Monthly Archives: November 2014

فلسطین سے ہجرت

والد صاحب مارچ 1930ء میں مصر گئے تھے ۔ چند سال بعد دادا جان جو اُن دنوں حیدرآباد دکن میں تھے نے تقاضا کیا کہ ”مجھ سے اب کاروبار نہیں سنبھالا جاتا اسلئے واپس آ جاؤ“ ۔ سو والد صاحب مصر میں کام سمیٹ کر واپس آ گئے اور جنوبی ہندوستان میں دادا جان کا کاروبار سنبھال لیا جس میں فوج کو ضروریاتِ زندگی کی سپلائی کا کام بھی شامل تھا ۔ برطانیہ سے نیا کرنل کوارٹر ماسٹر تعینات ہوا ۔ اُس نے دادا جان کو ”بلڈی انڈین“ کہہ کر مخاطب کیا تو دادا جان نے اُسے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ۔ وہ وائسرائے ہند کا رشتہ دار تھا ۔ اُسی دن دہلی روانہ ہوا اور دادا جان کی کمپنی کو بلیک لسٹ کروا دیا ۔ اُنہی دنوں والد صاحب کو فلسطین میں کاروبار مل گیا اور وہ سب کو اپنے گھر جموں میں چھوڑ کر فلسطین چلے گئے ۔ وہ کبھی والدہ صاحبہ کو ساتھ لیجاتے کبھی ہندوستان چھوڑ جاتے تھے ۔ 1946ء میں آئے اور والدہ صاحبہ اور میرے چھوٹے بھائی کو ساتھ فلسطین لے گئے ۔ فلسطین میں 1947ء میں اللہ نے مجھے ایک اور بھائی عطا کیا

فلسطین میں یورپ سے آئے یہودیوں (صیہونیوں) نے فلسطین کے باسی مسلمانوں پر حملے اور اُن کی املاک پر قبضہ شروع کر دیا ۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے محلے جانا یا اس کے قریب سے گذرنا موت کو آواز دینا بن چکا تھا

اگست 1947ء تک ہمارے علاقے یعنی ریاست جموں کشمیر میں کوئی گڑبڑ نہ تھی اور سب کو کامل یقین تھا کہ جموں کشمیر پوری ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی ۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ ریاست پاکستان کا حصہ ہی بنتی تھی ۔ اگست 1947ء کے آخر میں معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کو تقسیم کر کے بھارت کو کٹھوعہ کے راستے جموں کشمیر کا راستہ دے دیا گیا ہے ۔ ستمبر 1947ء میں بھارت سے آئی ہوئی ہندو مہاسبھا ۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور اکالی دَل کے مسلحہ دستوں نے بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے صوبہ جموں کے دیہات میں مسمانوں کی مار دھاڑ اور املاک کو آگ لگانا شروع کر دی ۔ ہوتے ہوتے بات شہر جموں تک پہنچی ۔یہ خبریں جب فلسطین پہنچیں تو میرے والدین پریشان ہوئے اور واپسی کا سوچنے لگے ۔ جموں سے اپنی ہجرت کا حال تو میں لکھ چکا ہوں ۔ دیکھئے پیراگراف 26 تا 31 ۔

اکتوبر شروع ہو چکا تھا ۔ والد صاحب کچھ فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ بمبئی کے راستے جموں جائیں یا پاکستان ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کوئی ہوائی جہاز نہیں جا رہا اور بمبئی جائیں تو بھارت سے کسی مسلمان کو ریاست جموں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ پریشانی میں اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار اُنہیں موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دنیا

یہ دنیا سائے کی طرح ہے
سائے کے پیچھے بھاگو تو وہ آگے بھاگتا جائے گا
اس کی طرف پیٹھ کر لو تو اُس کے پاس سوائے پیچھے چلنے کے کوئی چارہ نہیں
محمد ابن ابو بکر المعروف ابن القیّم (691 ھ تا 751 ھ ۔ 1292 ء تا 1350ء)

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Prelude to War ”

تبدیلی کی 60 سالہ تاریخ

آہستہ چلو ۔ کہ روانی آئے ۔ ۔ ۔ جو بات بگڑتی ہو ۔ وہ بنانی آئے
انجام جس کا نہ معلوم ہو شاداب ۔ ۔ ۔ کیا خاک تمہیں وہ کہانی آئے

تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ماضی میں 2 اہم تبدیلیاں ملتی ہیں
1 ۔ اسلام کا پھیلنا
2 ۔ پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا

مندرجہ بالا دونوں تبدیلیوں کے محرک اعلٰی فکر و عمل کے مالک اسلاف تھے ۔ یہ تبدیلیاں کئی دہائیوں کی لگاتار پُرخلوص محنت کا نتیجہ تھیں اور بتدریج وقوع پذیر ہوئیں ۔ اِن کے بر عکس پچھلی 6 دہائیوں سے جو لوگ تبدیلی کا غوغا کرتے آ رہے ہیں اِن میں اُن جیسی ایک بھی خوبی نہیں پائی گئی ۔ چنانچہ اِنہوں نے صرف انتشار ہی پھیلایا ہے

پاکستان میں تبدیلی کی پہلی یلغار
1954ء میں میری ملاقات بچپن کے دوست سے 7 سال بعد ہوئی ۔ جب میں گارڈن کالج میں فرسٹ ایئرمیں داخل ہوا وہ سیکنڈ ایئر میں تھا ۔ ایک دن میرے پاس آیا 50 کے لگ بھگ اشتہار مجھے تھماتے ہوئے بولا ”جب چھُٹی ہو تو لڑکوں میں بانٹ دینا“۔
میں نے پوچھا ”یہ ایپسو (آل پاکستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) اور یہ اجتماع کیا ہے ؟“
بولا ”یہ سارے پاکستان کے طلباء کی نمائندہ ہے اور کوئٹہ میں اجتماع ہو گا جہاں پورے پاکستان کے کالجوں کے طلباء آئیں گے اور علمی گفتگو ہو گی ۔ ہم نوجوانوں میں شعور بیدار کرنا چاہتے ہیں جس سے مُلک میں تبدیلی لائیں گے ۔ گھِسے پِٹے دماغوں کی جگہ جدید علوم سے واقف تازہ دماغ کام کریں گے ۔ مُلک ترقی کرے گا“۔

میں روزانہ عصر کے بعد باسکٹ بال کھیلنے کیلئے کالج جایا کرتا تھا ۔ اجتماع ہو جانے کے بعد ایک دن میں گیا تو کوئی لڑکا باسکٹ بال کھیلنے نہیں پہنچا تھا ۔ میں کالج کے برآمدوں میں گھوم رہا تھا کہ ایک بند کمرے سے مدھم آوازیں آئیں ۔ کھڑی اور دونو دروازے اندر سے بند تھے ۔ ایک دروازے میں چابی کا سوراخ تھا ۔ اُس میں دیکھنے کی کوشش کی مگر کسی کا چہرہ نظر نہ آیا ۔ کان لگا کر سُنا تو میرا ماتھا ٹھنکا ۔ کہا جا رہا تھا ”حسبِ معمول اجتماع پر جماتیئے (اسلامی جمیعتِ طلباء) چھائے ہوئے تھے ۔ ہم نے کرائے کے داڑھی والے لئے جنہوں نے اجتماع میں شور و غُل اور مار دھاڑ کی ۔ پولیس نے اُنہیں پکڑا تو اُنہوں نے اسلامی جمیعتِ طلباء کا نام لیا جس پر جمیعت کے سارے کرتا دھرتا دھر لئے گئے“۔ اس کے بعد ایک دبا دبا قہقہ لگا ۔ یہ کوئٹہ کے اجتماع میں اپنی کارستانیوں کی داستان سُنائی جا رہی تھی ۔ ایک آواز میں نے پہچان لی ۔ وہ میرے دوست کی تھی جس نے مجھے اشتہار بانٹنے کو دیئے تھے

اگلے روز انجان بن کر اُس سے اجتماع کی کاروائی کا پوچھا تو بولا ”کیا بتاؤں بہت اچھا اجتماع ہو رہا تھا کہ جماتیوں نے حملہ کر دیا اور مار دھاڑ شروع کر دی ۔ سب کچھ گڑ بڑ ہو گیا“۔
چند دن بعد مجھے بہاولپور سے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے چوتھے سال کے طالب علم کا خط ملا ۔ یہ صاحب میرے ایک عزیز کے ہم جماعت ہونے کی وجہ سے میرے بڑے بھائی کا درجہ رکھتے تھے ۔ ان کی آزاد خیالی مشہور تھی لیکن اُنہوں نے لکھا تھا ”اگر آپ ایپسو کے رُکن ہیں تو فوری طور پر لکھ کر اس سے مستعفی ہو جائیں اور ان سے دُور رہیں ۔ یہ لوگ ہمدرد کے بھیس میں ہمارے دشمن ہیں ۔ تفصیل جلد لکھوں گا“۔ اس تفصیل اور بعد کے مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کو کہیں سے پیسہ مل رہا تھا جس میں سے انتشار پھیلانے اور جوان نسل کو غلط راہ پر چلانے کیلئے خوب خرچ کر رہے تھے

پاکستان میں تبدیلی کی دوسری یلغار
مسلمان طلباء و طالبات نے 1937ء میں آل انڈیا سٹوڈنٹس فیڈریشن سے الگ ہو کر مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن بنائی تھی جو آل انڈیا مسلم لیگ کی ذیلی جماعت تھی ۔ اس کے اراکین نے تحریکِ پاکستان میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد یہ فیڈریشن مسلم نیشنل گارڈ میں تبدیل ہو گئی تھی ۔ 1956ء میں ایک مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کا نام سامنے آیا لیکن جلد ہی تبدیل ہو کر مسلم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن ہو گیا ۔ ان کا بھی بیان کردہ ایجنڈا وہی تھا جو ایپسو کا تھا ۔ ایک سال کے اندر ہی واضح ہو گیا کہ ان کے کرتا دھرتا وہی تھے جو ایپسو کے تھے ۔ اکتوبر 1958ء میں مارشل لاء لگ جانے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے ساتھ طلباء کی سب تنظیمیں بھی ختم ہو گئیں

پاکستان میں تبدیلی کی تیسری یلغار
1972ء میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے پی پی پی کی ذیلی جماعت پاکستان کی قسمت بدلنے والی تبدیلی کے نعرے سے اُٹھی ۔ تبدیلی یہ آئی کہ سکولوں اور کالجوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہ رہی ۔ اساتذہ کی عزت پاؤں میں روندنا معمول بن گیا ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ زور دار لڑکے امتحان کے کمرے میں پستول ساتھ رکھ کر کھُلے عام نقل کرتے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محبِ وطن محنتی اساتذہ تدریس کے پیشے سے کنارہ کشی کرنے لگے اور ٹیوشن سینٹر اور بِیکن ہاؤس قسم کے سکول کھُلنے لگے

اب عمران خان صاحب چوتھی یلغار کے ساتھ دھاڑ رہے ہیں
اللہ خیر کرے

میں نے ایوب خان ۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے ادوارِ حکومت کا ذکر نہیں کیا کیونکہ وہ جمہوری حکومتیں نہیں تھیں ۔ ویسے تبدیلی کا دعویٰ پرویز مشرف نے بھی بہت زوردار کیا تھا جس کا نتیجہ ہم آج تک بھُگت رہے ہیں

یومِ شہداء

آج کے دن سیکولرزم کا پرچار کرنے والوں نے دنیا کی تاریخ کی بدترین خونی تاریخ رقم کی ۔ ریاست جموں کشمیر کے ضلع جموں کے صرف ایک ضلع جموں توی میں ایک لاکھ کے لگ بھگ مسلمان مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے صرف چند گھنٹوں میں تہہ تیغ کر دئیے اور نعرہ لگایا کہ ہم نے ان کا پاکستان بنا دیا ہے

ستمبر 1947 ء کے آخری ہفتہ میں مجھے (10 سال) اور میری دو بہنوں (12 سال اور 15 سال) کو ہمارے ہمسایہ کے خاندان والے اپنے ساتھ جموں چھاؤنی ستواری لے گئے تھے ۔ ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا تھا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ جونہی کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا ۔ سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔ نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا

تین دن بعد يعنی 9 نومبر کو ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ لمبا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت لڑکے ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اُس کی بھابھی اور بڑی خاتون اُس کی والدہ تھیں ۔ اُن کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ جوان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دونوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئی ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئیں اس کے اُوپر چار پانچ لاشیں گریں اُس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اُسی طرح پڑی رہی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بلوائی نے ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اُچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اُس خاتون کو خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اُس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے زخمی خاتون کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نامعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھنٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور مانگنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر غلط سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار اُلٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ایک دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی ایک ٹرانسفارمر کو اُٹھائے ہوئے چار کھمبے تھے ۔ ان سے ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا گیا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کی شام کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں دو لاکھ کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے

بچوں کی باتیں ۔ میری پوتی ھناء

ماشاء اللہ میری 2 پوتیاں (10 سال اور ڈھائی سال) اور ایک پوتا (5 سال) ہیں ۔ بڑی پوتی بڑے بیٹے زکریا کی بیٹی ہے اور اٹلانٹا ۔ جارجیا ۔ امریکہ میں ہے ۔ ہمیں 11 ستمبر 2001ء کے بعد سے ویزہ نہیں دیتے کہ آرڈننس فیکٹری میں ملازمت کی تھی کہیں وائٹ ہاؤس کو بھک سے نہ اُڑا دوں ۔ وہ لوگ 3 سال بعد آتے ہیں ۔ پوتا اور چھوٹی پوتی چھوٹے بیٹے فوزی کے بچے ہیں جو پونے 7 سال سے دبئی میں ہے ۔ تینوں بچے بہت پیار کرنے والے ہیں اور دادا ۔ دادی سے بہت لگاؤ رکھتے ہیں ۔ دراصل یہ والدین کی تربیت کا اثر ہوتا ہے

تینوں بچوں کے پیار کا طریقہ فرق فرق ہے ۔ چھوٹی پوتی ھناء سب سے زیادہ بے باک ہے ۔ 2 واقعات بیان کرتا ہوں

پہلا واقعہ ۔ جنوری تا اپریل 2014ء ہم دبئی میں تھے ۔ ھناء اپنی امی کے کام میں مُخل ہو رہی تھی ۔ میں سنگل صوفہ پر بیٹھتا تھا ۔ ھناء عام طور پر آ کر میری گود میں یا مجھے ایک طرف کر کے میرے ساتھ بیٹھ جاتی تھی ۔ اس دن میں نے اُس کا دھیان اپنی امی سے ہٹانے کی کوشش کیIMG-20131015-WA0004
میں ”ھناء ۔ آؤ دادا کے پاس بیٹھ جاؤ“
ھناء ”نہیں“
میں ”ھناء دادا سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں“
میں ”دادا ھناء سے پیار کرتے ہیں“
ھناء ”نہیں“
میں ”ھناء دادا سے باتیں کرو“
ھناء ”نہیں“
میں ”دادا ھناء سے بات کرنا چاہتے ہیں“
ھناء ”نہیں نہیں نہیں“

جب نہیں کی کچھ زیادہ ہی گردان ہوگئی تو میں نے ایک کرتب سوچا اور کہا ”ابراھیم ۔ آپ دادا سے پیار کرتے ہو ۔ آؤ دادا کے پاس بیٹھ جاؤ“
ابراھیم کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے ھناء میری گود میں بیٹھ کر مجھ سے لپٹ گئی ۔ ایک ہاتھ سے بھائی کو پیچھے کرتی جائے اور کہتی جائے ”میرے دادا ۔ میرے دادا“

دوسرا واقعہ ۔ پچھلی عیدالاضحےٰ پر بچے اسلام آباد آئے ہوئے تھے ۔ کھانے کی 4 فٹ چوڑی 8 فٹ لمبی میز کے ایک سِرے پر ایک کرسی ہے جس پر میں بیٹھتا ہوں اور باقی سب کی بھی کرسیاں مقرر ہیں ۔ میز کی لمبائی کے ساتھ چار چار کرسیاں ہیں اور دوسرے سرے پر 3 کرسیاں ۔ ھناء ہمیشہ ہر ایک کو اُس کی کرسی پر بٹھاتی تھی ۔ ایک دن ھناء میری کرسی پر بیٹھ گئی

میں نے کہا ”ھناء ۔ یہ دادا کی کرسی ہے“
پھر بہو بیٹی نے کہا “ھناء ۔ دادا کو بیٹھنے دو“
ھناء میرے داہنے ہاتھ والی لمبائی کے ساتھ آخری کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ”دادا ۔ وہاں بیٹھ جائیں“
میں وہاں نے بیٹھ کر کہا ”ھناء دادا سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں“
ھناء کی دادی نے کہا ”ھنا دادی سے پیار کرتی ہے“
ھناء ”نہیں ۔ میں دادا سے پیار کرتی ہوں“
میں نے کہا ”میں کھانا کیسے کھاؤں ؟“
ھناء نے اپنی امی سے کہا”دادا کو کھانا دیں“
بہو بیٹی نے کہا ”میں نہیں دیتی ۔ آپ خود جا کر دو“
ھناء مجھ سے مخاطب ہو کر قریب والی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے”یہاں آ جائیں“

کھانا کھانے کے بعد ھناء اپنی امی سے چاکلیٹ کا ڈبہ لے کر آئی سب سے اچھی چاکلیٹ نکال کر مجھے دی پھر دادی کو دی ۔ اپنے والدین اور پھوپھو کو ایک ایک چاکلیٹ دے کر پھر ہمیں ایک ایک چاکلیٹ اور دی ۔ اس کے بعد میری گود میں بیٹھ گئی ۔ کبھی میرے ساتھ بغل گیر ہو کبھی چومے اور دادا یہ دادا وہ باتیں کرتی جائے جیسے مجھے راضی کر رہی ہو