Monthly Archives: September 2012

دیوانگی کا رقص ہے اور ہم ہیں دوستو

آسمان گواہ ہے کہ خود کو اذيت پہنچانے کي ہماري صلاحيت کا اس کرّہ ِ ارض پر کوئي حريف نہيں ہے۔ ہميں را، سي آئي اے يا موساد کي سازشوں کي محتاجي نہيں ہے۔ يہ بیچاري ايجنسياں تو اس خرابي کا عشر عشير بھي نہيں سوچ سکتيں جو ہم اپنے ليے خود برضا ورغبت پيدا کرتے رہتے ہيں

ابھي توہين کے قوانين کي بحث ختم نہيں ہوئي تھي کہ ايک اور کيس نے سر اٹھا ليا ۔ يہ کيس ہے کيا ؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے ليے ميں اسلام آباد کے ايک نواحي علاقے مہرہ جعفر ، جہاں يہ واقعہ پيش آيا،کي بل کھاتي ہوئي گليوں ميں گيا اور وہاں ميري ملاقات احمد، جو کہ
اس کيس ميں مدعي ہے سے ہوئي ميں اپنے ذہن ميں يہ تصور ليے ہوئے تھا کہ مير ي ملاقات کسي مذہبي جنوني سے ہوگي مگر مجھے يہ ديکھ کر حيرت ہوئي کہ احمد نہايت دوستانہ انداز ميں ملا۔ وہ پانچويں جماعت تک پڑھا ہے اور کچھ پڑھ سکتا ہے مگر لکھنا نہيں جانتا ۔ وہ جی ۔ 11 مارکيٹ ميں سي اين جي فٹنگ کي ورکشاپ چلاتا ہے۔ احمد نے بتایا کہ اُس نے ديکھا کہ رمشا نے کچھ جلے ہوئے کاغذات ايک پلاسٹک بيگ ميں اٹھائے ہوئے تھے۔ ديکھنے پر پتا چلا کہ وہ نوراني قاعدے کے اوراق ہيں

تمام مسلمان جانتے ہيں کہ يہ کلامِ الٰہي نہيں بلکہ عربي کے حروفِ تہجي اور ان کا تلفّظ سکھانے والا ايک بنيادي قاعدہ ہے مگر ايک نيم خواندہ شخص اسے مقد س کتاب سمجھ بيٹھا۔ ميں نے احمد سے کہا کہ ايک لمحے کے ليے بھول جائيں کہ اُس نے کيا جلايا تھا۔ کيا اُس چھوٹي سي لڑکي کا اسلام سے کوئي جھگڑا ہے ؟ اُس نے کہا کہ ايسا نہيں ہے ۔ وہاں موجود ديگر افراد نے بھي اس کي تصديق کي۔ ميں نے پوچھا
کہ چنداوراق نذر ِ آتش ہونے سے اسلام کي عظمت کو کيا خطرہ ہے تو اس کا ان کے پاس کوئي جواب نہ تھا۔ کيا رمشا کسي کے مذہبي جذبات مجروح کرنا چاہتي تھي؟ اس پر وہ پھر خاموش رہے۔

رمشا کا چھوٹا سا گھر، جو اب مقفل ہے احمد کے ہمسائے ميں ہے اور يہ ايک گندا سا علاقہ ہے جہاں گٹر کا سياہ پاني پھيلاہوا تھااور گلي ميں جس اونچي جگہ پر گندا پاني نہيں جا سکتا تھا، وہاں گندي گھاس اُگي ہوئي تھي، کوڑا کرکٹ اور پلاسٹک بيگ بکھرے ہوئے تھے ۔ اس گلي کے دونوں طرف ايک ايک کمرے پر مشتمل چھوٹے چھوٹے گھر ہيں۔ اس سے کچھ آگے محلہ بوديل کي مسجد ہے۔ اس علاقہ میں ٹوبہ ٹيک سنگھ، فيصل آباد اور سرگودھا کے مزدور پيشہ افراد رہتے ہيں۔ ايک 10 يا 11 سالہ لڑکي مہرين نور نے بتايا کہ وہ جلے ہوئے کاغذات لے کر امام مسجد کے پاس گئي تھي۔ جب مہرين نے ميرے چہرے پر استفہاميہ تاثرات ديکھے تو اس نے کہا ”جب ميں نے وہ جلے ہوئے کاغذات ديکھے تو ميرا کليجہ پھٹ گيا اور ميں سکتے ميں آگئي“۔

اس کے بعد امام صاحب نے ہنگامي بنيادوں پر اہل ِ علاقہ کي ميٹنگ بلائي اور رمشا کے خاندان کو ايک گھنٹے کے اندر اندر علاقہ چھوڑنے کا حکم ديا۔ اس واقعہ کي پوليس کو بھي اطلاع دي گئي۔ يہ معاملہ اس وقت بگڑ گيا جب يہ خبر نزديکي بازار ميں پہنچي اس سے ايک ہنگامہ کھڑا ہو گيا اور اس ميں پيش پيش کراچي سے آئے ہوئے ايک اُردو بولنے والے صاحب جو اس بازار ميں ايک جنرل اسٹور چلاتے ہيں تھے ۔ مقامي مسجد سے اعلانات کے بعد ايک ہجوم جمع ہو گيا اور سڑک بلاک کردي گئي ۔ اس کے بعد يہ ہجوم رمنا پوليس اسٹيشن پہنچا اور احمد کي مدعيت ميں رمشا کے خلاف توہين کي رپٹ لکھوائي اور اس لڑکي کو گرفتار کر ليا گيا۔ کسي پوليس افسر نے يہ معلوم کرنے کي زحمت نہ کي اصل واقعہ کيا پيش آيا تھا اور کيا اتني چھوٹي لڑکي کسي طرح کے توہين کے کيس ميں ملوث ہو سکتي ہے يا نہيں ۔ پوليس نے مشتعل ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کي بجائے رپورٹ درج کر لي۔

رمشا کے علاقے کے بازار ميں ميں نے لوگوں کے ايک گروہ سے کہا کہ ميرے گھر ميں روزانہ 6 يا 7 اخبارات آتے ہيں۔ اردو اخبارات ميں مذہبي ضميمے ہوتے ہيں اور مقدس مقامات کي تصاوير ہوتي ہيں مگر جب يہ اخبارات پرانے ہوجاتے ہيں تو ان کو تلف کر ديا جاتا ہے يا ردي ميں فروخت کرديا جاتا ہے تو کيا اس کا يہ مطلب ليا جائے کہ ميں يا ميرے گھر والے توہين کے مرتکب ہوتے ہيں ؟ ان افراد کاکہنا تھا کہ يہ توہين نہيں ہے کيونکہ تمام اخبار بين ايسا ہي کرتے ہيں۔ پھر رمشا نے کيسي توہين کي ؟

اسلام آباد پوليس نے پہلے دن ہي اپني ذمہ داري سے انحراف کيا اور اب بھي يہ تمام بوجھ عدليہ کے کندھوں پر ڈال رہي ہے حالانکہ تفتيش کرنا اس کا کام ہے۔ اسے چاہئے تھاکہ حوصلے سے کام ليتے ہوئے اس واقعے کي تحقيق کرتي اور يہ واضح کر ديتي کہ اس چھوٹي لڑکي سے کوئي توہين سرزد ہوئي ہے يا نہيں

ايک اور بات ۔ پاکستان کا نام پوري دنيا ميں بدنام کرنے پر کيا ” توہين ِ پاکستان “ کا کوئي کيس نہيں بننا چاہئے ؟

بشکریہ ۔ اخبار جنگ

بات جو نہیں لکھی

دو دن قبل میں نے جس تبدیلی کا ذکر کیا تھا وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی شکل میں خُوبصورت اور پُرکشش وعدوں کے سہارے اُبھر رہی تھی ۔ وہ وعدے جو ایفاء کیلئے نہیں بلکہ عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے تھے ۔ یہ ترکیب ہمارے مُلک کے حساب سے بہت کامیاب رہی اور عوام کی اکثریت اب تک بیوقوف بن رہے ہیں اور ہر دم بننے کو چوکس رہتے ہیں

میرے متذکرہ باس اُسی تبدیلی کا سہارا لے کر خُوب خُوب مزے لوٹتے رہے اور قوم و مُلک سے مُخلص محنتی افسروں کو مُشکل میں رکھنے کی پوری کوشش کرتے تھے تا کہ جی حضوریوں کا گروہ اُن کے گرد جمع رہے لیکن اللہ نے اپنا نظام وضع کر رکھا ہے ورنہ دُنیا کب کی تباہ ہو چُکی ہوتی ۔ درست کہ میری ترقیاں سالوں تاخیر سے ہوئیں پھر بھی مجھے 1987ء میں گریڈ 20 مل گیا تھا اور جب 3 اگست 1992ء کو 53 سال سے کم عمر میں میں اپنی مرضی سے ریٹائر ہوا تو میں گریڈ 20 کی تنخواہ کی آخری حد (Maximum of the Pay Scale) پر پہنچ چکا تھا ۔ اللہ کا فضل ہے کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بیٹھا تھا تو مجھے پہلے سے دوگنا سے زیادہ تنخواہ والی اور باعزت ملازمت مل گئی ۔ میں نے اپنی گریچوئٹی اور جی پی فنڈ سے سرمایہ کاری کر دی اور ملازمت شروع کر دی ۔ جو کچھ ریٹائرمنٹ کے بعد والی تنخواہ سے بھی بچتا رہا اُسے سرمایہ کاری میں لگاتا رہا ۔ 60 سال کی عمر کو پہنچا تو میرے چھوٹے بیٹے نے کہا “ابو ۔ اب میں کمانے لگ گیا ہوں ۔ آپ آرام کریں”۔ سو میں نے ملازمت ختم کر دی اور ہمہ تن گوش مطالعہ میں لگ گیا ۔ اللہ کے فضل سے میرے بچے بھی میرا ہاتھ بٹاتے رہتے ہیں اور آج تک اللہ کے کرم سے مزے میں ہوں