Yearly Archives: 2014

پیار کا ایک اور رُخ

میں اپنی چھوٹی پوتی ھناء کے پیار کا طریقہ لکھ چکا ہوں
میرا پوتا ابراھیم ہمارے ساتھ پیار کا زبان سے بہت کم اظہار کرتا ہے ۔ وہ ابھی ایک سال کا تھا کہ ہم ایک ماہ کیلئے دبئی گئے تو اُس نے ہمیں پہلی بار دیکھا اور چند1932351_10152391747461156_6284905569951163734_nFB دنوں میں بہت مانوس ہو گیا ۔ ابراھیم کی دادی صوفہ پر بیٹھ کر نماز پڑھتیں تو ابراھیم ہاتھ پاؤں پر چلتا اُس کے پاس پہنچ جاتا اور دادی کی ٹانگ کے سہارے اُس کے سامنے کھڑا ہو جاتا ۔ جب دادی رکوع یا سجدے کیلئے جھُکتیں تو وہ دادی کو گال پر چوم لیتا ۔ یہ ابراھیم کا معمول بن گیا

میں بڑے صوفہ پر بیٹھا ہوتا تو ابراھیم میرے قریب آ کر اشارے سے صوفے پر بیٹھنے کا کہتا ۔ میں اُسے اُٹھا کر بٹھا دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھِسکنا شروع کرتا اور میرے ساتھ جُڑ کر بیٹھ جاتا ۔ چند منٹ بعد وہ اپنا ایک پاؤں میری ٹانگ پر رکھ دیتا ۔ تھوڑا تھوڑا کھِسکتے کسی طرح زور لگا کر ابراھیم میری گود میں پہنچ جاتا اور سر پیچھے کو جھُکا کر اُوپر میرے چہرے کی طرف دیکھتا ۔ اس پر میں اُسے گلے لگاتا اور پیار کرتا تو ابراھیم بہت خوش ہوتا ۔ یہ بھی اس کا معمول بن گیا

اگلی بار ہم گئے تو ابراھیم ڈیڑھ سال کا تھا ۔ اب طریقہ بدل گیا ۔ ابراھیم میرا ہاتھ پکڑ لیتا اور مجھے کھینچتا ہوا اپنے کمرے میں لیجاتا ۔ وہاں مجھے گیند یا دوسرے کھلونے نکالنے کا کہتا ۔ جب میں نکال کر اُسے دیتا تو خود اُن سے کھیلنے کی بجائے مجھے اُن سے کھیلنے کا کہتا ۔ میں کھیلتا اور وہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ۔ کبھی مجھے بلاکس یا لِیگو سے مکان بنانے کا کہتا ۔ میں بناتا ۔ جب مکان مکمل ہونے کو ہوتا تو تھوڑا توڑ دیتا اور اسے مکمل کرنے کا کہتا ۔ ایک دن ابراھیم نے 3 بار مکان توڑا تو میں اُٹھ کر صوفہ پر بیٹھ گیا ۔ ابراھیم مجھے کنکھیوں سے دیکھتا رہا اور تھوڑی دیر بعد صوفہ پر چڑھ کر میرے قریب بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے وہی کیا جو ایک سال کی عمر میں کرتا تھا۔ اس اضافے کے ساتھ کہ مجھے لپٹ کر چوم لیا ۔ میں نے ہنس کر ابراھیم کو پیار کیا تو کھِل اُٹھا ۔ بعد میں مجھے کہنے لگا اب بنائیں میں نہیں توڑوں گا

جون 2012ء میں ہم 2 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ اس دوران وہ لیگو یا جِگ سا پزل نکالتا اور خود جوڑنے لگ جاتا جہاں سمجھ نہ آتی یا اُس سے نہ بن رہا ہوتا تو میری طرف دیکھنے لگ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں تھا ۔ مطلب یہ ہوتا کہ میں مدد کروں ۔ کبھی کہتا میرے سات آنکھ مچولی ( لُکن مِیٹی یا چھپن چھوت ۔ انگریزی میں ہائیڈ انیڑ سِیک) کھیلو

اس سال ہم جنوری میں 3 ماہ کیلئے دبئی گئے ۔ ابراھیم ماشاء اللہ ساڑھے 4 سال کا تھا اور نرسری سکول جاتا تھا ۔ کبھی کاغذ پر لکھ کر I love Dada مجھے دے جاتا اور کبھی I love Dado لکھ کر اپنی دادی کو دیتا ۔ ایک دن کاغذ پر خلائی جہاز (Space Ship) بنا کر اُس میں ایک پائلٹ بنا دیا اور سامنے ایک عورت بنا کر اُسے کے ہاتھ میں بڑا سا گُلدستہ بنا دیا ۔ پھر آ کر بتانے لگا کہ خلائی جہاز میں دادا ہیں (انجنیئر جو ہوا) ۔ اور گلدستہ والی دادی ہیں ۔ جب واپسی میں چند دن رہ گئے تو 2 بڑے کاغذ لے کر ان پر اچھی کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ بنائے جس طرح کا اُسے سکول سے ملا تھا اور نیچے لکھا دستخط ۔ ابراھیم ۔ ایک دادا کیلئے تھا اور ایک دادی کیلئے (Certificate of Good Performance for Dada, Signed by: Ebrahim )
کبھی کہتا آئی پیڈ پر میرے ساتھ ساتھ ٹینس وغیرہ کھیلو

گذشتہ عیدالاضحےٰ پر ہمارے پاس اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ دن میں کم از کم ایک بار ابراھیم میرے قریب آ جاتا لیکن بولتا کچھ نہیں ۔ میں پکڑ کر گودی میں بٹھاتا تو مجھ سے لپٹ جاتا ۔ واپس جانے سے ایک دن قبل ابراھیم نے اپنی دادی سے ایک کاغذ مانگا ۔ تو اُنہوں نے دے دیا ۔ اُس پر کچھ لکھنے لگا تو دادی کہیں اور مصروف ہو گئیں ۔ اُن کے جانے کے بعد وہ کاغذ میز پڑا پایا تو اُٹھا کر دیکھا ۔ اس پر لکھا تھا ” I love you”

کون کہتا ہے پاکستان غریب ہے ؟

اُمید ہے کہ آپ ” اے اہلِ وطن ۔ کبھی سوچا آپ نے ؟“ پڑھ چکے ہوں گے ۔ اسی حوالے سے ایک اور

پاکستان کو اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ نے ہر نعمت سے مالا مال کیا ہے ۔ جس میں سب سے اہم ذہانت اور کام کرنے کی صلاحیت ہے ۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں ایک بچے کا اپنے گاؤں میں بنایا ہوا سول انجنیئرنگ کا ماڈل دیکھیئے اور اس بچے کی ذہانت اور سوچ کی داد دیجئے
Bright Boy

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” I Am Just A Kid “

فلسطین سے ہجرت

والد صاحب مارچ 1930ء میں مصر گئے تھے ۔ چند سال بعد دادا جان جو اُن دنوں حیدرآباد دکن میں تھے نے تقاضا کیا کہ ”مجھ سے اب کاروبار نہیں سنبھالا جاتا اسلئے واپس آ جاؤ“ ۔ سو والد صاحب مصر میں کام سمیٹ کر واپس آ گئے اور جنوبی ہندوستان میں دادا جان کا کاروبار سنبھال لیا جس میں فوج کو ضروریاتِ زندگی کی سپلائی کا کام بھی شامل تھا ۔ برطانیہ سے نیا کرنل کوارٹر ماسٹر تعینات ہوا ۔ اُس نے دادا جان کو ”بلڈی انڈین“ کہہ کر مخاطب کیا تو دادا جان نے اُسے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ۔ وہ وائسرائے ہند کا رشتہ دار تھا ۔ اُسی دن دہلی روانہ ہوا اور دادا جان کی کمپنی کو بلیک لسٹ کروا دیا ۔ اُنہی دنوں والد صاحب کو فلسطین میں کاروبار مل گیا اور وہ سب کو اپنے گھر جموں میں چھوڑ کر فلسطین چلے گئے ۔ وہ کبھی والدہ صاحبہ کو ساتھ لیجاتے کبھی ہندوستان چھوڑ جاتے تھے ۔ 1946ء میں آئے اور والدہ صاحبہ اور میرے چھوٹے بھائی کو ساتھ فلسطین لے گئے ۔ فلسطین میں 1947ء میں اللہ نے مجھے ایک اور بھائی عطا کیا

فلسطین میں یورپ سے آئے یہودیوں (صیہونیوں) نے فلسطین کے باسی مسلمانوں پر حملے اور اُن کی املاک پر قبضہ شروع کر دیا ۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے محلے جانا یا اس کے قریب سے گذرنا موت کو آواز دینا بن چکا تھا

اگست 1947ء تک ہمارے علاقے یعنی ریاست جموں کشمیر میں کوئی گڑبڑ نہ تھی اور سب کو کامل یقین تھا کہ جموں کشمیر پوری ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی ۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ ریاست پاکستان کا حصہ ہی بنتی تھی ۔ اگست 1947ء کے آخر میں معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کو تقسیم کر کے بھارت کو کٹھوعہ کے راستے جموں کشمیر کا راستہ دے دیا گیا ہے ۔ ستمبر 1947ء میں بھارت سے آئی ہوئی ہندو مہاسبھا ۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور اکالی دَل کے مسلحہ دستوں نے بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے صوبہ جموں کے دیہات میں مسمانوں کی مار دھاڑ اور املاک کو آگ لگانا شروع کر دی ۔ ہوتے ہوتے بات شہر جموں تک پہنچی ۔یہ خبریں جب فلسطین پہنچیں تو میرے والدین پریشان ہوئے اور واپسی کا سوچنے لگے ۔ جموں سے اپنی ہجرت کا حال تو میں لکھ چکا ہوں ۔ دیکھئے پیراگراف 26 تا 31 ۔

اکتوبر شروع ہو چکا تھا ۔ والد صاحب کچھ فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ بمبئی کے راستے جموں جائیں یا پاکستان ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کوئی ہوائی جہاز نہیں جا رہا اور بمبئی جائیں تو بھارت سے کسی مسلمان کو ریاست جموں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ پریشانی میں اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار اُنہیں موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دنیا

یہ دنیا سائے کی طرح ہے
سائے کے پیچھے بھاگو تو وہ آگے بھاگتا جائے گا
اس کی طرف پیٹھ کر لو تو اُس کے پاس سوائے پیچھے چلنے کے کوئی چارہ نہیں
محمد ابن ابو بکر المعروف ابن القیّم (691 ھ تا 751 ھ ۔ 1292 ء تا 1350ء)

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Prelude to War ”

تبدیلی کی 60 سالہ تاریخ

آہستہ چلو ۔ کہ روانی آئے ۔ ۔ ۔ جو بات بگڑتی ہو ۔ وہ بنانی آئے
انجام جس کا نہ معلوم ہو شاداب ۔ ۔ ۔ کیا خاک تمہیں وہ کہانی آئے

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ماضی میں 2 اہم تبدیلیاں ملتی ہیں
1 ۔ اسلام کا پھیلنا
2 ۔ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا

مندرجہ بالا دونوں تبدیلیوں کے محرک اعلٰی فکر و عمل کے مالک اسلاف تھے ۔ یہ تبدیلیاں کئی دہائیوں کی لگاتار پُرخلوص محنت کا نتیجہ تھیں اور بتدریج وقوع پذیر ہوئیں ۔ اِن کے بر عکس پچھلی 6 دہائیوں سے جو لوگ تبدیلی کا غوغا کرتے آ رہے ہیں اِن میں اُن جیسی ایک بھی خوبی نہیں پائی گئی ۔ چنانچہ اِنہوں نے صرف انتشار ہی پھیلایا ہے

پاکستان میں تبدیلی کی پہلی یلغار
1954ء میں میری ملاقات بچپن کے دوست سے 7 سال بعد ہوئی ۔ جب میں گارڈن کالج میں فرسٹ ایئرمیں داخل ہوا وہ سیکنڈ ایئر میں تھا ۔ ایک دن میرے پاس آیا 50 کے لگ بھگ اشتہار مجھے تھماتے ہوئے بولا ”جب چھُٹی ہو تو لڑکوں میں بانٹ دینا“۔
میں نے پوچھا ”یہ ایپسو (آل پاکستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور یہ اجتماع کیا ہے ؟“
بولا ”یہ سارے پاکستان کے طلباء کی نمائندہ ہے اور کوئٹہ میں اجتماع ہو گا جہاں پورے پاکستان کے کالجوں کے طلباء آئیں گے اور علمی گفتگو ہو گی ۔ ہم نوجوانوں میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں جس سے مُلک میں تبدیلی لائیں گے ۔ گھِسے پِٹے دماغوں کی جگہ جدید علوم سے واقف تازہ دماغ کام کریں گے ۔ مُلک ترقی کرے گا“۔

