Monthly Archives: January 2014

عمارتوں کے شہر میں

پہلے خود غرضی یا خود تعریفی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم اور اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے آج اس بلاگ پر یہ میری 2001 ویں تحریر ہے ۔ جب میں نے یہ بلاگ شروع کیا تو مجھے اُمید نہیں تھی کہ میں 100 تحاریر ہی لکھ پاؤں گا ۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے

ہاں جناب ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے کرم سے بندہ بشر اپنے اعلان کے مطابق رواں ماہ کی 23 تاریخ کو دبئی پہنچ گیا تھا ۔ میرے لئے دبئی نئی تو نہیں رہی کہ جب سے چھوٹا بیٹا یہاں آیا ہے (2008ء) یہ ہمارا پانچواں پھیرا ہے اور غیر ترقی یافتہ دبئی 1975ء میں دیکھا تھا ۔ لیکن رسم ہے جو کسی زمانہ میں میرا محبوب مشغلہ تھا کہ کچھ عکس بندی کی جائے ۔ سو پیشِ خدمت ہیں چند عکس جن میں سے پہلے 9 مرسی دبئی (Dubai Marina) میں 22 منزلوں کی اُونچائی سے حاصل کئے گئے ہیں اور بعد والے 3 مرسی دبئی میں سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے حاصل کئے گئے ۔ یہ سب عکس میرے موبائل فون نوکیا ای 5 کے مرہونِ منت ہیں ۔ میں نے اپنے موبائل فون سے وڈیو بھی بنائیں ہیں لیکن وڈیو 7 سے 22 ایم بی تک ہیں جب کہ 2 ایم بی سے بڑی وڈیو میرے بلاگ پر اَپ لوڈ نہیں کی جا سکتی

عکس ۔ 1 ۔ میری بائیں جانب شارع الشیخ زید پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں
25012014254R

عکس ۔ 2 ۔ میں عکس ۔ 1 کا کلوز اَپ ہے
25012014255R

عکس ۔ 3 ۔ میرے سامنے سمندر کا نظارہ
25012014256R

عکس ۔ 4 ۔ عکس ۔ 3 کا کلوز اَپ
25012014257R

عکس ۔ 5 ۔میرے داہنی جانب سمندر کا نظارہ
25012014258R

عکس ۔ 6 ۔ عکس ۔ 5 کا کلوز اَپ
25012014259R

عکس ۔ 7 ۔ میرے مزید داہنی جانب سمندر کا نظارہ
25012014260R

عکس ۔ 8 ۔ عکس ۔ 7 کا کچھ کلوز اَپ
26012014266R

عکس ۔ 9 ۔ سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے سمندر اور عمارات کا نظارہ
26012014267R

عکس ۔ 10 ۔ مارینا مول کے سامنے سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے سمندر اور عمارات کا نظارہ
26012014268R

عکس ۔ 11 ۔ عکس ۔ 10 کا کلوز اَپ
26012014269R

زبان زدِ عام ؟ اور حقیقت ؟

وطنِ عزیز پاکستان میں میڈیا (ٹی وی چینلز ۔ اخبارات ۔ رسائل) ریٹنگ کی اندھی دوڑ میں حقائق پر پردہ ڈال کر ناظرین یا قارئین کو من گھڑت مفروضوں پر لگائے ہوئے ہیں ۔ ان کی مَن پسند خبر یا رپورٹ مل جائے تو درجنوں بار دکھائی جاتی ہے اور مذاکروں میں بھی اس کا بار بار ذکر ہوتا ہے ۔ ایسے مذاکرات کیلئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جانبدار لوگ لائے جاتے ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اشتہار ہوں ۔ اپنے ترتیب دیئے پروگرام یا کالم ہوں ۔ مذاکرے ہوں حتٰی کہ خبریں ہوں ننگ دھڑنگ یا لہراتی عورت کو دکھانا تعلیم و ترقی کی علامت بنا دیا گیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کا کام فحاشی پھیلانا ہے ۔ میڈیا پرچار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عورت کیلئے پردہ ایک قید ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت اسے رَد کر چکی ہے اور صرف چند جاہل پردے کے حق میں ہیں

پاکستان کا میڈیا جسے کسی ادارے کی بھی چھوٹی سے چھوٹی رپورٹ مل جاتی ہے وہ بڑے طمطراق سے نشر کی جاتی ہے چاہے وہ مستند بھی نہ ہو یا وہ ادارہ ہی غیرمعروف ہو ۔ مگر یہ میڈیا امریکا سے تعلق رکھنے والے پِیئُو تحقیقی مرکز (Pew Research Center) جس کی رپورٹس کو عمومی طور پر دنیابھر میں اہمیت دی جاتی ہے کی ایک اُس حالیہ رپورٹ کو پی گیا جس میں پردے کا ذکر ہے ۔ نہ ٹی وی چینلز ، نہ اخبار ، نہ کسی رسالے نے اس کا ذکر کیا کیونکہ یہ سروے رپورٹ ان کے جھوٹ کو پول کھول رہی ہے

پِیئُو تحقیقی مرکز کی اس سروے رپورٹ جو 7 مسلم ممالک (پاکستان، مصر، سعودی عرب، ترکی، عراق، لبنان اور تیونس) میں پردے کے سلسلہ میں ہے کے خلاصہ کا عکس ملاحظہ ہو
FT_styleofdress1314

اس سروے نے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی اسلام اور اسلامی شعائر سے محبت کو ثابت کر دیا ہے

سورت 24 النّور آیت 31
اور اے نبی ۔ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے شوہر یا باپ یا شوہروں کے باپ اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا بھتیجے یا بھانجے کے یا اپنی میل جول کی عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے ۔ اور نہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی چلا کریں کہ ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حُکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں ۔ اے مومنو ۔ تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو ۔ توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے

سورت 33 الْأَحْزَاب آیت 59
اے نبی ۔ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے

نوسَر بازوں سے ہوشیار رہیئے

جمعہ 17 جنوری 2014ء کو جب میں اسلام آباد میں تھا تو میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ سوچا کہ اسے عام کر دیا جائے تاکہ سادہ لوح جوان کہیں نقصان نہ اُٹھا لیں ۔ سہ پہر کے وقت مجھے بتایا گیا کہ باہر کوئی شخص آیا ہے ۔ میں گھر کے دروازہ سے نکل کر گیٹ کی طرف روانہ ہوا ۔ وہ شخص مجھے دیکھ کر بے تکلفی سے گیٹ کھول کر میری طرف چل پڑا ۔ میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا تو بولا
اجنبی ”آپ نے پہچانا نہیں ؟“۔
میں ”نہیں“
اجنبی ”آپ کہاں سے ریٹائر ہوئے تھے ؟“
میں ”کیوں تمہارا تعلق واہ سے ہے ؟“
اجنبی ”میں کریم داد کا بیٹا ہوں“

اجنبی نے بال کالے اور داڑھی مہندی رنگ کی ہوئی تھی اور اُس کی عمر ساٹھ سال یا زیادہ تھی ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ایک ڈرائیور کریم داد تھا ۔ اُس کا بیٹا اتنی زیادہ عمر کا نہیں ہو سکتا تھا ۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ کیا یہ اُسی کریم داد کی بات کر رہا ہے ؟ اگر ہے بھی تو میرا اُس سے کیا تعلق ؟ مجھے پی او ایف چھوڑے ہوئے بھی 19 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں ۔ خیر ۔ میں نے نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا
”کیسے آئے ہیں ؟“
اجنبی نے مزید قریب ہو کر مدھم آواز میں رازداری کے انداز میں کہا ”بیٹی کے ہاں بچہ ہونے والا ہے جو آپریشن سے ہو گا ۔ ہسپتال میں پیسے جمع کرانے ہیں ۔ بھائی گاؤں چلا گیا ہے ۔ کل صبح آ جائے کا ۔ میری وقتی ضرورت ہے کل صبح واپس کر دوں گا“

نہ جان نہ پہچان ۔ میں تیرا مہمان ۔ میرے پاس رقم ہو تو میں بغیر کسی واسطے کے مدد کرنے کا عادی ہوں لیکن میرے پاس اُس وقت فالتو رقم نہ تھی
میں نے کہا ”میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں“
اجنبی بڑے قربت کے انداز میں بولا ”گھر سے پتہ کر لیں ۔ اتنے زیادہ نہیں ہیں نکل ہی آئیں گے ۔ میں صبح سویرے واپس کر دوں گا“
میں ” میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ گھر سے کیا مطلب ؟ میں گھر میں شامل نہیں ؟“

اسکے بعد میں واپس آ گیا ۔ وہ واپس چلا گیا ۔ اُس کے چہرے پر مجھ سے بات کرنے سے قبل اور ناکام واپس جاتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی یا فکر کے تاءثرات نہیں تھے

پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی

سُنیئے جنابِ والا
کیا کہتا ہے بلاگ والا
پہلے اسے پڑھیئے غور سے
پھر بات کیجئے کسی اور سے

میں پچھلی بار (جون تا اگست 2012ء) دبئی گیا تو شکائت موصول ہوئی تھی کہ ”خبر نہ ہوئی“۔
چنانچہ تمام محترمات قاریات اور محترمان قارئین مطلع رہیئے کہ
اِن شاء اللہ بندہ بشر کل یعنی 23 جنوری 2014ء اسلام آباد سے روانہ ہو کر دبئی پہنچ جائے گا
اور اِن شاء اللہ 22 اپریل 2014ء کو واپس” آنّے والی تھاں“ یعنی اسلام آباد پہنچ جائے گا
اللہ کریم وقت خیریت سے گذراے

اپنے بلاگ پر تحاریر اور دوسروں کے بلاگوں پر تنقید اِن شاء اللہ جاری رہے گی

لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے

میری کہانی 4 ۔ باس

میں نے اپنے ہر باس کی انکساری اور بُردباری کے ساتھ تابعداری کی سوائے اس کے کہ باس کے حُکم کی بجا آوری سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا ادارے یا مُلک کو نقصان پہنچتا ہو ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں مختلف اوقات میں 5 باسِز کے ماتحت کام کیا ۔ جن میں سے 2 کے ماتحت صرف کچھ ماہ کام کیا اسلئے پہلے اُن کا ذکر جن کی ماتحتی میں زیادہ عرصہ گذارا

