Monthly Archives: April 2013

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکا نے این آر او کیوں کروایا ؟
کیا آپ جانتے ہیں کہ این آر او کے نتیجہ میں آصف علی زرداری صدر بنا تو پاکستان میں کیا ہوا ؟

آپ کہیں گے ”مہنگائی ۔ لوڈ شیڈنگ ۔ دہشتگردی ۔ وغیرہ“
درست لیکن اس سے بھی بڑھ کر جو مہنگائی کا سبب بھی ہے اور دہشتگردی کا بھی

آج تک پرویز مشرف اور دیگر پاکستانی رہنما امریکا کے ساتھ ڈرون حملوں کے کسی معاہدے سے انکار کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف رہا ہے کہ یہ حملے ان کی اجازت کے بغیر ہورہے ہیں۔

امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں سابق صدر اور سابق جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ حکومت نے امریکا کو ایسے حملوں کی اجازت دی جن میں ہدف تنہا ہو اور بڑی تباہی کا امکان نہ ہو، حملوں سے قبل فوج اور خفیہ ایجنسیوں سے مشاورت کے بعد صرف ایسی صورتحال میں امریکی جاسوس طیاروں کو حملے کی اجازت دی گئی جب خود پاکستانی فورسزکے پاس کارروائی کا وقت نہ ہو ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا دویا تین بار ہی ہوا کیونکہ اس وقت صورتحال بہت نازک اور فوری کارروائی ناگزیر تھی ۔
پرویز مشرف نے اعتراف کیا کہ 2004 میں نیک محمدکو ڈرون حملے میں ہی ہلاک کیاگیا تھا

امریکا کے ذرائع ابلاغ میں امریکی اہلکاروں کے بیان کئی بار آ چکے ہیں کہ ڈرون حملے حکومت پاکستان کی اجازت سے ہو رہے ہیں اور یہ بھی اخبارات میں چھپ چکا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے واقعہ تک ڈرون پاکستان کے ہی ملٹری اڈوں سے اُڑتے تھے

نیک محمد وہ شخص ہے جس کے ساتھ پاکستان آرمی نے بذریعہ کور کمانڈر پشاور (غالباً لیفٹننٹ جنرل صفدر حسین) امن معاہدہ کیا جس کے بعد نیک محمد بے فکر ہو کر اپنے کسی عزیز کے ہاں کسی کی وفات پر فاتحہ کہنے گیا تو ڈرون حملہ کر کے چھ سات انسانوں کو شہید کیا گیا جن میں نیک محمد اور اس گھر کی خواتین شامل تھیں ۔ دوسرا ڈرون حملہ ایک مدرسہ پر ہوا جس میں 80 کے قریب لوگ شہید ہوئے جن میں 69 طالب علم تھے ۔ ان واقعات کے بعد قبائلیوں میں اشتعال پیدا ہوا اور وہ حکومت پاکستان کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اس سے قبل قبائلی صرف امریکا اور اس کے مددگاروں پر حملے کرتے تھے

یہاں کلک کر کے دیکھیئے کہ 2004ء سے اب تک کتنے ڈرون حملے ہوئے اور ان میں بے قصور شہریوں اور معصوم بچوں کی تعداد کتنی زیادہ ہے

اگر زیادہ وقت دے سکتے ہوں تو یہاں کلک کر کے تفصیل پڑھیئے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ازدواج

دولت ۔ کار ۔ کوٹھی سے بیوی کو کچھ خوشی تو مل جاتی ہے لیکن سکون نہیں
باہمی احترام اور مفاہمت سے بیوی محبت کا احساس پاتی ہے اور اسے سکون ملتا ہے

یہی اصول بیوی پر خاوند کیلئے منطبق ہوتا ہے صرف ”دولت کار کوٹھی“ کی جگہ ”حُسن اور جنسی خواہش“ لے لیتے ہیں

نظریہ پاکستان پر بحث کیوں ؟

اگرچہ پاکستان کے اسلامی نظریئے کے متعلق ابہام پیدا کئے جا رہے ہیں لیکن 1972ء میں کسی اور نے نہیں بلکہ سپریم کورٹ نے واضح کردیا تھا کہ پاکستان کا اسلامی نظریہ 7 مارچ 1949ء کی قرار داد مقاصد کا جزو ہے اور یہی قرارداد ہمارے آئین کا اہم حصہ ہے

عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے میں اس وقت کے چیف جسٹس حمود الرحمن اور دیگر ججوں بشمول جسٹس محمد یعقوب علی، جسٹس سجاد احمد، جسٹس وحید الدین احمد اور جسٹس صلاح الدین احمد پر مشتمل سپریم کورٹ بینچ نے فیصلہ سنایا تھا کہ
”پاکستان کی زمینی اقدار اس کے اپنے نظریئے میں موجود ہے کہ صرف اللہ تبارک و تعالٰی ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مُطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا، وہ ایک مقدس امانت ہے ۔ یہ ایک نا قابل تبدیل اقدار ہے جسے 7 مارچ 1949ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے واضح طور پر قرارداد مقاصد میں منظور کیا تھا“۔

فیصلے میں اس بات کا اقرار کیا گیا تھا کہ ”ریاست پاکستان دائمی اسلامی نظریئے کے تحت قائم ہوئی تھی اور اس ریاست کے امور انہی اصولوں کے تحت چلائے جائیں گے تاوقتیکہ (خدانخواستہ) پاکستان کا ڈھانچہ از سر نو غیر اسلامی طریقہ کار کے تحت تعمیر کیا جائے، جس کا مطلب ہے اصل تصور کی مکمل تباہی“۔

اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ”قرارداد مقاصد صرف ایک روایتی حوالہ نہیں ہے ۔ اس میں پاکستان کی آئینی اور بنیادی اقدار کی روح شامل ہے“۔

فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ کسی بھی صورت میں بنیادی اقدار لازمی ہیں، اس کی کھوج کیلئے پاکستان کو مغربی قانونی نظریہ کار کی جانب نہیں بلکہ قرارداد مقاصد کی جانب دیکھنے کی ضرورت ہے

سپریم کورٹ نے یہ بھی فیصلہ دیا تھا کہ ”اسلامی اصول قانون میں، حاکم اعلٰی کی خواہش، چاہے وہ بادشاہ ہو، صدر یا پھر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، قانون کا ذریعہ نہیں ہے“۔

تحریر ۔ انصار عباسی

ایک خواہش

شاعر نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

دم نکلنا تو بہت بڑی بات ہے میں نے کبھی ایسی خواہش کی ہی نہیں کہ جس کے پورا ہونے میں کوئی اور فرد شامل ہو ۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ میرے بزرگوں کی تربیت کا اثر ہے یا کہ میرے اساتذہ کی تعلیم کا یا دونوں کا کہ میرے دل و دماغ میں زیادہ تر ایک خواہش ہی رہی ہے جو اُس وقت پیدا ہوئی جب میں چھٹی جماعت (اواخر 1948ء) میں پڑھتا تھا ۔ اس خواہش کے سبب مجھے کبھی ذہنی اور کبھی مالی زک اُٹھانا پڑی ۔ اس کے باوجود یہ خواہش الحمدللہ بدرجہ اتم موجود رہی اور اب تک قائم ہے

اس خواہش کو بیان کرنے کیلئے مجھے دو دہائیاں قبل مناسب زبان مل گئی اور میں نے اِسے جلی حروف میں لکھ کر اپنے مطالعہ کے کمرے میں نمایاں جگہ پر لگا دیا ۔ آتے جاتے نہ صرف میری نظر اس پر پڑتی بلکہ جو بھی اس کمرے میں داخل ہوتا اُس کی نظر اس پر پڑتی

ہم جولائی 2009ء میں لاہور چلے گئے اور فروری 2011ء میں واپس آئے ۔ مجھے شدید کالا یرکان (Hepatitis C) ہو جانے کی وجہ سے میں جون 2011ء تک زیرِ علاج رہا ۔ قبل ازیں 28 ستمبر 2010ء کو سر پر شدید چوٹ لگنے کی وجہ سے میرا حافظہ بگڑ چکا تھا چنانچہ جب میں اپنے مطالعہ کے کمرہ میں گیا تو مجھے یاد نہ تھا کہ میں نے کوئی کاغذ الماری کے شیشہ پر چپکایا تھا ۔ خواہش باقی تھی لیکن وہ کاغذ الماری کے شیشے اور میرے ذہن دونوں سے غائب ہو چکا تھا

سردیوں سے قبل میں الماری میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا کہ وہ کاغذ مجھے ملا ۔ میں نے سنبھال کر رکھا کہ اسے نئے کاغذ پر لکھ کر لگانا ہے ۔ حافظہ نے پھر ساتھ نہ دیا ۔ اب مجھے کچھ اور تلاش کرتے ملا تو میں نے اپنے بلاگ پر محفوظ کرنے کا سوچا

میری خواہش

اے خدا جذبہءِ اِیثار عطا کر ہم کو
جو گُفتار ہے وہ کردار عطا کر ہم کو

زندگی اِک نعمتِ رَبّانی ہے
آؤ اِس کی کچھ تعظیم کریں
اسے تھوڑا تھوڑا دوسروں میں تقسیم کریں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ غَلَطی

My Id Pak

کوئی شخص ایک ہی غَلَطی دو بار نہیں کرتا
کیونکہ
دوسری بار غلطی نہیں ہوتی بلکہ انتخاب ہوتا ہے

اب بھی سنبھل جائیں تو سب کچھ درست ہو سکتا ہے

عقلمندی کا ثبوت دیجئے اور 11 مئی کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات میں پچھلی غلطی نہ دہراتے ہوئے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفاد سے مبرّا ہو کر صرف مُلک کی بہتری کیلئے ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دیجئے جنہوں نے آپ کی اپنی نظر میں پچھلے کم از کم 5 سال میں دیانتدار ہونے کا ثبوت دیا ہو اور قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں

پیشین گوئی کیجئے

دو مشہور آدمیوں کے متعلق خبریں نقل کر رہا ہوں
پیشین گوئی کیجئے کہ اِن کا نتیجہ کیا ہوگا ؟

پہلی خبر عمران خان کے متعلق ہے جو اپنی دیانت اور اصول پرستی کے نام پر ووٹ مانگ رہا ہے اور سیاستدانوں کو مختلف القابات سے نوازتا ہے ۔ یہ خبر میں نے عمران خان کے مداح اور عمران خان کی حمائت میں پروپیگنڈہ کرنے والے ایک فیس بُکیئے کی 488299_437710286323843_1668477433_nسائٹ سے لی ہے ۔ عمران خان شیخ رشید کی مدد کرے گا اور شیخ رشید عمران خان کی

شیخ رشید وہ شخص ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کا شیدائی بنا پھر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف زہر افشانی کی ۔ بعد میں نواز شریف کی تعریفوں کے پُل باندھے ۔ پھر نواز شریف کے خلاف آمر پرویز مشرف کا دستِ راست بن گیا ۔ پرویز مشرف کے جانے پر نواز شریف کی منتیں جب کام نہ آئیں تو اپنی ٹانگہ پارٹی بنا کر بیٹھ گیا

دوسرا آدمی ہے پرویز مشرف جس کی مایا (کلف) ابھی تک نہیں اُتری

این اے139(قصور) سے جاوید قصوری ایڈووکیٹ نے پرویزمشرف کے کاغذات پر6 اعتراضات لگائے جن میں آرٹیکل 62 اور63 پر پورانہ اُترنا بھی شامل تھا ۔ پرویز مشرف کے این اے139(قصور) سے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے ہیں

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے پرویز مشرف کی نااہلی کے لئے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کردی کہ پرویزمشرف نے کئی بار آئین توڑا ہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اُترتے ۔ مزید براں پرویز مشرف لال مسجد میں معصوم لوگوں کی ہلاکت سمیت کئی کیسز میں مطلوب ہیں

ہائی کورٹ بار راولپنڈی کے صدر توفیق آصف نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواست دائر کر دی ۔ چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ پیر کو اِس درخواست کی سماعت کرے گا

ہمارے اطوار

اس سلسہ کی 6 تحاریر ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“ ۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“اور ”انکوائری ۔ تفتیش” لکھ چکا ہوں

اَن پڑھ لوگوں کی کیا بات کرنا ؟ وہ جو دیکھتے اور سُنتے ہیں کرتے ہیں ۔ بات ہے پڑھے لکھے لوگوں کی ۔ بڑی بڑی باتیں تو اخبارات میں پڑھنے کو مل جاتی ہیں ۔ یہ کچھ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جن کا میں ذاتی طور پر شاہد ہوں یا وہ میرے ساتھ پیش آئے

اس موضوع سے متعلق پچھلے سال اپنے ساتھ پیش آنے والے 2 واقعات ”سینے پر مُونگ“ اور ”وفاداری کس سے“ کے عنوان سے لکھے تھے ۔ آج کچھ اور

مجھے 1966ء میں اسسٹنٹ منیجر پروجیکٹس تعینات کیا گیا ۔ پراجیکٹ شروع ہوا ۔ مجھے دس بارہ گھنٹے روزانہ کام کرنا پڑتا رہا ۔ بعد میں کچھ اور انجنیئر بھی دوسرے پروجیکٹس میں تعینات کئے گئے ۔ اُن کے پراجیکٹس ابھی شروع بھی نہیں ہوئے تھے کہ اُنہیں پراجیکٹ الاؤئنس ملنے لگا لیکن مجھے نہ ملا ۔ میں نے اپنے باس سے کہا تو اُنہوں نے ٹال دیا ۔ یکم جولائی 1969ء کو میری ترقی ہو گئی اور مجھے واپس فیکٹری میں پروڈکشن منیجر لگا دیا گیا ۔ چند دن بعد میں کسی کام سے ایک صاحب کے پاس گیا تو وہ کچھ مغموم بیٹھے تھے ۔ وجہ پوچھی تو بولے ”تنخواہ کم ہو گئی ہے“۔ تفصیل چاہی تو کہا ”مجھے پہلے پراجیکٹ الاؤئنس ملتا تھا جس کی منظوری آپ کے نام پر لی گئی تھی ۔ وہ یکم جولائی سے بند ہو گیا ہے“۔ ان صاحب کا نہ تو کسی پروجیکٹ کے ساتھ تعلق تھا اور نہ پراجیکٹس ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ اور میرے نام پر حاصل کیا ہوا الاؤنس 3 سال وہ کھاتے رہے

سعودی عرب کو منیجر کی سطح کے کچھ انجنیئروں کی ضرورت تھی ۔ سعودی عرب کا مندوب 1973ء میں اس سلسلہ میں آیا ۔ منیجروں کی بجائے اسی تنخواہ پر جنرل منیجر خود جانے کو تیار ہو گئے ۔ جو صاحب ویپنز فیکٹری کیلئے تیار ہوئے انہوں نے ویپنز فیکٹری میں کبھی کام نہ کیا تھا اسلئے اپنی تبدیلی ویپنز فیکٹری میں کروا لی اور چند ماہ بندوق کے پرزوں کے نام اور کام سے واقفیت حاصل کر کے سعودی عرب چلے گئے ۔ کمال یہ ہے کہ جس فیکٹری میں ان صاحب نے اس وقت تک کام کیا تھا وہاں کی پروڈکشن پر اعتراضات ہوئے پھر اعلٰی سطح کی انکوائری ہوئی جس میں ان صاحب کو اور ان کے ماتحت منیجر کو قصور وار ٹھہرایا گیا ۔ ان دونوں کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے جنرل منیجر کو سعودی عرب بھیجا گیا اور منیجر کو غیر ملک میں پاکستانی سفارت خانہ میں ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا

سعودی عرب جانے والوں میں ہر ایک اپنا ذاتی کنٹریکٹ سائن کر کے گیا تھا ۔ قانون کے مطابق ایسے آدمی کی جب تک وہ اپنے محکمہ میں واپس نہ آئے ترقی نہیں ہوتی لیکن ایک اسسٹنٹ منیجر جس نے سعودی عرب میں متذکرہ بالا جنرل منیجر کی اتنی خدمت کی کہ سعودی عرب میں 9 سال کے دوران وہ اسسٹنٹ منیجر سے منیجر اور پھر جنرل منیجر ہو گیا اور واپس آنے کے 2 سال بعد ایم ڈی بنا دیا گیا کیونکہ جن کی خدمت کی تھی وہ ممبر بورڈ بن گئے تھے

کچھ افسران کو 1975ء اور 1976ء میں سرکاری نوٹیفیکیشن کے تحت لبیا بھیجا گیا ۔ وہ اپنی مرضی سے نہیں گئے تھے ۔ اُنہیں تنخواہ بھی پاکستانی سفارتخانے سے ملتی تھی ۔ ان میں بھی ایک اسسٹنٹ منیجر تھا جو منظورِ نظر تھا وہ 7 سال کے قیام کے دوران منیجر اور پھر جنرل منیجر ہو گیا ۔ اس کے برعکس ایک بہت سینیئر منیجر جو اسی کے ساتھ گیا تھا ۔ اسے کوئی ترقی نہ دی گئی ۔ کہا گیا کہ ”ملک سے باہر ہے جب آئے گا دیکھی جائے گی”۔ اس دوران 14 منیجر جو اس سے جونیئر تھے کو ترقی دے کر جنرل منیجر بنا کر اس سے سینئر کر دیا گیا ۔ واپس پاکستان آنے پر اس منیجر نے درخواست دے دی ۔ آخر بات فیڈرل سروسز ٹربیونل میں پہنچی جس میں مزید 5 سال لگے ۔ فیصلہ اس کے حق میں ہوا مگر 7 سال گذر چکے تھے جس دوران درخواست دینے کی پاداش میں اس کی 6 سالانہ رپورٹوں میں لکھا جا چکا تھا کہ ترقی کے قابل نہیں

ترقی کا عجوبہ روزگار کیس ہے ایک فورمین کا جو چھُٹی پر گیا اور ملک چھوڑ گیا ۔ اُس نے لبیا پہنچ کر ملازمت کر لی ۔ جب تین چار سال گذر گئے ۔ اُسے بھگوڑا قرار دے دیا گیا ۔ پھر ایک خط لبیا میں پاکستانی سفارتخانہ کو موصول ہوا کہ اسے واپس بھیجا جائے ۔ سفارتخانہ نے خط کا جواب لکھا ”۔ ۔ ۔ لبیا میں نہیں ہے“۔ اس واقعہ کے ایک سال بعد ایک نوٹیفیکیشن لبیا میں پاکستانی سفارتخانہ کو موصول ہوا کہ موصوف کی فورمین سے بطور اسسٹنٹ منیجر ترقی ہو گئی ہے حالانکہ وہ پاکستان واپس نہیں گیا تھا

مجھے اپریل 1983ء میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تعینات کر کے انسٹیٹیوٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا پروجیکٹ سونپا گیا ۔ اس کی ایک ٹریننگ ورکشاپ کیلئے خاص قسم کی خراد مشینیں منگوانا تھیں ۔ ایک فیکٹری نے ایک سال قبل 10 خراد مشینیں منگوائی تھیں ۔ وہاں سے دستاویزات منگوا کر مطالعہ کیا ۔ جو مشینیں انہوں نے منگوائی تھیں اُنہی کوبہتر پایا ۔ انہوں نے فی مشین 11 لاکھ کے حساب سے خریدی تھیں ۔ میں نے 1984ء میں قانون کے مطابق سب متعلقہ کمپنیوں سے پیشکشیں (quotations) مانگیں ۔ اتفاق سے اسی کمپنی نے سب سے کم قیمت دی ۔ ان کے مندوب نے زبانی بتایا کہ ”قیمتیں 10 فیصد بڑھ چکی ہیں لیکن ہم آپ کو ایک سال پرانی قیمت پر دے رہے ہیں“۔ میں نے اُسے کہا ”میں نہ آپ سے چائے پیئوں گا نہ پانی اور آپ کو بغیر حیل و حُجت ایک ماہ کے اندر رقم کی ادائیگی کروانا میرے ذمے ہو گا ۔ میں جانتا ہوں اس کیلئے آپ نے 25 فیصد رکھا ہوتا ہے اسلئے آپ قیمتیں 25 فیصد کم کر دیجئے“۔ کہنے لگا ”ایسا ممکن نہیں ہے ۔ میں نے کہا ”آپ اپنے ہیڈ آفس ٹیلیفون کر کے میرا ا نام بتایئے اور اُنہیں بتایئے کہ میں نے آپ کو کیا کہا ہے”۔ 2 ہفتے بعد وہ مندوب نئی کوٹیشن لے کر آیا اور فی مشین قیمت 9 لاکھ 50 ہزار تھی ۔ انسٹیٹیوٹ کیلئے بھی 10 مشینیں چاہئیں تھیں ۔ جو ایک کروڑ 10 لاکھ کی بجائے 95 لاکھ روپے میں آ گئیں

1984ء میں مجھے کہا گیا کہ اخبارات میں دیئے گئے اشتہار کے نتیجہ میں آئی ہوئی بھرتی کی درخواستوں کی چھانٹی کراؤں ۔ انٹرویو بورڈز مقرر کروں اور مطلوبہ اسامیوں کے مطابق منتخب اُمیدواروں کی بھرتی کی سفارش کروں ۔ جب اُمیدوار انٹرویو کیلئے بلائے گئے تو مجھے ایک ڈاکٹر صاحب جو ہمارے ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے کا ٹیلیفون آیا کہ ”فلاں لڑکے کا ذارا خیال رکھیں”۔ میں میرٹ پر بھرتی کا حامی تھا لیکن بلاوجہ کی بحث سے بچنے کیلئے میں نے کال نمبر اپنے پاس لکھ لیا اور ایڈمن افسر کو دیا کہ اُس کی صورتِ حال معلوم کرے ۔ دوسرے دن ایڈمن افسر نے بتایا کہ سرکاری حُکمنامے اور اشتہار کے مطابق کم از کم 50 فیصد نمبر حاصل کرنے والوں سے درخواستیں طلب کی گئیں تھیں اور متعلقہ لڑکے کے 50 فیصد سے کم نمبر ہیں ۔ میں نے متذکرہ ڈاکٹر صاحب کو صورتِ حال بتائی تو بولے ”اگر 50 فیصد نمبر لئے ہوتے تو پھر تمہارا احسان لینے کی کیا ضرورت تھی“

جولائی 1985ء کی بات ہے کہ انسٹیٹیوٹ کی ایک اور ورکشاپ کیلئے سی این سی مشینیں (Computerised Numerical Control Machines) خریدنا تھیں ۔ میں نے یورپ کی مختلف کمپنیوں سے کوٹیشنز منگوائیں اور ان کی مشینوں کی صلاحیت اور قیمتوں کا تقابلی جائزہ تیار کیا ۔ میرے باس جو ممبر پی او ایف بورڈ تھے نے ایک کوٹیشن بھیج دی کہ اس کمپنی کو ترجیح دی جائے ۔ اس میں پیش کی گئی مشینیں ایک تو ٹریننگ کیلئے موزوں نہ تھیں ۔ دوسرے قیمت بہت زیادہ تھی ۔ بہترین کوٹیشن میں 25 چھوٹی مشینیں تھیں اور ہر ایک کے ساتھ ایک پی سی (Personal Computer) تھا جن پر مشین کا پروگرام لکھنے کے علاوہ ورڈ پروسیسنگ بھی ہو سکتی تھی ۔ ساتھ 2 سال کے مینٹننس سپریئر پارٹس تھے ۔کل قیمت 50 لاکھ روپے ۔ جو کوٹیشن باس نے بھیجی تھی اُس میں 7 بڑی بڑی مشینیں تھیں جنہیں تربیت پانے والے نہیں چلا سکتے تھے اور مشین کے پروگرام لکھنے کا کوئی بندوبست نہ تھا ۔ سپیئر پارٹس نہ تھے اور نہ ہی اُن کی فہرست دی گئی تھی ۔ قیمت ایک کروڑ روپے تھی ۔ میں نے سب کچھ لکھ کر بھیج دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میرا وہاں سے تبادلہ کر دیا گیا اور میری سالانہ رپورٹ میں لکھا گیا ”ترقی کا اہل نہیں“۔ میری جگہ آنے والے نے مجھے کہا ”آپ تو مجاہد ہیں ۔ میں کمزور آدمی ہوں ۔ مجھے جو باس کہے گا میں کر دوں گا”۔ سو وہی غیرموزوں اور مہنگی مشینیں آرڈر کر دی گئیں

1976ء میں منسٹری سے ھدائت آئی کہ کچھ انجنیئرز کو کمپیوٹر کی تعلیم و تربیت دلائی جائے ۔ میں نے اپنے ماتحت ایک اسسٹنٹ منیجر کو نامزد کر دیا ۔ مجھے مئی 1976ء میں لبیا بھیج دیا گیا ۔ میں 1983ء میں واپس آیا تو مذکورہ شخص جنرل منیجر بن چکا تھا اور کمپیوٹر سینٹر کا انچارج تھا ۔ مجھے سارا سیٹ اَپ دکھایا اور شکائت کی کہ بڑے افسران انجنیئرز کو کمپیوٹر سینٹر آنے نہیں دیتے البتہ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ نے اپنے ایک اسسٹنٹ منیجر ”ن“ کو بھیجا جو ایم اے ایس (Master Admin Science) ہے ۔ ”ن“ اب منیجر ہو چکا ہے ۔ 1985ء میں اس انجنیئر کی دوبارہ فیکٹری میں پوسٹنگ ہو گئی اور ”ن“ کو ترقی دے دی گئی ۔ اس طرح کمپیوٹر سینٹر کا انچارج ”ن“ (نان ٹیکنیکل آدمی) بن گیا
ستمبر 1985ء میں میری پوسٹنگ بطور جنرل منیجر ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ ہو گئی ۔ کمپیوٹر سینٹر ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ کا حصہ تھا ۔ 1987ء میں انوَینٹری منیجمنٹ کی کمپیوٹرائزیشن میرے ذمہ کر دی گئی جس سے ”ن“ کو پریشانی لاحق ہوئی ۔ کمپیوٹر پر کام کرنے والوں کیلئے الاؤنس مقرر ہوا تو ”ن“ نے اپنے ایڈمن کے محکمہ کو استعمال کرتے ہوئے مجھے کمپیوٹر الاؤنس نہ ملنے دیا ۔ 1988ء میں مجھے ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا ۔ میں 1989ء کے شروع میں چیئرمین کے ساتھ میٹنگ میں تھا تو کسی طرح کمپیوٹر الاؤنس کا ذکر ہوا ۔ میں نے طرح لگائی ”کام میں 12 گھنٹے کروں اور کمپیوٹر الاؤنس 7 گھنٹے کام کرنے والوں کو ملے“۔ چیئرمین بہت حیران ہوئے اور اگلے ماہ میرے لئے کمپیوٹر الاؤنس کی منظوری دے دی گئی ۔ کچھ ماہ بعد مجھے نقصان پہنچانے کیلئے ”ن“ نے ایک بہت غلط حرکت کی ۔ انکوائری ہوئی اور پکڑے گئے ۔ چیئرمین ”ن“ کو ملازمت سے فارغ کرنا چاہتے تھے ۔ میرے منت سماجت کرنے پر سزا کم کر دی اور ”ن“ کا ایم آئی ایس ڈیپارٹمنٹ سے ایڈمن ڈیپارٹمنٹ میں تبادلہ کر دیا گیا

شروع 1991ء میں میرے والد صاحب شدید بیمار ہو گئے ۔ میں نے 3 ماہ کی چھٹی لے لی ۔ اور ساتھ ہی 3 ماہ ختم ہونے کے بعد سے ایک سال کی ایل پی آر (LPR= leave pending retirement) لے لی ۔ انہی دنوں چیئرمین صاحب کا تبادلہ بطور چیئرمین سٹیل مل کراچی ہو گیا اور کنٹرولر آف اکاؤنٹس بھی کوئی نئے آ گئے ۔ میری چھٹی کے دوران ”ن“ نے میرا کمپیوٹر الاؤنس ناجائز قرار دلوا کر اس کی کٹوتی (recovery) شروع کروا دی جس کا مجھے ریٹائر ہونے کے بعد پتہ چلا ۔ یہی کم نہ تھا ۔ میں 4 اگست 1992ء سے آدھی پنشن لے رہا تھا ۔ مکمل پنشن 4 اگست 2012ء کو بحال ہونا تھی لیکن نہ ہوئی ۔ میں نے متعلقہ اکاؤنٹس آفس کو دسمبر 2012ء میں خط لکھا ۔ پیچھا کرنے پر معلوم ہوا کہ اُنہوں نے میرے ذمہ 51133 روپے نکالے ہوئے ہیں جس کی بنیاد ایک ایل پی سی (LPC = Last Pay Certificate) ہے جو 17 مارچ 1999ء کو جاری کیا گیا (ملاحظہ ہو پہلے عکس کا پیرا 2) ۔ میرا اصلی ایل پی سی 16 نومبر 1991ء کو جاری کیا گیا تھا جو تیسرے عکس میں موجود ہے ۔ میں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہاں قصہ ”مرغے کی ایک ٹانگ“ والا تھا اسلئے مجھے ہار ماننا پڑی اور 51133 روپے ملٹری اکاؤنٹس کے نام جمع کرا دیئے کیونکہ نہ وہ کچھ لکھ کر دینے کو تیار تھے اور نہ پنشن بحال کر رہے تھے ۔ ایک ہی رَٹ تھی کہ یہ پیسے جمع کراؤ ۔ خط کی انگریزی پر نظر ڈالنے سے آدمی سوچتا ہے کہ جس کا تعلیمی معیار اتنا ہے وہ قوانین کو کیا سمجھ پاتا ہو گا