Monthly Archives: August 2014

عمران خان کی نواز شریف سے ناراضگی کا سبب

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر براجمان ہیں ۔ دونوں وزیر اعظم نواز شریف اور انکی کابینہ سے استعفے طلب کر رہے ہیں تاہم حکومت ڈاکٹر طاہر القادری کی نسبت عمران خان کے بارے میں زیادہ تشویش رکھتی ہے کیونکہ عمران خان اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں پارلیمینٹ ہاؤس میں گھسنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں ۔جو لوگ عمران خان کے آزادی مارچ کو سفینہ غم دھاندلی سمجھ رہے تھے انہیں عمران خان کے بدلتے ہوئے لب ولہجے میں نواز شریف کے خلاف ذاتی غصہ غلبہ پاتا ہوا نظر آ رہا ہے

کیا عمران خان کے اس غصے کی وجہ صرف 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہو گا۔ آج میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر کروں گا جو مجھے خود عمران خان نے بتائے یا جن کا میں عینی شاہد ہوں

ایک دفعہ عمران خان نے مجھے 1987ء کا ایک واقعہ سنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ اکتوبر 1987ء میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ایک دن قذافی اسٹیڈیم لاہور میں دونوں ٹیموں کے درمیان ایک وارم اپ میچ تھا ۔ صبح جب دونوں ٹیمیں اسٹیڈیم میں پہنچیں تو کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری شاہد رفیع نے عمران خان کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف آج پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرینگے

یہ سن کر عمران خان حیران رہ گئے کیونکہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تو وہ تھے اور نواز شریف کی کرکٹ ٹیم میں اچانک شمولیت کے بارے میں انہیں کچھ پتہ نہ تھا۔ عمران خان نے یہ سمجھا کہ نوازشریف صرف ایک نمائشی کپتان کا کردار ادا کریں گے اور صرف پویلین میں بیٹھ کر میچ دیکھیں گے لیکن کچھ ہی دیر میں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان ویوین رچرڈز اور نواز شریف گراؤنڈ کے اندر داخل ہو کر ٹاس کر رہے ہیں ۔ نواز شریف نے ٹاس جیت لیا اور بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ نواز شریف پویلین میں آکر انہیں کہیں گے کہ اب باقی میچ آپ سنبھالیں اور اوپننگ کیلئے اپنے بلے بازوں کو گرائونڈ میں بھیجیں ۔ نواز شریف پویلین میں آئے اور مدثر نذر سے کہا کہ آپ نے اوپننگ کرنی ہے ۔ پوری ٹیم یہ جاننا چاہتی تھی کہ مدثر نذر کے ساتھ دوسرا اوپننگ بلے باز کون ہوگا لیکن نواز شریف نے خاموشی کے ساتھ خود ہی پیڈ باندھنے شروع کر دیئے

مدثر نذر نے بیٹنگ پیڈز کے ساتھ ساتھ تھائی پیڈ، سینے کو بچانے کیلئے چیسٹ پیڈ، آرم گارڈ اور ہینڈ گلوز کے ساتھ ساتھ اپنا سر بچانے کیلئے ہیلمٹ بھی پہن رکھی تھی کیونکہ اسے دنیا کے تیز ترین اور سب سے خطرناک فاسٹ باؤلروں کا مقابلہ کرنا تھا جنہیں کالی آندھی کہا جاتا تھا۔ عمران خان نے دیکھا کہ مدثر نذر کے مقابلے پر نواز شریف نے صرف بیٹنگ پیڈز اور ہینڈ گلوز پہنے اور سر پر دھوپ سے بچاؤ والا سفید ہیٹ سجایا ہوا تھا ۔ نواز شریف نے مسکراتے ہوئے مدثر نذر سے کہا کہ ’’چلیں جی ‘‘۔ مدثر نذر نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں بلے باز گراؤنڈ میں داخل ہوگئے ۔ عمران خان نے پریشان لہجے میں کرکٹ بورڈ کے حکام سے کہا کہ ایک عدد ایمبولینس کا بندوبست کرلو ۔ گراؤنڈ میں پہنچ کر مدثر نذر کی بجائے نواز شریف نے پہلی گیند کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ویسٹ انڈیز کے ساڑھے چھ فٹ لمبے فاسٹ باؤلر کی پہلی گیند نواز شریف کے بلے سے دور تھی اور وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی۔ دوسری گیند پر نواز شریف کلین بولڈ ہو گئے۔ عمران خان بتاتے ہیں کہ نواز شریف کوئی گیند کھیلے بغیر واپس پویلین میں آئے تو ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔ عمران خان کو ایسا لگا کہ نواز شریف محض اس لئے خوش ہیں کہ انہوں نے ایک دن کیلئے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی پر قبضہ کر لیا ہے لیکن وہ نواز شریف کی بہادری کے قائل بھی ہو گئے

بعد کے سالوں میں نواز شریف نے شوکت خانم میموریل ہاسپیٹل کی تعمیر میں عمران خان کی کافی مدد کی لیکن دونوں کے درمیان فاصلے کم نہ ہو سکے۔ 2007ء میں نواز شریف، عمران خان، قاضی حسین احمد، محمود خان اچکزئی اور کچھ دیگر رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ پرویز مشرف کی حکومت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ آصف علی زرداری نے دسمبر 2007ء میں نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کر لیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے عمران خان سے کہا کہ وہ بھی انتخابات میں ضرور حصہ لیں لیکن عمران بار بار مجھے کہتے تھے کہ نواز شریف نے ہمیں زبان دی ہے وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرے گا ۔ لیکن جب مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو عمران خان نے اپنا سر پکڑ لیا

2009ء میں نواز شریف اور عمران خان نے مل کر معزول ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے تھے لہٰذا وہ زیر زمین چلے گئے اور طے پایا کہ جب نواز شریف کا قافلہ راولپنڈی پہنچے گا تو عمران خان منظر عام پر آ جائیں گے ۔ نوازشریف کا قافلہ گوجرانوالہ تک پہنچا تو زرداری حکومت نے ججوں کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور نواز شریف نے لانگ مارچ ختم کر دیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ان سے مشورہ کئے بغیر لانگ مارچ ختم کیا اور ایک دفعہ پھر اپنے ناقابل اعتبار ہونے کا ثبوت دیا

2013ء کی انتخابی مہم ختم ہونے میں دو دن باقی تھے ۔ میں نے اسلام آباد میں نواز شریف کا انٹرویو کیا جو اسی شام جیو ٹی وی پر نشر ہونا تھا ۔ اس انٹرویو میں نواز شریف نے عمران خان کے بارے میں بڑی سخت زبان استعمال کی تھی ۔ اسی شام عمران خان لاہور میں ایک حادثے میں زخمی ہو گئے۔ نواز شریف صاحب نے مجھے کہا کہ ان کا انٹرویو نشر نہ کیا جائے کیونکہ اس میں عمران خان کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی تھی انکے زخمی ہونے کے بعد یہ زبان مناسب نہیں ہے ۔ نواز شریف نے اس شام اپنا جلسہ ملتوی بھی کر دیا اور عمران خان کیلئے صحت کی دعا کی

انتخابات سے اگلے روز نواز شریف نے ہاسپیٹل جاکر عمران خان کی عیادت کی

مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) اور آفتاب شیر پاؤ کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا میں حکومت بنانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف نے ان سے معذرت کرلی اور پی ٹی آئی کو صوبے میں حکومت بنانے دی

ان سب اقدامات کے باوجود عمران خان اور نواز شریف میں فاصلے کم نہیں ہوئے

عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو خیال تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کے ذریعہ آئندہ دھاندلی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن اب تو وہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر نواز شریف سے استعفٰے مانگ رہے ہیں ۔حکومت کے کچھ وزراء کو اس پورے کھیل کے پیچھے کچھ مغربی طاقتوں کا ہاتھ نظر آتا ہے جو نواز شریف حکومت کی چین کےساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے خائف ہیں ۔ ان وزراء کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو اس کھیل میں شامل کچھ غیر سیاسی عناصر، صحافیوں، ٹی وی چینل مالکان اور بعض کاروباری شخصیات کے بارے میں ثبوت مل چکے ہیں تاہم ابھی تک کوئی ادارہ اس میں ملوث نظر نہیں آتا

عمران خان ہر قیمت پر نواز شریف کو کلین بولڈ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ یہ کرکٹ گراؤنڈ نہیں بلکہ سیاست کا میدان ہے ۔ اس میدان میں نواز شریف کا تجربہ عمران خان سے زیادہ ہے اور اگر عمران خان نے کسی امپائر کی ملی بھگت سے نواز شریف کو حکومت سے نکال بھی دیا تو نواز شریف سیاسی مظلوم بن جائیں گے اور عمران خان کو کچھ نہیں ملے گا ۔ عمران خان مڈٹرم انتخابات کے راستے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں ۔ اقتدار میں آکر وہ طالبان سے مذاکرات پر زور دیں گے ۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ عمران خان اقتدار میں آ سکیں گے یا نہیں ؟

تحریر ۔ حامد میر

پہلا قومی ترانہ کس نے لکھا اور کیا تھا ؟

اس تحریر کا مقصد صرف سچ کی وضاحت ہے ۔ آج سے 4 سال قبل جب میڈیا میں دعویٰ کیا گیا کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 9 اگست 1947ء کو جگن ناتھ آزاد کو بلاکر پاکستان کا ترانہ لکھنے کو کہا تھا ۔ جگن ناتھ آزاد نے 5 دنوں میں ترانہ لکھ دیا جو آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا اور 18ماہ تک پاکستان میں بجتا رہا ۔ جب 23 فروری 1949ء کو حکومت ِ پاکستان نے قومی ترانے کے لئے کمیٹی بنائی تو یہ ترانہ بند کردیا گیا

میں نے مناسب تحقیق کے بعد حقیقت اُن دنوں لکھ دی تھی

پچھلے دنوں ایک بلاگ پر جگن ناتھ والی بات پھر دہرائی گئی تو مناسب محسوس ہوا کہ حقیقت لکھ دوں
ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز گواہ ہیں کہ جگن ناتھ آزاد کاکوئی ترانہ یا ملی نغمہ یا کلام 1949ء تک ریڈیو پاکستان سے نشر نہیں ہوا ۔ 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب جب آزادی کے اعلان کے ساتھ پہلی بار ریڈیو پاکستان کی صداگونجی تو اس کے بعد احمد ندیم قاسمی کا یہ ملی نغمہ نشر ہوا تھا

پاکستان بنانے والے ، پاکستان مبارک ہو

اُن دنوں قاسمی صاحب ریڈیو میں ملازم تھے ۔ خیال رہے کہ مندرجہ ذیل زبان زدِ عام قومی نغمہ بھی قاسمی صاحب نے لکھا تھا
خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اُترے ۔ ۔ ۔ وہ فصل گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

اگلی صبح یعنی 15 اگست 1947ء کو پہلا قومی ترانہ نشر ہوا تھا جو مولانا ظفر علی خان کا لکھا ہوا تھا اور یہ ہے

توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش ۔ ۔ ۔ لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو یہ چند شعر مرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نامِ محمدِ عربی پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا

وضاحت الفاظملا ۔ ظاہر ۔ واضح
خلا ۔ غائب
گٹکری ۔ وہ سُریلی اور پیچ دار آواز جو کلاسیکی یا پکے راگ گانے والے اپنے حلق سے نکالتے ہیں

قائد اعظم کا خطاب ۔ 15 اگست 1947ء

Flag-114 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور 15 اگست کو سرزمینِ پاکستان پر آزادی کا پہلا سورج طلوع ہوا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنے آزاد ملک کا تحفہ ایک مقدس دن کو عنائت کیا ۔ اس روز جمعہ کا مبارک دن اور رمضان المبارک 1366 ھ کی 27 تاریخ تھی
قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں جو پیغام دیا تھا نہائت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آسودگی حاصل ہوتے ہی قوم دولت کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے لگ گئی اور اپنے قائد و محسن کا پیغام ہی نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو یکسر فراموش کر دیا

