Monthly Archives: October 2015

ایک اور دھاندلی

لو جی تختِ پنجاب یعنی لاہور میں ایک اور دھاندلی ہو گئی ہے
بھلا یہ کوئی بات ہے ؟
ہم نیا پاکستان بنانے کیلئے رات دن تقریریں کر رہے ہیں پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں ۔ دھرنے دیتے ہیں جلسے کرتے ہیں ۔ دھاندلی کا شور مچاتے ہمارے گلے پک گئے ہیں اور یہ عوام کے دُشمن لاہور والے ہمیں نیا پاکستان بنانے نہیں دیتے ۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں (ہم نہیں ۔ لوگ لیکن پتہ نہیں کہاں) اور انہوں نے میٹرو کے بعد اب قوم کا اور پیسہ برباد کر دیا ہے ۔ بھلا رکشوں میں کوئی غریب بیٹھتے ہیں اور غریبوں کو روٹی نہیں ملتی اُنہیں انٹرنیٹ کا کیا پتہ

لاہور والوں سے معذرت

Riksha with internet

نیا پاکستان ؟ ؟ ؟

کسی مفکّر نے کہا تھا ”حیف ایسی قوم پر جس نے اپنے مُلک کے نشان (جھنڈے) کی عزّت نہ کی“۔
ساری دنیا میں قومی پرچم کا احترام کیا جاتا ہے
ہمارے اسلاف کا کردار یہ تھا کہ جھنڈا اُٹھانے والا ایک مسلمان شہید ہو کر گرنے سے پہلے دوسرا مسلمان لپک کر جھنڈا سنبھال لیتا اور جھنڈے کو سرنگوں نہ ہونے دیا جاتا ۔ اسی لئے شاعر نے کہا تھا

کٹ تو گئی پر جھُکی نہ گردن یہ تھی شان تمہاری
ہاتھ کٹے پر گِرا نہ جھنڈا ۔ دل والوں کے کام Abrarul Haq 1Abrrul Haq 2

ہمارے مُلک کو نیا پاکستان بنانے کے نعرے لگانے والوں نے پورے مُلک میں طوفان مچا رکھا ہے
کیا یہ نیا پاکستان قومی پرچم کو پاؤں نیچے روند کر بنایا جائے گا ؟
ملاحظہ ہو نیا پاکستان بنانے کی دعویدار جماعت کے ایک جلسے میں لی گئی دو تصاویر ۔
ایک میں ان کے ایک بڑے لیڈر (ابرار الحق) سٹیج پر کھڑے نظر آ رہے ہیں اور دوسری میں اس کے ساتھ ایک اور لیڈر بھی ہیں جنہیں میں نہیں پہچان سکا ۔ دیکھیئے کہ یہ حضرات کھڑے کس پر ہیں

خیال رہے کہ یہ فوٹو شاپ کا کمال نہیں ہے

ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

ايک گيت بہت مشہور ہوا تھا ۔ کسی نے اُس کا سوانگ (parody) لکھا تھا ۔ نیچے پہلے اصل گیت اور پھر اس کا سوانگ

اصل گیت

اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم ۔ ۔ ۔ معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن ۔ ۔ ۔ رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں ۔ ۔ ۔ آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام ۔ ۔ ۔ اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری ۔ ۔ ۔ لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں ۔ ۔ ۔ تو مرے غم کو لا دوَا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے ۔ ۔ ۔ اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پُوچُھوں ۔ ۔ ۔ جانے تو بے رُخی سے کیا کہہ دے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ چارہء درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اِتنی خُوشی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔ پیار گو جاوداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔آنے والے دِنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔اِس تہی دامنی کے عالم میں
جو مِلا ہے، وہی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔ میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چھوڑ کر ساحل ِ مراد چلا ۔ ۔ ۔ اب سفینہ مِرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا مِرا مقدر ہے ۔ ۔ ۔ اور ترے ہونٹ انگبیں ٹھہرے
کِس طرح تیرے آستاں پہ رکوں ۔ ۔ ۔ جب نہ پاوں تلے زمیں ٹھہرے
اِس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے ۔ ۔ ۔ تو نے روکا تھا، ہم نہیں ٹھہرے
میں ترا شیر چھوڑ جاؤں گا
مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے ۔ ۔ ۔ وقتِ رُخصت ،سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لکھا میں نے ۔ ۔ ۔ تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتہء نظر میں بھی ۔ ۔ ۔ تم اُتر جاؤ بام سے پہلے
لے مری جاں میرا وعدہ ہے ۔ ۔ ۔ کل کِسی وقت شام سے پہلے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

سوانگ

اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے ۔ ۔ ۔ ٹيڈی پتلون میں سِلوا لوں
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل ۔ ۔ ۔ ترے کُوچے ميں خود کو پِٹوا لوں
اس سے پہلے کہ تيری فُرقت ميں ۔ ۔ ۔ خُود کُشی کی سکِيم اپنا لوں
اس سے پہلے کہ اک تيری خاطر ۔ ۔ ۔ نام غنڈوں ميں اپنا لکھوا لوں
ميں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کہ وہ عدُو کمبخت ۔ ۔ ۔ تيرے گھر جا کر چُغلياں کھائے
اس سے پہلے کہ دیں رَپٹ جا کر ۔ ۔ ۔ تيرے ميرے شريف ہمسائے
اس سے پہلے کہ تيری فرمائش ۔ ۔ ۔ مجھ سے چوری کا جُرم کروائے
اس سے پہلے کہ اپنا تھانيدار ۔ ۔ ۔ مرغ تھانے ميں مجھ کو بنوائے
ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

تجھ کو آگاہ کيوں نہ کر دوں ميں ۔ ۔ ۔ اپنے اس انتظام سے پہلے
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے ۔ ۔ ۔ اپنی مَرگِ حرام سے پہلے
کوئی ايسی ٹرين بتلا دے ۔ ۔ ۔ جائے جو تيز گام سے پہلے
آج کے اس ڈِنر کو بھُگتا کر ۔ ۔ ۔ کل کسی وقت شام سے پہلے
ميں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ دل کی گردن مروڑ جاؤں گا