پردہ اُٹھتا ہے

ہماری بیوقوفی بلکہ حماقت یہ ہے کہ ہم طاقتور کی بات بغیر تحقیق کے مان لیتے ہیں مگر سب سے زیادہ طاقتور جس کے آگے پوری دنیا کے انسان مع اپنے تمام اسلحہ بارود کے ایک چیونٹی کی سی بھی حیثیت نہیں رکھتے اُس کی تابعداری کرنے کیلئے لاتعداد سوال ہماے دماغوں میں جنم لیتے ہیں

زیرِ نظر ہے اس وقت امریکی حکومت کی شائع کردہ خبر لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کی جو سب پڑھ چکے ہوں گے ۔ ان خبروں کے ساتھ لاتعداد مضامین بھی مسلمانوں کی درندگی ثابت کرنے کیلئے شائع ہو چکے ہیں

یوٹیوب پاکستان میں بند کر دیا گیا جس پر وہ وڈیو بھی نمودار ہوئی تھی جس میں بنغازی میں امریکی کونسلخانے میں موجود امریکی سفیر کی جان بچانے کی کوشش کرتے ہوئے لیبی جوانوں کو دکھایا گیا ہے

حملے کے بعد کچھ لیبی جوان جن میں ایک کیمرہ مین ۔ ایک وڈیو گرافر اور ایک آرٹ سٹوڈنٹ بھی شامل تھے امریکی کونسلخانے میں داخل ہوئے ۔ ایک اندھیرے کمرے سے اُنہیں کسی کے کراہنے کی آواز سنا دی ۔ کمرے کا دروازہ مقفل تھا ۔ ایک آدمی کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا وہاں ایک گورے کو بیہوش پڑا پایا ۔ اُسے بڑی مشکل سے کندھے پر اُٹھا کر ساتھیوں کی مدد سے کھڑکی کے راستے باہر نکالا ۔ وہ اُسے پہچان نہ سکے سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیرملکی تھا ۔ نبض دیکھی تو وہ زندہ تھا ۔ تو نعرہ بلند کیا اللہ اکبر اللہ اکبر یہ زندہ ہے

ان جوانوں نے بتایا کہ کونسلخانے میں نہ کوئی ایمبولنس تھی نہ اُنہیں طبی امداد کا کوئی اور ذریعہ یا انتظام نظر آیا۔ نہ وہاں امریکی سفارتخانے کا کوئی ملازم موجود تھا ۔ لاچار ہو کر اُسے اُٹھا کر باہر دور سڑک تک لے گئے اور ایک کار میں ڈال کر ہسپتال پہنچے ۔ ڈاکٹر نے اُسے بچانے کی بہت کوشش کی مگر وہ جانبر نہ ہو سکا کیونکہ بہت زیادہ دھوآں اُس کے پھیپھڑوں میں چکا تھا

یہ شخص لبیا میں امریکا کا سفیر کرِس سٹِیوَن تھا

(ا پ کی خبر کا خلاصہ)
جو قاری یوٹیوب نہ کھول پائیں وہ یہاں کلک کر کے کھلنے والے صفحہ پر وڈیو دیکھ سکتے ہیں

This entry was posted in خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

13 thoughts on “پردہ اُٹھتا ہے

  1. عبدالرؤف

    مگر اس سارے قصے میں حملے کی محرک توہین آمیز فلم کا تذکرہ کدھر ہے؟

  2. عبدالرؤف

    حملے کے اسباب کا ذکر کئیے بغیر آپ کی خبر ادھوری رہ جاتی ہے اسی لیئے یاد دلایا تھا کہ اسکا ذکر ہونا ضروری ہے، کیونکہ بچے کی پیدائش کی خوشخبری کا اعلان اُسکے والد کا نام بتائے بغیر ادھوری رہتی ہے۔

    جب آپ حملے کے اسباب کا ذکر کریں گے تو آپ کا کیا گیا تجزیہ بلکل بدل جائے گا، حملہ آور دھشت گرد کے بجائے حق پرست جبکہ، سفیر کو بچانے والے توہین رسالت کے مرتکبین کے ہمدرد قرار پایئں گے۔

    اب اس بات پر تو مباحثہ ہوسکتا ہے کہ حق پرستوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ غلط تھا، مگر حق پرستوں کو کئی بھی دھشت گرد نہیں‌ کہے گا، کہ اصل دہشت گردی تو توہین کے مرتکبین نے کی ہے، اور حق پرستوں نے تو صرف اپنی فھم و صلاحیت کے مطابق ردعمل کیا ہے۔ کیا خیال ہے، غلط کہہ رہا ہوں کیا؟

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    ناموسِ رسول ﷺ جسے جان سے زیادہ عزیز نہ ہو اس کا ایمان ناقص ہے ۔ بات سمجھنے کی یہ ہے ناموسِ رسول ﷺ کی خاطر جب ہم کسی گُستاخ کے خلاف احتجاج کریں تو خود بھی ناموسِ رسول ﷺ کا خیال رکھیں ۔ ہمارا دین جو جو ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کے ذریعے پہنجا اس عمل کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی غیرملکی سفیر پر حملہ کیا جائے جبکہ وہ بذاتِ خود گُستاخی میں ملوّث نہ ہو ۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ بنغازی (لبیا) میں امریکی کونسلخانے پر احتجاج کرنے والوں نے حملہ نہیں کیا تھا ۔ احتجاج کرنے والوں کے ہاتھ خالی تھے

  4. عبدالرؤف

    اجمل صاحب، خوب تو آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ لیبیا میں امریکی کونسل خانے پر حملہ مسلمانوں نے نہیں کیا تھا، اور درحقیقت یہ بھی 9/11 کی طرح‌ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے؟

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    میں دریا کے بیچ ہاتھ پاؤں مار رہا ہوں اور آپ کبھی دریا کے داہنے کنارے پر ہوتے ہیں اور کبھی میرے اُوپر سے پھلانگ کر دریا کے بائیں کنارے پر پہنچ جاتے ہیں ۔ حضور لبیا میں جو امریکا نے اور اسی کی ایماء پر اس کے ساتھیوں نے ظُلم و تشدد اور دہشتگردی کی کچھ اس کا بدلہ بھی تو ہونا چاہیئے ۔ اور یہ بدلہ تو بہت ہی کم ہے ۔ حملہ کرنے والوں نے کسی امریکی کو براہِ راست ہلاک نہیں کیا ۔

  6. عبدالرؤف

    محترم اجمل صاحب؛ لطیفہ یہ ہے کہ حقیقت میں‌مجھ کو تیرنا ہی نہیں آتا ہے، میں‌ تو دراصل مرض کی جڑ پکڑنا چاہ رہا ہوں، پہلے توہین آمیز کُتب لکھی گیئں، پھر لطیفے بنے، پھر کارٹون بنے، پھر قرآن جلا اور اب فلم بن گئی ہے، سوال یہ ہے کہ اصل وجہ کیا ہے؟ کیونکہ میں اسکو صرف “آزادئی اظہار” کا مسئلہ نہیں سمجھتا ہوں اور اسکا حل کیا ہے؟ کیونکہ پرامن احتجاج کرنے کو یا کچھ عرصے کے لیئے ویب سائٹ‌کو بلاک کردینے کو یا پھر چند لوگوں کی طرف سے مسلح کاروائی کرنے کو میں‌ مسئلے کا شافی حل نہیں‌ سمجھتا ہوں۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    احتجاج وہ مؤثر ہوتا ہے جس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہو اور قوم کے ہر طبقہ کے لوگ اس میں شامل ہوں اور وہ پُر امن ہو ۔ موجودہ معاملہ میں مسلمان سربراہانِ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ جس مُلک میں واقعہ ہوا ہے اُس کے سربراہ کو خط لکھیں ۔ اور مسلمان ملکوں کی وزارتِ خارجہ غیرمسلم ملکوں کی وزارتِ خارجہ سے رابطہ کر کے اپنے جذبات سے آگاہ کریں ۔ توڑ پھوڑ اور جلانے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے اور دوسرے ملک اسے شدت پسندی قرار دیتے ہیں

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    آپ دبئی میں بیٹھے ہیں ۔ یوٹیوب صرف پاکستان ۔ افغانستان اور بنگلہ دیش میں بلاک کیا گیا ہے باقی ممالک میں کھلتا ہے ۔ دیگر آجکل تو ایچ ٹی ٹی پی ایس ہی چلتا ہے ۔ ہاں یاد آیا دبئی میں ایک لیپ ٹاپ پر ورڈ پریس لاگ اِن بغیر کسی تکلف کے کھل جاتا تھا اور دوسرے لیپ ٹاپ پر نہیں کھلتا تھا اور لکھا آتا تھا
    Not certified safe website by https

  9. عبدالرؤف

    محترم اجمل صاحب، میرے بتائے ہوئے نسخے سے پاکستان میں بھی یو ٹیوب کی ویب سائٹ‌ کُھل جائے گی، آپ ٹرائی تو کریں، اور اطلاعا عرض ہے کہ ادھر دبئی میں متعلقہ ویڈیو کا ربط بلاک کردیا گیا ہے، مگر میرا نسخہ کام کرگیا ہے، اور اب ہر قسم کی بلاک شدہ ویڈیوز اِدھر کُھل رہی ہیں۔

  10. ارتقاءِ حيات

    ارتقاء حیات
    مسلمانوں کو اس امر کا احساس کرناچاہئے کہ آج ان کے پیغمبر کی توہین اس لئے ہورہی ہے کہ وہ دنیا میں کمزورو ناتواں ہیں اور بین الاقوامی سطح پران کاکوئی وزن اور ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہے۔ اگر آج وہ تنکے کی طرح ہلکے نہ ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ ان کے پیغمبرﷺ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنا احتساب کریں ، اپنی کمزوریاں دور کریں اور اسبابِ ضعف کا خاتمہ کریں ۔ اپنے دین سے محکم وابستگی اختیار کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں احکامِ شریعت پر عمل کریں کہ یہی ان کے لئے منبع قوت ہے اور گہرے ایمان اور برتراخلاق کے ساتھ ساتھ علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی میں بھی متحد ہو کر آگے بڑھیں اور طاقتور بنیں تاکہ دنیاان کی بھی قدر کرے اور ان رہنمائوں کی بھی جنہیں وہ مقدس سمجھتے اور محترم گردانتے ہیں ۔

    ہو اگر عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
    نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق
    (اقبال)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.