Monthly Archives: April 2013

آج مجھے کہنے دیں

میرے اس بلاگ کا عنوان ہے “میں کیا ہوں”۔ مطلب یہ کہ ہم سب کیا ہیں ؟My Id Pak
تبدیلی اگر لانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلنا لازم ہے ۔
ہم ہیں کیا ؟ پوری دیگ میں سے صرف چند چاول
اور ہاں یہ اَن پڑھ یا مُفلس عوام کی باتیں نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے سُوٹِڈ بُوٹِڈ لوگوں کی جن میں مُلکی نظامِ تعلیم کو حقیر سمجھنے والے بھی شامل ہیں

میں جرمنی ۔ برطانیہ ۔ ہالینڈ ۔ بیلجیم ۔ فرانس ۔ ترکی ۔ لبیا ۔ امریکہ ۔سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات وغیرہ ممالک میں رہا ہوں

متذکرہ ممالک میں بنک ہو یا کوئی اور دفتر حتٰی کہ بس یا ٹرام کے انتظار میں سب لوگ آرام سے قطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں قطار میں کھڑا ہونا شاید جاہلیت کی علامت سمجھا جاتا ہے

متذکرہ ممالک میں کسی کو سلام کریں تو وہ مسکرا کر جواب دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں سلام کرنا شاید غریب یا چھوٹے آدمی کا فرض سمجھا جاتا ہے

متذکرہ ممالک میں کسی مقامی کو مُلک کے خلاف بولتے نہیں سُنا
ہمارے ہاں لوگ کماتے کھاتے اسی مُلک سے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔

متذکرہ ممالک میں ٹریفک پولیس والا موجود ہو یا نہ ہو ۔ دن ہو یا رات ہو کوئی گاڑی والا سُرخ بتی کراس نہیں کرتا خواہ دوسری طرف سے کوئی گاڑی نہ آ رہی ہو ۔
ہمارے ہاں ۔ ٹریفک پولیس والا نہ ہو تو گاڑی چلانے والے سُرخ بتی پر نہیں رُکتے چاہے کسی اور گاڑی والے کو رُکنے پر مجبور ہونا پڑے

متذکرہ ممالک میں سڑک کے کنارے کوئی ضعیف آدمی یا عورت سڑک پار کرنے کے انتظار میں دیکھیں تو گاڑیوں والے گاڑیاں روک کر اُنہیں گذرنے کا اشارہ کرتے ہیں ۔
ہمارے ہاں گاڑی والوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی پیدل شخص خواہ کتنا ہی ضعیف ہو سڑک پار کرنے کی گُستاخی نہ کرے

متذکرہ ممالک میں جب کوئی گاڑی والا اپنی قطار سے دوسری قطار میں جانے لگتا ہے تو اشارہ دیتا ہے ۔
ہمارے ہاں بغیر اشارہ دیئے دوسری قطار میں جاتی گاڑی کے سامنے زبردستی گھُس جانا شاید بڑائی کی نشانی سمجھا جاتا ہے

کوئی عام دعوت ہو یا شادی کی دعوت متذکرہ ممالک میں لوگ بڑے تحمل سے اُٹھتے ہیں اور بڑی عمر کے لوگوں اور عورتوں کو آگے جانے کی درخواست کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں کھانا کھُلتے ہی زیادہ تر لوگ اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے باہر دانہ ڈال کر چوزوں کا ڈربہ کھولا جائے تو سب گرتے پڑتے ایک دوسرے کو دھکیلتے دانے پر پہنچتے ہیں

فہرست اتنی طویل ہے کہ شاید لکھتے لکھتے میرا وقت ختم ہو جائے

سب سے پہلے اپنے اوصاف تو درست کیجئے پھر لگایئے نعرہ تبدیلی کا
تبدیلی اگر لانا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلنا لازم ہے

سیانے لوگ جانتے ہیں کہ اگر جنگلی جھاڑی بڑی ہو جائے تو اُس کی اُوپر سے ٹہنیاں کاٹنے سے وہ ختم ہونے کی بجائے اور زیادہ پھیل جاتی ہے ۔ جنگلی گھاس اُگ کر بڑھ جائے تو اسے تلف کرنے کیلئے ایک فٹ گہرائی تک کھدائی کر کے ساری گھاس ایک طرف کر کے جلا دی جاتی ہے ۔ پھر نئی مٹی ڈال کر اچھی گھاس لگا کر سالہا سال اس کی حفاظت کی جاتی ہے

کہاں جنگلی جھاڑی یا جنگلی گھاس کی طرح پلے آدمی جو جھاڑی یا گھاس کی طرح ساکن نہیں ہوتے بلکہ دوڑتے پھرتے ہیں ۔

جب تک آدمی انسان نہیں بن جاتے لیٰڈر یا جماعتیں تبدیل کرنے سے کچھ نہ ہو گا

بہتری کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے جو سب سے زیادہ دیانت دار یا یوں کہہ لیجئے کہ جو سب سے کم بد دیانت ہو اور جس کے ماضی کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہو کہ وہ باقیوں کی نسبت زیادہ اچھا کام کرے گا اُسے کامیاب کرایئے ۔ پارٹیوں کو بھول جایئے اور پارٹیوں کے سربراہوں کو بھی بھول جایئے ۔ کام آپ کیلئے آپ کے علاقہ سے منتخب ہونے والے نے کرنا ہے اور اسی کو آپ پکڑ بھی سکتے ہیں ۔ پارٹی کے سربراہ کو تو آپ صرف ٹی وی پر دیکھ سکیں گے

میں کانپ گیا

کچھ دنوں سے مجھے ماضی بعید میں پی ٹی وی پر دکھایا جانے والا رائٹر پروڈیوسر فاروق قیصر کا پروگرام”انکل سرگم“ یاد آ رہا ہے ۔ انکل سرگم کہا کرتا تھا ”سمال کراکری ۔ چھوٹا پانڈا“۔

گریٹ کرکٹ کیپٹن کے تقریری سٹائل نے انکل سرگم کی یاد دلائی ہے

عمران خان ایک بال سے 2 وکٹیں لینے سے شروع ہوا
پھر کہا “بلّے سے چھکّا ہی نہیں ۔ پھینٹی بھی لگائیں گے
پھر اخلاقیات کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے نواز شریف پر تابڑ توڑ ذاتی حملے کرنا شروع کئے

مگر میں اُس وقت کانپ گیا جب بہاولپور کے جلسے میں عمران خان نے بڑی لہر میں آتے ہوئے کہا

(میرے اللہ ۔ تیرا یہ بندہ افتخار اجمل بھوپال دست بستہ عرض کرتا ہے کہ عمران خان کے بیہودہ بیان کو نقل کرنے کی جسارت کرنے پر مجھے معاف کر دینا)

عمران خان نے کہا ” اللہ نے سُوئَو مَوٹَو نوٹس لے لیا ہے“۔

یہ بھی پڑھیئے ” کہاں ہیں وہ مَور پنکھ ؟ “۔

بدنامِ زمانہ شیخ رشید کے ساتھ سپورٹ کا معاہدہ کرنا ہی کم نہ تھا کہ ٹیکسلا کے بدنام قبضہ مافیا کے سردار ” غلام سرور خان“ کو عمران خان نے ٹکٹ دے دیا

تبدیلی ؟ کیسے ؟

آجکل تبدیلی کا بہت غُوغا ہے ۔ ہر سمت سے تبدیلی کے آوازے سُنائی دے رہے ہیں ۔ My Id Pak
بڑے بڑے جلسوں میں تبدیلی کا دعوٰی کیا جاتا ہے ۔ کہیں سونامی سونامی کیا جا رہا ہے ۔ کیا ماضی قریب میں آنے والے سونامی کو تباہی مچاتے نہیں دیکھا یا یہ کہ بہتری کی بجائے تباہی لانے والی تبدیلی لانا چاہتے ہیں

کیا ہی اچھا ہوتا اگر کہتے ”ہم جہالت کے خلاف جہاد کر کے خلفائے رسول اللہ ﷺ کا دور واپس لائیں گے

تبدیلی کا نعرہ لگانے والے شاید خود بھی نہیں جانتے کہ تبدیلی کیسے لانا ہے اور اس کیلئے کیا کرنا پڑے گا

دیکھا جائے تو تبدیلی کا آغاز تو 2007ء میں ہو گیا تھا ۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ اپنی منازل طے کر رہی ہے
ضرورت ہے اس تبدیلی کو جاری رکھنے کی اور اس کی رفتار قدرے تیز کرنے کی

کیا پہلے کبھی گدی پر بیٹھے پاکستان کے وزیر اعظم کو عدالت نے 5 سال کیلئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا ؟
کیا کبھی پاکستان کے وزیر اور پھر وزیر اعظم بننے والے پر کرپشن کے مقدمات چلائے گئے تھے ؟
کیا کبھی جعلی ڈگری پیش کرنے پر اسمبلیوں کے اراکین یا سینیٹرز کو جیل بھیجا گیا تھا ؟

تبدیلی نعروں سے کبھی نہیں آئی اور نہ آئے گی ۔ اس کیلئے تحمل کے ساتھ پُرخلوص لگاتار محنت کی ضرورت ہوتی ہے

تبدیلی لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ
ہر ووٹر پچھلی غلطیوں پر نادم ہو اور آئیندہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی عوامل سے اپنے آپ کو بچائے رکھے
ووٹ ایسے اُمید وار کو دے جو موجود اُمیدواروں میں سب سے زیادہ دیانتدار اور سچا ہو
لیکن ووٹ ضرور دے ۔ یہ سوچ کر نہ بیٹھا رہے کہ سب چور ہیں ۔ فرشتے الیکشن لڑنے نہیں آئیں گے ۔ اسلئے اُمیدواروں میں جو سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دے
یہ خیال بھی رہے کہ ووٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کو نہیں دینا بلکہ اپنے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے ایک کو دینا ہے اسلئے اس کی دیانت اور سچائی کو دیکھیئے نہ کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی

وقتِ عمل

میں 6 ماہ قبل یہ پیغام شائع کر چکا ہوں ۔ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئیMy Id Pak

نہ تو پہلی تصویر میں کھڑے آدمی کی طرح بے فکر بنیئے یعنی سب چور ہیں کہہ کر گھر نہ بیٹھے رہیئے ۔ بُروں میں سے جو اُمیدوار باقیوں سے بہتر ہے اُسے ووٹ دیجئے
اور
نہ دوسری تصویر میں دکھایا گیا راستہ اختیار کیجئے

وقتِ عمل ہے اور سوچ سمجھ کر عمل کیجئے تاکہ مستقبل سکون سے گذار سکیں

11 مئی 2013ء کو آپ کا فیصلہ ہی آپ کے مستقبل کو اچھا یا بُرا بنائے گا ۔ جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر عقل اور تجربے سے کام لے کر فیصلہ کیجئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ راستہ اور منزل

My Id Pak

اگر راستہ خوبصورت ہے تو معلوم کیجئے کہ کس منزل کو جاتا ہے
اگر منزل خوبصورت ہو تو راستہ کی پرواہ مت کیجئے

کیونکہ خوبصورت منزل مل جانے پر راستہ کی دُشواریوں کا احساس ختم ہو جاتا ہے
لیکن منزل خوبصورت نہ ہو تو آدمی کے پاس سوائے پچھتاوے کے کچھ نہیں رہ جاتا

آج سے 20 دن بعد مُلک میں انتخابات ہوں گے ۔ اگر میرے ہموطن خوبصورت منزل کو بھُول کر سیاستدانوں کے خوبصورت وعدوں کے پیچھے لگ گئے تو اگلے 5 سال روتے ہوئے ہی گذاریں گے

نہ فرشتے اُمیدوار ہیں اور نہ نبی ۔ اسلئے اُن کی تلاش چھوڑ دیجئے
ووٹ ضرور ڈالیئے مگر اُسے جو باقی سب سے اچھا ہو ۔ باتوں یا شکل میں نہیں ۔ عمل میں اچھا

دوست۔ آقا نہیں

اس سلسہ میں 9 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“ ۔ ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“ ۔ ”انکوائری ۔ تفتیش” اور ” ہمارے اطوار “ لکھ چکا ہوں

میں نے یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی ۔ 6 ماہ کیلئے مختلف فیکٹریوں میں تربیت حاصل کی ۔ پہلے 4 ہفتے سمال آرمز گروپ میں تربیت کے تھے ۔ مجھے کام سیکھنے کا شوق تھا اسی لئے ٹیکنیکل کالج راولپنڈی میں سینئر لیکچرر کی پوسٹ چھوڑ کر پی او ایف میں آیا تھا ۔ اس زمانہ میں سمال آرمز گروپ میں کوئی اسلحہ نہیں بن رہا تھا ۔ اینفیلڈ رائفل نمبر 4 مارک 2 کے چند سپیئر پارٹ بن رہے تھے ۔ میں مشینوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان پرزوں کی پروڈکشن کا بھی مطالعہ کرتا رہا ۔ جب 2 ہفتے گذر چکے تھے تو ایک فورمین صاحب جو پوری پی او ایف میں گھاک مانے جاتے تھے مجھے کہنے لگے ”ہماری مدد کریں ۔ ایک پرزہ ہے جس میں ٹیپر (taper) آ رہا ہے ۔ میں نے انکساری سے کہا ”آپ تو کام کے ماہر ہیں ۔ جو بات آپ کو سمجھ نہیں آئی وہ مجھے کیسے سمجھ آئے گی ؟“ بولے ”میں آپ کے عِلم سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہوں“۔ میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا۔ ورکر نے پرزہ بنا کر دکھایا ۔ مستری بھی موجود تھا ۔ میں نے فورمین صاحب اور مستری سے پوری تاریخ معلوم کرنے کے بعد کچھ ھدایات دیں جن پر عمل کرنے سے پُرزے درست بننے شروع ہوگئے ۔ ایک دن بعد فورمین صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لے آئے ۔ مطالعہ کے بعد ھدایات دیں تو اللہ کے کرم سے وہ پرزہ بھی درست بننے لگا۔ فورمین صاحب نے منیجر صاحب کو بتایا جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا تو میں نے کہا ”کوئی بڑی بات نہ تھی آپ بھی اسے کر سکتے تھے“۔ میرے پاؤں کے نیچے سے اُس وقت زمین سِرکتی محسوس ہوئی جب منیجر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ”میں الیکٹریکل انجنیئر ہوں“۔

دوسرا واقعہ اُس دور کا ہے جب سمال آرمز گروپ بڑھ کر ویپنز فیکٹری بن چکا تھا اور میں پروڈکشن منیجر تھا ۔ ایک صاحب کسی دوسری فیکٹری سے تبدیل کر کے جنرل منیجر ویپنز فیکٹری تعینات کئے گئے ۔ میں اُنہیں پروڈکشن کے معاملات سمجھانے میں دقت محسوس کرتا رہا ۔ آدمی بہت اچھے تھے ۔ میں چند ماہ میں اُن سے بے تکلف ہو گیا ۔ ایک دن اُنہیں ایک بات سمجھ نہیں آ رہی تھی تو میں نے کہا ”انجیئرنگ کالج لاہور کے پڑھے مکینیکل انجنیئر کو تو یہ بات سمجھ لینا چاہیئے”۔ وہ بولے ”میں دراصل سِول انجنیئر ہوں“۔

ایک سینیئر انجیئر صاحب سے کچھ بے تکلفی تھی ۔ میں نے ان سے ذکر کیا ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ابتداء میں پی او ایف کی پلاننگ اور انتظام انگریزوں کے پاس تھا ۔ اُنہوں نے حکومت سے منظوری لی کہ بھرتی پبلک سروس کمیشن کی بجائے خود کریں گے ۔ اخبار میں اشتہار دے دیا کہ بٰی ایس سی انجنیئر چاہئیں ۔ پھر مکینکل ۔ الیکٹریکل اور سول انجنئر بھرتی کر کے سب کو مزید تعلیم و تربیت کی غرض سے 3 سال کیلئے برطانیہ بھیج دیا ۔ واپس آنے پر کام زیادہ نہ تھا جس سے بے اطمینانی پیدا ہوئی ۔ کئی انجنیئر شور کرنے لگے کہ ”ہمیں ملازمت چھوڑنے کی اجازت دی جائے“۔ چیئرمین نے کہا ”جو جانا چاہتا ہے جا سکتا ہے“۔ اُن دنوں ملک میں انڈسٹری ترقی پا رہی تھی ۔ سب قابل اور ذھین انجنیئر چھوڑ کر چلے گئے ۔ پیچھے کچھ سول اور الیکٹریکل انجنیئر اور برطانیہ سے فیل ہو کر آنے والے مکینیکل انجنیئر رہ گئے ۔ البتہ 3 سول انجنیئرز میں سے 2 سمجھدار اور محنتی تھے اور محنت کرنے والے کی قدر اور حمائت کرتے تھے ۔ انجنیئرنگ فیکٹریز میں محنتی لوگوں میں سے زیادہ کی رپورٹیں خراب ہوتی رہیں اور نالائق مگر چاپلوس اور ذاتی خدمتگار ترقیاں پاتے رہے ۔ اس کے ذمہ دار وہ مکینکل انجنیئر تھے جو برطانیہ سے ناکام واپس لوٹے تھے یا پھر جو مکینیکل انجنئر نہ تھے سوائے 2 متذکرہ بالا سول انجنیئرز کے ۔ اس کے بر عکس ایکسپلوسِوز فیکٹری میں سارے انجینئر موجود رہے ۔ وہ سب برطانیہ سے کامیاب ہو کر واپس آئے تھے ۔ ایکسپلوسِوز فیکٹری میں کبھی کسی محنتی آفیسر کی رپورٹ خراب نہ ہوئی

ایک اور قابلِ ذکر حقیقت ہے کہ ازل سے برطانیہ اور امریکا نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کسی بھی اسلحہ میں خود کفیل ہو سکے ۔ ہو سکتا ہے غلط بھرتی کی یہی وجہ ہو ۔ جب 1962ء میں کم از کم بنیادی اسلحہ میں خود کفیل ہونے کا منصوبہ بنایا گیا ۔ ابتداء جرمن رائفل جی 3 سے ہونا تھی ۔ امریکا نے اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ایک لاکھ ایم 1 رائفلز دینے کی پیش کش کی ۔ افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل موسٰی خود کفالت کے حق میں تھے فیصلہ سربراہِ مملکت جنرل محمد ایوب خان نے کرنا تھا جس نے کہا ” ہمیں دوست چاہیئں ۔ آقا نہیں“۔ موجودہ صحافی ہمایوں گوہر کے والد الطاف گوہر صاحب نے اسی عنوان (Friends, Not Masters) سے جنرل ایوب خان کی طرف سے کتاب لکھی تھی