بچے اور والدین ۔ قصور کس کا ؟

میں نے ایک ہمجماعت اور دوست کے تحریک دلانے پر 1957ء میں عملی نفسیات (Practical Psychology) کا مطالعہ شروع کیا ۔ 1960ء میں ایک دوسرے ہمجماعت دوست نے مجھے بچوں کی نفسیات پر ماہرین کی لکھی ایک کتاب دی جو اُس کے کوئی عزیز امریکہ سے لے کر آئے تھے ۔ کتاب بہت کارآمد اور دلچسپ تھی ۔ اس میں عام رائے کہ ”بچے ناسمجھ ہوتے ہیں“ کے خلاف یہ لکھا تھا کہ بچہ 2 ماہ کا بھی ہو تو اُس کے سامنے ایسی حرکت یا بات نہ کریں جو بچہ بڑا ہو کر کرے تو آپ کو اچھی نہ لگے ۔ اب نمونے کے چند واقعات

میں عزیزوں کے گھر بیٹھا تھا کہ اُن کا پانچ چھ سال کا بیٹا روتا ہوا باہر سے آیا ۔ ماں نے پوچھا ” کیا ہوا ؟“ بولا ”فلاں نے مارا ہے“۔ ماں نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا ” تیرے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے ۔ اس نے ایک لگائی تھی تو تم نے اُسے دو کیوں نہ لگائیں ۔ آئیندہ روتے ہوئے گھر نہ آنا ۔ اپنا بدلا لے کر آنا“۔

ہمارے سمیت چند خاندان ایک گھر میں چائے پر مدعو تھے ۔ اُن کا 4 سالہ بیٹا یہ کہتے ہوئے بھاگتا ہوا آیا ”الف مجھے مارتا ہے ۔ الف مجھے مارتا ہے“۔ چند لمحے بعد الف بھی کمرے میں داخل ہوا جو اس وقت 5 ساڑھے 5 سال کا تھا ۔ خاتونِ خانہ (لڑکے کی ماں) نے الف کو ڈانٹا ”شرم نہیں آتی اپنے سے چھوٹے کو مارتے ہو”۔ پھر الف کے باپ سے شکائت کی ” آپ اسے اچھی تربیت دیں“۔ الف کے باپ نے الف کو ایک چپت لگائی اور ڈانتے ہوئے کہا ”کیوں مارا ہے اُسے ؟“ الف رونے لگا
ایک بزرگ مہمان خاتون نے الف کو چُپ کرایا اور پوچھا ”آپ اچھے بچے ہو ۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا“۔
الف نے بتایا ”ہم دونوں باہر کھڑے پرندے دیکھ رہے تھے کہ اِس نے ایک موٹی لکڑی اٹھا کر زور سے میرے سر پر ماری پھر لکڑی پھینک کر شور مچاتا ہوا اندر بھاگا“۔ُ

میں کسی سے ملنے گیا ۔ مجھے بیٹھک (ڈرائنگ روم) میں بٹھا کر کہا گیا کہ ابھی آتے ہیں ۔ ابھی صاحبِ خانہ بیٹھک میں پہنچے نہیں تھے کہ باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی ۔ میں نے صاحب خانہ کو کہتے سُنا ”جاؤ باہر جو انکل آئے ہیں اُن سے کہو ۔ ابو گھر پر نہیں ہیں“۔

ایک شادی پر گئے ہوئے تھے ۔ کچھ حضرات ایک حلقے میں بیٹھے ایک تین چار سالہ بچے کو کچھ کہتے اور وہ بچہ گندھی گالیاں دینے لگ جاتا اور یہ صاحبان قہقہے لگاتے

