Monthly Archives: April 2017

سول سوسائٹی ۔ آپ کون ہو ؟ کہاں ہو ؟

سول سوسائٹی کا نام ٹی وی پر سُننے کو ملتا ہے ۔ سوشل میڈیا اور اخبار میں پڑھنے کو ملتا ہے ۔ جب تک ٹی وی چینل عام نہیں ہوئے تھے سول سوسائٹی نام کا کوئی جانور اسلام آباد میں نہیں تھا ۔ پچھلے بارہ تیرہ سال سے ٹی وی پر اسلام آباد سول سوسائٹی کے بہت چرچے ہیں ۔ سول سوسائٹی کیا ہوتی ہے اور کس کام آتی ہے ؟ اس کے متعلق کوئی نہیں بتاتا البتہ سوشل میڈیا پر اس کی مختلف تعریفیں اور توجیہات پڑھنے کو ملتی ہیں

میرا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک میں کسی چیز کو دیکھ نہ لوں یا اُس کی موجودگی کے عوامل یعنی اُس کے کئے ہوئے کام نہ دیکھ لوں مجھے تسلی نہیں ہوتی ۔ 4 دہائیاں قبل ہمارے والد صاحب نے اسلام آباد میں مکان بنوایا تھا ۔ میں اُس وقت سے وہاں جاتا رہا ہوں ۔ 1990ء میں میرے والد صاحب اور بھائی وہاں منتقل ہو گئے تھے تو میں ہر ہفتہ وہاں جاتا تھا ۔ میں بھی اگست 1994ء سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہوں

ایک دہائی قبل میں پہلی بار اسلام آباد میں سول سوسائٹی کی تلاش میں نکلا ۔ ہر سیکٹر میں جا کر تلاش کیا ۔ سول سوسائٹی کہیں نظر نہ آئی ۔ لوگوں سے پوچھا ۔ کوئی مُسکرا دیا ۔ کسی نے کہا ”چھوڑو بھائی ۔ کوئی کام کی بات کرو یا کیا خریدنا چاہتے ہو بتاؤ“۔
میں ہر بار ہارے ہوئے کھلاڑی کی طرح منہ لٹکائے گھر واپس آتا رہا

۔ سال 2015ء میں اسلام آباد میں لوکل باڈیز الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد مجھے اپنے سیکٹر (ایف.8) میں سٹریٹ نمبر 26 کے کنارے ایک چھوٹا سا سائن بورڈ نظر آیا جس پر لکھا تھا ”سول سوسائٹی کے دفتر میں تشریف لائیں“۔ اور اشارہ دیا تھا ۔ بندہ خوشی سے اُچھل گیا اور اس اشارے کی تابعداری کرتے ہوئے ایک کوٹھی کے گیٹ پر جا پہنچا ۔ گھنٹی کا بٹن دبانے کے بعد میں بڑے ذوق و شوق کے ساتھ انتظار میں لگ گیا کہ مُراد بھر آنے والی تھی ۔ کچھ منٹ بعد ایک صاحب تشریف لائے ۔ اُن سے اپنی آمد کا مُدعا بیان کیا ۔ اُنہوں نے ایسے تاءثر دیا جیسے میں نے اُن سے سنسکرت میں بات کی تھی اور اُن کے پلّے کچھ نہیں پڑا ۔ ”پھر کسی وقت آئیں“ کہہ کر وہ واپس تشریف لے گئے ۔ میں چند لمحے شَشدر کھڑا رہنے کے بعد گھر کو روانہ ہو گیا

محترم قاررئین یا محترمات قاریات ۔ آپ میں سے کوئی سول سوسائٹی کا براہِ راست تجربہ رکھتا ہو تو درخواست ہے کہ سول سوسائٹی کی تقریروں ۔ پریس کانفرنسوں اور دعووں کی بجائے اُن کے کئے ہوئے کاموں سے مطلع فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا

عمل اور ردِ عمل

وقوع پذیر ہونے والے کچھ عوامل ہمارے لئے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں
کچھ لوگ ہماری ز ندگی میں آ کر چلے جاتے ہیں
اور سب سے بڑھ کر ایسے لمحات ہیں جب انسان کا ٹوٹ جانا ضروری ہو جاتا ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ہمیں نامہربان یا بے رحم نہ بنا دیں

دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اگر ۔ ۔ ۔

آدھی صدی قبل میں نے یہ نظم کہیں پڑھی ۔ زندگی کے لائحہءِ عمل کیلئے پسند آئی اور اپنے پاس لکھ کر اِسے اپنا نصب العین بنانے کی کوشش شروع کر دی ۔ کس حد تک کامیاب ہوا ؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے

آج کے حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ اِس نظم کو سب تک پہنچایا جائے تاکہ میرے ہموطنوں کیلئے چین و سُکھ کی زندگی کا حصول ممکن ہو سکے ۔ مجھے یقین ہے کہ اِسے اپنانے سے دہشتگردی پر قابو پانے میں بھی کامیابی ہو سکتی ہے

کوشاں سبھی ہیں رات دن اِک پل نہیں قرار
پھِرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں ۔ انسانیت سے پیار
کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

سِیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے
دل میں خلوص نہ ہو ۔ تو بندگی رِیا ہے
جس سے مِٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے
ضِد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

بھِڑ کی طرح جِیئے ۔ تو جینا تيرا حرام
جِینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام
اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

وعدہ ترا کسی سے ۔ ہر حال میں وفا ہو
ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو
یہ جان لے ہے بیشک گناہ ۔کسی کو ستانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

تو زبردست ہے اگر ۔ تو قہرِ خدا سے ڈرنا
اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اِک دن گر جائے تو وگرنہ
پھر تُجھ کو روند ڈالے پاؤں تلے زمانہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

مِل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا
مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا
مضرُوبِ غم ہو کوئی مَرہَم اُسے لگانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

دل میں ہے جو غرور و تکبر ۔ نکال دے
اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے
دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے
یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اِسلاف کی یہی ۔ روشِ اولیں رہی ہے
تُجھ سے ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

نفرت رہے نہ باقی نہ ظلم و ستم کہیں ہو
اِقدام ہر بَشَر کا پھر ۔ اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو
اِقرار سب کریں کہ تہہِ دل سے ہم نے مانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا