Monthly Archives: July 2012

اے بندے

اے بندے

کیا تم اس زندگی میں اپنی مرضی سے آئے تھے ؟

کیا تم اپنی مرضی سے اس دنیا کو چھوڑ کے جاؤ گے ؟

تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ” نہیں ”

پھر کیوں تم اپنی اس زندگی کو اُس اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالتے
جس کی مرضی سے تم آئے اور جس کی مرضی سے تم جاؤ گے ؟

رمضان المبارک ۔ کچھ غور طلب باتیں

1 ۔ رمضان کا روزہ فاقہ کشی نہیں ہے کہ کھایا پیا کچھ نہیں اور وہ سب کچھ کرتے رہے جس سے اللہ نے منع فرمایا ہے

2 ۔ روزہ اسلئے نہیں رکھنا چاہیئے کہ اردگرد سب کا روزہ ہے یا نہ رکھوں گا تو لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ سلِمِنگ ہو جائے گی

3 ۔ روزہ صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے رکھنا چاہیئے

4 ۔ رمضان کوئی تہوار نہیں بلکہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اپنی تطہیر کا موقع دیا ہے

5 ۔ یہ حدیث یاد رکھنا چاہیئے ۔ جبریل علیہ السلام نے کہا ” تباہی ہو اُس پر جس نے ماہِ رمضان پایا اور اُس کی بخشش نہ ہوئی” ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہا ” آمین”۔

6 ۔ سونے کیلئے گیارہ ماہ کافی ہیں ۔ رمضان میں فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ نماز تراویح اور تہجد بھی پڑھنا چاہیئے اور جتنا ہو سکے تلاوتِ قرآن شریف بھی کرنا چاہیئے ۔ یہ برکات کا مہینہ ہے اس کا ایک پل ضائع نہیں ہونا چاہیئے ۔ ساری نمازیں نہ پڑھی جائیں تو صرف ستائیسویں پوری رات نماز پڑھتے رہنا کوئی فائدہ نہیں دے گا

7 ۔ سحری کھانا چاہیئے ۔ اگر کسی وجہ سے دیر ہو جائے تو امساک سے قبل پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا جائے ۔ اور اگر آنکھ نہ کھلے اور امساک کا وقت ہو جائے تو بغیر کھائے پیئے روزہ پورا کرنا چاہیئے ۔ اگر روزہ نہ رکھا تو کفارہ لازم ہو گا

8 ۔ مغرب کا وقت ہوتے ہی روزہ افطار کر لینا چاہیئے ۔ تاخیر سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے ۔ اگر گھر سے باہر ہوں اور ڈر ہو کہ روزہ ایسی جگہ افطار ہو جائے گا جہاں افطار نہ کیا جا سکے تو اپنے پاس افطار کیلئے کچھ رکھ لینا چاہیئے

9 ۔ افطار کے وقت اتنی دیر تک نہیں کھاتے رہنا چاہیئے کہ مغرب کی نماز ہی قضا ہو جائے ۔ افطاری پارٹیوں میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے

10 ۔ کسی کا روزہ افطار کرانا خواہ وہ رشتہ دار یا دوست ہو ثواب کا کام ہے لیکن شان و شوکت کیلئے افطاری پارٹی کرنا گناہ بن سکتا ہے کیونکہ اللہ نے نمائش اور اسراف دونوں سے منع فرمایا ہے

آج کی دنيا ۔ ایک غور طلب کہانی

ایک صاحب بہادر اپنے بیوی بچے لے کر سیر کو نکلے کہ دنیا کی رنگینیاں دیکھیں ۔ راستے میں ایک شخص کھڑا ملا
صاحب بہادر نے پوچھا “تم کون ہو؟”
اس نے کہا “میں مال ہوں”
” صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے ہم اسے ساتھ بٹھا لیں ؟
سب نے کہا “ضرور کیونکہ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور اس کی موجودگی میں ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں”
صاحب بہادر نے مال کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور آگے بڑھے ۔ جب تھوڑا آگے گئے تو ایک اور شخص کھڑا نظر آیا
صاحب بہادر نے پوچھا ” تم کون ہو ؟”
اس نے جواب دیا “میں منصب ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے اسے ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “کیوں نہیں ۔ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور دنیا کی لذتوں کا حصول اس کی موجودگی میں بہت آسان ہو جائے گا”
صاحب بہادر نے اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مزید آگے بڑھے ۔ اس طرح اس سفر میں طرح طرح کی لذتوں سے ملاقات ہوئی اور صاحب بہادر سب کو ساتھ بٹھاتے آگے بڑھتے رہے ۔ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اور شخص سے ملاقات ہوئی
صاحب بہادر نے پوچھا “تو کون ہے ؟”
اس نے جواب دیا” میں دین ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “ابھی نہیں یہ وقت دین کو ساتھ لے جانے کا نہیں ہے ابھی ہم سیر کرنے اور انجوائے کرنے جارہے ہیں اور دین ہم پر بلاوجہ ہزار پابندیاں لگادے گا حلال حرام کو دیکھو نمازوں کی پابندی کرو وغیرہ وغیرہ اور ہماری لذتوں میں رکاوٹ بنے گا ہم انجوائے نہیں کر سکیں گے ۔ ایسا کرتے ہیں کہ سیر سے واپسی پر ہم اسے ساتھ بٹھا لیں گے”
اور اس طرح وہ دین کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں چلتے چلتے آگے چیک پوسٹ آ تی ہے ۔ وہاں کھڑا شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “گاڑی سے اترو”
صاحب بہادر گاڑی سے اترتے ہیں تو وہ شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “تمھارے سفر کا وقت ختم ہو چکا۔ مجھے تمھارے پاس دین کی تفتیش کرنا ہے”
صاحب بہادر نے کہا “دین کو میں کچھ ہی دوری پر چھوڑ آیا ہوں میں ابھی جاکر اسے ساتھ لے آتا ہوں”
” اُس شخص نے کہا ہے “اب واپسی ناممکن ہے تمہارا وقت ختم ہو چکا اب تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا
صاحب بہادر نے کہا “مگر میرے ساتھ مال منصب اور بیوی بچے ہیں”
اُس شخص نے کہا “اب تمہیں تمھارا مال منصب اور اولاد کوئی بھی نہیں بچا سکتے ۔ صرف دین تمھارے کام آسکتا تھا جسے تم پیچھے چھوڑ آئے”
” صاحب بہادر نے پوچھا “تم ہو کون ؟
اُس نے کہا “میں تمہاری موت ہوں جس سے تم مکمل غافل تھے اور عمل کو بھولے رہے”
صاحب بہادر نے ڈرتی نظروں اور ڈوبتے دل کے ساتھ گاڑی کی طرف دیکھا اس کے بیوی بچے اس کو اکیلا چھوڑ کر مال اور منصب کو لئے اپنے سفر کو مکمل کرنے کے لئے آگے بڑھ گئے اور کوئی ایک بھی صاحب بہادر کی مدد کے لئے اس کے ساتھ نہ اترا

رمضان کريم مبارک

سب مُسلم بزرگوں بہنوں بھائیوں بھتیجیوں بھتیجوں بھانجیوں بھانجوں پوتيوں پوتوں نواسيوں نواسوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان کريم مبارک

اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185

اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے

بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے

خاوند اور بیوی

ہر عورت (بیوی) کو معلوم ہونا چاہیئے کہ

جو مرد (خاوند) اُس سے سچا پیار کرتا ہے
حالات خواہ اُس کیلئے کتنے ہی مُشکل ہوں
وہ اُسے کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا

ہر مرد (خاوند) کو معلوم ہونا چاہیئے کہ

جو عورت (بیوی) اُس سے سچا پیار کرتی ہے
وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُس سے خفا ہوتی رہے گی
لیکن رہے گی اُس کے ساتھ ہی

پيار کا کاروبار

سُنا ہے کہ پيار اچانک ہو جاتاہے
مسئلہ يہ ہے کہ پتہ کيسے چلے کہ پيار ہو گيا ہے ؟

1 ۔ فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے
جب سانسيں تيز ہونے لگيں
يا
دِل زيادہ دھڑکنے لگے
يا
رات کی نيند اور دن کا چين جاتا رہے

تو سمجھو پيار ہو گيا

مشورہ
مندرجہ بالا ميں سے کوئی بھی عارضہ ہو تو بہتر ہو گا کہ امراضِ قلب کے ڈاکٹر سے رجوع کيا جائے ۔ کہيں ايسا نہ ہو کہ دير ہو جائے ۔ محبت دھری رہ جائے اور بندہ پار ہو جائے

2 ۔ ایک گانا ہے

جب پيار کسی سے ہوتا ہے
اِک درد سا دل ميں ہوتا ہے

کچھ پيار کرنے والوں اور واليوں کو انٹر ويو کيا تو اُنہوں نے دل کے درد سے انکار کيا البتہ اتنا بتايا کہ زيادہ سموسے يا گول گپّے کھا جانے سے پيٹ ميں درد ہوا تھا

3 ۔ پيار کی گلی سے گذر کر آرام کرنے والوں اور واليوں سے تبادلہ خيال کيا تو بتايا گيا

جب لڑکا جان چھُڑائے
لڑکی پيچھے بھاگی آئے
تو سمجھو پيار ہو گيا
:lol:

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سِینے پر مُونگ

میں اُن دنوں پروڈکشن منیجر ویپنز فیکٹری تھا [1969ء] ہفتہ کا دن تھا مہینہ مجھے یاد نہیں البتہ موسم خوشگوار تھا ۔ اُس زمانہ میں ہمیں سوا چار بجے سہ پہر چھٹی ہوتی تھی ۔ چھٹی ہونے والی تھی کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی اور ساتھ ہی چھٹی کا ہُوٹر بھی ہو گیا ۔ ٹیلیفون اُٹھایا تو میرے باس کے باس “م” تھے جو چند ماہ پیشتر میرے باس تھے ۔ فرمایا “کل مینا بازار ہو رہا ہے ذرا جا کر جھنڈیاں لگوا دو”۔ پوچھا “جھنڈیاں کہاں ہیں ؟” جواب ملا “ص صاحب کے پاس”۔ میں نے “ص” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے پوچھا تو جواب ملا “ميرے پاس جھنڈیاں تو نہیں ہیں ۔ مجھے گُڈی کاغذ منگوانے کا کہا تھا ۔ آپ لے لیں اور جھنڈیاں بنوا لیں”۔

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ڈوری اور بنانے والے چاہئیں تھے ۔ سوچا گُڈی کاغذ لے کر کلب چلتا ہوں وہاں لوگ ہوں گے ۔ اپنا بائیسائیکل پکڑا اور چلاتا ہوا کلب پہنچا ۔ وہاں آدمی کُجا کوئی جانور بھی نہ تھا اور نہ کوئی آثار کہ یہاں مینا بازار لگنے والا ہے ۔ بڑے باس “م” صاحب کے گھر ٹیلیفون کیا تو جواب ملا “سِینئر منیجر ہو بندوبست کر لو”۔ بندوبست کیا کروں اور کہاں سے کروں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ اِدھر اُدھر مارا مارا پھر رہا تھا کہ اسٹیشن انجيئر صاحب ایک پِک اُپ پر آئے اور کہنے لگے “میں قناتیں اور شامیانے لے آیا ہوں” ۔ لگانے کیسے ہیں یہ اُنہیں بھی معلوم نہ تھا ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ “مینا بازار کا منتظم کون ہے ؟” وہ کہنے لگے “خواتین کا معاملہ ہے اُن کی صدر مسز “ش” ہیں اُن سے معلومات لے لو ۔ میں نے “ش” صاحب کے گھر ٹیلیفون کر کے مسز “ش” کا پوچھا تو بتایا گیا کہ غسل کر رہی ہیں ۔ چنانچہ ہم نے اپنی مرضی سے قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے

قناتیں شامیانے لگنے کے بعد اسٹیشن انجنیئر چل پڑے ۔ میں نے کہا “اپنے آدمیوں کو روکئے باقی کام کون کرے گا ؟”اُنہوں نے کہا یہ تو شامیانے والے ہیں ۔ اِنہوں نے اپنا کام کر دیا ہے ۔ پھر مسز “ش” کیلئے ٹیلیون کیا تو بتایا گیا کہ غسل کر چکی ہیں تیار ہو کر خود کلب آئیں گی ۔ اسی اثناء میں مجھے کلب کا ایک کلرک نظر آیا ۔ بھاگ کر اس کو پکڑا اور پوچھا کہ “کلب کے ملازم کیوں نہیں آئے”۔ اُس نے بتایا “مینا بازار کی وجہ سے آج اور کل کلب کی چھٹی ہے”

جھنڈیاں بنوانے کیلئے ایک ساتھی سے رابطہ کیا ۔ اُنہوں نے جھنڈیاں تیار کروانے کا وعدہ کیا بشرطیکہ میں گُڈی کاغذ جہاں وہ بتائیں وہاں پہنچا دوں اور دوسرے دن صبح دس بجے وہاں سے جھنڈیاں اُٹھوا لوں ۔ ابھی سٹال لگانے باقی تھے جن کیلئے میزیں اور کرسیاں چاہئیں تھیں ۔ قریب ہی ایک سکول تھا اُس کے پرنسپل صاحب سے رابطہ کر کے منت سماجت کی تو وہ میزیں دینے پر راضی ہوئے اس شرط پر کہ ان کی پالش خراب نہیں ہو گی اور کل صبح سکول سے اُٹھوائی جائیں اور پرسوں صبح سویرے واپس پہنچائی جائیں ۔ شام ساڑھے سات بجے کے قریب مسز “ش” تشریف لائیں اور کہا کہ “میں تو معائینہ کرنے آئی ہوں اور یہاں ابھی صرف قناتیں اور شامیانے ہی لگے ہیں”۔ عرض کیا ” آپ پلان دیجئے تو اُس کے مطابق بندوبست کردیں گے”۔ کہنے لگیں “وہ تو مسز “ع” کے پاس ہے ۔ مسٹر “ع” کے گھر فون کیا مگر کسی نے نہ اُٹھایا ۔ پھر مسز “ش” نے کہا ” اتنے سٹال لگنے ہیں جس طرح بھی ہو لگا دیں”۔ اور وہ چلی گئیں ۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے اور کوئی مدد کہیں سے نہ مل رہی تھی چنانچہ میں گھر چلا گیا

رات کے دوران اپنے دوستوں ساتھیوں سے مدد کے وعدے لئے ۔ دوسرے دن صبح سویرے کلب پہنچ گیا ۔ تھوڑی دیر میں آٹھ آدمی مدد کیلئے آ گئے ۔ ایک کو جھنڈیاں لینے بھیجا اور سات کو ساتھ لیجا کر سکول سے میزیں لانا شروع کیں ۔ خود بھی ساتھ مزدور بن کر ۔ سب بندوبست کر کے ابھی فارغ ہی ہوا تھا کہ ایک گروہ افسران کا آتا دکھائی دیا ۔ ان میں چیئرمین اور دیگر افسران تھے میرے باس کے باس “م” صاحب بھی تھے اور اُن کے باس “ح” صاحب بھی ۔ “م” صاحب نے چار افسروں کو ایک قطار میں کھڑا کیا جن میں اسٹیشن انجنیئر ۔ گُڈی کاغذ والے “ص” صاحب کے علاوہ دو اسسٹنٹ منیجر تھے جنہیں دو دن کے دوران ہم نے کلب میں نہ دیکھا تھا اور نہ ہی انتظامات کرنے میں اُن کا کوئی کردار تھا ۔ میں صرف چند فُٹ کے فاصلہ پر کھڑا دیکھتا رہا ۔ چیئرمین صاحب سے “ح” صاحب نے ان چار حضرات کا تعارف کرایا کہ اُنہوں نے مینا بازار کا سارا بندوبست کیا ہے ۔ اسٹیشن انجنیئر نے تو قناتیں اور شامیانے لگوا دیئے تھے ۔ باقی نے تو کچھ نہ کیا تھا

ایک سال بعد میرے اسی باس نے مجھے پھر مینا بازار کا انتظام کرنے کو کہا تو میں نے کہا “پچھلے سال کے تجربہ کے تحت میں اب ایسی جراءت نہیں کر سکتا” ۔
مسکرا کر بولے “تم انعام کیلئے کام کرتے ہو”۔
میں نے کہا “میں کام انعام کیلئے نہیں کرتا مگر مجھے پسند نہیں کہ کوئی میرے سِینے پر مُونگ دَلے “۔