Monthly Archives: September 2012

پردہ اُٹھتا ہے

ہماری بیوقوفی بلکہ حماقت یہ ہے کہ ہم طاقتور کی بات بغیر تحقیق کے مان لیتے ہیں مگر سب سے زیادہ طاقتور جس کے آگے پوری دنیا کے انسان مع اپنے تمام اسلحہ بارود کے ایک چیونٹی کی سی بھی حیثیت نہیں رکھتے اُس کی تابعداری کرنے کیلئے لاتعداد سوال ہماے دماغوں میں جنم لیتے ہیں

زیرِ نظر ہے اس وقت امریکی حکومت کی شائع کردہ خبر لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کی جو سب پڑھ چکے ہوں گے ۔ ان خبروں کے ساتھ لاتعداد مضامین بھی مسلمانوں کی درندگی ثابت کرنے کیلئے شائع ہو چکے ہیں

یوٹیوب پاکستان میں بند کر دیا گیا جس پر وہ وڈیو بھی نمودار ہوئی تھی جس میں بنغازی میں امریکی کونسلخانے میں موجود امریکی سفیر کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے لیبی جوانوں کو دکھایا گیا ہے

حملے کے بعد کچھ لیبی جوان جن میں ایک کیمرہ مین ۔ ایک وڈیو گرافر اور ایک آرٹ سٹوڈنٹ بھی شامل تھے امریکی کونسلخانے میں داخل ہوئے ۔ ایک اندھیرے کمرے سے اُنہیں کسی کے کراہنے کی آواز سنا دی ۔ کمرے کا دروازہ مقفل تھا ۔ ایک آدمی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا وہاں ایک گورے کو بیہوش پڑا پایا ۔ اُسے بڑی مشکل سے کندھے پر اُٹھا کر ساتھیوں کی مدد سے کھڑکی کے راستے باہر نکالا ۔ وہ اُسے پہچان نہ سکے سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیرملکی تھا ۔ نبض دیکھی تو وہ زندہ تھا ۔ تو نعرہ بلند کیا اللہ اکبر اللہ اکبر یہ زندہ ہے

ان جوانوں نے بتایا کہ کونسلخانے میں نہ کوئی ایمبولنس تھی نہ اُنہیں طبی امداد کا کوئی اور ذریعہ یا انتظام نظر آیا۔ نہ وہاں امریکی سفارتخانے کا کوئی ملازم موجود تھا ۔ لاچار ہو کر اُسے اُٹھا کر باہر دور سڑک تک لے گئے اور ایک کار میں ڈال کر ہسپتال پہنچے ۔ ڈاکٹر نے اُسے بچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا کیونکہ بہت زیادہ دھوآں اُس کے پھیپھڑوں میں چکا تھا

یہ شخص لبیا میں امریکا کا سفیر کرِس سٹِیوَن تھا

(ا پ کی خبر کا خلاصہ)
جو قاری یوٹیوب نہ کھول پائیں وہ یہاں کلک کر کے کھلنے والے صفحہ پر وڈیو دیکھ سکتے ہیں

خُوشبُو آ نہیں سکتی ۔ ۔ ۔

میں ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا جب میں نے پہلی بار یہ شعر سنا تھا

سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

اس کے ساتھ ہی ایک ضرب المثل یاد آئی ۔ ”بدبُودار کیچڑ میں اُگی سبزی بھی بدبُودار ہوتی ہے“۔ اس کا عملی ثبوت چند ماہ قبل کراچی سے ملا جہاں گندھے نالے کے پانی سے سیراب شدہ سبزیوں کی تاثیر پر بہت واویلا کیا گیا تھا

موجودہ حکومت نے پچھلے 4 سال سے احتساب کے نئے قانون کی رٹ لگا رکھی ہے اور کہا جاتا رہا کہ مسلم لیگ (ن) نیا قانون نہیں بننے دیتی ۔ جب کاغذ کے پھولوں پر چھِڑکی گئی خُوشبُو ختم ہوئی تو احتساب قانون کی کونپل کو لگے گندے پانی کی بدبُو نمودار ہو گئی ہے

