سوچ کا ایک زاویہ

حنیف کے گھر کے قریب ایک بیکری تھی ۔ حنیف اکثر شام کے وقت کام سے واپسی پر وہاں سے صبح ناشتے کے لئے کچھ سامان لے کے گھر جاتا تھا ۔ ایک دن حنیف سامان لے کے بیکری سے باہر نکل رہا تھا کہ اُس کا پڑوسی عرفان مل گیا ۔ وہ بھی بیکری سے باہر آرہا تھا ۔ حنیف نے سلام کے بعد پوچھا “کیا لے لیا عرفان بھائی؟”
عرفان “کچھ نہیں بھائی ۔ چکن پیٹس اور جلیبیاں بیگم اور بچوں کے لئے”
حنیف ہنستے ہوئے “کیوں ؟ آج کیا بھابھی نے کھانا نہیں پکایا ؟”
عرفان “نہیں نہیں بھائی ۔ یہ بات نہیں ہے ۔ دراصل آج دفتر میں شام کے وقت کچھ بھوک لگی تھی تو ساتھیوں نے چکن پیٹس اور جلیبیاں منگوائیں ۔ میں نے وہاں کھائے تھے تو سوچا بیچاری گھر میں جو بیٹھی ہے وہ کہاں کھانے جائے گی ۔ اس کے لئے بھی لے لوں ۔ یہ تو مناسب نہ ہوا نا کہ میں خود تو آفس میں جس چیز کا دل چاہے وہ کھالوں اور بیوی بچوں سے کہوں کہ وہ جو گھر میں پکے صرف وہی کھائیں”
حنیف حیرت سے عرفان کا منہ تکتے ہوئے بولا “اس میں حرج ہی کیا ہے عرفان بھائی ۔ آپ اگر دفتر میں کچھ کھاتے ہیں تو بھئی بھابھی اور بچوں کو گھر میں جس چیز کا دل ہوگا کھاتے ہوں گے”
عرفان “نہیں نہیں بھائی ۔ وہ بیچاری تو اتنی سی چیز بھی ہوتی ہے میرے لئے الگ رکھتی ہے ۔ یہاں تک کہ اڑوس پڑوس سے بھی اگر کوئی چیز آئے تو اس میں سے پہلے میرا حصّہ رکھتی ہے بعد میں بچوں کو دیتی ہے ۔ اب یہ تو خود غرضی ہوئی نا کہ میں وہاں دوستوں میں گل چھڑے اڑاؤں”
حنیف نے حیرت سے کہا “گل چھڑے اڑاؤں ۔ یہ چکن پیٹس ۔ یہ جلیبیاں ۔ یہ گل چھڑے اُڑانا ہے عرفان بھائی؟ اتنی معمولی سی چیزیں”
عرفان ” کچھ بھی ہے حنیف بھائی ۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ آخرت میں کہیں میری اسی بات پر پکڑ نہ ہو کہ کسی کی بہن بیٹی بیاہ کے لائے تھے ۔ خود دوستوں میں مزے کر رہے تھے اور وہ بیچاری گھر میں بیٹھی دال کھارہی تھی ۔ دیکھئے ۔ ہم جو کسی کی بہن بیٹی بیاہ کے لاتے ہیں نا ۔ وہ بھی ہماری طرح انسان ہوتی ہے ۔ اسے بھی بھوک لگتی ہے ۔ اس کی بھی خواہشات ہوتی ہیں ۔ اس کا بھی دل کرتا ہے طرح طرح کی چیزیں کھانے کو ۔ پہننے اوڑھنے کا ۔گھومنے پھرنے کا ۔ اسے گھر میں پرندوں کی طرح بند کردینا اور دو وقت کی روٹی دے کے اِترانا کہ بڑا تیر مارا ۔ یہ انسانیت نہیں ۔ یہ خود غرضی ہے اور پھر ہم جیسا دوسرے کی بہن اور بیٹی کے ساتھ کرتے ہیں وہی ہماری بہن اور بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے”
ان کے آخری جُملے نے حنیف کو ہلا کے رکھ دیا کیونکہ اُس نے کبھی اس انداز سے سوچا نہیں تھا ۔ بولا ” آفرین ہے عرفان بھائی ۔ آپ نے مجھے سوچنے کا ایک نیا زاویہ دیا ”
حنیف واپس پلٹا تو عرفان بولا” آپ کہاں جارہے ہیں؟”
حنیف نے کہا” آئسکریم لینے ۔ وہ آج دوپہر میں نے آفس میں آئسکریم کھائی تھی”

