طور پر 3 خاندانوں کا قصہ ہے ۔ پہلا خاندان واڈیا فیملی تھی ۔ خاندان کی بنیاد پارسی تاجر لوجی نصیر وان جی واڈیا نے بھارت کے
شہر سورت میں رکھی

فرنچ ایسٹ انڈیا اور برٹش ایسٹ انڈیا میں جنگ ہو چکی تھی ۔ برطانوی تاجر فرانسیسی تاجروں کو پسپا کر چکے تھے ۔ پلاسی کی جنگ بھی ختم ہو چکی تھی اور میسور میں ٹیپو سلطان بھی ہار چکے تھے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اب مغل سلطنت پر قبضے کے لئے برطانیہ سے مضبوط رابطے چاہیں تھے ۔ یہ رابطے بحری جہازوں کے بغیر ممکن نہیں تھے

لوجی واڈیا لوہے کے کاروبار سے وابستہ تھے ۔ وہ انگریزوں کی ضرورت کو بھانپ گئے چنانچہ انہوں نے 1736ء میں ہندوستان میں پہلی شِپنگ کمپنی کی بنیاد رکھ دی ۔ وہ سورت سے ممبئی منتقل ہوئے ۔ بحری جہاز بنانے کا کارخانہ لگایا ۔ ممبئی پورٹ بنائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ طاقتور تجارتی دھاگے میں پرو گئے ۔ انگریز بعد ازاں واڈیا گروپ سے بحری جنگی جہاز بھی بنوانے لگے

واڈیا گروپ نے 1810ء میں ایچ ایم ایس مینڈن کے نام سے دنیا کا دوسرا بڑا بحری جہاز بنایا ۔ امریکا نے 1812ء میں اس جہاز پر اپنا قومی ترانہ لکھا ۔ یہ دنیا میں بحری جہاز پر لکھا جانے والا پہلا امریکی ترانہ تھا ۔ واڈیا فیملی کے اردشیر کاؤس جی 1849ء میں امریکا گئے ۔ یہ امریکی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے پارسی تھے

یہ لوگ 1840ء تک 100 سے زائد بحری جنگی جہاز بنا چکے تھے ۔ یہ پوری دنیا میں اپنا تجارتی نیٹ ورک بھی پھیلا چکے تھے اور یہ دنیا میں جہاز رانی میں پہلے نمبر پر بھی آ چکے تھے ۔ واڈیا فیملی بعد ازاں کپڑا سازی ۔ فلم ۔ تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں بھی آ گئی ۔ لوجی واڈیا کے پوتے کے پوتے نوروجی واڈیا نے پونا میں پہلا پرائیویٹ کالج بنایا ۔ واڈیا فیملی نے 1933ء میں ممبئی میں اسٹوڈیوز اور فلم سازی کی کمپنیاں بنائیں ۔ جے بی ایچ واڈیا اور ہومی واڈیا فلمیں بنانے لگے اور یہ فیشن میگزین بھی چلانے لگے ۔ فیشن چینلز بھی اور ’’گوائیر‘‘ کے نام سے ائیر لائین بھی ۔ یہ بھارت میں اس وقت بھی بڑا کاروباری نام ہیں

پٹیٹ بھارت کا دوسرا تجارتی خاندان تھا ۔ یہ لوگ کپڑے کی صنعت سے وابستہ تھے ۔ سر ڈِنشا مانک جی پٹیٹ نے ہندوستان میں پہلی کاٹن مل لگائی تھی ۔ یہ ملکہ سے نائیٹ کا خطاب حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی بھی تھے ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ کی شادی ہندوستان کے پہلے ارب پتی رتن ٹاٹا کی بیٹی سائیلا ٹاٹا سے ہوئی تھی ۔ سائیلا ٹاٹا کی والدہ فرنچ تھیں ۔ ان کا نام سوزانا تھا ۔ وہ ہندوستان میں گاڑی چلانے والی پہلی خاتون تھی ۔ جہانگیر ٹاٹا سائیلا کے بھائی تھے ۔ یہ ٹاٹا گروپ کے چیئرمین تھے

سرڈنشا مانک جی پٹیٹ اور سائیلا ٹاٹا کے ہاں 1900ء میں ایک نہایت خوبصورت بچی پیدا ہوئی‘ بچی کا نام رتی بائی پٹیٹ رکھا گیا ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ نے بچی کو اپنے نوجوان دوست محمد علی جناح سے گھُٹی دلائی ۔ محمد علی جناح اس وقت ممبئی کے نامور وکیل تھے ۔ وہ ذہین ترین شخص کہلاتے تھے ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ چاہتے تھے اِن کی بیٹی محمد علی جناح کی طرح ذہین ثابت ہو ۔ سرڈِنشا پٹیٹ کی یہ خواہش بعد ازاں پوری ہوئی لیکن کس طرح یہ ہم آپ کو تیسرے خاندان کے تعارف کے بعد بتائیں گے

بھارت کا تیسرا خاندان جناح کہلاتا ہے ۔ خاندان کے بانی پریم جی بھائی تھے ۔ یہ گجرات کاٹھیاواڑ کے رہنے والے تھے ۔ وہ مذہباً ہندو تھے ۔ اُنھوں نے اسلام قبول کیا اور تجارت شروع کر دی ۔ کراچی اس زمانے میں چھوٹا سا ساحلی قصبہ تھا ۔ یہ مچھیروں تک محدود تھا ۔ یہ شہر 1870ء میں اچانک اہمیت اختیار کر گیا ۔ کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ تھی ۔ انگریز نے 1859ء میں مصر میں نہر سویز کھودنا شروع کی ۔ یہ نہر 10 سال بعد 1869ء میں مکمل ہو ئی ۔ نہر سویز نے بحیرہ روم کو بحیرہ احمر کے ساتھ ملا دیا ۔ بحری جہازوں کا فاصلہ 7000کلو میٹر کم ہو گیا ۔ نہر سویز سے قبل ممبئی ہندوستان کی واحد بندر گاہ تھی ۔ نہر کی وجہ سے یورپ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں 3 گناہ اضافہ ہوگیا

ممبئی کی بندرگاہ یہ بوجھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی ۔ انگریز کو نئی بندرگاہ کی ضرورت پڑ گئی ۔ کراچی قدرتی بندرگاہ تھا چنانچہ انگریز نے یہاں بندر گاہ بنانا شروع کر دی ۔ یہ بندر گاہ ہندوستان کے دوسرے درجے کے ہزاروں تاجروں کو کراچی کھینچ لائی ۔ ان تاجروں میں جناح پونجا بھی شامل تھے ۔ یہ 1875ء میں کراچی آئے اور ان کے ہاں 1876ء میں محمد علی پیدا ہوئے ۔ یہ والد کی مناسبت سے محمد علی جناح کہلانے لگے ۔ جناح پونجا کامیاب تاجر تھے ۔ یہ اپنا مال بحری جہازوں کے ذریعے یورپ بھجواتے تھے

اب صورت حال ملاحظہ کیجئے ۔ جناح پونجا تاجر ہیں ۔ یہ چمڑا اور سوتی کپڑا برآمد کرتے ہیں ۔ سوتی کپڑا پٹیٹ فیملی کی مِلوں میں بنتا ہے ۔ چمڑا پٹیٹ فیملی کے سسرالی ٹاٹا فیملی کی ٹینریز میں رنگا جاتا ہے اور یہ مال واڈیا فیملی کے جہازوں پر یورپ جاتا ہے ۔ یوں قدرت نے تینوں (چاروں) خاندانوں کے درمیان ایک دلچسپ تعلق پیدا کر دیا

اب ان تمام خاندانوں کی کُنجی محمد علی جناح کی طرف آتے ہیں ۔ قائداعظم 1896ء میں وکیل بن کر ممبئی آئے اور شہر کی سماجی زندگی میں تہلکہ مچا دیا ۔ یہ انگریزوں سے بہتر انگریزی بولتے تھے ۔ ان کے پاس 200 نہایت قیمتی سوٹ تھے ۔ یہ روز نیا سوٹ پہنتے تھے ۔ ان کی شخصیت میں دِل آویزی اور کشش بھی تھی ۔ پریکٹس بھی بہت اچھی تھی اور Social networking بھی کمال تھی ۔ انگریز افسر انہیں بہت پسند کرتے تھے چنانچہ یہ اس زمانے میں پٹیٹ ۔ ٹاٹا اور واڈیا تینوں خاندانوں کے لئے hot cake بن گئے

سر ڈِنشا پٹیٹ کے ہاں 1900ء میں رتی بائی پٹیٹ پیدا ہوئیں ۔ یہ ’’مسٹر جناح ۔ مسٹر جناح‘‘ کی آوازوں میں بڑی ہوئیں اور جوانی میں ان کی محبت کی اسیر ہو گئیں ۔ رتی بائی نے 1918ء میں اسلام قبول کیا ۔ یہ رتی سے مریم جناح بنیں اور نئی زندگی شروع کر دی ۔ سر ڈِنشا پٹیٹ نے بیٹی کو عاق کر دیا ۔ ان سے Patent کا Title تک لے لیا گیا ۔ قائداعظم اور مریم اس زمانے میں ہندوستان کا خوبصورت اور ذہین ترین جوڑا تھا ۔ اللہ تعالٰی نے دونوں کو 15 اگست 1919ء کو خوبصورت بیٹی دینا عطا کی