ہم 8 پاکستانی خاندان نومبر 1976ء سے جنوری 1983ء تک لبیا میں ایک عمارت میں رہے ۔ ساتھیوں کے بچے بعد دوپہر ہمارے گھر آ کر ہمارے بچوں کے کمرے میں جا کر سب کھلونے نکال لاتے اور کھیلتے رہتے
میرا چھوٹا بیٹا فوزی جب 3 سال کا ہو گیا تو میری بہن نے اُسے پلاسٹک کی بنی ہوئی ایک کار لا کر دی جس میں بچہ بیٹھ کر پیڈل چلائے تو کار چلتی تھی ۔ میرے کزن نے ایک لکڑی کا جِگسا پزل لا کر دیا جس میں لکڑی کی ایک بڑی تختی پر تصویر بنی تھی جو جِگسا پزل کے ٹکڑوں پر بھی بنی تھی تاکہ چھوٹا بچہ تختی پر رکھ کر آسانی سے ٹکڑیاں جوڑ سکے
دوسرے دن فوزی کھیل رہا تھا تو ساتھیوں کے بچے بھی آ گئے ۔ کچھ دیر بعد فوزی کے رونے کی آواز آئی میں لاؤئج میں گیا تو باقی بچے دروازہ کھول کر نکل گئے ۔ میں فوزی کو کمرے میں لے آیا اور پچکار کر چُپ کرایا ۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی ۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا تو ایک ساتھی اپنے 9 سالہ بیٹے آصف کو ساتھ لئے کھڑے تھے ۔ شکائت کی کہ ”فوزی نے آصف کو مارا ہے“۔
حیرانی تو ہوئی کہ 3 سالہ کمزور سے بچے نے 9 سالہ اچھی صحت والے کو کیسے مارا ۔ خیر ۔ میں نے فوزی سے پوچھا ”آپ نے اسے کیوں مارا ؟“
فوزی بولا ”انہوں نے میری کار توڑ دی پھر آصف جِگسا مجھ سے چھینتا تھا ۔ میں گر گیا اور جِگسا اس کے منہ پر لگا“۔
میں نے آصف سے پوچھا ”فوزی ٹھیک کہہ رہا ہے ؟“ تو اُس نے ”ہاں“ کہا
میں نے کار کو دیکھا تو اُس کے اگلے پہیئوں کا ایکسل ٹوٹا ہوا تھا ۔ میں نے فوزی سے وجہ پوچھی
فوزی نے بتایا ”کہ میں کار پر بیٹھا تھا تو آصف ۔ عاصم اور اویس کار پر چڑھ گئے اور کار ٹوٹ گئی“۔
7 سالہ عاصم اور آصف بھائی تھے ۔ 8 سالہ اویس ایک اور ساتھی کا بیٹا تھا ۔ آصف اور اویس اُونچے قد کے ساتھ موٹے بھی تھے

کچھ دن بعد پھر بچے آئے ہوئے تھے تو شور سُن کر میں پہنچ گیا ۔ دیکھا کہ بچوں کے کمرے میں آصف اور عاصم فوزی کو گھیسٹ کر الماری کے سامنے سے ہٹا رہے تھے ۔ فوزی شور کر رہا تھا ”میں نے کھلونے نہیں دینے ۔ میں ان کے گھر گیا تو اپنے کھلونے دکھائے بھی نہیں ۔ مجھے نکال دیا کہ ہمارے ابو امی ناراض ہوتے ہیں ۔ اپنے گھر جاؤ“۔
میں نے اُن سے وجہ پوچھی تو عاصم بولا ”ہماری امی نے کھلونے الماری میں رکھ کر تالہ لگایا ہوا ہے کہ پاکستان لے کر جائیں گے ۔ بعد دوپہر ہمیں کہتے ہیں جاؤ جا کر باہر کھیلو ۔ ہم نے آرام کرنا ہے“۔
دوسرے دن میں نے دفتر کے راستہ میں اُن کے والد سے ذکر کیا تو مُسکرا کر بولے ”ہاں ۔ ہم بعد دوپہر آرام کرتے ہیں اور بچوں کو باہر نکال دیتے ہیں“۔

