قابلِ غور

دوسروں کی زندگی کو مشکل بنا کر اُنہیں صبر کی تلقین کرنا
ایسا ہی ہے جیسے کوئی چیز آگ میں ڈال کر اُسے کہا جائے کہ
”جلنا نہیں“۔
مفتی اسمٰعیل منک

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” A Perpetual Wait for Justice “

This entry was posted in روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “قابلِ غور

  1. Fatma khan

    جی محترمی

    سلام مسنون

    دبئی میں آپ کے آخری روزے عمدگی سے پورے ہورہے ہونگے. آپکی فرمابردار اولاد ویسے بھی جی جان سے آرام و تکلیف کا خیال رکھ رہی ہوگی.

    آج کل کے بگڑے ہوئے معاشروں میں بہت کم ہوتا ہے کہ اولاد نیک و خدمت گزار ہوتی ہو. رہی سہی کثر شادی کے بعد بیویاں پوری کردیتی ہیں چونکہ وہ خود بھی اسی بگڑے ہوئے معاشرے کا حصّہ ہوتی ہیں.

    آپ بچوں کے پاس رمضان گزارنے دبئی گئے ہوئے ہیں تو یقینن آپ کی عولاد نیک و صالح ہوگی. آپ کو مبارک ہو.

    آپ کا مضمون بھی اسی بات کی طرف دلالت کرتا ہے کہ بگڑے ہوئے لوگ جب کسی کی برائی چاہتے ہیں تو اپنے فعل و عمل سے بد پیچھے ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتے ہیں اور سامنے آکر اچھے Outcome کی توقع رکھتے ہیں… اور اسی بلاگ پر آپ کے دوسرے مضمون پر کومنٹس سے معذرت چاہتی ہوں چاہے آپ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں.

    فاطمہ خان

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محترمہ فاطمہ اشرف صاحبہ وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ
    آپ کے حسنِ تخاطب کا مشکور ہوں اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ الحمدللہ ۔ اللہ کی کرم نوازی ہے رمضان اچھا گذر رہا ہے ۔ ماشاء اللہ ایک پوتا (6 سال) اور ایک پوتی (سوا 3 سال) ہیں ۔ الحمدللہ وہ بھی ہم سے بہت پیار کرتے ہیں ۔ دن گذرتے پتہ نہیں چلتا ۔ بچے تو زور دیتے ہیں کہ ہم اُن کے ساتھ ہی رہیں لیکن یہاں کا موسم مجھ سے برداشت نہیں ہوتا
    باقی بی بی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی بہت مہربان ہے ایک نیک عمل کا 10 دنیا میں اور 70 آخر میں دیتا ہے جبکہ ایک بُرے عمل کا صرف ایک ۔ لیکن بات ہے سمجھ کی
    رابطہ و تعارف میں میرا ای میل کا پتہ لکھا ہے ۔ اگر آپ کوئی بات تبصرہ کے خانہ میں لکھنا مناسب خیال نہ کریں تو ای میل میں لکھ کر بھیج سکتی ہیں

  3. wahaj d ahmad

    اگرچہ فاطمہ بہن کی ساری بات سے مجھے اتفاق ہے لیکن ایک نصیحت یاد آ رہی ہے ۔ حال ہی مین میننے یہ بلاگ لکھا تحا صرف یاد دہانی کے لئے کوٹ کر رہا ہوں بلکہ اجمل بھائ پہ رشک آ رہا ہے ہم اپنے صاحبزادے کے ہاں ایسے مزے لوٹنے کا خیال بھی نہیں کر سکتے اللہ آپ کو جزائے خیر دے اللہ سے دعا کیجئیَ میں بھی ایسا وقت اپنے پہتے پہتی کے ساتھ گزار سکوں
    A saying of Ali Ibn Abi Talib
    لا تکرھوا اولادکم علےا مثل اخلاقکم – فانّھم خلقوا لزمان غیر زمانکم
    Try to translate it
    “Do not force culture (way of life)on your children for they were born in a different period than your s”
    This carries a very good and important message for parents in all times. We tend to feel what we have learned is better and children must conform to our ‘way of life’ so we get annoyed when we find them doing things of ‘their way of life’
    I am not talking about religious teachings and duties etc. but since we ‘teach’ them everything we consider it our right to see they follow us to the letter even ‘non-religious teachings.
    I have seen so many changes in “culture” in my life time from one place to the other and one time to other that I have come to see this saying more seriously, how instructive it is

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بھائی وھاج الدین احمد ساحب
    یہ سب اللہ کا کرم ہے کہ بچے والدین کا بہت خیال کرتے ہین اور اپنے بچوں کو بھی تلقین کرتے ہیں ۔ 1964ء میں والد صاحب نے اپنے بچپن کے دوست سے نمعلوم کیا کہا کہ اُنہوں نے جواب میں کہا ” آپ نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی ہے ۔ اِن شآء اللہ آپ کی اولاد بھی آپ کی خدمت کرے گی“۔ مثل بھی مشہور ہے ” ہر کہ خدمت کرد ۔ او مخدوم شُد“۔
    سب سے بڑی بات ہے کہ جو اللہ کو منظور ہو ۔ ہم دوبار (2004ء اور 2010ء) امریکہ اپنے بڑے بیٹے کے پاس جانے کی کوشش کر چکے ہیں مگر ویزہ نہیں ملا حالنکہ میں ایک بار 1999ء میں جا چکا ہوں
    علی رضی اللہ عنہ کا فرمان باکل درست ہے ۔ اپنی اولاد کو کسی خاص طریقہ کو اپنانے پر زور نہیں دینا چاہیئے صرف اُن کی رہنمائی کرنا چاہیئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.