Monthly Archives: August 2012

نادر گائے کا بچھڑا

وسطی سربيا کے جيليکا پہاڑ کے علاقہ ميں کاکاک کے نزديک جزدِينا نامی گاؤں ميں بھُورے رنگ کی گائے نے ايک بچھڑا جنا جس کا رنگ سفيد اور جامنی ہے جس ميں جامنی غالب ہے ۔ اس گائے نے پہلے جو بچھڑے جنے اُن ميں کوئی خاص بات نہ تھی

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ http://iabhopal.wordpress.com/
Reality is often Bitter

” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

ہموطن جوانوں کے نام

میں نے دیکھا ہے کہ یومِ آزادی پر کچھ جوان مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ مایوسی گناہ ہے اور یہ آدمی کی اپنی کمزوریوں سے جنم لیتی ہے ۔ میں اس موقع پر صوفی غلام مصطفٰے تبسّم کے کلام کو دہرانا چاہتا ہوں جو اُنہوں نے ماضی میں ایسے ہی ایک موقع پر پیش کیا تھا گو وہ موقع اتنا گھمبیر نہ تھا جتنے آجکل کے حالات ہیں

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو
قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

تم وطن کے شیر ہو ۔ شیر ہو دلیر ہو
تم اگر جھپٹ پڑو تو آسماں بھی زیر ہو

تمہارے دم سے ہے وطن یہ مرغزار یہ چمن
دہک اُٹھے دمن دمن وہ گیت گاؤ ساتھیو

یہ زمیں ۔ یہ مکاں ۔ یہ حسین کھیتیاں
ان کی شان تم سے ہے تُمہی ہو ان کے پاسباں

بچاؤ ان کی آبرو ۔ گرج کے چھاؤ چار سُو
جو موت بھی ہو روبرو تو مسکراؤ ساتھیو

ظلم کو پچھاڑ کے ۔ موت کو لتاڑ کے
دم بدم بڑھے چلو صفوں کو توڑ تاڑ کے

گھڑی ہے امتحان کی ۔ دکھاؤ وہ دلاوری
دہک رہی ہو آگ بھی تو کود جاؤ ساتھیو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو
قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

پاکستان کیوں بنا ؟ کیسے بنا ؟

my-id-pak
آئیندہ کل یعنی 14 اگست کو پاکستان میں چھیاسٹھواں یومِ آزادی منایا جائے گا ۔ پاکستان میں آنے والے علاقے کی آزادی کا اعلان 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر کیا گیا تھا ۔ اُس رات ہند و پاکستان میں رمضان المبارک 1366ھ کی ستائیسویں تاریخ تھی اور اتفاق سے 14 اور 15 اگست 2012ء کو میں دبئی میں ہوں اور یہاں رمضان المبارک 1433ھ کی ستائسویں تاریخ ہو گی

آج کے دور میں کچھ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی

اب مستند تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟

برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زير استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات

ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے

ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے عوام کے دباؤ کے تحت بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير ميں فوج کشی بھی کی گئی

انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا

حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا

صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔

کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟ (Mr. Jinnah! Is it not a step forward for a greater Pakistan?)”۔
قائد اعظم نے کہا ” بالکل ۔ آپ درست سمجھے (Exactly, you have taken the point)”
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا

مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنيف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا موقف مضبوط تھا

کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔

کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں

یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہی کہی جا سکتی ہے کہ عوام ہی کے ووٹ سے پاکستان کی حکومت آج اُن لوگوں یا جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی خواہ وہ سرحدی گاندھی کہلانے والے عبدالغفار خان کی اولاد کی جماعت ہو یا قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے شاہنواز بھٹو کی اولاد کی یا کانگرسی مولوی مفتی محمود کی اولاد کی یا بھارت جا کر برملا کہنے والے الطاف حسین کی کہ “پاکستان بنانا فاش غلطی تھی”۔

بچوں کی 5 دل پسند عادات

رسول اللہ سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم نے فرمايا “مجھے بچوں کی پانچ عادات بہت پسند ہيں”

1 ۔ وہ رو کر مانگتے ہيں اور اپنی بات منوا ليتے ہيں

2 ۔ وہ مٹی سے کھيلتے ہيں يعنی تکبّر اور غرور کو خاک ميں ملاتے ہيں

3 ۔ جھگڑتے ہيں لڑتے ہيں پھر صُلح کر ليتے ہيں يعنی دِل ميں کينہ بُغض نہيں رکھتے

4 ۔ جو مِل جائے وہ کھاتے ہيں اور کھلاتے ہيں ۔ زيادہ جمع کرنے اور ذخيرہ کرنے کی حرص نہيں رکھتے

5 ۔ مٹی کے گھر بناتے ہيں کھيل کر گرا ديتے ہيں يعنی بتاتے ہيں کہ يہ دُنيا مقامِ بقا نہيں ہے

انسان بھی کیا چیز ہے

دولت کمانے کیلئے اپنی صحت کھو دیتا ہے
پھر صحت بحال کرنے کیلئے دولت لگاتا ہے

مستقبل کی فکر میں مبتلا رہتا ہے
حال میں مستقبل کیلئے کچھ کرنے کی بجائے
ماضی کی یاد میں حال کو ضائع کرتا ہے

جِیتا ایسے ہے جیسے کبھی مرنا نہیں
مر ایسے جاتا ہے کہ کبھی جِیا ہی نہ تھا

کیوں نہ ایسے رہا جائے کہ
نہ فشارِ خون پیدا ہو ۔ نہ احتلاجِ قلب
نہ کوئی اُنگلی اُٹھائے ۔ نہ بد دعا دے
اور جب مر جائے تو لوگ یاد کریں تو دعا دیں

اللہ اللہ کیا کر
خود بھی جی اور دوسروں کو بھی جینے میں مدد دیا کر

بد دعا پر آمین ؟

حدیث ہے کہ رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ایک دن مسجد میں منبر پر پہلا قدم رکھتے ہوئے فرمایا ” آمین ”
پھر دوسرا قدم رکھتے ہوئے فرمایا ” آمین ”
تیسرا قدم رکھتے ہوئے پھر فرمایا ” آمین ”

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم منبر پر تشریف رکھ چکے تو موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا
” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ۔ ہم نے ایسا پہلے کبھی نہیں سُنا ”

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا “جب میں نے پہلی سیڑھی پر پاؤں رکھا تو جبریل علیہ السلام وارد ہوئے اور کہا
‘ غارت ہو جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اسے بغیر مغفرت پائے جانے دیا ‘۔ میں نے اس پر آمین کہا ۔
جب میں نے دوسری سیڑھی پر پاؤں رکھا تو جبریل علیہ السلام نے کہا
‘ غارت ہو جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہ بھیجا ‘۔ میں نے آمین کہا
جب میں نے تیسری سیڑھی پر پاؤں رکھا تو جبریل علیہ السلام نے اور کہا
‘ غارت ہو جس کے سامنے اس کے ماں باپ یا ان میں سے ایک بوڑھاپے کو پہنچا اور وہ (ان کی خدمت کر کے) جنت نہ کما سکا ‘۔ میں نے آمین کہا “۔

پچھتانے سے بچیئے

محاورے ہیں

گرے دودھ پر رونا کیا ؟
اب پچھتائے کیا ہوئے جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت

تین چیزیں کبھی ہاتھ نہیں آتیں

وہ لمحہ جو گذر گیا
وہ لفظ جو کہہ دیا
وہ وقت جو ضائع ہو گیا

کیوں نہ پہلے ہی احتمام کریں تاکہ پچھتانا نہ پڑے

سبق
جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اُٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے