دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اگر ۔ ۔ ۔

آدھی صدی قبل میں نے یہ نظم کہیں پڑھی ۔ زندگی کے لائحہءِ عمل کیلئے پسند آئی اور اپنے پاس لکھ کر اِسے اپنا نصب العین بنانے کی کوشش شروع کر دی ۔ کس حد تک کامیاب ہوا ؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے

آج کے حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ اِس نظم کو سب تک پہنچایا جائے تاکہ میرے ہموطنوں کیلئے چین و سُکھ کی زندگی کا حصول ممکن ہو سکے ۔ مجھے یقین ہے کہ اِسے اپنانے سے دہشتگردی پر قابو پانے میں بھی کامیابی ہو سکتی ہے

کوشاں سبھی ہیں رات دن اِک پل نہیں قرار
پھِرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں ۔ انسانیت سے پیار
کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

سِیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے
دل میں خلوص نہ ہو ۔ تو بندگی رِیا ہے
جس سے مِٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے
ضِد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

بھِڑ کی طرح جِیئے ۔ تو جینا تيرا حرام
جِینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام
اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

وعدہ ترا کسی سے ۔ ہر حال میں وفا ہو
ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو
یہ جان لے ہے بیشک گناہ ۔کسی کو ستانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

تو زبردست ہے اگر ۔ تو قہرِ خدا سے ڈرنا
اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اِک دن گر جائے تو وگرنہ
پھر تُجھ کو روند ڈالے پاؤں تلے زمانہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

مِل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا
مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا
مضرُوبِ غم ہو کوئی مَرہَم اُسے لگانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

دل میں ہے جو غرور و تکبر ۔ نکال دے
اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے
دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے
یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اِسلاف کی یہی ۔ روشِ اولیں رہی ہے
تُجھ سے ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

نفرت رہے نہ باقی نہ ظلم و ستم کہیں ہو
اِقدام ہر بَشَر کا پھر ۔ اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو
اِقرار سب کریں کہ تہہِ دل سے ہم نے مانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

This entry was posted in پيغام, ذمہ دارياں, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

3 thoughts on “دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اگر ۔ ۔ ۔

  1. سیما آفتاب

    بہت خوب ۔۔۔ پر ‘اپنے کام’ والوں کو یہ سب پڑھنے کی فرصت کہاں ہے

    ویسے اس کا کیا مطلب ہوا؟
    “پھِرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار”

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سیما آفتاب صاحبہ
    آپ نے شاید بھیڑیا نہ دیکھا ہو البتہ السَیشن کُتا دیکھا ہو گا ۔ اس کے 2 لمبے اور نوکیلے دانت ہوتے ہیں ۔ جنگلی بھیڑیئے کے یہ 2 دانت دیکھنے میں بھی خوفناک ہوتے ہیں ۔ ان دانتوں کو گرسنہ کہتے ہیں ۔ اس مصرے سے مُراد ہے کہ خونخوار بھیڑیئے کی طرح دانت نکالے ہوئے پھرتے ہیں یعنی شکار کرنے کیلئے تیار

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.