Monthly Archives: October 2013

ڈیجِٹل نظام اور ہم

محمد ریاض شاہد صاحب نے ”طرزِ کُہن پہ اُڑنا“ کے عنوان سے لکھا ۔ میں متعدد بار اپنی معذوری کا اظہار کر چکا ہوں کہ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد سے میر ے دماغ کا سوچنے والا حصہ مفلوج ہو چکا ہے چنانچہ میں کچھ بھی سوچ نہیں سکتا لیکن جونہی میں نے تبصرہ کے خانہ میں اظہار خیال شروع کیا قادرِ مطلق نے میرے ساتھ بیتے کچھ واقعات ذہن میں زندہ کر دیئے اور میں نے طوالت کے باعث باقاعدہ تحریر شائع کرنے کا قصد کیا

محمد ریاض صاحب نے تو ڈیجِٹل نظام (Digital System) کی بات کی ہے جسے کمپیٹرائزڈ نظام (Computerised System) بھی کہا جا سکتا ہے ۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میرے ہموطن خواہ کتنے ہی پڑے لکھے اور جہاں دیدہ کیوں نہ ہوں وطنِ عزیز میں کوئی باربط نظام چلنے نہیں دیتے ۔ اس کی وضاحت کیلئے میں اپنے ساتھ بیتے صرف 3 واقعات بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں

نظام ضبط مواد (Material Control System)

محکمہ فنی تعلیم میں بڑی باعزت اور شاہانہ ملازمت چھوڑ کر یکم مئی 1963ء کو میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف)۔ واہ چھاؤنی میں ملازمت اسلئے اختیار کی کہ انجنیئرنگ میں عملی تجربہ حصول کے بعد اللہ کریم کی عطا کردہ صلاحیت کو استعمال کر کے اپنی قوم کے کم از کم ایک شعبہ کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی اپنی سی کوشش کروں ۔ شروع کے 8 ماہ ہی میں اللہ کے فضل سے میری محنت کو پذیرائی ملی اور مجھے پی او ایف کے ایک نہائت اہم پروجیکٹ (رائفل جی 3) کی ڈویلوپمنٹ پر لگا دیا گیا ۔ جب کام پیداوار (production) کے قریب پہنچا (1965ء) تو میں نے اپنے سے سینیئر افسر (جو کہ اس پروجیکٹ کا سربراہ تھا) سے پوچھا ”یہ سب مٹیریئل ۔ ٹولز ۔ فکسچرز ۔ وغیرہ کہاں سے آتے ہیں اور اس کا کیا طریقہ کار ہے ؟“
اُنہوں نے سب سے سینیئر فورمین سے رابطہ کرنے کا کہا ۔ میں نے اُن صاحب کے پاس جا کر یہی سوال پوچھا تو جواب ملا ”سٹور سے“۔
میں نے استفسار کیا ”سٹور میں کہاں سے آتا ہے ؟” جواب ملا ”نیوٹن بُوتھ نے برطانیہ سے منگوایا تھا
میں گہری ٹھنڈی سانس بھرنے کے سوا کیا کر سکتا تھا ۔ نیوٹن بُوتھ کو واپس برطانیہ گئے کئی سال گذر چکے تھے ۔ شاید 1956ء میں واہ چھاؤنی میں پہلی 4 فیکٹریوں میں کام شروع ہونے پر ان کا ٹیکنیکل سربراہ ہونے کے ناطے نیوٹن بُوتھ صاحب نے یہ سب کچھ دساور سے منگوایا تھا

میں نے معاملہ کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ایک ماہ کی پوچھ گچھ اور دماغ سوزی کے بعد ایک نظام تیار کیا ۔ یہ وقت کی قید کے ساتھ ایک مربوط نظام تھا کہ مستقبل کی ضروریات کیلئے کب خرید کا سوچ کر منظوری حاصل کرنا ہے کب بجٹ بنانا ہے کب پیشکشیں مانگنا اور آرڈر کرنا ہے ۔ مٹیریئل کی مقدار کا تخمینہ کیسے لگانا ہے جب مال آ جائے تو اُسے کیسے اور کہاں رکھنا ہے اور اس کا اجراء کیسے کرانا ہے ۔ میں نے مجوزہ نظام اُس وقت کے ٹیکنیکل چیف کو پیش کیا جنہوں نے پڑھنے کے بعد ایک کمیٹی بنائی جس میں میرے ساتھ دیگر متعلقہ محکموں کے افسران لگا دیئے گئے ۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ شروع ہونے کی وجہ سے کچھ تاخیر ہوئی ۔ اراکین کمیٹی نے بحث مباحثہ کے بعد نظام کی منظوری دی اور بڑے صاحب کی منظوری کے بعد نظام کے نفاذ کا حکمنامہ 1966ء میں جاری ہو گیا ۔ ٹیکنیکل چیف کی اشیر باد سے میں جس فیکٹری میں تھا وہاں میں نے پہلے ہی نفاذ شروع کر دیا تھا ۔ مجھے مئی 1976ء میں ایک دوست ملک کا ایڈوائزر بنا کر بھیج دیا گیا جہاں میں پونے سات سال رہا ۔ واپس آیا تو سب کچھ چوپٹ ہو چکا تھا

محکمہ اکاؤنٹس

اواخر 1985ء میں مجھے پی او ایف کے محکمہ منیجمنٹ انفارمیشن سسٹمز (ایم آئی ایس) میں جنرل منیجر تعینات کیا گیا ۔ میں نے 3 ماہ محکمہ کے کام اور گرد و پیش کا مطالعہ کیا ۔ محکمہ اکاؤنٹس والے ہر سال کئی ماہ ملازمین کے جنرل پراویڈنٹ فنڈ (جی پی فنڈ) کی ضربوں تقسیموں میں گذارتے تھے ۔ میں نے جی پی فنڈ کی کمپیوٹرائزیشن کا منصوبہ بنایا اور کنٹرولر آف اکاؤنٹس سے بات کی وہ خوش ہوئے کہ اس طرح اُن کے محکمہ کا جو وقت بچے گا اسے کسی اور بہتر کام پر لگایا جا سکے گا ۔ ایک ماہ میں پروگرام بنا کر ڈاٹا اَینٹری بھی کر دی گئی اور بطور نمونہ ایک ہارڈ کاپی بنا کر (پرنٹ لے کر) اُنہیں دے دیا گیا ۔ اگلے روز کنٹرولر آف اکاؤنٹس میرے پاس شکریہ ادا کرنے آئے تو میں نے کہا ”چلیئے آپ کو دکھاتے ہیں کہ اب یہ کام کتنا آسان ہو گیا ہے“۔ جب اُن کے متعلقہ محکمہ میں پہنچے تو ایک شخص دی گئی ہارڈ کاپی اپنی میز پر رکھے کیلکولیٹر سے کچھ حساب کتاب کر رہا ۔ اُسے پوچھا کہ ”کام سمجھ میں آ گیا ؟“ بولا ”ابھی تو میں کیلکولیشنز چیک کر رہا ہوں“۔

مٹیریئل رسد کا نظام (Material Receipt System)

چیئرمین پی او ایف بورڈ (لیفٹننٹ جنرل صبیح قمرالزمان) نے 1989ء میں کہا کہ”آپ کراچی چلے جائیں ۔ پاکستان مشین ٹولز فیکٹری کا مٹیریئل رسد کا نظام بہت اچھا ہے ۔ اس کا مطالعہ کر کے ہمارے ادارے کی ضروریات کے مطابق نظام وضع کریں جو بعد میں کمپیوٹراز بھی کیا جا سکے“۔ میں چلا گیا اور نظام کو اچھا پایا ۔ واپس آ کر پی او ایف کیلئے ایک جامع نظام تشکیل دیا اور چیئرمین صاحب کو پیش کر دیا ۔ اُنہوں نے اس کا جائزہ لینے کے بعد منظوری دے دی اور نفاذ کیلئے محکمہ سٹورز کو بھیجا جنہوں نے خدشات کا اظہار کیا ۔ چیئرمین صاحب نے ایک میٹنگ بُلائی جس میں محکمہ سٹورز کے سربراہ اور اُن کے ماتحت افسران کو مدعو کیا اور مجھے بھی بُلایا ۔ میٹنگ میں جو احساس میرے ذہن میں اُبھرا یہ تھا کہ کسی نے مجوزہ نظام کا مطالعہ کرنے کی زحمت نہیں کی تھی اور جمودِ ذہن کے باعث بے بنیاد خدشات ان الفاظ میں ظاہر کئے ”بہت مشکل ہو جائے گی“۔ ”ہم کئی دہائیوں کے آزمائے نظام پر کام کر رہے ہیں ۔ کہیں یہ نہ ہو جائے ۔ کہیں وہ نہ ہو جائے“۔ میٹنگ کے بعد چیئرمین صاحب نے مجھے دفتر میں آنے کا اشارہ کیا ۔ میں گیا تو بولے ”بھوپال صاحب ۔ اس قوم کیلئے آپ جتنی بھی محنت کریں بیکار ہے”۔

پاکستان کا مطلب کیا

شاید ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو گا جس نے ” پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ“ نہ سُنا ہو ۔ ویسے چند لوگوں کو اس سے کچھ چِڑ بھی ہے کہ اُن کے خیال کے مطابق پاکستان شاید موج میلہ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا جہاں دین اسلام کا عمل دخل نہ ہو ۔ خیر مجھے اس سے بحث نہیں ہے لیکن اتنا واضح کر دوں کہ یہ جُملہ سامنے آتے ہی جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گیا تھا اور ہر مسلمان عورت مرد لڑکی اور لڑکے کی زبان پر رواں ہو گیا تھا کیونکہ تمام مسلمان پاکستان کا مطلب یہی لیتے تھے

آج صرف یہ تاریخی حقیقت ایک بار پھر آشکار کرنا ہے کہ یہ نعرہ جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی اور جو پاکستان بننے پر مُنتج ہوا ۔ معرضِ وجود میں کیسے آیا تھا ؟

پروفیسر اصغر سودائی نے 1944ء میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی ”ترانۂ پاکستان”۔ یہ بے مثال طرح مصرع اسی نظم کا ہے ۔ یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے ۔ اسی لئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں 25 فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے ۔ اصغر سودائی 1926ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ لوگ اُنہیں “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا” بھی کہتے تھے ۔ اُنہیں ایک بار پوچھا گیا تھا کہ ”یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا ؟“ تو آپ نے فرمایا کہ “جب لوگ پوچھتے کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے ؟ تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے“۔

ترانۂ پاکستان

شَب ظُلمت میں گزاری ہے ۔ اُٹھ وقتِ بیداری ہے
جنگِ شجاعت جاری ہے ۔ ۔ ۔ آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

ہادی و رہبر سرورِ دیں ۔ ۔ ۔ صاحبِ علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں ۔ ۔ ۔ احمد مُرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

چھوڑ تعلق داری چھوڑ ۔ اُٹھ محمود بُتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

جُرأت کی تصویر ہے تو ۔ ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

نغموں کا اعجاز یہی ۔ ۔ ۔ دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی ۔ ۔ ۔ وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

پنجابی ہو یا افغان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان ۔ ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

تجھ میں ہے خالد کا لہو ۔ تجھ میں ہے طارق کی نمُو
شیر کے بیٹے شیر ہے تُو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

مذہب ہو ۔ تہذیب کہ فن ۔ تیرا جُداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن ۔ ۔ ۔ غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

اے اصغر اللہ کرے ۔ ۔ ۔ ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے ۔ وقتِ دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ راحت

نیک کام کرنے سے دل کو 2 بار راحت ملتی ہے

ایک ۔ جب وہ کام کیا جاتا ہے
دو ۔ جب اس کام کا اَجر ملتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ سوا 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے The Reason Behind Terrorism

تحریک آزادی کشمیر کے خلاف سازش

جموں کشمیر میں آزادی کی مسلحہ تحریک 24 اکتوبر 1947ء کو شروع ہوئی تھی ۔ اس حوالے سے ایک مضمون

ایک مجاہد کا خط

جناب ڈاکٹر صفدر محمود
سلام مسنون
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کے بغیر ہر حوالے سے نامکمل ہے۔ اب پاکستان کو نامکمل رکھنے کے لئے ہمارے دشمن پاکستان کو تحریک آزادی کشمیر سے الگ کرنے کی گہری چال چل رہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے محاذ پر ناکام ہوا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے بے بسی کے احساس کو جنم دے کر جوش عمل ٹھنڈا کرنا ہے۔ ورنہ حقائق اس کے برعکس ہیں

کشمیر کے محاذ پر تحریک پاکستان کے دور سے لے کر آج تک کی تاریخ پاکستان کی زبردست کامیابی اور برہمن عزائم کی مسلسل شکست سے عبارت ہے۔ کانگریس نے ہر ممکن کوشش کی کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ انگریزوں نے ہر مرحلے پر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس مقصد کے لئے پہلے ماؤنٹ بیٹن اور پھر گاندھی نے تقسیم ہند سے ذرا پہلے کشمیر کا دورہ کیا بعدمیں جب بھارت نے فوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہا تو ہم نے کم و بیش نصف ریاست یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو زور بازو سے آزاد کر لیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر کی علامتی و سیاسی اہمیت گو کہ زیادہ ہے مگر اقتصادی امکانات کے لحاظ سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اہمیت اور افادیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ وادی کشمیر پر پاکستان کا اپنا برحق دعویٰ برقرار رکھنا اور وہاں پر بھارت کے خلاف مزاحمت کا مسلسل کسی نہ کسی صورت جاری رہنا ہماری کامیابی اور بھارت کی ناکامی اور پسپائی کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر آج تک بین الاقوامی قانون کی رو سے متنازع علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور جب تک پاکستان کشمیر پر اپنے دعوے پر ڈٹا رہے گا کشمیر ہرگز بھی بھارت کا قانونی حصہ نہیں بن سکے گا۔

مجرمانہ قومی غفلتوں سے ہم نے پاکستان کا جو حشر کیا ہے اس کی وجہ سے ہم اب تک مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہیں کروا سکے اور نہ اس وقت تک کروا سکتے ہیں جب تک پاکستان اقتصادی اور عسکری میدانوں میں بھرپور خود کفالت کی منزل کو نہیں پالیتا۔ خود کفیل، باعزم اور توانا پاکستان ہی بھارت اور اس کے مغربی حواریوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے فیصلہ کن اقدام کرنے کے قابل ہوگا۔

یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ وادی کشمیر کے مسلمان پاکستان سے کشمیر کا الحاق نہیں چاہتے اس جھوٹی مہم کا مقصد پاکستان کی رائے عامہ کو فریب دینا ہے۔ کشمیر کے زمینی حقائق پر طائرانہ نظر ہی اس پروپیگنڈے کو جھٹلانے کے لئے کافی ہے۔ کشمیر قیام پاکستان سے پہلے ہی نظریہ پاکستان پر ایمان کا مضبوط قلعہ بن چکا تھا۔ وہاں کی مسلمان اکثریت کی پاکستان سے پختہ نظریاتی اور جذباتی وابستگی میں کبھی بھی ضعف نہیں آیا۔ امریکی دباؤ میں آکر طول اقتدار کے لئے فوجی آمر جنرل مشرف نے کامیابیوں کی طرف گامزن 90ء کی دہائی کی آزادی کشمیر کے لئے جاری خونین مزاحمت کی حمایت سے دست برداری کا اعلان کیا۔ اس مجرمانہ فعل سے مسلح مزاحمت کا گلا گھونٹا گیا۔ ان حالات میں پاکستان دشمن اور بھارت نواز الحادی عناصر کے لئے مسلمانان کشمیر کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لئے موزوں ماحول میسر رہا۔ وادی کشمیر کی بابصیرت مسلم رائے عامہ نے ان حوصلہ شکن حالات میں بھی ہر موقع پر پاکستان سے اپنی لازوال وابستگی کا بھرپور اظہار کیا۔ 2008ء میں ہندو مذہبی استھانوں کو زمین کی منتقلی کے خلاف احتجاج سے شروع ہونے والی پرامن تحریک آزادی کے دوران لاکھوں مظاہرین کے اجتماعات میں لہرائے جانے والے سبز ہلالی پرچم اور بلند ہونے والے نعرے عوام کے دلی رجحانات کی ترجمانی کرنے کے لئے کافی تھے۔ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، تیری منڈی، میری منڈی، راولپنڈی، راولپنڈی اور یہ تو بہانہ ہے راولپنڈی جانا ہے جیسے نعروں سے وادی کی فضائیں گونج رہی تھیں۔

