عقيدت و تقليد

عام طور پر میں رات کو 10 بجے تک سو جاتا ہوں اور صبح فجر کی نماز سے قبل اُٹھتا ہوں ۔ 20 اور 21 اگست کے درمیان آدھی رات کو میرے موبائل فون نے ٹن ٹن ٹن ٹن کیا یعنی 2 پیغام آئے ۔ میری نیند کھُل گئی لیکن پیغام میں نے صبح ہی پڑھا ۔ لکھا تھا ”تقلید فرض ہے واجب ہے یا مستحب“۔ میں نے جواب دیا ”رسول اللہ ﷺ نے تقلید سے منع کیا ہے ۔ اس کا سبب ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے پوچھا ”کیا پڑھ رہے تھے ؟“ اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ کو پڑھتے دیکھا تھا“۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میری تقلید نہ کرو ۔ کبھی پڑھو ۔ کبھی نہ پڑو“۔

لُغوی معنی سے قطع نظر ميں صرف اُن عوامل کی بات کرنا چاہتا ہوں جسے عام طور پر تقليد يا عقيدت کا نام دیا جاتا ہے مگر پہلے دو مثاليں

ايک گڈريا کہہ رہا ہے “ميرے سوہنے ربّا ۔ تو ميرے پاس ہو تو میں تمہارا سر اپنی بکری کے دودھ سے دھو کر تمہارے بالوں کی مِينڈياں بناؤں”۔ سيّدنا موسٰی عليہ السلام نے اُسے منع کيا تو وحی آئی کہ ”ميرے بندے کو جس طرح مجھے ياد کرتا ہے کرنے دے“۔

شايد بابا بھُلے شاہ کا شعر ہے

کنجری بنياں ميری ذات نہ گھٹدی مينوں نچ نچ يار مناون دے

ميرے خيال ميں متذکرہ بالا مثالیں تقليد کيلئے نہيں ہيں ۔ کیا تقليد کا يہ مطلب ہے کہ متذکرہ بالا مثالوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم گڈريئے کی طرح اللہ کو یاد کريں یا پھر ناچنا اپنا شعار بنا ليں ؟

ايک جملہ ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے “فلاں کی برسی بڑی عقيدت و احترام سے منائی گئی”۔ اس ميں عقيدت سے کيا مُراد ہے ؟ کیا برسی منانا دین اسلام کا حصہ ہے ؟

پچھلی پانچ دہائيوں کے دوران تقليد اور عقيدت کے نام پر ايسے عمل مشاہدہ میں آئے کہ توبہ استغار ہی کرتے بنی ۔ کسی کی قبر کی طرف سجدہ کرنا ۔ کسی کی قبر پر ميلہ لگانا ۔ قبر پر چڑھاوا چڑھانا ۔ نماز اور روزہ کی طرف لاپرواہی مگر کسی کو پير يا مُرشد مان کر اس کی تقليد میں مختلف عوامل جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہ ہو کرنا یا خاص تاريخوں کو کچھ پکا کر اس پير یا مُرشد کے نام سے بانٹنا ۔ ایک لمبی فہرست ہے ۔ کيا کيا لکھوں ؟

اصولِ فقہ ہے کہ
اوّل قرآن شریف
جو قرآن شریف میں نہ ہو وہ حدیث میں دیکھا جائے
جو حدیث میں نہ ہو وہ اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تلاش کیا جائے
اور اُس کے بعد کچھ اور ہو سکتا ہے جس کيلئے اجتہاد اور اجماع ضروری ہے اور اس میں بھی تابعین کی ترجیح ہے

تقليد اور عقيدت کے متعلق کوئی صاحب مفصل عِلم رکھتے ہوں تو مستفيد فرمائيں

This entry was posted in روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

21 thoughts on “عقيدت و تقليد

  1. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فراست صاحب
    گستاخی معاف ۔ اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے کچھ فراست کا اظہار کیا ہوتا ۔ کیا نماز (نوافل) پڑھنے کیلئے ہالی وُڈ سے سند لینا ضروری ہوتا ہے ؟ پڑھنے کا مطلب صرف کتاب سے پڑھنا نہیں ہوتا ہے ۔ اگر رسول اکرم ﷺ پڑھ نہیں سکتے تھے تو لوگوں کو قرآن شریف کس نے سکھایا ؟

  2. فراست

    آپ سے بحث بے کار ہے آپ ہمیشہ زاتیات پر اتر آتے ھیں اگر حدیث کا حوالہ مل جا تا تو آپ کی بات میں بہتر طور پر سمجھ لیتا

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فراست صاحب
    آپ کو زک پہنچی جس کیلئے میں معذرت خواہ ہوں ۔ میری تحریر شاید آپ نے پوری نہیں پڑھی ۔ میں نے تمام قارئین سے درخواست کی تھی کہ علم رکھنے والے مجھے مستفید فرمائیں ۔ آپ ہی یہ کام کر کے ضزائے خیر حاصل کیجئے ۔ کہنا کہ میں ہمیشہ ذاتیات پر اُتر آتا ہوں کچھ مناسب نہیں ہے ۔ آپ کا تبصرہ سیاق و سباق سے ہٹ کر تھا اور نامناسب بھی اسلئے جواب ذرا کرخت تھا

  4. فراست

    میں نے آپ کے مضمون پر اعتراز نہی کیا بلکہ اس سے تو اتفاق کر تا ھوں مین نے تو صرف اپنے علم مین اضا فہ کے لے آپ سے حدیث کا حوالہ پوچھا تھا اگر مناسب سمجھیں تہ بتا دیں

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    فراست صاحب
    اللہ نے چاہا تو متذکرہ حدیث کا حوالہ (نمبر) لکھ دوں گا ۔ اس وقت میرے ذہن میں نہیں آ رہا ۔ اتنا ضرور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقلید کا لفظ استعمال نہ کیا ہو بلکہ ”میری نقل نہ کرو“ کہا ہو

  6. Mohammed S Chishti

    تقلید کےلغوی معنی هیں گلے میں ھار یا پٹه ڈالنا اور شرعی معنی هیں کسی کے قول وفعل کواپنے اوپر لازم جاننا که وه شرعی م حقق هے جیسےمسائل شرعیه میں ھم امام ابو حنیفه رضی الله کے قول وفعل اپنے لے دلیل مانتے هیں تقلیددو طر ح کی هے شرعی اور غیرشرعی دنیاوی کاموں میں ایک پیشه ور اس پیشے کے ماهر کی پیروی کرے یه غیرشرعی تقلید هےغیر شرعی تقلید اگر شریعت کے خلاف هےتو حرام هےاگر خلاف اسلام نهیں توجائز هے مکلف مسلمان بھی دو قسم کے هیں ایک مجتهدجس کے لے تقلید منع ھے اور دوسراغیر مجتھد جس پرتقلید ضروری هےتقلید کا واجب ھونا قرآنی آیات وا حادیث مبارکه اجماع امت سے ثابت هے »هم کوسیدھا راسته چلا ان لوگوں کا راسته جن پر تو نےانعام کیا«اس سے معلوم ھواکه صراط مستقیم وھی راسته جس پر الله کےنیک بندےچلے ھوں ظاهرهے تمام مفسرین م حدثین فقھاء اولیاءالله غوث وقطب اور ابدال الله کے نیک بندے ھیں وه سب ھی مقلد گزرے ھیں لھذا تقلید ھی سیدھا راسته هے ایک اور جگه ارشادباری تعالی هے«جس دن ھر جماعت کو ھم اس کے امام کے ساتھ بلاینگے»اس سے معلوم ھوا که قیامت کے دن ھر انسان کواسکے امام کےساتھ بلایا جاے گا

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ایس چشتی صاحب
    حوصلہ افزائی کیلئے مشکور ہوں ۔ آپ نے درست فرمایا ۔ تقلید کا منبع قلادہ یعنی ہار ہے ۔ محاورہ گلے کا ہار بنانا سے مراد ہے کہ کوئی عمل اپنے اُوپر فرض کر لینا ۔ آپ کی تشریح بھی سب درست ہے ۔ میں اس میں ایک اضافہ کروں گا کہ تقلید ان عوامل کی واجب ہے جو بنیادی طور پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا ہی فرمان ہیں ۔ میں نے جو مثال دی ہے وہ نوافل پڑھنے کی ہے جو رسول اللہ ﷺ رات کو کثرت سے پڑھتے تھے اور ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے تقلید کی تھی

  8. Mohammed S Chishti

    مکرمی جناب افتخار اجمل بھوپال صا حب حوصله افزائ کا شکریه آپ نےجو تقلید کے سلسلے میں اضافه کیا هے بهت اچھا کیا هے که ان هی عوامل میں تقلید واجب ھوگی جو رب قدوس نےفرماے هیں جیسے ارشاد باری تعالی هے> اطاعت کرو الله کی اور اطاعت کرو رسول کی اور حکم والوں کی جو تم میں سے ھوں< یهاں اطاعت فرمان الهی کی ھوگی اس کے فعل و سکوت کی نهیں اسی طر ح حضور صلی الله علیه وسلم کی اطاعت کرنےکو تقلید نهیں کھه سکتے کیوں که ان کا هر قول وفعل دلیل شرعی ھے اوراسی لیے ھم امتی کهلاتے هیں انکےمقلد نهیں

  9. qurban hussain

    chishti sahib kea imamo se pehle 200 saal tak log musalman na thay. aur charon imamon ne apne tor par tehqeeq ki hai unho ne kaha tha sehi hadees hamara deen hai us k muqable mein hamare qol ko akhtear na karo aap kai mamlat mein sehi hadees ko chhor kar imam k qol ko akhtear karte ho.

  10. qurban hussain

    bhopaal sab apka aqeeda darust hai laikin lagta hai k quran ka mutalha nehee hai aulia allah k bare mein allah farmata hai k un ko na koi khaof hota hai na koi fikr . ye jin ko log aolia allah samajhte hai in ki tareeh aap parhein sab k sab darpok log thay aur hain koi peer zalim hukmaran k samne haq bat nehe kar sakta aaj k daor ko dekh lein aj ke dukan dar kal ghos qutab ban jaain ge .

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد ایس چشتی صاحب
    آپ نے سورت النسآء کی آیت 59 کا آخری مگر بہت اہم حصہ نہیں لکھا ۔ مکمل ترجمہ یوں ہے ”اے ایمان والو ۔ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے صاحبانِ اَمر کی پھر اگر کسی معاملہ میں تم میں اختلاف ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے“۔
    اس میں تقلید یا نقل کا کوئی شائبہ نہیں ملتا ۔ تقلید کو میں مزید واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ رسول اکرم ﷺ کسی سفر پر ہیں راستہ میں پیشاب کی حاجت ہوتی ہے ۔ رفع حاجت کے بعد وہ مٹی سے استنجہ کرتے ہیں اور چل پڑتے ہیں راستہ ہی میں پانی سے استنجہ کرتے ہیں ۔ تقلید یہ ہے کہ ہم ہمیشہ یا کم از کم جب سفر پر ہوں پہلے مٹی سے استنجہ کریں اور پھر کچھ آگے جانے کے بعد پانی سے استنجہ کریں قطع نظر اس کے کہ جہاں ہم نے مٹی سے استنجہ کیا وہاں پانی میسّر تھا ۔ جبکہ اللہ کا حکم ہے کہ پانی سے استنجہ کرو اور اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے استنجہ کر لو ۔ ہند و پاکستان کے بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو سُنت کا پابند سمجھتے ہیں وہ تقلید کرتے ہوئے غسلخانوں میں جہاں پانی وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے مٹی سے استنجہ کرتے ہیں ۔ میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے پچھلی آدھی صدی میں جو حدیث کا مطالعہ کیا ہے اس میں کہیں نظر نہیں آیا کہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنی تقلید یا نقل کا کہا ہو

  12. افتخار اجمل بھوپال Post author

    قربان حسین صاحب
    آپ کے اس تبصرے کا سبب سمجھ میں نہیں آیا کیونکہ میں نے تو کسی ولی اللہ یا پیر کا ذکر نہیں کیا ۔ لوگ کیا سمجھتے ہیں یہ اُن کا اپنا فعل ہے اور لوگوں کو ہی روشنی دکھانے کی کوشش میں کرتا رہتا ہوں اور اللہ کے فضل سے راہنمائی قرآن شریف ہی سے لیتا ہوں جسے سمجھنے کیلئے بار بار حدیث کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ میرے مطالعہ کے مطابق ہر وہ شخص جو اللہ سے ڈرتا ہے ۔جس کا مطلب ہے کہ اللہ کے ہر فرمان پر عمل کرنے کی خلوصِ نیت پوری کوشش کرتا ہے اور اللہ کی پناہ مانگتا رہتا ہے وہ ولی اللہ ہے ۔
    میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں ۔ اب کچھ وضاحت کے ساتھ لکھ دیتا ہوں ۔ اگر آپ کمپیوٹر استعمال کرتے ہیں تو میرے بلاگ کے حاشیئے انگریزی میں لکھے انسٹال اردو پر کلک کر کے اردو انسٹال کر لیجئے تو آپ انگریزی کا کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے بآسانی اردو لکھ سکیں گے یعنی ایل دبائیں گے تو ل لکھا جائے گا ۔ جے دبائیں تو ج ۔ کے دبائیں تو ک ۔ بی دبائیں تو ب وغیرہ ۔ صرف ایک کلک سے آپ کے کمپیوٹر کا کی بورڈ اردو یا انگریزی لکھے گا
    Install Urdu

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.