میرے پہلے باس ہر دل عزیز تھے (اپنی یا اپنے باس کی نظر میں) ۔ پائپ منہ میں رکھ کر بات کرتے تھے ۔ غصہ اُنہیں انگریزی میں آتا تھا ۔ فیکٹری میں کام 7 بجے شروع ہوتا تھا ۔ وہ ساڑھے سات بجے تشریف لاتے تھے ۔ ساڑھے نو بجے وہ اپنی کار پر چلے جاتے اور 12 بجے کے قریب لوٹتے ۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے کیلئے ایک گھنٹہ کی چھٹی ہوتی تو وہ پھر چلے جاتے اور دو ڈھائی بجے لوٹتے ۔ اگر اس معمول میں کوئی رکاوٹ پیش آ جاتی تو مزاج چڑچڑا ہو جاتا ۔ بات بات پر بھڑنے کو تیار رہتے ۔ دو گالیاں کسی کو غائبانہ دیتے اور ایک آدھ اپنے آپ کو بھی کہ ساری دنیا کا کام اُنہیں ہی کرنا پڑ گیا ہے
ایک دن مجھے حُکم دیا ” یہ سارے پھوہڑ (چٹایاں) جلا دو”۔ میں نے کہا ”دوپہر ایک گھنٹہ کے وقفے میں لوگ ان پر نماز پڑھتے ہیں اور میں بھی نماز پڑھتا ہوں ۔ میں ان کو جلا نہیں سکتا“۔ تو کہتے ہوئے چلے گئے ”ایوب خان جتنا بڑا مسلمان کوئی نہیں ۔ اُس نے نماز پڑھنے کا وقت نہیں دیا تو میں کیسے دے سکتا ہوں ۔ میں خود جلوا دوں گا“۔ مگر جلائے تو نہیں تھے
بہت دلیر اور نڈر مشہور تھے لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ باس کی بزدلی مجھ پر عیاں ہوئی ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ میرے ہاتھوں اُس معاملہ میں اُنہیں بچا دیا
اُن کا ایک راز دان چپڑاسی تھا جس سے سب ڈرتے اور اس کا کہا مانتے سوائے مجھ گستاخ کے ۔ لیکن ناجانے وہ چپڑاسی مجھ سے کیوں مانوس ہوتا گیا اور ایک دن ایسا آیا کہ اس نے باس کی ذاتی زندگی کے کئی راز تنہائی میں میرے سامنے اُگل دیئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے توفیق دی اور میں نے وہ راز ہمیشہ کیلئے دفن کر دیئے . ایک بتا دیتا ہوں جو مجھ سے متعلق تھا ۔ اُس زمانہ میں واہ میں قدرتی گیس مہیاء نہیں کی گئی تھی ۔ سردیوں میں انگیٹھی میں کوئلہ یا لکڑی جلاتے تھے ۔ ہماری فیکٹری میں بندوق کے بٹ اور فور آرم بننے کے بعد اخروٹ کی لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بچتے تھے ۔ اخروٹ کی لکڑی جلنے پر دھواں نہیں دیتی . یہ سکریپ کے طور پر ہماری فیکٹری کے ملازمین کو بیچے جاتے تھے ۔ ایک ملازم ایک سال میں صرف ایک بار لے سکتا تھا ۔ یہ باس میرے نام پر وہ لکڑی 5 سال نکلواتے اور مجھے لکڑی نہ ملتی رہی ۔ مجھے یہی بتایا جاتا رہا کہ لکڑی نہیں ہے
باس شاید اُس وقت تک باس نہیں ہوتا جب تک کسی بے قصور کو نقصان نہ پہنچائے ۔ چنانچہ جہاں تک اُن سے ممکن ہو سکا مجھے نقصان پہنچایا ۔ 1983ء میں لبیا سے واپسی پر مجھے پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تعنات کیا گیا تھا ۔ کسی کام سے پرنسپل کو ملنے آئے ۔ مجھے بیٹھا دیکھ کر حیرت سے کم از کم ایک منٹ منہ کھلا رہا اور کچھ بول نہ سکے اور کام بتائے بغیر چلے گئے

میرے جو دوسرے باس بنے وہ زبردست حکائت گو تھے اور اس فن سے واقف تھے کہ اپنے باس کے سامنے کونسی حکائت بیان کرنا ہے اور ماتحت کے سامنے کونسی ۔ خواتین کے جھُرمٹ میں گھُس کر کھِل اُٹھتے تھے ۔ اپنے گھر چائے پر جوان جوڑوں کو بُلایا ۔ میں اکیلا گیا کہ میری بیوی گو پردہ نہیں کرتی مگر مخلوط محفل میں جانا پسند نہیں کرتی تھی ۔ مجھے کہا ”واپس جاؤ اور بیگم کو لے کر آؤ“۔ میں نے پس و پیش کیا تو ایک ہمدرد نے علیحدہ لیجا کر کہا ”اس طرح بدتمیزی گِنا جائے گا ۔ بھابھی کو لے آؤ ۔ وہ ایک طرف کھڑی رہے باقی خواتین کے جھرمٹ میں نہ جائے ۔ سو ایسا ہی کیا گیا ۔ میری بیوی کو ایک اور اپنے جیسی مل گئی ۔ دونوں ایک طرف کھڑی گپ لگاتی رہیں اور چائے تک نہ پی ۔ باس اپنی چہک میں رہے اور اُنہیں اس کا احساس نہ ہوا
ایک دن مجھ سے کہنے لگے ”میں نے اپنی بیوی کو تسلی دے رکھی ہے کہ تو فکر نہ کر میں گھر دوسری کو لے کر نہیں آؤں گا“۔
ایک دن فرمانے لگے ”تم بہت غیر سماجی (unsocial) ہو ۔ بیگم کو ساتھ لے کر بڑے افسروں کے گھر جایا کرو“۔ میں ٹھہرا دو جماعت پاس ناتجربہ کار ۔ جواب دیا ”حضور ۔ اس ادارے کا ملازم میں ہوں میری بیوی نہیں“۔ اس پر لمبی تقریر جھاڑ دی
اپنے پی اے کے ہاتھ مہینے دو مہینے کی اکٹھی کی ہوئی اپنی ساری ڈاک میرے دفتر میں اس پیغام کے ساتھ بھجوا دیتے کہ ”ارجنٹ ہے ۔ جلدی سے ساری نپٹاؤں“۔
ایک پریس شاپ میں شاید ایک دہائی کام کیا تھا اور دعوے سے کہا کرتے ”I know nuts and bolts of presses (میں پریسوں کی ڈھِبریاں کابلے جانتا ہوں)“۔ ہم جرمنی گئے ہوئے تھے وہاں جرمن انجیئروں کے سامنے بھی یہ فقرہ کہا کرتے تھے ۔ ایک دن میرے ساتھ اس بات پر اُلجھ پڑے کہ میں کرینک (crank) پریس اور ایکسَینٹرِک (accentric) پریس کو فرق فرق سمجھتا ہوں ۔ جرمن انجنیئر سے کہا ”اپنے دوست اجمل کو سمجھاؤ“۔ وہ جرمن بہت تیز تھا بولا ”پریس ورکشاپ جا کر فورمین سے پوچھتے ہیں ۔ جب وہاں جا کر فورمین سے بات کی تو وہ اُچھل پڑا ”کون جاہل کہتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں“۔ باس تو وہاں سے بھاگ لئے ۔ واپسی پر جرمن انجنیئر نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا ”ہاں ۔ باس ڈھبریاں اور کابلے جانتے ہیں“۔ مزے کی بات کہ انگریزی میں کہنا ہو کہ اُسے کچھ نہیں آتا تو کہا جاتا ہے ”He knows nuts and bolts (اسے ڈھبریوں اور کابلوں کا پتہ ہے)“۔
انہی صاحب نے مجھے وفاداری کا سبق بھی پڑھایا تھا

میرے تیسرے باس بڑے مسلمان تھے ۔ کم از کم اُن کا اندازِ گفتگو یہی بتاتا تھا ۔ بڑے انصاف پسند بھی تھے ۔ جو اُن کا دعوٰی تھا ۔ ہر ماتحت کا تمسخر اُڑانا تو مزاح کی خاطر ہوتا تھا لیکن اُن پر کوئی ہلکی سی بھی تنقید کرے تو بپھر جاتے اور ہمیشہ کیلئے دل میں رکھتے
لطیفے سناتے ہوئے (نعوذ باللہ من ذالک) اللہ کی حیثیت ہی بھول جاتے
جو ماتحت اُن کی ذاتی خدمت عام کرے وہ بغیر سرکاری کام کے جس کی وہ تنخواہ پاتا ہو یا وہ جو بڑی سرکار کا منظورِ نظر ہو تو عمدہ رپورٹیں پاوے ۔ جو محنت اور ذہانت کے ساتھ اپنی تنخواہ حلال کرے مگر اول الذکر خوبی نہ رکھتا ہو اُس کی نہ صرف رپورٹ خراب کرتے بلکہ ہر محفل میں اُس کی نالائقی کا پرچار بھی کرتے
میں 1971ء میں پروڈکشن منیجر تھا تو میرے باس بنے ۔ وسط 1966ء سے میرے کام میں مشین گن کی پلاننگ اور ڈیویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ نہ صرف جرمن لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنا تھا بلکہ اُن کے ذاتی معاملات میں اپنے وقت میں مدد دینا اور چھُٹی کے دن سیر و سیاحت پر لیجانا بھی شامل تھا ۔ اسلئے میں جرمن کافی بولنے لگ گیا تھا ۔ 1971ء کی سالانہ رپورٹ میں ایک سوال تھا کہ کون کون سی زبان بولنا ۔ لکھنا ۔ پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن بولنا جانتا ہوں ۔ ایک ماہ بعد باس نے بلا کر کہا ”تم نے کونسا سرٹیفیکیٹ لیا ہوا ہے اس میں کاٹو اسے اور دستخط کرو“ ۔ مجھے بُرا تو لگا مگر نقصان نہ سمجھتے ہوئے کاٹ کر دستخط کر دیئے ۔ چند دن بعد ایک افسر جو چند ماہ قبل تک میرے ماتحت اسسٹنٹ منیجر تھا اور منیجر ہو گیا تھا میرے پاس آیا ۔ میں نے پوچھا ”کیسے آئے“۔ بولا ”باس نے بُلایا تھا“۔ میں نے پوچھا ”کیوں ؟“ بولا ”کہاتھا کہ یہاں لکھو کہ جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا آتی ہے ۔ میں نے لکھ دیا کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔ میں نے اپنا واقعہ بتایا تو ہنس دیا ۔ عقدہ بعد میں کھُلا ۔ اُس زمانہ میں ہمارے پروجیکٹ کے سلسلہ میں میری ہی سطح کا ایک افسر جرمنی میں بطور ٹیکنیکل اتاشی ہوتا تھا ۔ مجھ سے ایک سنیئر 3 سال گذار کر آ چکے تھے ۔ دوسرے کے 3 سال 1972ء میں پورے ہونا تھے ۔ اُن کے بعد میری باری تھی ۔ سلیکشن کے وقت میرا نام آیا تو موصوف نے بحث کی کہ اسے جرمن بالکل نہیں آتی جب کے جونیئر جرمن بولتا ۔ پڑھتا اور لکھتا ہے ۔ چنانچہ مجھے روک کر اُسے جرمنی بھیجا گیا ۔ وہ افسر انگریزی بھی روانی سے نہیں بول سکتا تھا ۔ اس کی سفارش کہیں بہت اُوپر سے آئی تھی
اسسٹنٹ منیجر ہفتہ کی پروڈکشن رپورٹ لے کر آیا ۔ میں نے جائزہ لے کر کہا ” کیا صرف گذشتہ رات میں پروڈکشن اتنی زیادہ ہو گئی ۔ کل چھُٹی تک تو کم تھی ؟“ وہ بولا باس نے کہا تھا ”جو رائفلیں اور مشین گنیں ابھی تیار نہیں ہوئیں اور ان کیلئے پرزے پورے ہیں اُنہیں بھی رائفلیں اور مشین گنیں گن لو“۔ میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ۔ بعد میں باس نے بلا کر دستخط کرنے کو کہا تو میں نے کہا ”جناب ۔ جو رائفلیں اور مشین گنیں ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئیں ۔ میں اُنہیں تیار کیسے سمجھ لوں ؟“۔ بولے ”بن ہی جائیں گی نا“۔ میں نے کہا ”جب بن جائیں گی تو رپورٹ میں بھی آ جائیں گی اور میں دستخط بھی کر دوں گا “۔ اُس دن کے بعد ہر جگہ ہر محفل میں جہاں میں موجود نہ ہوں میری مفروضہ نالائقی کے قصے بیان ہونے لگے
ذہین مسلمان ہونے کے دعویدار لیکن کوئی 5 وقت کی نماز مسجد میں پڑھنے والا ہو یا داڑھی سنّت سمجھ کر رکھی ہو تو اُسے جاہل سمجھتے
یہی صاحب بحیثیت ممبر پی او ایف بورڈ 1984ء میں میرے باس بنے جب میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ پاکستان میں سب سے پہلے یعنی 1968ء میں پی او ایف میں کمپیوٹرائزڈ نُومَیرِکل کنٹرول مشینز المعروف سی این سی مشینز (Computerised Numerical Control Machines) میں نے متعارف کرائیں تھیں اسلئے انسٹیٹیوٹ کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کا کام میرے ذمہ کیا گیا تھا ۔ ورکشاپس کے ساتھ ساتھ نئے نصاب بھی تیار کئے ۔ باس کا حُکم آیا کہ کھیلوں کے 60 نمبر بھی نصاب میں شامل کئے جائیں ۔ اس طرح کل نمبر 1160 بن گئے ۔ اسے 1200 بنانے کیلئے میں نے 10 (واہ کی سطح کا) سے 40 (ملکی سطح کا) بہترین قاری ہونے کیلئے شامل کر دیئے ۔ جب باس کو دکھایا تو بولے ”ابھی سے ان کو مکاری سکھا دو“۔ خیال رہے کہ اس زمانہ میں سکولوں میں قرآن شریف ناظرہ پڑھانا لازمی تھا

میری تحریر ”احتساب“ میں درج واقعات میں سے کچھ انہی حضرات کے کارنامے ہیں

باس سب خراب نہیں ہوتے ۔ میرے 2 ایسے باس بھی رہے جن میں سے ایک صرف 2 ماہ (نومبر دسمبر 1963ء) جن کا نام فیض الرحمٰن صدیقی تھا اور دوسرے شاید 1970ء میں 6 ماہ کیلئے جن کا نام حسن احتشام ہے ۔ ان حضرات کے ساتھ بھی میرا تکنیکی یا ذاتی اختلاف ہوا اور بحث بھی ہوئی لیکن یہ دونوں کام کرنے والے ماتحتوں کی بہت قدر کرتے تھے ۔ اس کا عِلم مجھے اُن کے ماتحت کام کرنے کے بعد ہونے والے واقعات سے ہوا ۔ اللہ کریم نے انہی 2 افسران کو میرا شفیع بنایا اور میں اللہ کے فضل و کرم سے بدیر سہی لیکن ریٹائرمنٹ لینے کے وقت گریڈ 20 میں تنخواہ کی زیادہ سے زیادہ سطح پر پہنچا

معلوماتِ عامہ کا امتحان

1 ۔ کھانے کی کونسی چیز ایسی ہے جو وقت گزرنے سے خراب نہیں ہوتی ؟

2 ۔ مندرجہ ذیل میں قدرِ مُشترک کیا ہے ؟
بُلٹ پروف واسکٹ (bulletproof vests)
آگ سے بچاؤ کا راستہ (fire escapes)
کار کے وائپر (windshield wipers)
اور لیزر پرنٹر (laser printers)
۔
سوچئے
۔
۔
۔
جوابات

1 ۔ قدرتی شہد

2 ۔ یہ سب عورتوں نے ایجاد کئے

دعا کی استدعا

جسمانی لحاظ سے سن 2014ء ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا
اس حوالے سے میں دعا کرتا ہوں

اے اس کُل کائنات کے خالق و مالک
بلاشُبہ تیرے اختیار میں ہے بنانا ، بگاڑنا ، اُبھارنا ، بگڑے کو بنانا ، سیدھی راہ دکھانا ، سیدھی راہ پر چلانا اور دِلوں کی قدورتوں کو دُور کر کے باہمی محبت پیدا کرنا
تو نے 1947ء میں مسلمانانِ ہند کے دِلوں میں ایسی محبت اور نصب العین کی لگن ڈال دی تھی کہ وہ سب کچھ بھُلا کر ایک ہو گئے تھے اور مل کر ایسی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تو نے ہمیں اپنی نعمتوں سے مالامال یہ ملک پاکستان عطا کیا
ہم نے تیری دی ہوئی آزادی کی قدر نہ کی اور تیری عطا کردہ نعمتوں کا ناجائز استعمال کیا اور آج ہم اس حال کو پہنچ گئے ہیں
تو رحیم ہے رحمٰن ہے کریم ہے عفو و درگذر تیری صفت ہے
ہماری خطاؤں اور نالائقیوں سے درگذر فرما اور ہمیں پھر سے ایک قوم بنا دے
ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما
ہمیں اس مُلک کی خاطر جو تو نے ہی عطا کیا تھا محنت اور لگن کی توفیق عطا فرما

میں چشم تر کے ساتھ آخر میں خواجہ الطاف حسین حالی صاحب کی لکھی دعا کو بطور ہر پاکستانی کی دعا کے دہراتا ہوں

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے ۔ ۔ ۔ اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے ۔ ۔ ۔ اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے ۔ ۔ ۔ اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب ۔ ۔ ۔ اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں ۔ ۔ ۔ پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے ۔ ۔ ۔ اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی ۔ ۔ ۔ پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر ۔ ۔ ۔ مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں ۔ ۔ ۔ بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں ۔ ۔ ۔ خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے ۔ ۔ ۔ نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ۔ ۔ ۔ ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے