Monthly Archives: October 2016

خاوند بیوی کا رشتہ

خاوند بیوی کا روحانی ساتھی ہے
بیوی جب پریشان ہوتی ہے تو خاوند اس کی بات تحمل کے ساتھ سُنتا ہے اور جب بیوی روتی ہے تو اسے سہارا دیتا ہے
کبھی کبھی پیار میں خاوند بیوی کے ساتھ دل لگی بھی کرتا ہے
خاوند بیوی کا صرف پیار کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ بیوی کا بہترین اور قابلِ اعتماد دوست ہوتا ہے جسے بیوی غیر مشروط پیار کرتی ہے جب وہ دن بھر کی تھکی ہوئی ہوتی ہے تو اُس کے چہرے پر مُسکراہٹ لاتا ہے
جس کی عدم موجودگی میں وہ اُس کے حق میں دعا کر سکتی ہے کیونکہ خاوند اور بیوی کے باہمی دعا کرنے سے زیادہ رومانی ۔ محافظ اور پیارا کوئی اور عمل نہیں ہے
اللہ ہمارے اس باہمی رشتے میں برکت ڈالے

تنازعہ جموں کشمیر کی بنیاد ؟ ؟ ؟

جب برطانوی حکمرانوں نے مسلمانانِ ہِند کا مطالبہ مان لیا اور ہندوؤں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس بھی راضی ہو گئی تو فیصلہ ہوا کہ ہندوستان کی تقسیم صوبوں کی بنیاد پر ہو گی جس کے مطابق 5 صوبے جہاں مسلمان اکثریت میں تھے (پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد ۔ بلوچستان اور بنگال) پاکستان میں شامل ہوں گے اور ریاستیں اپنی اپنی آبادی کی بنیاد پر فیصلہ کریں گی ۔ بعد میں برطانوی حکومت نے ہندوؤں کا مطالبہ مانتے ہوئے پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا اعلان کر دیا
کافی بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ ہوا کہ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کیلئے کم از کم اکائی ضلع ہو گی

انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان (ریڈ کلِف ایوارڈ) عیّاری کرتے ہوئے 14 اگست 1947ء کو نہ کیا بلکہ 3 دن بعد 17 اگست 1947ء کو کیا جس میں طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلم اکثریتی علاقہ جس میں ضلع گورداسپور کا بڑا علاقہ مع تحصیل پٹھانکوٹ شامل تھا بھارت کا حصہ بنا دیا ۔ اس طرح جواہر لال نہرو کی خواہش پوری ہو گئی اور بھارت کو جموں کشمیر جانے کے لئے زمینی راستہ مہیا ہو گیا ۔ اس کا دوسرا بُرا نتیجہ یہ ہوا کہ متعلقہ مُسلم اکثریتی علاقوں میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا
پٹھان کوٹ کٹھوعہ کے راستے بھارتی فوج کی سرپرستی میں راشٹریہ سیوک سَنگ ۔ ہِندُو مہاسِبھا اور اکالی دَل کے تربیت یافتہ مسلّح دستے بھاری تعداد میں جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے
سُنا گیا تھا کہ متفقہ اصول کے خلاف اس غلط فیصلہ کا سبب ہندوستان میں آخری وائسرائے لارڈ مؤنٹ بیٹن کی بیوی اور جواہر لال نہرو کی گہری دوستی تھی جس کی جھلکیاں یہاں کلِک کر کے دیکھی جا سکتی ہیں

کچھ تاریخی حقائق ۔
1947ء سے قبل ہونے والی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کے 7 ایسے شہر تھے جن کی آبادی 100000 سے زیادہ تھی ۔ لاہور 630000 ۔ امرتسر 390000 ۔ راولپنڈی ۔ ملتان ۔ سیالکوٹ ۔ لُدھیانہ اور جالندھر کی آبادی 100000 اور 200000 کے درمیان تھی ۔ punjab-religions-19411 ان سب میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ صرف راولپنڈی شہر اور جالندھر شہر میں سارے غیر مُسلموں کو جمع کیا جائے تو اُن کی اکثریت بن جاتی تھی ۔ یہ شہروں کے اعداد و شمار ہیں ضلعوں کے نہیں ۔ ان سب ضلعوں میں مسلمان بھاری اکثریت میں تھے

پورے صوبہ پنجاب میں مسلمان 53 فیصد ۔ ہندو 30 فیصد ۔ سکھ 6ء14 فیصد ۔ عیسائی 4ء1 فیصد اور باقی 1 فیصد تھے

صوبہ پنجاب کو 5 حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا تھا ۔ (1) مغربی حصہ (سبز اور گہرا سبز) 80 سے 90 فیصد مسلمان ۔ (2) وسط مغربی حصہ (سیاہی مائل سبز) 60 فیصد کے قریب مسلمان اور سکھ بڑی اقلیت تھے ۔ (3) وسطی مشرقی حصہ (نیلا اور گہرا نسواری) مسلمان اکثریت میں تھے لیکن تمام غیر مُسلموں کو جمع کیا جائے تو 50 فیصد سے کچھ زیادہ ہو جاتے تھے ۔ (4) جنوب مشرقی حصہ ( براؤن اور سرخی مائل براؤن) ۔ اب ہریانہ کہلاتا ہے ۔ اس میں ہندو معمولی اکثریت میں تھے اور سکھ بہت کم تھے ۔ دہلی بھی اس میں شامل ہے ۔ (5) شمال مشرقی حصہ (سُرخ اور گہرا سُرخ) ۔ اب ہماچل پردیش کہلاتا ہے ہندو اکثریتی علاقہ تھا ۔
greater-punjab-religions-today
ریڈ کلِف ایوارڈ جس کا اعلان 14 اگست کے چند دن بعد (17 اگست ) ہوا کے ذریعہ تمام متفقہ اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل تقسیم کی گئی
(1) مغربی پنجاب جو پاکستان کو دیا گیا (سبز)
(2) مشرقی پنجاب جو بھارت کو دیا گیا (سبز چھوڑ کر باقی سارا)
مصنّف لکھتا ہے
“To my eyes, this looks like an extremely favorable result for India. No Hindu/Sikh majority district went to Pakistan, while several swaths of Muslim majority territory ended up in Indian hands.”
تفصیل یہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