مجوّزہ احتساب قانون کی جھلکیاں

1۔ کسی ایسے پارلیمنٹرین یا سرکاری ملازم کیخلاف کرپشن کا کیس نہیں بنایا جائے گا جسے سرکاری آفس یا پارلیمنٹ چھوڑے 7 سال گزرچکے ہوں

2۔ نیک نیتی سے کی جانیوالی کسی بھی قسم کی کرپشن کو جُرم نہیں مانا جائیگا بلکہ اسے غلطی کہا جائیگا جس کی کوئی سزا نہیں ہوگی
(زبردست ۔ کل کو یہ قانون بننے کی راہ ہموار ہو گی کہ کسی نے نیک نیّتی سے زنا کیا تو اسے زنا نہیں سمجھا جائے گااور غلطی کہہ کر معاف کر دیا جائے گا)

3۔ جس دن احتساب بل کو قانون کی حیثیت ملے گی وہ اسی دن سے نافذ العمل ہوگا
(یعنی اس سے قبل کا سب معاف)

4 ۔ نئے احتساب بل کے تحت بننے والا کمیشن بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی غیر ملکی دولت اور کالے دھن کی تحقیقات نہیں کرسکے گا

5۔ تاحال رائج قانون کے مطابق کرپشن ثابت ہونے پر سزا 14 سال ہے ۔ مجوّزہ قانون میں 7 سال

قوم و مُلک کے دُشمن ؟؟؟

میں بجلی کے متعلق مصدقہ مختلف حقائق لکھ چکا ہوں جن میں سے چیدہ چیدہ مندرجہ ذیل ہیں
پڑھیئے اور سوچئے
بجلی کا بل زیادہ کیوں ؟
بجلی کی کمی کیوں
بجلی کہاں جاتی ہے ؟

مگر اِسے کیا کہیئے گا ؟
یہاں کلِک کر کے ایک خبر پڑھیئے اور بتایئے کہ کیا حُکمرانوں کو قوم و مُلک کے دُشمن کے سوا کچھ اور خطاب دے سکتے ہیں ؟

قدر يا قيمت ؟

آج کی دنيا ميں قدريں مفقود اور قيمت عام ہو چکی ہے
اُسے کامياب سمجھا جاتا ہے جو کم محنت سے زيادہ مالی فائدہ حاصل کرتا ہے

کامياب بننے کی بجائے قابلِ قدر بننے کيلئے محنت کيجئے
قابلِ قدر بظاہر زيادہ دے کر تھوڑا پاتا ہے
ليکن عزت و وقار پاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے
اصل کاميابی یہی ہے

دعوے اور حقیقت

سندھ حکومت بالخصوص کراچی والوں کا سدا یہ دعوٰی رہا ہے کہ سندھ آمدن زیادہ کر کے دیتا ہے اسلئے اسے اپنی پوری آمدن اخراجات کیلئے دی جائے ۔ سندھ حکومت اور کراچی والوں کا یہ بھی دعوٰی رہا ہے کہ پنجاب کو اس کی آمدن سے زیادہ حصہ دیا جاتا ہے یعنی جو سندھ کماتا ہے اس میں سے پنجاب کو دیا جاتا ہے

قدرت کا اصول ہے کہ نہ جھوٹ زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ سچ زیادہ دیر چھُپا رہتا ہے ۔ وفاقی حکومت نے پچھلے مالی سال (یکم جولائی 2011ء تا 30 جون 2012ء) کے اعداد و شمار شائع کئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے ۔ غور سے دیکھ لیجئے کہ مظلوم کون ہے اور مظلومیت کے نعرے کون لگاتا ہے ۔ خیال رہے کہ وفاقی حکومت اُنہی سیاسی جماعتوں پر مُشتمل ہے جو سندھ خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر حکمران ہیں

۔ ۔ ۔ ۔ تفصیل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلوچستان
کُل ریوینیو وصولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 93 ارب ۔ ۔ 3 کھرب 88 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 22 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
مقررہ قابلِ تقسیم ریوینیو ۔ ۔ ۔ ۔ 5 کھرب 8 ارب ۔ ۔ ۔2کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔ ۔
ریوینیو جو صوبے کے پاس رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 ارب ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 50 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 19 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 51 ارب
ٹیکس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 ارب
اخراجات کیلئے جو بچا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 27 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 10 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 25 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب
خسارہ جو صوبے نے ظاہر کیا۔ ۔ ۔ ۔ 8.9 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28 ارب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ارب ۔ ۔ ۔
‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سال کے کُل اخراجات ۔ ۔ ۔ 1 کھرب 35.9 ارب ۔ ۔ 2 کھرب 38 ارب ۔ ۔ ۔ 2 کھرب 28 ارب ۔ ۔ 1 کھرب 93 ارب

غور کیجئے ۔ ۔ ۔
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے ۔ پھر سندھ ۔ پھر خیبر پختونخوا ۔ پھر بلوچستان ۔ پنجاب کی آبادی مُلک کی آبادی کا 65 فیصد ہے اور باقی 3 صوبوں کی کُل آبادی 35 فیصد ہے

پنجاب نے 5 کھرب 93 ارب روپیہ کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 85 ارب روپیہ پنجاب کو دیا یعنی 12.33 فیصد
سندھ نے 3 کھرب 88 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 1 کھرب 50 ارب روپیہ سندھ کو دیا یعنی 36.66 فیصد
خیبر پختونخوا نے 2 کھرب 22 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے اس میں سے 2 کھرب 19 ارب روپیہ خیبر پختونخوا کو دیا یعنی 98.65 فیصد
بلوچستان نے 1 کھرب 51 ارب کما کر وفاقی حکومت کو دیا ۔ وفاقی حکومت نے سارا یعنی 1 کھرب 51 ارب روپیہ بلوچستان کو دیا یعنی 100.00 فیصد

اس کے باوجود
پنجاب کا خسارہ 9 ارب روپیہ
سندھ کا خسارہ 28 ارب روپیہ
خیبر پختونخوا کا خسارہ 3 ارب روپیہ
اخراجات سب سے کم پنجاب نے کئے ۔ اس سے زیادہ بلوچستان نے ۔ اس سے زیادہ خیبر پختونخوا نے اور سب سے زیادہ سندھ نے
یعنی سندھ حکومت کے اخراجات پنجاب حکومت کے اخراجات سے 75.13 فیصد زیادہ ہوئے

آسان اور مشکل ؟

دنیا میں سب سے آسان کام

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ دوسروں پر تنقید کرنا ہے

دنیا میں سب سے مشکل کام

٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ اپنی اصلاح کرنا ہے

اختیار ہر ایک کا اپنا اپنا ہے
غیر کو موردِ الزام ٹھہرانا ذاتی کمزوری ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔

” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

رمشا مسیح مقدمہ ۔ امام مسجد گرفتار

تازہ ترین اطلاع کے مطابق کم عمر مسیحی لڑکی رمشا جو مقدس اوراق جلانے کا الزام میں گرفتار کی گئی تھی کے معاملے میں ملوث امام مسجد خالد جدون جو کیس درج کرانے کے بعد پراسرار طور پر لا پتہ ہو گیا تھا کو اب گرفتار کر کے آج اُسے ریمانڈکیلئے جوڈیشل مجسٹریٹ نصرمن اللہ بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ عدالت نے گرفتار امام مسجد خالد جدون کو 14روز کے ریمانڈ پر اڈیالہ راولپنڈی جیل بھیج دیا گیا اور 16ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے

امام مسجد پر الزام ہے کہ اس نے رمشا کے خلاف کیس مضبوط کرنے کے لئے جلائے گئے اوراق کی راکھ میں خود سے قرآنی اوراق بھی شامل کئے تھے

دریں اثناء چیئرمین آل پاکستان علماء کونسل علامہ طاہر اشرفی نے ملک بھر کے علماء سے اس معاملے میں ملوث امام مسجد خالد جدون کو سزا دلانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ انہوں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری سے بھی مطالبہ کیا کہ رمشا مسیح کی فوری رہائی کے ساتھ اسکی حفاظت کے بھی احکامات جاری کئے جائیں