Monthly Archives: March 2013

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ وقت

My Id Pak

گذرا وقت نہ لوٹایا جا سکتا ہے ۔ نہ پھر کبھی آتا ہے

جذبات عارضی ہوتے ہیں ۔ فیصلے مُستقل

ایسے وقت کوئی فیصلہ نہ کیجئے جب غُصے میں ہوں
ایسے وقت کوئی وعدہ نہ کیجئے جب بہت خُوش ہوں
اور نہ ہی فیصلہ کرتے ہوئے جلدبازی کیجئے

ووٹ دینے کیلئے اُمیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے بھی ان عوامل کا خیال رکھیئے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر کلک کر کے پڑھیئے کہ دنیا کیا کہتی ہے
Barak Obama’s Tears
Palestine and US Humbug

ایک نیا مرض

ایک نیا مرض جو بڑھتا جا رہا ہے اور کچھ خاندانوں کیلئے پریشانی کا باعث بن بھی چکا ہے
مُشکل یہ ہے کہ اس مرض کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے
اچنبے کی بات ہے کہ اس مرض سے پریشان اکثر وہی ہیں جو اس کے جراثیم بصد شوق خود ہی لے کر آئے تھے

کہیں آپ بھی اس مرض میں مبتلاء تو نہیں ؟
کیا ہے وہ نیا مرض ؟ خود ہی دیکھ لیجئے

ابتداء یعنی جب مرض کے جراثیم گھر میں آئے خوشی بخوشی

پھر دلچسپی بڑھی

جب شوق عشق میں ڈھل گیا

نوبت یہاں تک پہنچی

انجامِ کار

پھر کمپیوٹر کا استعمال ؟

کرشمہ

علامہ اقبال نے کہا تھا

پھول کی پتّی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پہ کلامِ نرم و نازک بے اثر

بیج سے نکلنے والی کونپل اتنی نازک ہوتی ہے کہ ذرا سا ہاتھ لگنے سے ٹوٹ جاتی ہے ۔ دیکھئے کسی بیج سے نکلنے والی نرم و نازک کونپلیں سڑک کی جمی ہوئی 6 انچ موٹی تہہ کو کس طرح پھاڑ کر اور اتنے وزن کو اُوپر اٹھا کر باہر نکل آئی ہیں

کرشمہ

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ممولے کو باز سے لڑا کر ممولے کو جِتا دے

دیر نہ کیجئے

23 مارچ 2013ء کو دوپہر کے 12 بجنے کو تھے کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔ اُٹھایا تو آواز آئی ”میں الف نظامی بول رہا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے آپ سے بات کرنا ہے“۔ میرے کان ہی نہیں رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید میں نے انجانے میں کوئی گستاخی کردی ہے ۔ لیکن اُنہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہی جو میرے لئے ایک امتحان ہی بن گئی ۔ فرمانے لگے ”درخت انسانی زندگی کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ درخت کاٹنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے بلاگ پر شجرکاری کی صلاح دیں“۔

الف نظامی صاحب تحمکانہ فرمائش کر کے چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سامنے ایک اُونچا پہاڑ ہے جسے میں نے اس بڑھاپے میں سر کرنا ہے

میں مضمون کا سِرا تلاش کر رہا تھا تو یاد آیا کہ میں جس سرکاری کوٹھی میں اکتوبر 1984ء سے اگست 1994ء تک رہائش پذیر رہا ۔ اس کے ساتھ 4 کنال کے قریب خالی زمین تھی جس میں کناروں پر باٹل برش کے 2 ۔ سوہانجنا کا ایک اور امرود کے 3 درخت تھے ۔ میں نے ان میں ایک لوکاٹ کا ۔ 2 آلو بخارے کے 3 خوبانی کے درختوں کا اضافہ کیا جو عمدہ قسم کے تھے اور دور دور سے منگوائے تھے ۔ میرے بعد وہاں گریڈ 20 کے جو افسر آئے وہ بھی انجنیئر تھے ۔ میں 1995ء میں کسی کام سے اُن کے ہاں گیا تو میدان صاف تھا ۔ بولے ”بہت گند تھا ۔ میں نے سب درخت کٹوا دیئے ہیں“۔ مجھے یوں لگا کہ کسی نے میرا دل کاٹ دیا ہے ۔ موصوف کو اتنا بھی فہم نہ تھا کہ سُوہانجنا ایک کمیاب درخت ہے اور درجن بھر ایسے امراض کا علاج مہیاء کرتا ہے جو ایلوپیتھتک طریقہ علاج میں موجود نہیں

متذکرہ واقعہ ایک نمونہ ہے میرے ہموطنوں کی عمومی ذہنی حالت کا ۔ جدھر دیکھو درخت کاٹنے پر زور ہے

آج دنیا کی ترقی یافتہ سائنس ماحولیات پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور ساتھ ہی شجر کاری کو صحتمند ماحول کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ دین اسلام کے حوالے سے بات کریں تو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ ”اگر مسلمان ایک درخت لگائے یا فصل بوئے جس میں سے ایک پرندہ یا انسان یا درندہ بھی کھائے تو اس خیرات کا بڑا اجر ہے (صحیح بخاری 2320 ۔ صحیح مُسلم 1553)

درخت گرمی کی حدت کو کم اور بارش برسانے میں کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بارش اپنے اندر کئی صحتمند فوائد لئے ہوتی ہے
درخت ہوا میں اُڑتے کئی قسم کے ذرّات کو روک کر فضا کو صحتمند کرتے ہیں
کئی درخت انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر گھر کے ارد گرد نِیم کے درخت لگا دیئے جائیں تو مچھروں اور کئی اور پتنگوں سے نجات مل سکتی ہے ۔ اگر دیسی سفیدے کے درخت گھر کے گرد لگا دیئے جائیں تو زکام سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں

مارچ کا مہینہ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین ہے درخت لگایئے اپنی اچھی صحت کیلئے اور ساتھ اللہ سے انعام بھی حاصل کیجئے

دوسرے ممالک میں درخت لگانے کا حال کچھ اس طرح ہے کہ میں پہلی بار 1975ء میں متحدہ عرب عمارات گیا تو صرف العین میں ایک کیلو میٹر لمبی سڑک پر کچھ درخت نظر آئے تھے ۔ ابو ظہبی ۔ دبئی شارقہ وغیرہ میں کہیں درخت نظر نہ آئے ۔ مگر سُنا تھا کہ کوشش ہو رہی ہے ۔ اُنہوں نے درخت اُگانے کیلئے مٹی تک دوسرے ملکوں سے بحری جہازوں پر درآمد کر کے بچھائی ۔ پھر ماہرین نے بتایا کہ درختوں کی افزائش کیلئے چڑیاں اور دوسرے چھوٹے پرندے ضروری ہیں تو اُنہوں نے چڑیاں اور چھوٹے پرندے ہزاروں کی تعداد میں درآمد کئے ۔ شروع میں چڑیاں مرتی رہیں مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ میں 2008ء سے اب تک 4 بار دبئی جا چکا ہوں ۔ اب تو وہاں ہر طرف ہریالی اور درخت نظر آتے ہیں

جس زمانہ میں میں جرمنی میں تھا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک درخت کاٹ دے تو اُسے جرمانہ ادا کرنے کے علاوہ ایک کے بدلے 10 درخت لگا کر اُن کی حفاظت بھی کرنا ہو گی

ہم لوگ غیرملکیوں کی برائیاں تو اپنانے میں بڑے تیز ہیں ۔ اپنانا تو اُن کی اچھایاں چاہئیں

ہم اور حقوق

73 سال قبل آج کے دن لاہور کے اس باغ میں جہاں آج مینارِ پاکستان ہماری حالتِ زار پر افسردہ کھڑا ہے ایک قرداد ”قرار دادِ مقاصد“ کے نام سے پیش کی گئی تھے جو ہمارے آباؤ اجداد کے خلوص اور محنت کے نتیجہ میں ”قرار دادِ پاکستان“ ثابت ہوئی اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنا یہ مُلک پاکستان عطا کیا تاکہ اس خطے کے مسلمان اپنے وہ حقوق حاصل کر سکیں جن کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے لاکھوں جانیں اور بے حساب املاک قربان کیں

اس آزادی اور حصول کا ہم نے غلط استعمال کرتے ہوئے اپنا جو حال بنا لیا ہے وہ محتاجِ بیان نہیں

کہاں ہمارے آباؤ اجداد کا خلوص و محنت اور عزم کہ جناب محمد علی جوہر لندن کی عدالت میں کہیں ”میرا وطن آزاد کر دیں ورنہ مجھے یہیں دفن کر دیں کہ میں غلام زمین پر واپس نہیں جانا چاہتا ۔ اُن کی رحلت کا وقت اللہ تعالٰی لندن ہی میں لے آئے

اب ہمارا حال یہ ہے کہ جو کہتے ہیں وہ ہوتا نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کہنے کی جراءت نہیں

آیئے ۔ سب اپنے اپنے ساتھ سچا عہد کریں کہ آج سے

ہم اپنے حقوق کی بات اُس وقت کریں گے
جب
دوسرے کا حق پہچان کر اُسے اُس کا حق دلا دیں گے
کیونکہ
حقوق حاصل کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ ہے

پاکستان پائندہ باد

انکوائری ۔ تفتیش

اس سلسہ میں 7 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” ۔ ”کہانی کیا تھی“اور ”یو اے ای اور لبیا کیسے گیا“لکھ چکا ہوں

ہمارے ہاں اول تو مجرم پکڑا ہی نہیں جاتا اور اگر پکڑا جائے تو اسے سزا نہیں ہوتی ۔ اس کی ایک مثال میں ” غیب سے مدد“ میں لکھ چکا ہوں کہ بندوقیں چوری کرنے والے کیسے رہا ہو گئے تھے ۔ اپنی تحریر ”پارسل“ میں لکڑی غائب ہونے کی انکوائری کا حال بھی لکھ چکا ہوں

آج میں ایسے 2 واقعات رقم کر رہا ہوں کہ جس تفتیش یا انکوائری میں بیان دینے والا میں خود تھا

یہ واقعہ ہے 1959ء کا جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں اور میرے 3 ہم جماعت لاہور شہر سے واپس ہوسٹل جا رہے تھے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک چوراہے پر سپاہی نے میرے ایک ہمجماعت کے بائیسائکل کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچا ۔ میرا ہمجماعت گر گیا اور اسے چوٹیں لگیں جس پر اس کا پولیس والے سے جھگڑا ہو گیا ۔ ہم آگے نکل چکے تھے واپس آ کر بیچ بچاؤ کی کوشش کی مگر پولیس والے کی منہ زوری کی وجہ سے بات بڑھ گئی ۔ اور پولیس والے بھی آ گئے اور ہمیں بھی ساتھ تھانے لیجانے لگے ۔ کافی لوگ اکٹھے ہو گئے تھے جو ہماری حمائت میں ساتھ تھانے چلے گئے ۔ وہاں ہم چاروں کو پولیس والے تھانے میں لے گئے ۔ باقی لوگ بھی اندر جانا چاہتے تھے مگر اُنہیں دھکے دیئے گئے اور تھانے کا بڑا سا آہنی دروازہ بند کر دیا گیا ۔ ہمیں اندر لیجا کر ایک بنچ پر بٹھا دیا ۔ باہر لوگ نعرے لگاتے رہے اور دروازہ کھولنے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ۔ پندرہ بیس منٹ بعد آوازیں کم ہونا شروع ہوئیں اور پنتالیس پچاس منٹ بعد شاید سب لوگ چلے گئے ۔ اس دوران ہم چاروں کو چالان تھما دیئے گئے کہ ہم ایک ایک بائیسائکل پر دو دو بیٹھے ہوئے تھے ۔ پولیس والے نے ہمیں روکا تو ہم نے اس کی مار پیٹ کی اور لوگوں نے چھڑایا ۔ حقیقت یہ تھی کہ پولیس والے نے ہمارے ہمجماعت کو مارا اور لوگوں نے چھڑایا تھا ۔ ہم 3 جب پہنچے تو لوگ ہمارے ہمجماعت کو بچا رہے تھے

ہم نے احتجاج کیا تو کہا گیا ”پہلے دستخط کر کے چالان وصول کریں اور پھر اس کے خلاف درخواست دیں ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ تھانیدار صاحب انکوائری کر رہے ہیں ۔ اپنے بیان لکھوائیں ۔ ہمیں ایک ایک کر کے بُلایا گیا ۔ میری باری آخر میں آئی ۔ میں نے جو دیکھا تھا بول دیا ۔ وہاں ایک پولیس والا بیان لکھ رہا تھا ۔ دستخط کرنے کیلئے مجھے بیان دیا گیا ۔ نیچے لکھا تھا ”میں نے پڑھا اور پڑھ کر قبول کیا”۔ میں نے پڑھنا شروع کیا تو پولیس والا بولا ”جو تم نے کہا وہ لکھا ہے ۔ دستخط کرو“۔ میں نے پڑھنا جاری رکھا تو اُس نے کاغذ میرے ہاتھ سے چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے باہر نکال دیا ۔ بعد میں ایک ہمجماعت دوسرے کے ساتھ جھگڑنے لگا ”تم سب کچھ غلط مان کر آ گئے ہو“۔ جس کے ساتھ وہ جھگڑ رہا تھا اُس سے میں نے پوچھا ”آپ نے اپنے بیان پر دستخط کرنے سے پہلے اسے پڑھا تھا ؟“ وہ بولا ”نہیں“۔ سو بات واضح ہو گئی کہ میرے ہمجماعت بیان کچھ دے رہے تھے اور لکھا کچھ اور جا رہا تھا

دوسرا واقعہ 1973ء کا ہے جب میں ویپنز فیکٹری کا پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ فیکٹری کے گیٹ پر معمور فوجی نے ایک چپڑاسی کی پٹائی کر دی ۔ فیکٹری کے ورکر بھی اکٹھے ہوگئے ۔ مسئلہ بڑھ گیا ۔ میں نے جا کر بڑی مشکل سے بیچ بچاؤ کرایا ۔ معاملے کی اعلٰی سطح کی انکوائری شروع ہوئی ۔ انکوائری افسر ایک کرنل تھے ۔ مجھے بھی بیان دینے کیلئے بُلایا گیا ۔ بیان کے بعد مجھ سے سوالات بھی پوچھے گئے ۔ دوسرے دن ٹائپ شُدہ بیان مجھے دستخط کرنے کیلئے دیا گیا ۔ ایک تو مجھے یہ تحریر اپنے بیان سے بہت زیادہ طویل لگ رہی تھی دوسرے نیچے لکھا تھا ”میں نے اپنا بیان پڑھ کر درست پایا“۔ میں نے بیان پڑھنا شروع کر دیا ۔ کرنل صاحب بولے ”جو آپ نے کہا وہی لکھا ہے ۔ دستخط کریں“۔ میں نے کہا ”میں پڑھے بغیر دستخط نہیں کروں گا“۔ کاغذات میرے ہاتھ سے چھین کر کہا ”آپ جا سکتے ہیں“۔