ہموطن جوانوں کے نام

میں نے دیکھا ہے کہ یومِ آزادی پر کچھ جوان مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ مایوسی گناہ ہے اور یہ آدمی کی اپنی کمزوریوں سے جنم لیتی ہے ۔ میں اس موقع پر صوفی غلام مصطفٰے تبسّم کے کلام کو دہرانا چاہتا ہوں جو اُنہوں نے ماضی میں ایسے ہی ایک موقع پر پیش کیا تھا گو وہ موقع اتنا گھمبیر نہ تھا جتنے آجکل کے حالات ہیں

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو
قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

تم وطن کے شیر ہو ۔ شیر ہو دلیر ہو
تم اگر جھپٹ پڑو تو آسماں بھی زیر ہو

تمہارے دم سے ہے وطن یہ مرغزار یہ چمن
دہک اُٹھے دمن دمن وہ گیت گاؤ ساتھیو

یہ زمیں ۔ یہ مکاں ۔ یہ حسین کھیتیاں
ان کی شان تم سے ہے تُمہی ہو ان کے پاسباں

بچاؤ ان کی آبرو ۔ گرج کے چھاؤ چار سُو
جو موت بھی ہو روبرو تو مسکراؤ ساتھیو

ظلم کو پچھاڑ کے ۔ موت کو لتاڑ کے
دم بدم بڑھے چلو صفوں کو توڑ تاڑ کے

گھڑی ہے امتحان کی ۔ دکھاؤ وہ دلاوری
دہک رہی ہو آگ بھی تو کود جاؤ ساتھیو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو
قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

This entry was posted in پيغام on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

12 thoughts on “ہموطن جوانوں کے نام

  1. عبدالرؤف

    سبحان اللہ ، لوگ کیسے کیسے ہم کو بے وقوف بناتے ہیں !

    جو موت بھی ہو روبرو تو مسکراؤ ساتھیو
    دہک رہی ہو آگ بھی تو کود جاؤ ساتھیو

    یعنی تم خود تو مر جاؤ ، شہید ہوجاؤ ، راشد مہناس و عزیز بھٹی کی طرح اور ملک کو ہمارے بدکردار و بد اخلاق حکمرانوں کے کیلئے محفوظ کرجاؤ، کیا کہنے ہیں صوفی صاحب کے، ویسے بھی یہ کام صوفی اور شعراء تو کرتے نہیں ہیں‌ اور جن کا یہ کام ہے اور جو ایسا کرتے ہیں انکا انجام پاکستان میں کچھ ایسا ہوتا ہے :

    01. ISPR : http://www.ispr.gov.pk/front/main.asp?o=t-press_release&date=2012/8/3

    02. BBC: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2012/08/120803_brig_ali_sentenced_zs.shtml

    03. HT : http://www.htmediapk.page.tl/PR-04-08-2012.htm

    نوٹ: یہ قطعئ ناامیدی یا مایوسی کا اظہار نہیں ہے بلکہ دکھ اور افسوس کا اظہار ہے۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    صوفی تبسم صاحب اُن میں نہیں تھے جو خودکُشی کی ترغیب دیں ۔ مطلب یہی ہے جو بدکردار لوگ موت کا سبب بن رہے ہیں ان سے پریشان نہ ہوں اور اس بُرائی کی آگ سے ڈر کر چھپنے یا بھاگنے کی بجائے کود کر اسے بجھا دو
    رہا بریگڈیئر علی کا معاملہ تو جب تک ملک کے آئین میں اسلام مخالف تمام دفعات تبدیل نہیں کر دی جاتیں ایسا ہوتا رہے گا اور اسلئے پہلا قدم انتخابات میں ذاتیات سے بلاتر ہو کر ووٹ دینا ضروری ہے اور یہ کہ سب ووٹر ووٹ دینے کی تکلیف گوارہ کریں

  3. عبدالرؤف

    سر ، آپ بھی اسی شعر کے مصداق کہ:
    میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
    فرماتے ہیں کہ “پہلا قدم انتخابات میں ذاتیات سے بلاتر ہو کر ووٹ دینا ضروری ہے اور یہ کہ سب ووٹر ووٹ دینے کی تکلیف گوارہ کریں” اگر شفاف انتخابات کا یقین ہو بھی تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے اکہتر کی تاریخ دوبارہ نہیں‌ دہرائی جائے گی؟
    خیر بحث غیر متعلق ہوتی جارہی ہے، لہذا بہتر ہے کہ ادھر ہی ختم کردی جائے۔
    آپ آج کل دبئی ہی میں قیام پذیر ہیں ، اگر ممکن ہو اور دل کرے تو ملاقات کرلیتے ہیں، میں بھی ادھر ہی ہوا کرتا ہوں

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    سن 1971ء کے واقعات کا بنیادی کردار سویلین ہی تھا جس نے کہا تھا “جو مشرقی پاکستان جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے”۔ اور یہ بھی کہا تھا ” اُدھر تم اِدھر ہم”۔
    ملاقات کیلئے تردد آپ کو ہی کرنا ہو گا مگر وقت اب بہت تھوڑا رہ گیا ہے ۔ عید کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا

  5. فرحت کیانی

    السلام علیکم
    آپ کو یومِ آزادی مبارک ہو افتخار انکل۔ میرا بھی یہی خیال ہے کہ مایوسی کی باتیں کرنا، جو ہوا اس پر افسوس کرنا اور ماضی کو دہراتے رہنے سے کچھ حاصل نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ نوجوان نسل کو ورثے میں پریشانیاں ہی ملی ہیں لیکن ہاتھ ہر ہاتھ دھر کر نوحہ ماضی پڑھتے رہنے سے کیا ہو گا۔ عمل ضروری ہے چاہے اس کا دائرہ کتنا ہی محدود کیوں نہ ہو۔ مجھے خود میں مثبت تبدیلی لانی ہو گی اور اپنے حصے کی شمع جلانی ہے۔ بہتری خودبخود آئے گی ان شاءاللہ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.