قائداعظم کی تقریر نقل کرنے سے پہلے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کہ برطانیہ کے نمائیندہ ریڈ کلِف نے نہرو کے ساتھ ملی بھگت کر کے نہائت عیّاری کی اور پاکستان کی حدُود کا اعلان 17 اگست 1947ء کو کیا جس سے معلوم ہوا کہ کسی ضلع کو تقسیم نہ کرنے کے طے شدہ اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مُسلم اکثریتی ضلع گورداسپور کی تقسیم کر کے نارو وال کا مشرقی علاقہ بشمول ڈیرہ بابا نانک ۔ بٹالہ ۔ گورداسپور شہر ۔ دینا نگر ۔ پٹھانکوٹ ۔ مادھوپور راجپورہ بھارت میں شامل کر دیا جس سے بھارت کو کٹھوعہ کے راستہ جموں میں آسانی سے داخل ہونے کا راستہ مہیاء کر دیا ۔ اس ”تاخیری اعلان“ کی وجہ سے قائداعظم کی تقریر میں مسئلہ جموں کشمیر کا ذکر نہیں ہے

15 اگست 1947ء کو قائداعظم کا خطاب

میں انتہائی مسرت اور جذبات کے احساس کے ساتھ آپ کو مبارکباد دیتا ہوں ۔ 15 اگست پاکستان کی آزاد اور خود مختار ریاست کا جنم دن ہے ۔ یہ مسلم قوم کی منزل کی تکمیل کی علامت ہے جس نے اپنے وطن کے حصول کیلئے پچھلے چند سالوں میں بھاری قربانیاں دیں ۔ اس اعلٰی لمحے میں میرے ذہن میں اس مسلک کیلئے جد و جہد کرنے والے شجاع لوگ ہیں

ایک نئی ریاست کی تخلیق نے پاکستان کے شہریوں پر بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ اس تخلیق نے یہ ثابت کرنے کا موقع دیا ہے کہ کس طرح متعدد عناصر پر مشتمل قوم ذات اور عقیدہ سے قطع نظر کرتے ہوئے امن اور بھائی چارے کے ساتھ تمام شہریوں کی بہتری کیلئے کام کر سکتی ہے

ہمارا مقصد اندرونی اور بیرونی امن ہونا چاہیئے ۔ ہم امن میں رہنا چاہتے ہیں اور اپنے قریبی ہمسایہ ملکوں اور دنیا کے ممالک کے ساتھ خوشگوار دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم کسی کے خلاف بھی جارحانہ عزائم نہیں رکھتے ۔ ہم اقوامِ متحدہ کے منشور کی حمائت کرتے ہیں اور دنیا میں امن اور خوشحالی کیلئے اپنا پورا حصہ ڈالیں گے

ہندوستان کے مسلمانوں نے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ وہ ایک متحد قوم ہیں اور ان کا مطالبہ انصاف اور حقائق پر مبنی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ آیئے آج اس دن ہم عاجزی کے ساتھ اس عطیہ کیلئے اللہ کا شکر ادا کریں اور دعا کریں کہ ہم اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کر سکیں

آج کا دن ہماری قومی تاریخ کے ایک تکلیف دہ دور کے اختتام کی علامت ہے اور اسے نئے باعزت دور کا آغاز بھی ہونا چاہیئے ۔ آیئے ہم اقلیتوں کو عمل ۔ گفتار اور سوچ سے باور کرائیں کہ اگر وہ بحیثیت وفادار پاکستانی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں تو اُنہیں کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیئے

ہم اپنی سرحدوں پر بسنے والے آزادی پسند قبائل اور ہماری سرحدوں سے باہر ریاستوں کو مبارکباد دیتے ہیں اور اُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ پاکستان اُن کی حیثیت کا احترام کرے گا اور امن قائم رکھنے کیلئے دوستانہ تعاون کرے گا ۔ ہمیں کوئی ہوّس نہیں ہے سوائے اس کے کہ ہم باعزت زندگی گذاریں اور دوسروں کو بھی باعزت زندگی گذارنے دیں

آج جمعۃ الوداع ہے ۔ رمضان کے مقدس مہینہ کا آخری جمعہ ۔ ہم اس وسیع برِ عظیم میں جہاں کہیں بھی ہوں اور اسی سبب پوری دنیا میں بھی ہم سب کیلئے خوشی کا دن ہے ۔ تمام مساجد میں ہزاروں مسلمانوں کے اجتماعات قادرِ مطلق کے سامنے عاجزی سے جھُکیں ۔ اُس کی دائمی مہربانی اور فراخدلی کا شکریہ ادا کریں اور پاکستان کو ایک طاقتور ملک اور اپنے آپ کو اس کے مستحق شہری بنانے کیلئے اُس کی رہنمائی اور مدد کے طلبگار ہوں

میرے ہموطنو ۔ میں آخر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان بڑے زبردست وسائل کی زمین ہے ۔ لیکن اسے مسلمانوں کے لائق ملک بنانے کیلئے ہمیں اپنی قوت و ہمت کا بھرپور استعمال کرنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسا پوری دلجمعی کے ساتھ کیا جائے گا

پاکستان زندہ باد ۔ یومِ آزادی مبارک

یہ تقریر انگریزی میں تھی ۔ میں نے حتی الوسع اس کا درست ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ انگریزی متن پڑھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے

اے اہلِ وطن ۔ کبھی سوچا آپ نے ؟

Flag-1یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں
بلند ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر تک
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے ۔ بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے ۔ پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے

پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں ایسا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 53 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے ۔ یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں ”کیا ہے اس مُلک میں“۔ ”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔
میں یورپ ۔ امریکہ ۔ افریقہ اور شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) سمیت درجن سے زیادہ ممالک میں رہا ہوں اور ان میں رہائش کے دوران اُن ممالک کے باشندوں سے بھی رابطہ رہا جہاں میں نہیں گیا مثال کے طور پر بھارت ۔ چین ۔ جاپان ۔ ملیشیا ۔ انڈونیشیا ۔ روس ۔ چیکو سلوواکیہ ۔ بلغاریہ ۔ اٹلی ۔ ہسپانیہ ۔ ایران ۔ مصر ۔ تیونس ۔ سوڈان ۔ وغیرہ ۔ اُنہوں نے ہمیشہ اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کی تعریف کی

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی صرف میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے

حقیقت یہ ہے کہ اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے ۔ اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہم نے اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ آیئے آج یہ عہد کریں کہ ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے
سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

میرا وطن ۔ میرا پیارا وطن

Flag-1

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

تازہ ترین ۔ کنٹینر ۔ دھرنا ۔ لانگ مارچ اور انقلاب ۔ سب نو دو گیارہ

وفاقی وزیرِ اطلاعات کا بیان آیا ”وزیرِ اعظم نے حُکم دیا ہے کی تمام کنٹینر ہٹا دیئے جائیں“۔ اور یہ کہ حکومت نے عمران خان کو آزادی مارچ کی آزادی دے دی ہے

40 منٹ بعد لاہور ہائیکورٹ کے 3 رُکنی بینچ نے کنٹینر اور تحریکِ انصاف کے دھرنا اور لانگ مارچ اور طاہر القادری کے آزادی مارچ کے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے

1 ۔ پنجاب سے کنٹینر ہٹانے کے صبح کے فیصلے کو بحال رکھا
2 ۔ تحریک انصاف کو اسلام آباد میں دھرنا دینے سے روک دیا
3 ۔ تحریکِ انصاف کو لانگ مارچ سے اور طاہر القادری کو انقلاب مارچ کرنے سے روک دیا