دینا جناح لندن میں پیدا ہوئیں ۔ ماں اور باپ تھئیٹر دیکھ رہے تھے ۔ ایمرجنسی ہوئی ۔ یہ دونوں تھئیٹر سے سیدھے ہسپتال پہنچے اور دینا دنیا میں تشریف لے آئیں ۔ بیٹی ابھی بچی تھی کہ ماں باپ میں اختلافات ہو گئے ۔ والدہ گھر سے ہوٹل شفٹ ہو گئیں ۔ یوں دینا کا بچپن اداسی اور تنہائی کا شکار ہوگیا ۔ والدہ بیمار ہوئی اور 29 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں ۔ دینا کی عمر اس وقت 10 سال تھی ۔ والد کو بیوی کے غم اور سیاست نے نگل لیا ۔ بچی کی پرورش کی ذمے داری پھوپھی فاطمہ جناح پر آ گئی ۔ وہ یہ ذمے داری نبھاتی رہیں

دینا پارسی کمیونٹی کا حصہ تھیں ۔ وہ ممبئی کے پارسی کلب میں بھی جاتی تھیں اور پارسی فیملیز سے بھی ملتی رہتی تھیں ۔ یہ اس دوران واڈیا فیملی کے نوجوان نیولی واڈیا کی محبت میں گرفتار ہو گئیں ۔ والد نے شادی سے روکا ۔ یہ باز نہ آئیں ۔ دینا نے1938ء میں نیولی واڈیا سے شادی کر لی ۔ قائداعظم نے بیٹی سے قطع تعلق کر لیا ۔ نسلی واڈیا اور جمشید واڈیا 2 بیٹے ہوئے ۔ 1943ء میں طلاق ہو گئی لیکن طلاق کے باوجود باپ اور بیٹی میں فاصلہ رہا تاہم قائداعظم کے نواسے سرِ راہ اپنے نانا سے ملتے رہتے تھے

قائد اعظم ان سے بہت محبت سے پیش آتے تھے ۔ آپ انہیں تحفے بھی دیتے تھے جو عموماً 3 ہوتے تھے ۔ تیسرا تحفہ ہمیشہ بے نام ہوتا تھا ۔ یہ ایک باپ کا اپنی واحد بیٹی کے نام بے نام تحفہ ہوتا تھا ۔ ملک تقسیم ہو گیا ۔ قائداعظم کراچی تشریف لے آئے اور دینا واڈیا ممبئی رہ گئیں ۔ یہ بعد ازاں امریکہ مُنتقِل ہو گئیں ۔ قائد اعظم بیمار ہوئے ۔ 11 ستمبر 1948ء کو اِنتقال فرمایا ۔ وزیراعظم خان لیاقت علی خان نے دِ ینا کو اطلاع دی ۔ خصوصی طیارہ ممبئی بھجوایا اور وہ والد کے آخری دیدار کے لئے پاکستان تشریف لے آئیں

وہ 2004ء میں دوسری اور آخری مرتبہ پاکستان تشریف لائیں‘ وہ شہریار خان کی درخواست پر میچ دیکھنے پاکستان آئی تھیں ۔ ان کے صاحبزادے نسلی واڈیا اور دونوں پوتے نیس واڈیا اور جہانگیر واڈیا بھی ان کے ساتھ تھے ۔ وہ اس وقت تک ہُوبہو قائداعظم کی تصویر بن چکی تھیں ۔ وہی ستواں ناک ۔ وہی تیز گرم نظریں اور وہی تحمکانہ لہجہ ۔ وہ آئیں تو لوگ بھول گئے وہ پارسی ہو چکی ہیں یا قائداعظم نے ان سے قطع تعلق کر لیا تھا ۔ لوگ ان کے پیروں کی خاک اُٹھا کر اپنے ماتھے پر لگاتے رہے ۔ وہ لاہور میں علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین کی حویلی بھی گئیں ۔ یوسف صلاح الدین کے ماتھے پر پیار کیا ۔ یہ اس وقت چین اسموکر تھے ۔ حُکم دیا ” آپ فوراً سگریٹ چھوڑ دو“۔ یوسف صلاح الدین نے اُسی وقت سگریٹ پینا بند کر دیا ۔ یہ پاکستان سے واپس امریکا چلی گئیں اور 2 نومبر 2017ء کو نیویارک میں انتقال کر گئیں

والد اور بیٹی دونوں با اصول تھے ۔ والد نے قطع تعلق کے بعد پوری زندگی بیٹی کی شکل نہیں دیکھی ۔ بیٹی نے بھی مرنے تک والد کی وراثت سے حصہ نہیں مانگا ۔ وہ صرف آخری عمر ممبئی میں قائداعظم کے گھر میں گزارنا چاہتی تھیں ۔ عدالت میں کیس چل رہا تھا لیکن عدالت اور بھارتی حکومت دونوں کا دل چھوٹا نکلا

جاوید چوہدری کا مضمون 7 نومبر 2017ء کو شائع ہوا