ایتھے رَکھ یعنی اب کے آ

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “ایتھے رَکھ یعنی اب کے آ

  1. سیما آفتاب

    میں نے کسی جگہ ایک بات پڑھی تھی تھوڑی سی ترمیم کے بعد کہہ رہی ہوں
    “ہم پابندی/قانون کے پابند ہیں، اخلاقیات اور حیا کے نہیں”

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سیما آفتاب صاحبہ
    نہ ہی بی نہ. قانون 2 قسم کے ہیں ایک اللہ کے مقرر کردہ جو اٹل ہیں. دوسرے انسان کے بنائے ہوئے جو تبدیل ہو سکتے ہیں. ہم لوگ دونوں ہی کو صرف کتاب کی زینت سمجھتے ہیں. عمل کیلئے تیار نہیں. ہم صرف ڈنڈے سے ڈرتے ہیں. آپ نے ٹی وی پر دیکھا نہیں لاہور میں ایک اچھے قانون کے خلاف باوجود سمجھانے کے احتجاج کے نام پر عوام کیلئے وبال اکٹھا کیا ہوا تھا. جب دھماکہ ہوا تو احتجاج کرنے والے کیسی بدحواسی سے بھاگ رہے تھے

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سیما آفتاب صاحبہ
    میں نے ترجمہ تو ساتھ لکھ دیا تھا. میں نئے اسلام آبادیوں کے لچھنوں سے تنگ ہوں. یہ قانون صوبہ پنجاب میں پچھلے چھ سات سال سے نافذ ہے. ہر سال سینکڑوں افراد کو گرفتار یا جرمانہ کیا جاتا ہے لیکن سلسلہ جاری ہے. ایک ضرب المثل سکول میں پڑھی تھی “نو دن. تیرہ میلے” اور پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے “پلے نئیں دھیلہ تے کردی میلہ میلہ”.

  4. سیما آفتاب

    السلام و علیک ورحمتہ اللہ

    جی میں بھی ‘ڈنڈے’ والے قانون کی بات کر رہی تھی ۔۔۔ خود اچھے برے کا احساس کھو چکے ہیں بس جس بات پر زبردستی عمل کرایا جائے تو مجبورا کرلیں گے ورنہ جو جی میں آئے گا کریں گے ۔۔۔ میں خبروں سے ذرا فاصلے پر ہی رہتی ہوں اس لیے مجھے پتا نہیں چل سکا تھا کہ کس لیے احتجاج تھا ۔ ۔۔۔ جی بس ‘دنیا’ کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کا یہی سب سے آسان طریقہ ہے نا :)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.