Monthly Archives: January 2015

راہنمائی فرمایئے

محترم قارئین اور قاریات ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
درخواست ہے کہ اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر میری رہنمائی فرمائیں ۔ بہت مشکور ہوں گا
مجھے ایک عدد آئی پیڈ (iPad) یا پی سی ٹیبلٹ (PC Tablet) خریدنا ہے جس میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہوں

1 ۔ سائیز 7 انچ کے لگ بھگ
2 ۔ موجودہ زمانے کا اینڈرائیڈ (Android) ہو
3 ۔ کیمرے 2 ہوں ایک سامنے سکائپ (Skype) کیلئے اور دوسرا پیچھے تصاویر کھینچنے کیلئے
4 ۔ اس میں سِم (SIM) لگ سکے یعنی بطور موبائل فون بھی کام کرے
5 ۔ وائی فائی (WiFi) پر کام کرتا ہو
6 ۔ اس میں اُردو لکھی جا سکتی ہو
7 ۔ وارنٹی والا ہو
8 ۔ قیمت کے معاملہ میں خیال رہے کہ مجھے ضرورت پوری کرنا ہے ۔ کسی پر مہنگی چیز کا رُعب نہیں ڈالنا
ورنہ مائیکروسافٹ سرفیس پرو 3 اور ایپل آئی فون 6 پلس کا مشورہ دینے والے بہت ہیں

اگر آپ اپنی تجویز بلاگ پر لکھنا مناسب خیال نہ کریں یا لکھنے میں دشواری ہو تو مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر ای میل بھیج دیجئے
iftikharajmal@gmail.com

حساب اور تاریخ

اگر گیارہ کروڑ گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ یعنی ایک سو گیارہ ملین ایک سو گیارہ ہزار ایک سو گیارہ کو اتنے سے ہی ضرب دیں یعنی

111,111,111 X 111,111,111

تو حاصل ضرب ہوتا ہے

12,345,678,987,654,321

تاش کے پتوں میں ہر بادشاہ ایک خاص شخص کو بیان کرتا ہے
حُکم ۔ بادشاہ داؤد (King David) ۔ ۔ پان ۔ بادشاہ شارلے مان (Charlemagne) ۔ ۔ چڑیا ۔ بادشاہ سکندرِ اعظم (Alexander, the Great) اور اینٹ ۔ بادشاہ جولِیئس قیصر (Julius Caesar)
The Difference
تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Difference “

میں سڑک پر

جب میں اسلام آباد میں کار لے کر سڑک پر نکلتا ہوں تو جن عوامل سے عام طور پر دوچار ہوتا ہوں ان میں سے چند لکھنے لگا ہوں ۔ ان پر تنقید ہو سکتی ہے اور ان کا مذاق بھی اُڑایا جا سکتا ہے لیکن کچھ قارئین انہیں پڑھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو یہی میرا حاصل و مقصود ہے
یہ واقعات ٹرک ۔ بس ۔ ویگن یا ٹیکسی ڈرائیوروں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں

1 ۔ میں سڑک کی بائیں قطار (lane) میں جا رہا ہوں ۔ بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں موڑ کے قریب پہنچ کر داہنے آئینے میں پھر بائیں آئینےمیں دیکھتا ہوں دونوں اطراف کافی پیچھے تک سڑک خالی ہے ۔ جونہی میں مُڑنے لگتا ہوں ایک تیز رفتار گاڑی میری بائیں جانب سے قوس بناتی ہوئی سیدھی چلی جاتی ہے ۔ اگر اللہ کی مہربانی شاملِ حال نہ ہو جاتی تو شاید میں یہ لکھ نہ رہا ہوتا

2 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میں داہنی طرف سے دوسری قطار میں ہوں کیونکہ مجھے سیدھا جانا ہے ۔ میرے آگے 5 گاڑیاں ہیں ۔ ٹریفک لائٹ سبز ہونے پر سب گاڑیاں چل پڑتی ہیں ۔ میں چوراہے کے قریب پہنچتا ہوں ۔ اچانک میرے بائیں جانب تیسری یعنی بائیں جانب مُڑنے والی قطار سے ایک گاڑی تیزی سے داہنی طرف مُڑ کر میری گاڑی کے سامنے والے بمپر کو مکمل توڑتی ہوئی داہنی طرف چلی جاتی ہے

3 ۔ میں نے بائیں جانب مُڑنا ہے اسلئے بائیں قطار میں ہوں ۔ رفتار کم ہے ۔ مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں مُڑنے کے قریب ہوں کہ ہارن کی آواز آنے لگی ۔ داہنے آئینے میں دیکھا تو دُور تک سڑک خالی نظر آئی ۔ گاڑی کے اندر والے آئینے میں دیکھا تو میرے پیچھے ایک گاڑی تھی ۔ سوچا شاید کوئی جان پہچان والا ہے اور مجھے ہارن سے مطلع کر رہا ہے ۔ پہچان نہ سکا ۔ پھر وہ کار تیزی سے میرے داہنی جانب والی قطار میں آئی اور میرے قریب سے گذرتے ہوئے محترمہ نے مجھے مُکا دکھایا اور کچھ بولتی ہوئی سیدھی چلی گئیں

4 ۔ سڑک پر بائیں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ ان کے داہنی جانب 2 گاڑیاں متوازی کھڑی ہیں ۔ مجھے رُکنا پڑتا ہے ۔ پیچھے اور بہت سی گاڑیاں رُک جاتی ہیں اور اُن کے ہارن بجنے لگتے ہیں ۔ چند منٹ انتظار کے بعد میں گاڑی سے اُتر کر گیا اور جن صاحبان نے سڑک بند کر رکھی تھی سے گاڑیاں ایک طرف کرنے کی مؤدبانہ درخواست کی ۔ موصوف جوان انتہائی بیزاری اور بدتمیزی کے ساتھ گویا ہوئے ” اُدھر کہیں سے نکال لو گاڑی ۔ ڈسٹرب نہیں کرو“۔

5 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میرے داہنی طرف داہنی جانب مڑنے والی قطار ہے ۔ بائیں جانب 2 قطاریں ہیں ۔ اشارہ کھُلنے پر گاڑیاں چلتی ہیں ۔ میں چوراہے کو عبور کر چکا ہوں ۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی میرے اور میرے بائیں جانب والی گاڑی کے درمیان گھُس کر زبردستی میری گاڑی کے آگے گھُسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ میں یکدم بریک لگاتا ہوں مگر وہ میری گاڑی کی بائیں ہیڈ لائیٹ کے بائیں جانب کو پچکا دیتی ہے ۔ اُس گاڑی کو روک لیا جاتا ہے گاڑی والے صاحب باہر نکلے بغیر مجھے ڈانٹ پلاتے ہیں ” اِن کو کار چلانا نہیں آتی ۔ اِن کی ٹائیمنگ غلط ہے ۔ دیر سے بریک لگائی ہے“۔ اور گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں

6 ۔ پارکنگ ایریا میں ایک گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ دیکھ کر مُڑنے کا اشارہ دیا اور گاڑی پارک کرنے لگا ۔ ساتھ والی گاڑی باہر نکلنا شروع ہو گئی اور مجھے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ جب جگہ بن گئی تو میں گاڑی پارک کرنے کو آگے بڑھا لیکن ایک گاڑی بڑی تیزی سے زبردستی گھُس کر وہاں کھڑی ہو گئی اور گاڑی والے صاحب جلدی سے نکل کر یہ جا وہ جا ۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا

7 ۔ سروس روڈ پر سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ میں جانا چاہتا ہوں داہنے بائیں دیکھ کر کہ کوئی گاڑی نہیں آ رہی گاڑی رِیوَرس (reverse) کرتا ہوں ۔ آدھی گاڑی پیچھے آ چکی ہے کہ اچانک پیچھے سے موٹر سائیکل اور کاریں گذرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کافی انتظار کے بعد گاڑیاں تھمتی ہیں تو جلدی سے گاڑی پیچھے لیجاتا ہوں ۔ مڑنے لگتا ہوں تو دیکھتا ہوں میں دونوں طرف سے گاڑیوں میں گھِر گیا ہوں اور موٹر سائیکل آگے سے گذرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ چند لمحے بعد ہارن بجنے شروع ہو جاتے ہیں لیکن کوئی شخص اتنا نہیں کرتا کے اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے ہٹائے تاکہ میں گاڑی نکال لوں اور راستہ کھُل جائے

8 ۔ میں پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے چلتا ہوں ۔ مارکیٹ میں داخل ہونے سے قبل بے خیالی میں داہنی طرف دیکھتا ہوں تو چونک جاتا ہوں ۔ ایک جوان میری گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی آڑی کھڑی کر کے چل دیئے ہیں ساتھ ایک جوان خاتون بھی ہیں ۔ اُن کے پاس جا کر مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ 2 گاڑیوں کے بعد بہت جگہ ہے اپنی گاڑی میری گاڑی کے پیچھے سے ہٹا کر اُدھر کھڑی کر دیجئے ۔ موصوف میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور خاتون سے گپ لگاتے چلے جا رہے ہیں ۔ میں 3 بار عرض کرتا ہوں مگر بے سود ۔ آخر میں اُس جوان کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر غُصیلی آواز میں کہتا ہوں ”گاڑی ہٹائیں وہاں سے“۔ تو صاحب واپس جا کر گاڑی ہٹاتے ہیں ۔ کیا میرے ہموطن صرف ڈنڈے کی بات سمجھتے ہیں ؟

پشاور موڑ ؟ ؟ ؟

بات تو پشاور موڑ کی کرنا ہے لیکن پہلے دو شعر جو پشاور موڑ کے قریب ہی پڑھنے کو ملے
جی 9 مرکز میں یوٹیلیٹی سٹور کے پیچھے والے احاطہ میں قصاب کی ایک دکان پر لکھا ہے
وہ مجھ سے ہو جائیں ناراض ۔ کوئی گِلہ نہیں
خفا ہو کے مجھ سے ۔ میرا شہر تو نہ چھوڑیں

ایک ٹرک کے پیچھے لکھا تھا
سانپ بند کر دیئے سپیرے نے کہہ کر یہ
انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لئے

اسلام آباد سکٹرز جی 9 ۔ ایچ 9 ۔ جی 8 اور ایچ 8 کے درمیان شاہراہ کشمیر اور نائنتھ یا آغا شاہی ایونیو جہاں ایک دوسری کو کاٹتی ہیں اس چوراہے ۔ چوک یا چورنگی کا نام پشاور موڑ مشہور ہو گیا ہوا ہے ۔ یہاں ایک انٹر چینج یا شاید سڑکوں کا گورکھ دھندا بن رہا ہے

جن لوگوں نے اسے تعمیر کیلئے بند ہونے سے قبل یعنی 9 ماہ قبل دیکھا تھا ۔ کیا وہ انٹر چینج بن جانے کے بعد اسے پہچان سکیں گے ؟
میں تو سرگرداں ہوں کہ ہفتہ وار بازار المعروف اتوار بازار کیسے جاؤں گا

