Monthly Archives: November 2013

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سیانے کا قول اور حقیقت

کہتے ہیں کسی سیانے نے کہا تھا
1 ۔ اعلٰی دماغ ادراک و فکر کرتے ہیں
2 ۔ درمیانے دماغ واقعات پر بحث کرتے ہیں
3 ۔ چھوٹے دماغ کا موضوعِ بحث لوگ ہوتے ہیں

میں نے زندگی بھر دیکھا کہ اکثر لوگوں کا موضوع زیرِ بحث لوگ ہی ہوتے ہیں
تو
کیا اس کا مطلب لیا جائے کہ اکثر لوگوں کے دماغ چھوٹے ہوتے ہیں ؟

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” I Am Not A Terrorist

میری کہانی ۔ لالٹین اور جاتکو

جی نہیں ۔ یہ وہ کہانی نہیں ۔ نہ تو یہ جیو کہانی ہے اور نہ وہ جس کا گانا محمد رفیع نے 6 دہائیاں قبل گایا تھا بلکہ میری سر گذشت ہے جس سے کچھ اقتباسات پیش کرنے کا آخر ارادہ کر ہی لیا ہے

سن 1948ء میں شاید نومبر یا دسمبر میں ہم نے راولپنڈی جھنگی محلہ کی سرکلر روڈ سے نکلتی ایک گلی میں ایک مکان کی 2 کمروں باورچی خانہ غُسلخانہ اور بڑے سے صحن پر مُشتمل پہلی منزل کرایہ پر لی ۔ دوسری منزل میں مالک مکان ۔ اُس کی بیوی اور والدہ ررہتے تھے ۔ گھر بالکل نیا بنا تھا لیکن گھر میں نہ پانی تھا نہ بجلی ۔ مالک مکان نے اپنا بندوبست کرنے تک ایک لالٹین عنائت کی جو ہم بچوں نے پہلی بار دیکھی تھی ۔ میرا سوا سالہ بھائی رونے لگا تو والدہ محترمہ نے لالٹین کمرے میں لانے کو کہا ۔ میں جو لالٹین اُٹھا کر چلا تو اُس کا شعلہ پھپ پھپ کی آواز کے ساتھ اُچھلنے لگا اور کمرے میں پہچنے تک لالٹین بُجھ گئی ۔ میری پھوپھو جی جو بیوہ تھیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں نے لالٹین جلا کر دی مگر پھپ پھپ کرتی پھر بُجھ گئی ۔ پھوپھو جی جلاتیں اور وہ پھر بُجھ جاتی ۔ یہ عمل بڑوں کیلئے تو شاید پریشانی کا باعث ہوا ہو لیکن میں ۔ میری بہن اور ایک 8 سالہ بھائی ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے ۔ اگلی صبح پھوپھو جی لالٹیں دوسری منزل پر لے گئیں تو مالک مکان کی والدہ نے درست کر دی اور بتایا کہ آرام سے لالٹین اُٹھائیں ورنہ تیل اُوپر موہرے میں چڑھ جاتا ہے تو پھپ پھپ کرتی ہے

ہم 2 بھائیوں کو چھوٹی چھوٹی بالٹیاں خرید دی گئیں کہ روزانہ گلی کے نلکے سے پانی بھر کر لایا کریں ۔ پہلے میں نلکا کھول کر بالٹی میں پانی بھرتا پھر چھوٹا بھائی بالٹی بھر کے نلکا بند کرتا ۔ ایک دن بھائی نلکا کھُلا چھوڑ آیا ۔ جب ہم دوبارہ پانی لینے گئے تو ایک عورت بولی ”جاتکو ۔ ٹُوٹی کھُلی کیئوں چھوڑ وَینے او“۔ ہم نے گھر جا کے کہا کہ ”ایک عورت نے ہمیں ڈانٹا ہے اور گالیاں دی ہیں ۔ اب ہم پانی لینے نہیں جائیں گے“۔ اگلے روز ہماری پھوپھو نے ملک مکان کی والدہ سے ذکر کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے ”بچو ۔ نلکا کھُلا کیوں چھوڑ دیتے ہو“۔

لو اور سُنو

یہ تو سُنا تھا کہ مُجرم کی بجائے کسی دوسرے کو مُجرم کہہ کر پکڑ لیا مگر یہ پہلے کبھی نہ سُنا تھا

کراچی میں امن وامان سے متعلق اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کے سامنے سیکریٹری داخلہ سندھ نے انکشاف کیا کہ سندھ کی جیلوں میں 41 جعلی قیدیوں کی نشاندہی ہوئی ہے ۔ یہ قیدی کسی دوسرے افراد کی جگہ بند کئے گئے ۔ جعلی قیدیوں کی نشاندہی نادرا کے ریکارڈ کے ذریعے ہوئی

ذرا غور کیجیئے

تین روز قبل ساجد صاحب نے ایک تحریر ”اچھا باجی“ کے عنوان سے لکھی تھی ۔ اب اسی تصوریر کا ایک اور رُخ دیکھئیے
اپنے کمپیوٹر کے سپیکر آن کر دیجئے پھر یہاں کلک کر کے وڈیو دیکھیئے اور سر دھنیئے
کیا ایسے ”ساب“ لوگ ہمارے ملک میں اب کچھ زیادہ نہیں ہو گئے ؟

حسبِ حال

مرزا اسداللہ غالب گو عشق ميں غرق رہے ليکن بسا اقات بڑی سدا بہار بات کہہ گئے جو آج بھی ويسی ہی تر و تازہ ہے جيسی مرزا اسداللہ غالب کے دور ميں تھی

قوم کی عام حالت

عمر بھر ہم يونہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئينہ صاف کرتے رہے

اور يہ تو جاپتا ہے کہ شايد ميرے جيسوں کے متعلق کہہ گئے تھے

پتھر ہی لگیں گے تجھے ہر سمت سے آ کر
یہ جھوٹ کی دنیا ہے یہاں سچ نہ کہا کر

اب روتا ہے کیا تجھ سے کئی بار کہا تھا
حالات کے دھارے کے مخالف نہ بہا کر

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کمال

کمال یہ نہیں
کہ دوسروں کو بدلنے کی تلقین کرتے رہیں

کمال یہ ہے کہ
اپنے رنگ کو قائم رکھتے ہوئے،
قابلِ تقلید مثال بن کر،
دوسروں کی زندگیاں روشن کی جائیں

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ سوا 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Real Threat to Peace

آدھی بیوہ

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے ستائے شہریوں کی ایک نئی داستان سامنے آئی ہے۔ یہاں 1500 سے زائد خواتین ایسی ہیں جن کے خاوند تو مر چکے ہیں، لیکن انہیں سرکاری سطح پر بیوہ نہیں قرار دیا جا رہا۔ قطر کے نشریاتی ادارے نے کشمیریوں کی دکھ بھری داستان بیان کرتے ہوئے کہا کہ 1989ء کے بعد سے 70 ہزار سے زائد کشمیری نوجوان شہید کردئیے گئے ، 10000 سے زائد کشمیر ی نوجوان غائب ہیں، جن کے بارے کچھ معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مردہ ۔ 1500سے زائد ایسی خواتین جن کے شوہروں کو غائب کردیا گیا، وہ سرکاری سطح پر بیوہ نہیں کہلا سکتیں کیونکہ ان کے خاوندوں کو مردہ قرار نہیں دیا گیا، معاشی مسائل اور ذہنی صدمات نے ان کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے، سماج انہیں دوسری شادی کرنے نہیں دے رہا، مذہبی اسکالروں کی اس کے متعلق مختلف رائے ہے ۔ تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری جدو جہد آزادی میں ایسی خواتین کی دل ہلا دینے والی داستانیں ہر جگہ ملیں گی جن کے شوہر غائب ہیں اور وہ انہیں مردہ سمجھ کر کہیں شادی بھی نہیں کرسکتیں ۔ 1989ء کی مسلح جدو جہدکے بعد کشمیری نوجوانوں پر بھارتی فوج نے ظلم کے پہاڑ توڑے ۔ کبھی مجاہدین کشمیر نوجوانوں کو گائیڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں کبھی بھارتی فوجی ان کو جنگلوں میں سرچ آپریشن کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ کئی ان میں سے واپس گھروں کو نہیں لوٹے ۔ خواتین اپنے شوہروں کا آج بھی انتظار کرتی ہیں کہ شاید وہ زندہ ہوں

2009ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے کشمیر کو ”کرہ ارض کا سب سے بڑا فوجی علاقہ“ قرار دیا تھا، غیرحل طلب تنازعات نے کئی دکھ بھری داستانیں چھوڑیں ہیں ۔ ان میں سب سے بد قسمت صورت ایسی خواتین کی ہے جن کے شوہر غائب کردیئے گئے اور ان کے زندہ یا مردہ ہونے کا کوئی اتہ پتہ نہیں چل پایا ۔ تاہم مقامی سطح پر انہیں آدھی بیوہ سمجھا جاتا ہے ۔ حکومت کے پاس آدھی بیوہ کے کوئی اعداد وشمار نہیں، ایک تھنک ٹینک کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد 1500 سے زائد ہے،

تھنک ٹینک نے کشمیر کے 22 اضلاع میں سے صرف ایک ضلع بارمولا میں 2700 گمنام اور اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی تھی، رپورٹ کے مطابق ان خواتین کے غائب شوہروں کی قبریں ان میں سے ہو سکتیں ہیں ۔ تھنک ٹینک نے بھارتی حکومت سے ان قبروں میں مدفون افرادکے ڈی این اے ٹیسٹ کا مطالبہ کیا تھا ۔ ان نصف بیواؤں کے علاوہ ایسے ڈی این اے ان 10000 غائب ہونے والے کشمیریوں کے خاندانوں کو مدد دے گا

حکومت نے ایسی خواتین کو ریلیف دینے کی اسکیمیں جاری کرنے کا اعلان کیا، تاہم انہیں حکومت کی طرف سے ماہانہ صرف 200 روپے دیئے گئے ۔ نصف بیوائیں معاشی اور ذہنی صدمات سے دو چار ہیں اور ان کا انحصار سسرال یا والدین پر ہے ۔ انہیں جائداد یا بینک اکاوٴنٹ کے لئے ڈیتھ سرٹیفیکیٹ چاہیے جو ایک بیوہ کے لئے ضروری ہے تاہم نصف بیواؤں کے شوہروں کو سرکاری سطح پر مردہ قرار نہیں دیا گیا۔

اسلامی شریعت کے مطابق بچوں کے ساتھ بیوہ کو آٹھواں اور بغیر بچوں کے چوتھا حصہ ملتا ہے لہٰذا نصف بیوہ کو تو کچھ نہیں ملتا، کشمیر یونیورسٹی کے قانون کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ دوسری شادی کو معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ،سری نگر کے ایک دیو بند مکتبہ فکر کے اسکالر مفتی عبدالرشید کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جن کے شوہر غائب ہو ں وہ کسی مسلمان جج سے ایک سال تک اپنے شوہر کی تلاش میں مدد لے سکتی ہے، اگر جج ناکام رہے تو وہ شادی ختم کرکے اس خاتون کو کسی دوسری جگہ نکاح کی اجازت دے سکتا ہے ، اگر دوسری شادی کے بعد پہلا شوہر سامنے آجائے تو دوسری شادی ختم ہو جائے گی ۔ حنفی فقہ کے مطابق ایسی خاتون جس کا شوہر غائب ہو جائے وہ 90 سال تک اس کا انتظار کرے (میرا نہیں خیال کہ یہ درست ہے)، اگر نہ آئے تو پھر وہ شادی کرسکتی ہے ۔ ایک اور اسلامی اسکالر مفتی قمر الدین کا کہناتھا کہ شوہر کے انتظار کم کرکے 4 سال دس 10 ہے ۔ اس عرصہ کے بعد خاتون دوسری شادی کرسکتی ہے

انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 سے غائب ہونے والا کسی کا شوہر واپس نہیں آیا ۔ 52 سالہ بیگم جان کا شوہر 1998 ء کی ایک شام نماز کے لیے گھر سے نکلا اور آج تک واپس نہیں آیا ۔ بی بی فاطمہ کا شوہر 1993ء میں مزدوری کے لئے گھر سے نکلا پھر واپس نہیں لوٹا ،آرمی کیمپوں کے علاوہ اس نے اسے ہر جگہ تلاش کیا اور اب اس کی واپسی کی امید توڑ دی