Monthly Archives: June 2012

سائنس کی ترقی اور سچ کی تلاش

نشر و اشاعت کے دھماکہ خیز پھیلاؤ کا ایک طرف یہ فائدہ ہے کہ کئی معلومات گھر بیٹھے حاصل ہو جاتی ہیں تو دوسری طرف سچ کا جاننا انتہائی مشکل ہو کر رہ گیا ہے ۔ غریب یا کمزور کے خلاف جھوٹے الزام کو سچ بنا دیا جاتا ہے اور طاقتور کے جھوٹ کے خلاف سچ کو سازشی نظریہ (conspiracy theory) قرار دیا جاتا ہے اس کی ایک ادنٰی

غالباً 23 اگست 2006ء کو ٹی وی پر خبر نشر ہوئی تھی کہ اس دور کے فرانس کے صدر جیکس شیراگ (Jacques Chirac) نے انکوائری کا حکم دیا تھا کہ خبر کیسے لِیک ہوئی کہ اسامہ بن لادن مر گیا تھا ۔ اس خبر کی وِڈیو یوٹیوب پر بھی پہنچ گئی تھی لیکن بعد میں اسے ذاتی قرار دے کر ہٹا دیا گیا تھا ۔ اس خبر کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں کی طرف سے پئے در پئے اس کی تردید کی گئی گو سعودی عرب کے خفیہ ادارے کو 3 ستمبر 2006ء کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اسامہ بن لادن طبیعی موت مر چکا ہے

ایبٹ آباد کے ایک گھر پر 2 مئی 2011ء کو امریکی فوجیوں کا خُفیہ حملہ جس کے بعد اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعوٰی بڑے کرّ و فر سے کیا گیا ۔ مگر لاش کو بغیر ذرائع ابلاغ پر لائے سمندر میں پھنکنے کی بات اس دعوے کو مشکوک بنا گئی ۔ خیال رہے امریکا ہی نے صدام حسین کی پھانسی کی کاروائی کی وڈیو دنیا کو دکھائی تھی جس میں صدام حسین کی ٹوٹی ہوئی گردن میں سے نکلتا خون بھی دکھایا گیا تھا

جھٹلائی گئی خبر کا سفر سچائی کی طرف شروع ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے اس بیان کے بعد جو سی آئی اے کے ایک سابق ایجنٹ یرقان یاشر نے 19 مئی 2012ء کو دیا ۔ یرقان یاشر کے مطابق ایبٹ آباد آپریشن جعلی تھا ۔ اسامہ بن لادن کا انتقال 26 جون 2006ء کو ہوا تھا اور انہیں وصیت کے مطابق پاک افغان سرحد پر دفن کیاگیا۔ مزید یہ کہ یرقان یاشر ذاتی طور پر اسامہ بن لادن کے ان 3 چیچن محافظوں کو جانتے تھے جو آخری وقت تک ان کے ساتھ رہے اور 26 جون 2006ء کو ان کی فطری موت کے عینی شاہدین تھے ۔ ان کے نام سمیع ۔ محمود اور ایوب تھے ۔ امریکیوں نے 2 مئی 2011ء کی کاروئی کرنے سے پہلے سمیع کو اغوا کر لیا تھا ۔ تو کیا سمیع کے ذریعہ اسامہ کی نعش قبر سے نکال کر سمندر مں پھنکی گئی کہ کہیں دوبارہ زندہ نہ ہو جائے ؟

گھر بیٹھے پیرس کی سیر

محاورہ ہے “نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا آوے”
ہاں جناب ۔ نہ ہوائی سفر کے ٹکٹ پر رقم خرچ کرنے کی ضرورت اور نہ ویزہ حاصل کرنے کا جھنجھٹ

بٹن دبایئے اور گھر بیٹھے پیرس کی سیر کیجئے اور ایفل منار (Eiffel Tower) بھی دیکھئے

پیرس کی سیر پر کلِک کیجئے اور پیرس مع ایفل منار آپ کے سامنے آ موجود ہو گا
وسط میں جو کھڑکی (Menu) تصویر کو چھُپا دیتی ہے تلاش کے گُر (Browsing Tips) جان لینے کے بعد اسے بند کر دیجئے اور پیرس کا نظارہ لیجئے
داہنے ۔ بائیں ۔ اُوپر اور نیچے جانے کیلئے تیر کے نشانوں کو استعمال کیجئے
فضائی نظارہ کرنے کیلئے یا قریب سے دیکھنے کیلئے + اور – کے نشانات استعمال کیجئے
آئی (i) کے نشان پر کلک کر کے متعلقہ جگہ کی تاریخ سے آگاہ ہویئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پانی

میں نے 8 مئی 2012ء کو لاہور کے دورے کا ذکر کیا تھا اور ایک عمل “سلام” کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ میں نے جان بوجھ کر یہ بات مخفی رکھی کہ درست سلام کس طرح لکھا جاتا ہے ۔ میری متذکرہ تحریر پر صرف ایک قاری “سعید” صاحب نے اپنے تبصرے میں توجہ دلائی ۔ سلام لکھنے کا درست طریقہ یہ ہے ۔ ۔ ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ۔ ۔ ۔ جسے سادہ طریقہ سے یو ں لکھا جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ السلام علیکم ۔ سوائے ل کے باقی سب حروف پر اعراب ہیں اور س پر تشدید ( ّ ) ہے اسلئے ل نہیں بولا جاتا یعنی بولا اُس طرح جائے گا جیسامتذکرہ خط میں لکھا گیا ہے

سب جانتے ہیں کہ پانی انسانی زندگی کی اشد ترین ضرورت ہے ۔ اللہ کی بہت بڑی مہربانی ہے اُن لوگوں پر جنہیں پانی گھر بیٹھے دستیاب ہے ۔ ایسے لوگ بھی اسی دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہیں پانی حاصل کرنے کیلئے روزانہ میلوں پیدل سفر کرنا پڑتا ہے ۔ میں نے ایک صحرا میں دیکھا کہ لوگوں نے زمین پر دو طرف سے ڈھلوان بنا رکھی ہے اور اس کے بیچ میں ایک نالی جو ایک طرف کو گہری ہوتی جاتی ہے اور کچھ فاصلے پر ایک گڑا کھودا ہوا ہے جس کے گرد تنّور یا تندور کی شکل میں دیوار بنا رکھی ہے ۔ جب بارش ہوتی ہے تو اس گڑے میں پانی جمع ہو جاتا ہے جسے وہ پینے کیلئے استعمال کرتے ہیں

فی زمانہ پانی کی کمی ساری دنیا میں محسوس کی جا رہی ہے اور اس کیلئے سوائے وطنِ عزیز کے شاید سب ممالک مناسب انتظامات بھی کر رہے ہیں ۔ پانی کی کمی اور مستقبل میں مزید کمی کی تنبہہ تو سُننے کو ملتی ہے لیکن میرے ہموطنوں کی اکثریت لاپرواہی اپنائے ہوئے ہے

دوسرا خط جس کا میں نے ذکر کیا تھا وہ لاہور کے ایک ایسے علاقہ میں پانی کے بِلوں کے ساتھ تقسیم کیا گیا تھا جہاں پڑھے لکھے اور سمجھدار گردانے جانے والے لوگ رہائش رکھتے ہیں ۔ میں نے اس کی تصویر بنا لی تھی ۔ تمام قارئین سے (خواہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہتے ہوں)التماس ہے کہ اس خط میں کی گئی درخواست پر غور کریں ۔ اس پر خود عمل کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی ایسا کرنے کا مشورہ دیں ۔ اس سے نہ صرف سب کا بھلا ہو گا بلکہ اُمید ہے کہ اس کا ثواب بھی ملے گا

سندھ کھپّے

زرداری اور اُن کے حواری نعرہ لگاتے ہیں سندھ “کھپّے” ۔ زبان پہ اُن کی سندھی کا نعرہ ہوتا ہے جس کا مطلب ہے “قائم رہے” لیکن دِل سے شاید اُن کا مطلب پنجابی کا “کھپّے” ہوتا ہے جس کا مطلب ہے “خوار ہو” (بازاری زبان میں اس کا بہت غلط مطلب بھی ہوتا ہے) ۔ کم از کم مندرجہ ذیل خبر سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے

حکومت سندھ نے حکومت پنجاب کی طرف سے سندھ کے ذہین طلباء و طالبات کے لئے مختص کئے گئے 103 وظائف (scholarship) سُستی اور نا اہلی کے سبب ضائع کردیئے ہیں

حکومت پنجاب گزشتہ 3 سال سے سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا ، فاٹا، گلگت بلتستان ، آزاد جموں کشمیر اور اسلام آباد کے مستحق اور ذہین طلباء و طالبات کو ہر سال وظائف دے رہی ہے

حکومت سندھ نے گزشتہ سال 63 میں سے صرف 23 طلباء کو وظائف کیلئے نامزد کیا تھا ۔ اس طرح سندھ کے 40 مستحق طلباء کے وظائف ضائع ہوگئے تھے ۔ اس سال سندھ حکومت نے تاحال کسی طالب علم کو وظیفہ کیلئے نامزد نہیں کیا جس وجہ سے 63 مزید وظائف ضائع ہوگئے ہیں

حکومت پنجاب نے اس سلسلے میں حکومت سندھ کو متعدد مرتبہ یاد دہانی کے خطوط لکھے ہیں اور حکومت پنجاب نے ایک نمائندہ بھی بھیجا تھا جس نے حکومت سندھ کے نمائندے سے ملاقات کرکے وظیفوں کیلئے طلباء اور طالبات کو نامزد کرنے کیلئے کہا تھا

حکومت پنجاب گزشتہ 3 سال سے بلوچستان کے مستحق اور ضرورتمند 400 طلباء کو وظائف دے رہی ہے