This entry was posted in ذمہ دارياں, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

10 thoughts on “سوچ کا ایک زاویہ

  1. عبدالرؤف

    کہانی اچھی ہے، دراصل یہ بھی محبت کرنے کا ہی ایک انداز ہے 8)

  2. Pingback: سوچ کا ایک زاویہ « Jazba Radio

  3. Nazneen khan

    سلامِ مسنون

    اپنی اور دوسروں کی اصلاح و رہنمائی کے لیئے ایک بہت عمدہ تحریر.

    شوہر و بیوی میں ایثار و قربانی اور ایک دوسرے کے حقوق و لحاظ کا یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو بہت سارے گھریلو مسائل اپنے آپ ختم ہوجائیں.

    نازنین خان

  4. علی فرقان

    سچ کہا آپ نے دنیا مکافات عمل جو بوئیں گے کل وہ ہی کاٹنا ہے آج ھم کسی کی بیٹی کو بیھا کے لائے اور ہماری بیٹی کسی کے گھر جائے گی

  5. Beenai

    جناب افتخار اجمل صا حب،
    السلام و علیکم،
    جواب دینے کا بے حد شکر یہ۔
    مجبوری میری کزن کی یہ ہے کہ وہ خاندان کے کئی بز رگوں کو درمیان میں ڈا ل چکی ہے ۔ کیونکہ خاوند بھی خاندان کا ہی ہے ۔ دونوں کے ماموں ایک ہی ہیں ،جنہوں نے بار ہا سمجھایا ۔ ایک دودن ان کے لیکچر کا اثر قائم رہا اور نکمے میاں نے جاب بھی پکڑی ، بیوی سے اچھی طر ح سلوک بھی کیا مگر ہفتہ دس دن کے اندرہی کسی بات پہ بھڑ ک کے بیوی کو بھی مارا اور جاب پہ بھی لات مار کے گھر بیٹھ گئے ، کسی کا مزاج
    ٹیڑھا ہی ہوتا ہے اور اس کو کسی صورت ٹھیک کر نا ممکن نہیں ۔ بیوی کے والد جب تک زندہ تھے اپنے دامادکو بہت سمجھاتے ۔ خود میرے والد مر حوم نے بھی کزن اور اس کے خاوند کو کھانے پہ بلایا پھر بعد میں الگ الگ دونوں کو سمجھایا مگر ڈھا ک کے تین پات۔ اب تو اللہ ہی ہدایت دے تو دے ،کیونکہ موصوف خاندان کے تمام بز رگوں سے بد کلامی کر چکے ہیں اور سب نے ہاتھ اٹھا لئے ہیں موصوف کی اصلا ح سے ۔
    کئی بزر گ اس دوران انتقال کر گئے اب خاندان میں ایسا کو ئی نہیں جو اپنی بے عزتی کی پرواہ کئے بنا موصوف کو سمجھانے کا ر سک لینے کو آمادہ ہو جائے۔
    موصوف کی واحد خوبی ہے تو بس یہ کہ اپنی دونوں بچیوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنی بیوی کے آفس کے اوقات میں بچیوں کا تھوڑا بہت خیال ر کھ لیتے ہیں ۔
    باقی مار پیٹ ، بیوی پہ شک ، اس کے پر س سے پیسے نکالنا ، گھر کی چیزیں اٹھا کے بیچ ڈا لنا ، بیوی کے ر شتے داروں اور مہمانوں سے بد تمیزی اپنی جگہ پہ ہے ، نکمے پن کی عیاشی سب سے تکلیف دہ ہے مو صوف ایک دھیلہ نہیں کماتے مگر بیوی کو دبا کے رکھنے کے خواہاں ہیں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.