Monthly Archives: July 2014

کل سے میں پریشان ہوں

مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے

یا رب ۔ میں سمجھا ہوں نہ سمجھوں گا اُن کی بات
دے اور سمجھ مجھ کو ۔ جو نہ دے اُن کو دماغ اور

قارئین جانتے ہں کہ میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہوں ۔ اب پتہ چلا ہے کہ تعلیم کی کمی کے ساتھ میری سمجھ میں بھی کمی ہے ۔ اسی لئے میں کل سے پریشان ہوں کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جب متعلقہ آدمی موجود نہ ہوں تو اُن کے شناختی کارڈوں کے عکس دیکھ کر کاغذات پر کوئی کیسے اُن کے انگوٹھوں کے نشانات لگا سکتا ہے ؟

تفصیل اس مشکل کی یہ ہے کہ کل ایک دیانتدار ۔ عقلمند اور ہوشیار سیاستدان نے دعوٰی کیا کہ نادرا کے 3 آدمی کامسَیٹ کی عمارت کے تہہ خانے میں کمپیوٹر سے لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر بیلَٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشان لگا رہے ہیں

قارئین پڑھے لکھے ۔ سمجھدار ۔ ہوشیار اور جوان دماغ کے مالک ہیں ۔ میں قارئین سے التماس کرتا ہوں کہ از راہِ کرم مجھے سمھجا دیجئے کہ یہ کیسے ہوتا ہے ؟
تاکہ میری پریشانی ختم ہو ۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ پریشانی صحت پر بُرا اثر ڈالتی ہے اور میری صحت پہلے ہی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے
میری صحت (اللہ نہ کرے) بگڑی تو اس کی ذمہ داری آپ پر بھی ہونے کا خدشہ ہے

یا اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا

آج کے دن 83 سال قبل

دنیا بھر میں جموں کشمیر کے رہنے والے آج یوم شہدائے کشمیرمنارہے ہیں ۔ تاریخ کا ایک ورق پیشِ خدمت ہے

ڈوگرہ مہاراجوں کا دور جابرانہ اور ظالمانہ تھا ۔ مسلمانوں کو نہ تحریر و تقریر کی آزادی تھی نہ دِینی اور سماجی سرگرمیوں کی ۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے تو اِنتہا کر دی ۔ لاؤڈ سپیکر پر اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان (ہمارے خاندان سے) ۔ شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ ۔ یوسف شاہ (موجودہ میر واعظ عمر فارو‍ق کے دادا) ۔ غلام نبی گُلکار وغیرہ کو چنا گیا

26 جون 1931ء کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں 50000 مسلمانوں نے شرکت کی ۔ جب لیڈر حضرات آپس میں مشورہ کر رہے تھے تو ایک شخص (جسے کوئی نہیں پہچانتا تھا) نے اچانک سٹیج پر چڑھ کر بڑی ولولہ انگیز تقریر شروع‏ کر دی ۔اور آخر میں کہا ”مسلمانوں اِشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اُٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو“ ۔ اُسے گرفتار کر لیا گیا ۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی ہندوستان میں واقع ہے اور ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا

عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت 13 جولائی 1931ء کو سرینگر سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی ۔ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ باہر سے آیا ہوا ہمارا مسلمان بھائی ہماری وجہ سے گرفتار ہوا ہے ۔ 7000 کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مقدمہ کی کاروائی دیکھنے دی جائے ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر تکرار ہو گئی اور ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے
شہید ہونے والے ایک شخص نے یہ آخری الفاظ شیخ عبداللہ سے کہے “ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں”۔
اسی شام جموں کے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان ۔ مولوی عبدالرحیم اور شیخ یعقوب علی اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گُلکار کو گرفتار کر لیا گیا

اس کے نتیجہ میں غلامی کا طوق جھٹک دینے کے لئے جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء ۔ 1938ء ۔ 1939ء اور 1947ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر کامیاب ہوتی رہی

سبحان اللہ و اللہ اکبر

ہمارے ملک میں دہشتگردوں کے خلاف جنگ جاری ہے ۔ متاءثرہ علاقے سے بے گھر ہونے والے لاکھوں مرد عورتیں اور بچے پوری قوم کی مدد کے حقدار اور منتظر ہیں
ہمارے لیڈر کروڑوں روپیہ خرچ کر کے ریلیوں اور جلسوں کا بندوبست کرتے ہیں تاکہ دوسروں میں برسرِ عام کیڑے نکال سکیں
اور ان کے پیروکار سوشل میڈیا پر دوسروں کو گالیاں دیتے اور قومی اصولوں کے بخیئے اُدھڑتے نہیں تھکتے
میرے ہموطن لیڈروں اور اُن کے پیروں کاروں کی یہ کیسی حب الوطنی ہے ؟

محبِ وطن کیسے ہوتے ہیں ؟
اور مسلمان کیسے ہوتے ہیں ؟
بلاشُبہ سب تعریفیں اللہ ہی کے واسطے ہیں اور وہی اپنے بندوں کا رکھوالا ہے
وہی زندگی اور موت دینے والا ہے
یہاں کلِک کر کے دیکھیئے کہ کیسی قوم کامیاب ہو گی (غزہ کی حالیہ وڈیو)

دیکھیئے اور سوچیئے

یہاں کلِک کر کے وِڈیو میں ذرا غور سے دیکھیئے کہ اس میں کون لوگ ہیں ؟
وڈیو لگانے والے کا دعوٰی ہے کہ پاکستانی طالبان اور اُن کے ساتھی ہیں

یہ تصویر ہے امریکی شہریت رکھنے والے ایک مسلمان لڑکے کی جسے اسرائیلی فوجیوں نے مار مار کے حشر کیاامریکی جسے اسرائلیون نے مارا
اس پر امریکہ نے اسرائیل سے صرف احتجاج کیا ہے
اگر یہ واقعہ کسی مسلمان مُلک میں ہوا ہوتا تو اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل اب تک اُس ملک پر معاشی پابندیاں عائد کر چکی ہوتی
اور ان پابندیوں پر عمل نہ کرنے والے ممالک کو امریکہ وارننگ بھی دے چکا ہوتا

اور یہاں کلِک کر کے وِڈیو میں دیکھیئے کہ اسرائیلی فوجی کیا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں
وہ اسرائیل جسے امریکہ ہر سال 3 ارب ڈالر امداد بلکہ خیرات دیتا ہے
وہ اسرائیل مسلمان عورتوں اور بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے
اور پھر امریکی حکومت کا دعوٰی ہے کہ اسرائیل بہترین جمہوریت ہے

میرے عِلم میں اضافہ فرمایئے

میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہوں لیکن عِلم کے حصول کی کوشش ضرور کرتا ہوں

رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو موزِیلا فائرفوکس چاروں شانے چِت ہوا اور اُٹھنے نہیں پا رہا تھا ۔ من بے صبرے نے گوگل کروم سے کام لیا ۔ ایسا کرنے کہ بعد کیا دیکھا کہ میرے بلاگ کی پوسٹ کی لکھائی کا تھوڑا سا حصہ بلاگ کے حاشیئے کی لکھائی پر چڑھ گیا ہے

عِلم والوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ وسعتِ قلب یعنی دریا دِلی سے کام لیتے ہوئے اور رمضان المبارک میں کئی گنا ثواب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے سمجھائیں کہ اسے کیسے درست کیا جائے کہ گوگل کروم ۔ موزیلا فائرفوکس ۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر سب میں درست نظر آئے

بندہ ہر مدد گار کا تہہ دل سے مشکور ہو گا