ماڈل کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگائیے

Peshawar Morr Interchange

بیوقوف کی پہچان

میں اُن دنوں گیارہویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔ رہائش راولپنڈی شہر میں تھی ۔ چند ہمجماعت آئے کہ یومِ آزادی منانے کیلئے راجہ بازار سجایا گیا ہے چلو دیکھتے ہیں ۔ میرے لئے یہ پہلا موقع تھا سو چل پڑا ۔ راجہ بازار پہنچے تو بہت لوگ تھے جن میں زیادہ تعداد جوانوں کی تھی ۔ عورتیں اور لڑکیاں بھی تھیں مگر کم تعداد میں ۔ ابھی تھوڑا ہی چلے تھے تو مجھے پریشانی شروع ہوئی کہ یہ جگہ سیر کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ میں نے واپسی کا ارادہ ظاہر کیا تو ساتھیوں نے کہا ” تھوڑا سا تو دیکھ لیں“۔ اور ہم ہجوم میں سے تیز تیز راستہ بنانے لگے ۔ ہم نے دیکھا کہ آگے کچھ لڑکیاں ہیں تو راستہ بدل کر نکلنے کی کوشش کی ۔ کچھ جوان جو سامنے سے آ رہے تھے وہ لڑکیوں کے قریب سے ہو کر گذرے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اُنہوں نے کیا کیا لیکن لڑکیوں کی رفتار تیز ہو گئی جیسے کوئی پریشانی میں بچ کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس پر ہم سب واپس ہو لئے ۔ بھیڑ کی وجہ سے رفتار کافی سُست تھی تھوڑی دیر بعد ایک ساتھی نے کہا ”وہی بدمعاش پھر آ رہے ہیں“۔ میں اُن کی طرف غور سے دیکھنے لگا ۔ وہ 3 صحتمند لڑکے تھے ۔ اچانک وہ تیزی سے اپنے داہنی طرف کو گئے ۔ میں نے جو اُدھر نظر کی تو دیکھا کہ کچھ لڑکیاں آ رہی ہیں ۔ پلک جھپکنے سے بھی پہلے میں لپک کر اُن میں درمیان والے لڑکے کے سامنے پہنچا جو اُن کا لیڈر لگتا تھا اور پوری قوت سے اُسے دھکا دیا ۔ اس ناگہانی دھکے سے وہ سنبھل نہ پایا اور سڑک پر گرا ۔ وہ اُٹھ کر مجھ پر کودا مگر بڑے لوگوں نے اُسے اور اس کے ساتھیوں کو قابو کر لیا اور مجھے جانے کا کہا ۔ میں اگر بیچ میں نہ آتا تو وہ لڑکے سیدھے اُن لڑکیوں سے ٹکرا جاتے اور نامعلوم مزید کیا کرتے

واپسی پر میرے ساتھی کہنے لگے ” بیوقوف ذرا دیکھ کر تو ہاتھ ڈالتے ۔ تم سے دو گنا طاقتور تھا ۔ لوگ بیچ میں نہ پڑتے تو اُس نے تمہارا قیمہ بنا دینا تھا“۔ مگر مجھے اپنے کئے پر کوئی افسوس نہ تھا (ہوا جو بیوقوف)

میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ لاہور میں انجینئرنگ کی سٹیشنری الفا میاں قلعہ گوجر سنگھ اور ڈرائینگ اینڈ سروے سٹور انارکلی میں ملتی تھی ۔ الفا میاں مہنگا تھا اسلئے میں اور میرے جیسے لڑکے انارکلی سے سامان لیتے تھے ۔ ایک دن انارکلی سے ہو کر میں اور ایک ساتھی واپس آ رہے تھے کہ جی پی او کے سٹاپ سے بس پر چڑھیں گے ۔ وہاں انتطار کیا بس آئی اور بھری ہوئی تھی کھڑی نہ ہوئی ۔ کچھ اور ہمجماعت بھی پہنچ گئے تھے ۔ فیصلہ پیدل چلنے کا ہوا ۔ مال کے کنارے جا رہے تھے ۔ باقی ساتھی بار بار رُک جاتے تو مجھے اُن کی انتظار کرنا پڑتی ۔ میں نے اعتراض کیا تو ایک بولا ”یار 13 کلو میٹر پیدل جانا ہے ۔ آنکھیں سینکتے ہوئے جا رہے ہیں کہ سفر کٹ جائے ۔ مجھے بُرا لگا اور کہہ دیا ”کچھ کرنے کے قابل ہو تو لے جاؤ کسی کو ساتھ ۔ یوں ہیجڑوں کی طرح کیا دانت نکال رہے ہو“۔
ایک صاحب بولے “یار ۔ تم تو ہو بیوقوف ۔ باقی سب کو تو اپنے جیسا نہ سمجھو“۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشگوار زندگی

زندگی کو خوشگوار بنانے کیلئے ضروری ہے
کہ
آنکھیں لوگوں میں اچھائی تلاش کریں
دل بڑی سے بڑی غلطی معاف کر دے
دماغ برائی کو بھول جائے
لیکن
اللہ کے احکام کبھی نہ بھولے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Missing Peace “