میں روزانہ عصر کے بعد باسکٹ بال کھیلنے کیلئے کالج جایا کرتا تھا ۔ اجتماع ہو جانے کے بعد ایک دن میں گیا تو کوئی لڑکا باسکٹ بال کھیلنے نہیں پہنچا تھا ۔ میں کالج کے برآمدوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک بند کمرے سے مدھم آوازیں آئیں ۔ کھڑی اور دونو دروازے اندر سے بند تھے ۔ ایک دروازے میں چابی کا سوراخ تھا ۔ اُس میں دیکھنے کی کوشش کی مگر کسی کا چہرہ نظر نہ آیا ۔ کان لگا کر سُنا تو میرا ماتھا ٹھنکا ۔ کہا جا رہا تھا ”حسبِ معمول اجتماع پر جماتیئے (اسلامی جمیعتِ طلباء) چھائے ہوئے تھے ۔ ہم نے کرائے کے داڑھی والے لئے جنہوں نے اجتماع میں شور و غُل اور مار دھاڑ کی ۔ پولیس نے اُنہیں پکڑا تو اُنہوں نے اسلامی جمیعتِ طلباء کا نام لیا جس پر جمیعت کے سارے کرتا دھرتا دھر لئے گئے“۔ اس کے بعد ایک دبا دبا قہقہ لگا ۔ یہ کوئٹہ کے اجتماع میں اپنی کارستانیوں کی داستان سُنائی جا رہی تھی ۔ ایک آواز میں نے پہچان لی ۔ وہ میرے دوست کی تھی جس نے مجھے اشتہار بانٹنے کو دیئے تھے

اگلے روز انجان بن کر اُس سے اجتماع کی کاروائی کا پوچھا تو بولا ”کیا بتاؤں بہت اچھا اجتماع ہو رہا تھا کہ جماتیوں نے حملہ کر دیا اور مار دھاڑ شروع کر دی ۔ سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا“۔
چند دن بعد مجھے بہاولپور سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے چوتھے سال کے طالب علم کا خط ملا ۔ یہ صاحب میرے ایک عزیز کے ہم جماعت ہونے کی وجہ سے میرے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے تھے ۔ ان کی آزاد خیالی مشہور تھی لیکن اُنہوں نے لکھا تھا ”اگر آپ ایپسو کے رُکن ہیں تو فوری طور پر لکھ کر اس سے مستعفی ہو جائیں اور ان سے دُور رہیں ۔ یہ لوگ ہمدرد کے بھیس میں ہمارے دشمن ہیں ۔ تفصیل جلد لکھوں گا“۔ اس تفصیل اور بعد کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو کہیں سے پیسہ مل رہا تھا جس میں سے انتشار پھیلانے اور جوان نسل کو غلط راہ پر چلانے کیلئے خوب خرچ کر رہے تھے

پاکستان میں تبدیلی کی دوسری یلغار
مسلمان طلباء و طالبات نے 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن سے الگ ہو کر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن بنائی تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ذیلی جماعت تھی ۔ اس کے اراکین نے تحریکِ پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد یہ فیڈریشن مسلم نیشنل گارڈ میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ 1956ء میں ایک مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا نام سامنے آیا لیکن جلد ہی تبدیل ہو کر مسلم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن ہو گیا ۔ ان کا بھی بیان کردہ ایجنڈا وہی تھا جو ایپسو کا تھا ۔ ایک سال کے اندر ہی واضح ہو گیا کہ ان کے کرتا دھرتا وہی تھے جو ایپسو کے تھے ۔ اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگ جانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ طلباء کی سب تنظیمیں بھی ختم ہو گئیں

پاکستان میں تبدیلی کی تیسری یلغار
1972ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے پی پی پی کی ذیلی جماعت پاکستان کی قسمت بدلنے والی تبدیلی کے نعرے سے اُٹھی ۔ تبدیلی یہ آئی کہ سکولوں اور کالجوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہ رہی ۔ اساتذہ کی عزت پاؤں میں روندنا معمول بن گیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ زور دار لڑکے امتحان کے کمرے میں پستول ساتھ رکھ کر کھُلے عام نقل کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محبِ وطن محنتی اساتذہ تدریس کے پیشے سے کنارہ کشی کرنے لگے اور ٹیوشن سینٹر اور بِیکن ہاؤس قسم کے سکول کھُلنے لگے

اب عمران خان صاحب چوتھی یلغار کے ساتھ دھاڑ رہے ہیں
اللہ خیر کرے

میں نے ایوب خان ۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ جمہوری حکومتیں نہیں تھیں ۔ ویسے تبدیلی کا دعویٰ پرویز مشرف نے بھی بہت زوردار کیا تھا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھُگت رہے ہیں