2010ء میں پرامن عوامی مزاحمت کی آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔ چار ماہ تک لوگ اس تحریک کو بھرپور انداز سے چلاتے رہے۔ قابض انتظامیہ کے پاس کرفیو لگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ عید رمضان کے دن قابض انتظامیہ نے یہ سوچ کر کرفیو اٹھایا کہ لوگ عید کی نماز کے بعد گھروں کا رخ کریں گے۔ آزادی کے جذبوں سے لبریز کشمیر کے مسلمان سری نگر کے مرکز لال چوک کی طرف گامزن ہوئے اور لاکھوں کے اجتماع میں سبز ہلالی پرچم اور پاکستان سے وابستگی کی خواہش کی ترجمانی کرنے والے فلک شگاف نعروں سے مقبوضہ فضاؤں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ عید کی چھٹی کے بعد جب پاکستان میں اخبارات چھپے تو ایک انگریز اخبار میں لال چوک کے اس اجتماع کی تصویر بھی چھپی تھی جس میں گھنٹہ گھر پر آویزاں بڑے پاکستانی پرچم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے پاکستانی پرچموں کی بہار تھی۔ یہ تصویر اپنی بغل میں چھپی اس شہ سرخی کو جھٹلا رہی تھی کہ (دس میں سے ایک بھی کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتا ہے) ناقابل یقین اور حیرت ناک جھوٹ ٹائمز آف انڈیا اخبار کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں کرائے گئے نام نہاد سروے میں بیان ہوئی تھی۔ اس دوران یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ بھارتی خاتون صحافی ارونا دھتی رائے جب سرینگر میں اہل دانش وبینش کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہی تھیں تو سامعین نے نعرے بلند کئے: ”بھوکا ننگا ہندوستان، جان سے پیارا پاکستان“۔

دراصل تحریک آزادی کشمیر کے خلاف خطرناک سازش ہو رہی ہے اس سازش کا مقصد تحریک کو اس بنیاد سے محروم کرنا ہے جس پر یہ کھڑی ہے۔ مزاحمتی تحریکوں کی مضبوطی سخت جانی اور پائیداری ان کی نظریاتی بنیادوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ جس مزاحمت کی نظریاتی بنیاد گہری، مضبوط اور شکست نا پذیر ہو اسے وقتی طور پر تو دبایا جاسکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کشمیر کے لئے جاری مزاحمت کی نظریاتی بنیاد جغرافیہ، سیاست، تاریخ اور دین و مذہب کے اٹل حقائق پر استوار ہے۔ اس نظریاتی بنیاد سے جدوجہد آزادی کو محروم کرنا اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے برابر ہے۔ دراصل اس نظریاتی بنیاد میں تحریک آزادی کی روح بسی ہے۔ تحریک آزادی کی اس روح کا نام پاکستانیت ہے اور جب تک یہ تحریک حسب روایت پاکستانیت سے عبارت ہے اسے ختم کرنا یا اس کا استحصال کرنا خارج از امکان ہے۔

دنیا میں ریاست یا ملک انسانی اجتماعیت کی سب سے منظم، فعال اور طاقتور صورت کا نام ہے۔ پاکستانیت کی بنیاد پر کھڑی آزادیٴ کشمیر کی جدوجہد کا والی اور وارث بیس کروڑ افراد پر مشتمل پاکستان ہے۔ پاکستانیت سے تحریک آزادیٴ کشمیر کو وہ تزویراتی گہرائی میسر ہے جس کا خاتمہ دشمن کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک سے جان چھڑانے اور اس کی جڑوں پر تیشہ چلانے کے لئے چالاکی سے اس تحریک کا پاکستانیت سے رشتہ توڑنے کے منصوبے پر کام ہور ہا ہے۔
تاریخی طور پر اس نامسعود سلسلے کا آغاز امریکہ نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ عالمی سیاست میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اس برطانیہ کا جانشین بن کر سامنے آیا جس نے کشمیر پر بھارتی قبضے کے راستے ہموار کئے تھے۔ 18اکتوبر 1968ء کے دن صدر ایوب خان نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر جو بھارت اور مقبوضہ کشمیر کادورہ کرکے آیا تھا سے ملاقات کا احوال اپنے روزنامچہ/ ڈائری میں درج کیا ہے۔ اس ملاقات میں امریکی سفیر ایوب خان سے تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ پاکستان کو انڈی پینڈیٹ کشمیر کے لئے کام کرنا چاہئے اور دلیل یہ دی ہے کہ اس طرح اسے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ انڈی پینڈنٹ کشمیر کو عالمی حمایت کے حاصل ہونے والی بات پر ذراساغور وخوض ہی ہمیں اس کے برعکس نتیجے کے برآمد ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت اور عالمی اہمیت صرف اور صرف پاکستان کا جموں و کشمیر کے دعویٰ دار ہونے کی وجہ سے رہی ہے۔ حیدر آباد دکن پر بھارت نے فوجی کارروائی کرکے قبضہ کیا۔ اس ریاست کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس کی آج تک شنوائی نہیں ہوئی۔ کشمیر کے برعکس حیدر آباد دکن کا پاکستان ہمسایہ تھا نہ دعویدار اور مددگار۔ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری۔

یاد رہے کہ انڈی پینڈنٹ کشمیر کا عملی قیام امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا ہرگز بھی مقصد نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عملی دنیا میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دراصل بھارت کشمیر سے اس طرح پاکستان کو الگ کرکے اسے آسانی سے ہضم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لئے انڈی پینڈنٹ کشمیر کے تصور کا قابل قبول بن جانے کا منطقی نتیجہ تحریک آزادی کشمیر کے لئے پیغام موت ہوگا۔ انڈی پینڈنٹ کشمیر کے تصور کو قبول کرنے کا معنی یہ ہوگا کہ پاکستان وادی کشمیر کے بغیر ادھورا یا نامکمل نہیں ہے۔ وہ پاکستان جو خود کو وادی کشمیر کے بغیر مکمل تصور کرے گا اس کا ”قومی مفاد“ یہ کہنے لگے کا کہ اتنے چھوٹے سے کشمیر کے لئے اتنے بڑے بھارت سے پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے اور یوں بھارت سے کشمیر کو آزاد کرنے کی تحریک تاریخ کے قبرستان میں دفنائی جائے گی۔ خدا نہ کرے ۔ خدارا آنکھیں کھولئے اور اس سازش کو سمجھئے۔

آپ کانیازمند…خواجہ شجاع عباس

بشکریہ ۔ جنگ

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے نظامِ دنیا کے خد و خال کی چند مثالیں

کسی نے سچ کہا ہے
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

اللہ کا فرمان تو اٹل ہے

سُورۃ آل عِمْرَان ۔ آيۃ 26 و 27
قُلِ اللَّھُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

‏اور کہیئے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ فتح

خوبی اور فتح جانفشانی میں ہے
انعام حاصل کرنے میں نہیں

فتح یا کامیابی وہ ہے
جو کسی کو زیر کئے یا تکلیف دیئے بغیر حاصل کی جائے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Saving Pak US Relations