کچھ ماہ بعد فوزی کے رونے کی آواز سُن کر میں باہر نکلا تو فوزی نے اپنے دونوں ہاتھ چُلُو بنا کر ناک کے نیچے رکھے تھے جن میں ناک سے خون گِر رہا تھا ۔ میں اُسے اُٹھا کر غسلخانہ میں گیا ۔ اُس کے ہاتھ دھوئے اور سر پر پانی ڈالنا شروع کیا مگر خون بند نہیں ہو رہا تھا ۔ فرِج سے برف لا کر فوزی کے سر اور ماتھے پر رکھی ۔ خون بند ہوا تو پوچھا ”خون کیسے نکلا ؟“
فوزی بولا میں اویس کے گھر گیا ۔ وہاں فُٹبال پڑا تھا ۔ میں نے اُٹھایا ۔ اویس نے مجھ سے چھین کر میری ناک پر زور سے مارا“۔
میں نے پوچھا ”وہاں آنٹی ۔ انکل نہیں تھے ؟“
بولا ”انکل تھے ۔ مجھے کہا کہ نیچے ہاتھ رکھو اور دروازہ کھول کر کہا ۔ گھر جاؤ“۔
میں شام کو اُن کے گھر گیا تو اویس کے والد نکلے ۔ میں نے بات کی تو ہنستے ہوئے بولے ”اویس کا غصہ بڑا سخت ہے ۔ اُس نے فُٹبال اُسے مار دیا تھا تو میں نے گھر بھیج دیا“۔

میں بچپن سے سکے جمع کیا کرتا تھا ۔ پلاسٹک کی بنی 5 انچ قطر کی ایک گُلک بھر گئی تھی اور ایک آدھی تھی جو میں نے دسمبر 1978ء میں اپنے بڑے بیٹے زکریا کو دے دی جو اُس وقت 8 سال کا تھا ۔ مجھے کچھ اور غیرمُلکی سکے ملے تو میں نے زکریا کو دیئے ۔ کچھ دیر بعد زکریا پریشان میرے پاس آیا اور بولا ” ابو ۔ جو گُلک سِکوں سے بھری ہوئی تھی وہ الماری میں نہیں ہے“۔ میں نے جا کر سب جگہ ڈھونڈا مگر گُلک غائب تھی
بچوں کے کھلونے بھی غائب ہوتے رہتے تھے ۔ ایک دن ہم شاپِنگ مال گئے تو لیگو (lego) کئی قسم کے آئے ہوئے تھے ۔ ہم نے بچوں کو تین الگ الگ قسم کے لے دیئے ۔ کچھ دن بعد بچوں نے بتایا کہ ایک پورا لیگو غائب ہے اور باقی 2 آدھے آدھے غائب ہیں
گھر میں سوائے ہمارے اور ساتھیوں کے بچوں کے اور کوئی نہیں آتا تھا جو بچوں کے کمرے میں جائے

زکریا جب 2 سال کا تھا تو اپنے سائے سے ڈرنا شروع ہو گیا ۔ ایک عالمِ دین سے بات کی تو وہ قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھ کر مہینہ بھر دم کرتے رہے جس سے زکریا کا ڈرنا کم ہوا لیکن گیا نہیں ۔ اُن صاحب نے مشورہ دیا کہ قرآن شریف کی 5 سورتیں باریک لکھی ہوئی تعویذ کیلئے ملتی ہیں ۔ وہ تعویز بنا کر زکریا کو پہنا دیں ۔ سو ایسا ہی کیا ۔ غسلخانہ میں جانے کے وقت اُسے اُتار دیتے تھے ۔ جب ہم لبیا میں تھے تو ایک دن زکریا نے بتایا کہ ”میں باتھ روم جا رہا تھا تو تعویز اُتار کر میز پر رکھا تھا ۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا“۔
ایک ڈیڑھ ماہ بعد میری بیگم آصف عاصم کے گھر گئی ہوئی تھیں کہ اُن کی والدہ نے میری بیگم کو وہ تعویز دیتے ہوئے کہا کہ ”بچے یہ شاید زکریا سے لے آئے تھے“۔

کیا ان سب واقعات میں قصور بچوں کا ہے یا والدین کا ؟

This entry was posted in آپ بيتی, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “بچے اور والدین ۔ قصور کس کا ؟

  1. kashif

    بہت خوب۔
    چاھیئے کہ ھر واقعے کے نیچے بچے کی تربیت کا نسخہ بھی اپنے تجربے کی روشنی میں لکھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.