سوچ معذور بناتی ہے

آئے دن سُنتے ہیں کہ لوگ مختلف طریقوں اور الفاظ سے اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں ۔ کہیں جو کالج میں پڑھایا گیا امتحانی پرچہ اس میں سے کچھ باہر ہو خواہ نصاب کے اندر ہو تو جلوس نکالے اور دفاتر جلائے جاتے ہیں ۔ کہیں اپنی محرومیوں کا رونا رو کر مالی امداد مانگی جاتی ہے

تھوڑا سا غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ معذوری غلط سوچ اور کاہلی کا نام ہے

بات جسمانی یا دماغی طور پر معذور لوگوں کی نہیں ہو رہی ۔ جسمانی طور پر معذور بھی ایسے ملتے ہیں جو تعلیم حاصل کر کے ڈاکٹر ۔ انجنیئر ۔ وکیل وغیرہ بن گئے اور اپنی روزی کما رہے ہیں ۔ ایسے بھی ہیں جو تعلیم حاصل نہ کر سکے اور اپنے ہُنر سے روزی کما رہے ہیں

اگر ہمت کے ساتھ محنت کی جائے معذوری بھی معذوری نہیں رہتی ۔ ایک طرف مالدار حکومتیں اربوں خرچ کر کے درجنوں انسانوں کی مدد سے جو کرتی ہیں وہ اکیلا آدمی بھی کر سکتا ہے تو دوسری طرف جسمانی اعضاء سے محروم انسان مکمل انسانوں کوپیچھے چھوڑ جاتا ہے

صرف دو مثالیں

1 ۔ رومانیاکے طالب علم رَول اوآئدا (Raul Oaida) نے گھر ميں ليگو سے اُڑن کھٹولا (Space Shuttle) تيار کر کے اسے ہيليم (Helium) گيس سے بھرے غبارے کے ساتھ باندھ کر فضاميں چھو ڑ ديا جو تھوڑے ہی وقت ميں ايک لاکھ چودہ ہزار فٹ کا فاصلہ طے کر کے خلا ميں کاميابی سے پہنچ گيا

2 ۔ کم عمر لڑکی جو بازوؤں سے محروم ہے بہترین مصوّری کرتی ہے

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

3 thoughts on “سوچ معذور بناتی ہے

  1. محمد سلیم

    جانب عالی، ہماری سرائیکی کی ایک کہاوت ہے بانہہ بھنا کماندے دل بھنا نی کماندا (جسکا بازو ٹوٹا ہوا ہو وہ تو کما لیتا ہے مگر جس کا دل ٹوٹا ہوا ہو وہ نہیں‌کمایا کرتا، یہاں‌دل ٹوٹے سے مراد وہ لوگ ہیں‌جو کسی کام کو کرنے کی جستجو ہی نا چاہتے ہوں‌ہیں۔ عمدہ مضمون پیش کرنے کیلئے شکریہ

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    محمد سلیم صاحب
    حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی ہے جس نے بچپن سے ہی مشاہدہ اور مطالعہ کی عادت کی عادت ڈالی ۔ زندگی میں بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ سیکھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.