بلاعیب خاندان

کوئی خاندان بلاعیب نہیں ہوتا
خاندان میں جھگڑا ہوتا ہے لڑائی ہوتی ہے
بعض اوقات آپس میں بول چال بھی بند ہو جاتی ہے
لیکن آخر کار خاندان خاندان ہی ہوتا ہے
ان میں باہمی محبت ختم نہیں ہوتی
اسی لئے کسی نے لکھا ہے
اپنا ہے پھر بھی اپنا ۔ بڑھ کر گلے لگا لے
اچھا ہے یا بُرا ہے ۔ اپنا اسے بنا لے

ایہہ پُتَر ہَٹاں تے نئیں وِکدے

ستمبر 1965ء میں صوفی تبسم صاحب کی لکھی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی یہ نظم مجھے بہت کچھ یاد دلاتی ہے

تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے بھارت نے 6 ستمبر 1965ء کو آدھی رات کے بعد پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا

صبح صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان کی ریڈیو پر تقریر “پاکستان کے جوان جن کے لبوں پر کلمہ لا الہ الاللہ کا ورد ہے اپنے ملک کی حفاظت کیلئے سرحدوں کی طرف روانہ ہو چُکے ہیں”۔
پاکستانی قوم کا مثالی اتحاد ۔ یگانگت اور جذبہءِ حُب الوطنی
پاکستان آرڈننس فیکٹری میں دن رات کام ۔ میری فیکٹری کے ورکرز کا چھٹی کرنے سے انکار ۔ میرا اُن کو بار بار سمجھانا کہ”بھائیو ۔ کل بھی کام کرناہے ۔ جاؤ اور چند گھنٹے آرام کر کے واپس آؤ“۔ بڑی مُشکل سےمیں نے اُنہیں منایا تھا
کام کے دنوں میں صبح 7 بجے سے سہ پہر 5 بجے تک میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ہی ۔ شام 6 بجے سے اگلے دن صبح 7 بجے تک مجھے سب سیکٹر کمانڈر بنا دیا گیا ۔ میں 15 دن رات فیکٹری میں رہا اور روزانہ ایک وقت کا کھانا کھایا ۔ پہلے 4 دن اور 3 راتیں نہ سویا ۔ چوتھی رات کو ایک فورمین اور ایک اسِسٹنٹ فورمین نے مجھے پکڑ کر میرے دفتر میں سٹریچر پر لٹا کر باہر سے دروازہ بند کر دیا اور فجر سے پہلے کھولا
بازاروں کا یہ حال تھا کہ دودھ والے جو پانی ملاتے تھے اُنہوں نے پانی ملانا بند کر دیا ۔ جو دودھ 10 آنے سیر بیچتے تھے اُنہوں نے 8 آنے بیچنا شروع کر دیا ۔ کھانے پینے کی دوسری اشیاء بھی پہلے سے سَستی بِکنے لگیں
لاہوریئے پلاؤ کی دیگیں پکوا کر ریہڑوں پر رکھ کر واہگہ محاذ کی طرف جانے شروع ہو گئے کہ ہمارے بھائی فوجیوں نے کھانا نہیں کھایا ہو گا

میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں اور دل ہی دل میں کہتا ہوں ”یا رب ۔ میرے وہ پاکستانی بھائی کہاں چلے گئے ؟ ؟ ؟“

اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے ۔ ۔ ۔ کی لَب نِیں ایں وِچ بازار کُڑے
اَے دین اے میرے داتا دی ۔ ۔ ۔ نا ایویں ٹکراں مار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
اَے پُتَر وِکاؤ چیز نئیں ۔ ۔ ۔ مُل دے کے جھولی پائیے نِیں
اَے اَیڈا سَستا مال نئیں ۔ ۔ ۔ کِتوں جا کے منگ لیا ئیے نِیں
اَے سَودا نَقَد وی نئیں مِل دا ۔ ۔ ۔ تُوں لَب دی پھِریں اُدھار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
اَے شیر بہادر غازی نیں ۔ ۔ ۔ کِسے کولوں وی ہَر دے نئیں
اَینا دُشمناں کولوں کی ڈرنا ۔ ۔ ۔ اَے مَوت کولوں وی ڈردے نئیں
اَے اپنے دیس دی عزت تَوں ۔ ۔ ۔ جان اپنی دیندے وار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
تَن بھاگ نیں اَوہناں ماواں دے ۔ ۔ ۔ جِنہاں ماواں دے اَے جائے نیں
تَن بھاگ نیں بہن بھراواں دے ۔ ۔ ۔ جِنہاں گودی وِیر کھڈائے نیں
اَے آن نیں ماناں والیَاں دی ۔ ۔ ۔ نئیں ایس دی تینوں سار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے