Monthly Archives: February 2013

اعترافِ گناہ

اُس نے لکھا ہے ”جیسے ہمارے مُلک میں کُنبہ پروری کا رواج چلتا ہے کہ اپنوں کا خاص خیال رکھا جائے ۔ ویسے ہی فوج میں بھی ہے ۔ کہا جاتا ہے بڑا حوصلے والا شخص ہے ۔ یاروں کا یار ہے ۔ دوستوں کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ چاہے کسی اور کا گلا ہی کیوں نہ کٹتا ہو ۔ فوج میں عام رواج ہے کہ اپنی یونٹ کے لئے سب کچھ جائز ہے ۔ جھوٹ بھی دھوکہ بھی اور چوری بھی ۔ میں کوئی انوکھی بات نہیں کہہ رہا ۔ یہی دستور ہے“

اُس نے لکھا ہے ”پی ایم اے میں سب پر آگے بڑھنے کی جستجو اور محنت کا دباؤ ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ فوج میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بجائے ایک ہی مقصد کے لئے مل جل کر کام کرنے کی زیادہ اہمیت ہے ۔ سبقت لے جانے کی کاوش انسان کی سیرت کو مَسَخ کر دیتی ہے اور اس کی اخلاقی قوت ماند پڑ جاتی ہے ۔ یہ سوچ ذرا اور گہری ہو جائے تو جھُوٹ اور فریب کو جنم دیتی ہے اور بھائی چارے کی بجائے دشمنیاں پیدا کرتی ہے ۔ کمانڈر کے کردار میں ایسے نقائص جنم لیتے ہیں کہ وہ اچھا لیڈر نہیں بن پاتا ۔ میں نے پی ایم اے میں مقابلے کے اس ماحول کے بڑے کڑوے رنگ دیکھے ہیں ۔ پھر ساری عمر فوج میں جگہ جگہ اس کے دل سوز اثرات دیکھتا رہا“۔

ایک دن اُس نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور شوگر اسکینڈل کی انکوائری کے متعلق کچھ باتیں بتا دیں۔ اس نے حکومت کے کچھ وزراء کے نام لئے اور کہا ”وزیراعظم شوکت عزیز اور صدر مشرف کے قریبی ساتھی طارق عزیز کا دباؤ ہے کہ شوگر اسکینڈل کی انکوائری روک دی جائے“۔

امریکی فوج اور خفیہ اداروں نے تین مرتبہ اُس کی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کی۔ لکھتے ہیں ”کمپنی کمانڈر کورس کرنے 7 ماہ کے لئے فورٹ بیننگ (Fort Benning) گئے تو امریکی فوج کے ایک افسر نے پیشکش کی کہ تم اسی رینک اور سروس کے ساتھ امریکی فوج جائن کر سکتے ہو لیکن میں نے انکار کر دیا“۔

کچھ عرصے کے بعد ایک اور کورس کے لئے پھر امریکا گئے ۔ اس مرتبہ ان کے ساتھ میجر اشفاق پرویز کیانی بھی تھے۔ ایک دفعہ پھر اُسے امریکی فوج میں بھرتی کی پیشکش ہوئی جو اُس نے ٹھکرا دی ۔ پھر کہا گیا پاکستانی فوج میں رہ کر ہمارے لئے کام کرو ۔ اُس نے انکار کر دیا ۔ اُس نے لکھا ہے ”یہ صرف مجھ پر ہی تو عنایت نہیں کر رہے تھے ۔ سب کو ہی دانہ ڈالتے ہوں گے ۔ کامیابی بھی پاتے ہوں گے ۔ تب ہی تو سلسلہ جاری تھا“۔ اُس نے لکھا ہے ”امریکا میں اس کورس کے اختتام پر پیرو کے ایک افسر نے مجھے فری میسن تنظیم میں شامل ہونے کی آفر کی لیکن میں شامل نہ ہوا“۔

ایک دن جنرل مشرف نے بلاکر کہا کہ لاہور ریس کورس میں چھ ستمبر کو شہیدوں کے نام پر گھوڑوں کی ریس کا اہتمام ہے طارق عزیز چاہتے ہیں تم چیف گیسٹ بن کر انعامات تقسیم کرو۔ اُس نے کہا کہ یہ غیر اسلامی کام ہے ۔ انکار کر دیا اور کچھ عرصے کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے

لکھا ہے کہ فوجی و سیاسی حکمران ہمیشہ امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں

یہ چند اقتباسات تھے جنرل پرویز مشرف کے دست راست اور قریبی رشتہ دار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کہاں تک؟“ سے

اس کتاب کے ”پیش لفظ“ کے آغاز میں لکھتے ہیں ”فوجی نوکری کے آخری ایام تک تو کچھ ایسا نہ کیا تھا جس پر اَن مِٹ ندامت ہوتی ۔ پھر جو کچھ اس درد دل کی خاطر کرگزرا اور جس انجام پر اس ملک کو پہنچایا ۔ آج اس کے بوجھ تلے پس رہا ہوں ۔ ویسے تو زندگی میں جو بھی کیا اکیلے ہی کیا۔ کوئی ساتھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہوتا تھا لیکن جو بھی کیا وقت نے اسے پھیر دیا ۔ کچھ بھی بدلا نہیں ۔ پھر بھی مجھ سے جو بن پایا میں کرتا رہا ۔ اکیلے ہی ۔ پھر فوجی زندگی کے آخری موڑ پر قانون توڑ کر کسی اور کا ساتھ دیا اور سب کچھ بدل گیا ۔ پاکستان کا مطلب بھی ہماری پہچان بھی قوم کی تقدیر بھی قبلہ بھی ۔ لیکن جو بدلنا چاہا تھا جوں کا توں ہی رہا بلکہ اور بگڑ گیا۔ ایک چمکتے ہوئے خواب کو حقیقت میں بدلتے بدلتے اس میں اندھیرے گھول دئے ۔ صرف ایک دن ہاتھ میں لگام تھی ۔ 12 اکتوبر 1999ء ۔ پھر اس کے بعد پاؤں بھی رکابوں میں نہ رہے ۔ اب لکھنا کیا ؟ اب عمر کے اس آخری حصے میں برہنہ ہونے پر کوئی کیا دیکھے؟

یہ موصوف نے 12 اکتوبر 1999ء کو سیاسی حکومت کا تختہ اُلٹانے کا ذکر کیا ہے

جیو نیوز کے پروگرام کیپٹل ٹاک (30 جنوری 2013ء) میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شاہد عزیز نے واضح الفاظ میں بتایا کہ 12 اکتوبر 1999ء کا واقعہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ اسے کی بہت پہلے منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء ڈی جی ملٹری آپریشنز تھے اور خیال تھا کہ شاید وہ ساتھ نہ دیں ۔ اسلئے ان کا تبادلہ کر کے ان کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو لایا گیا ۔ اس وجہ سے تاخیر ہوئی تھی

مزید لکھا ہے کہ کرگل آپریشن کا جنرل پرویز مشرف کے علاوہ صرف 3 اور جنرلوں کو علم تھا حتٰی کہ خود لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کو بھی علم نہ تھا ۔ سیاسی قیادت اور سول بیورو کریسی کو بھی علم نہ تھا ۔ آپریشن 1998٭ میں شروع کیا گیا اور وزیر اعظم (نواز شریف) کو جولائی 1999ء میں بتایا گیا تھا

میں چور ؟؟؟

اس سلسلہ میں 3 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“اور ”گھر کی مرغی ؟“ لکھ چکا ہوں

ذرائع ابلاغ کے ذریعہ واقعات کا حال ہم تک مرچ مصالحے کے ساتھ پہنچتا ہے ۔ ہماری اکثریت حقائق سے واقف نہیں ہوتی اسلئے ان ظُلم کی داستانوں کا اثر وقتی ہوتا ہے ۔ آج کی تحریر ”جس تن لاگے وہ تن جانے“ والی ہے جس سے میں نے سنسنی کو دُور رکھنے کی پوری کوشش کی ہے اور نہائت اختصار سے کام لیا ہے

میں نے اپنے والدین ۔ دادا اور اساتذہ سے تین عوامل سیکھے اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی کہ ان پر عمل کرنے کی توفیق دی جس کے نتیجہ میں میں آج تک سر اُٹھا کے چلتا ہوں

1 ۔ جھوٹ کبھی نہیں بولنا ۔ چاہے جان جائے
2 ۔ کسی کو گالی نہیں دینا ۔ خواہ وہ کتنا ہی ظُلم کرے
3 ۔ محنت کرتے وقت اپنے سے زیادہ محنت کرنے والے کو نظر میں رکھنا اور اپنی حالت پر نظر ڈالتے ہوئے اپنے سے کم مراعات والے کو یاد رکھنا

میں ادارے میں 10 سال سے زائد ملازمت کر چکا تھا اور میری عادات سے میرے ماتحت کام کرنے والوں سے لے کر افسرانِ بالا تک سب واقف ہو چکے تھے ۔ بات ہے 1973ء کی جب میں پروڈکشن منیجر اور قائم مقام جنرل منیجر تھا ۔ ایک دن میں دفتر پہنچا تو اسسٹنٹ منیجر ”ب“ نے آ کر اطلاع دی کہ تین درجن سے زائد بندوقیں غائب ہیں ۔ جہاں کبھی کوئی چھوٹی سی چیز غائب نہ ہوئی ہو تین درجن بندوقیں غائب ہونا ماننے والی بات نہ تھی ۔ میں نے کہا ”اچھی طرح دیکھ بھال کریں ۔ ہو سکتا ہے کسی نے شرارت کی ہو“ ۔ لیکن ایسا نہیں تھا بندوقیں سَچ مُچ غائب تھیں ۔ میں نے قوانین کے مطابق رپورٹ تیار کی اور جا کر ٹیکنیکل چیف کو دستی دے آیا

دو دن بعد معلوم ہوا کہ ایک گوڈاؤن کیپر اور ایک ورکر کو گھر سے لے گئے تھے اور واپس نہیں آئے ۔ مزید 5 دن بعد رات کو میں سویا ہوا تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی نے مجھے جگا دیا ۔ میں نے آنکھیں ملتے ہوئے گھڑی دیکھی تو ڈھائی بجے تھے ۔ دل میں کہا ”یا اللہ خیر “ اور ٹیلیفون کان سے لگایا ۔ ایک خاتون کی آواز تھی ”بھائیجان ۔ رات 8 بجے ”ع“ صاحب (اُس کا خاوند ۔ میرے ماتحت منیجر) کو بُلا کر لے گئے تھے کہ پندرہ بیس منٹ کیلئے آ جائیں اور اپنا بیان لکھا کر واپس چلے آئیں مگر وہ ابھی تک نہیں آئے”۔ میں نے اُنہیں تسلی دی کہ صبح سویرے اس سلسلے میں بھاگ دوڑ کروں گا ۔ صبح ساڑھے چھ بجے اُن کے گھر جا کر پوری تفصیل حاصل کی اور پونے سات بجے دفتر پہنچا ۔ 8 بجے تک معلوم ہو چکا تھا کہ فورمین ”ت“ ۔ فورمین ”ح“ اور ایک چارج مین بھی کچھ اسی طرح ہی گھروں سے اُٹھائے گئے تھے

میں دفتر سے نکلا اور ایک سنیئر افسر ”م“ کے پاس گیا جو پہلے میرے باس رہ چکے تھے اور منیجر ”ع“ اور فورمینوں ”ت“ اور ”ح“ کو جانتے تھے ۔ ”م“ صاحب نے ساری بات سننے کے بعد مجھے کہا ”تم ایک مُجرم کے گھر گئے ۔ مُجرم کو ملنے والا بھی مُجرم ہوتا ہے“۔
میں نے ان سے کہا ”پہلے کوئی ثبوت تو دیجئے ع کے مُجرم ہونے کا ۔ ابھی تو وہ ملزم بھی نہیں ہے کہ اس سلسلہ کی قانونی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی“۔ میری یہ بات ”م“ صاحب کو بہت ناگوار گذری

واپس آیا تو میرے براہِ راست ٹیلیفون کی گھنٹی بجی جو ایمرجنسی کیلئے ہوتا ہے یا جب ٹیکنیکل چیف یا ادارے کا چیئرمین براہِ راست خود ملائے ۔ میں نے اُٹھایا تو ایک اجنبی آواز آئی
”میں میجر ”ش“ بول رہا ہوں ۔ آپ میرے پاس آئیں میں نے تفتیش کرنا ہے“۔
میں نے بتایا ”میں تین آدمیوں کا کام کر رہا ہوں ۔ کہیں نہیں جا سکتا“۔
آواز ”آپ کو میرے پاس آنا ہو گا بیان دینے کیلئے“۔
میں ”جو کچھ میرے علم میں تھا میں لکھ کر اپنے افسران کو دے چکا ہوں ۔ اب کچھ کہنے کو نہیں ہے“
آواز ”آپ کو آنا ہو گا“۔
میں ”میں اپنے افسروں یا عدالت کے حُکم پر آپ کے پاس آ سکتا ہوں ۔ میں متاءثرہ فریق ہوں بیان لینا ہے تو یہاں آ کر لیں“
آواز ”آپ کے ماتھے پر نہیں لکھا کہ آپ چور نہیں ہے“
میں ”تو گویا آپ یہی دیکھنے کیلئے بُلا رہے ہیں کہ میرے ماتھے پر کیا لکھا ہے ۔ پہلے آئینہ میں دیکھ لیں کہ آپ کے ماتھے پر کیا لکھا ہے“ اور میں نے ٹیلیفون بند کر دیا

کوئی گھنٹہ بعد ٹیلیفون آیا کہ چیف ایڈمن افسر بلا رہے ہیں ۔ ان کے دفتر میں داخل ہوا ہی تھا کہ اُلٹ پُلٹ باتوں کے ساتھ رُعب ڈالنے لگے ۔ میں یہ کہہ کر چلا آیا ”یہ اہم معاملہ ہے ۔ جو کچھ پوچھنا یا کہنا ہے لکھ کر دیجئے ۔ میں لکھ کر جواب دوں گا“

واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد پی اے نے بتایا کہ ”م“ صاحب بلا رہے ہیں ۔ اُن کے دفتر پہنچا تو گویا ہوئے
”تم اپنے آپ کو بڑا لیڈر سمجھتے ہو ۔ جانتے نہیں تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے ۔ تم لوگوں کو ہڑتال پر اُکسا رہے ہو“
میں ”میں نے کسی کو ہڑتا ل کا کہا ہے اور نہ مجھ سے کسی نے ہڑتال کی بات کی ہے ۔ میں لیبر نہیں ہوں سنیئر افسر ہوں اور ہڑتالوں کے خلاف ہوں“
”م“ ”ہم نے تماری گفتگو ریکارڈ کی ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو“
میں ”وہ گفتگو مجھے بھی سنوا دیجئے تاکہ معلوم ہو کہ کون جھوٹا ہے“
”م“ ”پکی بات ہے تم نے نہیں کہا ؟“
میں ”آپ اس ریکارڈ کو دوبارہ سن لیجئے تاکہ معلوم ہو کون آپ کو دھوکہ دے رہا ہے“

پھر بہت کچھ ہوا اور بالآخر چوری ہونے کے 12 دن بعد یعنی منیجر ع کے اُٹھائے جانے کے 5 دن بعد ان اہلکاروں کو رہا کر دیا گیا ۔ رہا کرنے سے قبل ان سے چیف ایڈمن افسر صاحب نے زبانی معافی مانگی اور کہا کہ سب کچھ ”نیک نیتی“ سے ہوا تھا
گوڈاؤن کیپر چل نہیں سکتا تھا ۔ میں نے کہا کہ اس کے ساتھ ظُلم ہوا لگتا ہے تو کہا گیا کہ اُس نے بھاگنے کیلئے دوسری منزل سے چھلانگ لگائی تھی

یومِ یکجہتیءِ کشمیر

انشاء اللہ العزيز
سِتم شَعَار سے تُجھ کو چھُڑائيں گے اِک دن
ميرے وطن تيری جنّت ميں آئيں گے اِک دن
ميرے وطن ۔ ميرے وطن ۔ ميرے وطن
ہم کيا چاہتے ہيں ؟ آزادی آزادی آزادی

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا

کوئی کراچی یا اسلام آباد میں رہتا ہے یاپشاور یا لاہور یا کوئٹہ میں بالخصوص وہ جو جموں کشمیر کی جد وجہد آزادی میں کوشاں لوگوں کو انتہاء پسند یا دہشتگر کہتا ہے دماغ کی کھڑکی اور آنکھیں کھول کر پڑھ لے اور یاد رکھے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر انسانی حقوق کی ایسی تحریک ہے جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق ہے بلکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی تین قرار دادوں اور جنرل اسمبلی کی کئی قرار دادوں کے مطابق ہے

رنگ لائے گا شہيدوں کا لہو اور ظُلم کی تلوار ٹوٹے گی
جموں کشمير ہو کر رہے گا آزاد اِن شاء اللہ اِن شاء اللہ

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ

“جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں”
یا
“سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”

جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں
راہِ حق میں جد و جہد کرنے والوں کو موت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایثار کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہلِ جموں کشمیر اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہلِ جموں کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی

اہلِ جموں کشمیر صرف جموں کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام اور بقاء کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں ۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں ۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ؟
بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے اِن شاء اللہ ناکامی اس کا مقدّر ہے ۔ بھارت جموں کشمیر کے لوگوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا ہے جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔ بھارتی معاندانہ پروپيگنڈہ سے بھونچکا ہوئے ہموطن بھی دشمن کی بانسری بجانے لگے ہيں

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے ؟
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990ء کو منایا گیا ۔ میں نے اپنے دوسرے يعنی انگريزی بلاگ پر ستمبر 2005ء میں لکھا تھاکہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔ بعد میں نواز شریف کی حکومت نے 5 فروری کو چھٹی قرار دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا اور آج تک 5 فروری کو چھٹی ہوتی ہے

اہل جموں کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، جموں کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ جموں کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ جموں کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ جموں کشمير کے باشندوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ جموں کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے رياست جموں کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں دلال [Middle Man] کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر جموں کشمير کے باشندوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کے تین بڑے دریا راوی چناب اور جہلم بھارت کے قبضہ میں ہیں جن پر کئی ڈيم بنا کر بھارت انہيں خُشک کرنے کے در پۓ ہے

جموں کشمیر کی جد و جہد آزادی کا مختصر جائزہ لینے کیلئے یہاں کلِک کیجئے

اِسے جانتے ہیں؟


مجھے بتایا گیا ہے کہ

اِس آدمی نے آر پی پی میں خُورد بُرد کے خلاف درخواست گذاران خواجہ آصف اور فیصل صالح حیات کو پچاس پچاس کروڑ روپے کی پیشکش کی

یہ آدمی آصف علی زرداری اور راجہ پرویز اشرف کا باہمی دوست ہے

ڈی جی ایچ آر نَیب کوثر اقبال ملک جس نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نَیب کامران فیصل مرحوم کوپچھلی تاریخ میں رپورٹ تبدیل کرنے کا کہا تھا اس آدمی کا بہترین دوست ہے

آر پی پی میں خُورد بُرد کا 575 ارب روپیہ جس کی تفتیش کامران فیصل مرحوم نے کی تھی سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والا آدمی یہی ہے

اس آدمی کا نام ہے اقبال زیڈ احمد

اور یہ ایل پی جی ۔ ایل این جی اور آئل اینڈ گیس کا بادشاہ ہے