Monthly Archives: March 2012

ایک معذرت ۔ ایک وضاحت

معذرت
میرے بلاگ کا سرور کل یعنی 29 مارچ بروز جمعرات صبح 6 بجے سے شام سوا 6 بجے تک بوجہ مینٹننس بند رہا

جن خواتین و حضرات کو اس بندش کے باعث کوفت کا سامنا کرنا پڑا ہو اُن سے غیر مشروط معافی
گر قبول اُفتَد زہے عز و شرف

وضاحت
میں نے عید میلادالنبی کے متعلق ایک کتبہ اور اللہ کا فرمان نقل کئے تھے ۔ اس پر ایک تبصرہ قابلِ اہم وضاحت آیا تو سوچا کہ سب قارئین و قاریات کی رائے سے مستفید ہونے کیلئے تبصرہ اور اس کا میری طرف سے جواب سرِ ورق پر شائع کر دوں

قاری کا تبصرہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے، اور ظاہر ہے کسی کو بھی نہیں‌ہوگا۔ اور قرآن کی ایک ایک آیت پر ایمان لانا فرض ہے، لہذا سورہ ضحیٰ میں جو اللہ رب کائنات نے فرمایا “واما بنعمت ربک فحدث ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ تو اس آیت کو بیان کرنے میں‌کوئی حرج نہیں ہے، مزید تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر پڑھ لیجیے۔
دوسری بات یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے، بعد میں‌اس کے مختلف مترجمین نے ترجمہ کیے، تو کچھ لوگ ترجمہ کرنے میں بھٹکے بھی ہیں اور کچھ عالم نہ ہوکر بھی ترجمہ کر بیٹھے اور صحیح ترجمہ نہیں کرپائے لہذا ترجمہ کے معنی و مفہوم میں کچھ ذرا سی تبدیلی پیدا ہوگئی، میری نظر میں امام احمد رضا کا ترجمہ ایک اچھا ترجمہ ہے کیوں کہ اُس میں ایک ایک چیز کا خیال رکھ کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ ایک آیت بطور مثال مختلف تین مترجمین سے پیش کر رہا ہوں،

سورۃ البلد کی آیات ملاحظہ کریں أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِO وَلِسَاناً وَّشَفَتَیْنِO وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِO (البلد:8 تا 10)

ترجمہ: ”کیا ہم نے اس کی دو آنکھیں نہ بنائیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور اسے دو ابھری چیزوں کی راہ بتائی۔ (کنز الایمان، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا)
کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے۔ اور پھر ہم نے ان کو دونوں دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلادیئے۔ (مولوی اشرف علی تھانوی)
بھلا ہم نے نہیں دیں اس کو دو آنکھیں۔ اور زبان اور دو ہونٹ۔ اور دکھلادیں اس کو دو گھاٹیاں۔ (مولوی محمود الحسن دیوبندی)۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے ”نجد” کے معنی خیر و شر کے رستے بتادیئے جبکہ مولوی محمود الحسن دیوبندی نے ”النجد” کے معنی دو گھاٹیاں (وادیاں) بتادیں۔
آیات بتارہی ہیں کہ اس کو اللہ نے دو آنکھیں دیں، ایک زبان اور دو ہونٹ، اگلی آیت میں راہ کا تعین ہے اور وہ ہے دو ابھری ہوئی جگہیں۔ یہ اصل میں اشارہ ہے اس گود کے بچے کی طرف کہ جب وہ اپنے ان دو ہونٹوں سے ماں کے سینے پر دو ابھری جگہوں میں اپنی غذا کی راہ پاتا ہے۔ ماں کا یہ پستان گھاٹیاں نہیں ہیں اور نہ ہی خیر و شر کے دو راستے بلکہ یہ اس کے سینے پر دو ابھری چیزیں ہیں جس کو ہم پستان کہتے ہیں اور عربی میں لفظ ”نجد” کے معنی ہی بلند جگہ کے ہیں اور عربی میں Plateauیعنی ابھری ہوئی زمین کو نجد کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ترجمہ کرتے وقت ایک ایک بات کا خیال رکھتے ہیں اور یہاں لفظ پستان بھی نہیں لائے بلکہ دو ابھری چیزوں کے ساتھ ترجمہ کرکے فصاحت و بلاغت کو بھی قائم رکھا اور شرم و حیا کا بھی پاس رکھا اور حسن سلاست بھی قائم ہے جبکہ دیگر مترجمین ”نجد”کی اصطلاح کی گہرائی تک ہی نہ پہنچ سکے۔ (ماخوذ از، اردو تراجم قرآن کا تقابلی مطالعہ، پروفیسر مجید اللہ قادری)

میرا جواب
میرے بلاگ پر تشریف لانے اور اپنی مفید رائے سے مستفید کرنے پر مشکور ہوں
قرآن شریف کی کسی آیت کا بغیر سیاق و سباق ترجمہ لے کر رائے قائم کرنا درست نہیں ہے ۔ سورت الضحٰی کی متذکرہ آیت کو باقی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھیئے تو وہ مطلب نہیں نکلتا جو کتبہ لکھنے والے اور آپ نے لیا ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مخاطب سیّدنا محمد ﷺ ہیں

سورت ۔ 93 ۔ الضحٰی ۔ آیات ۔ 6 تا 11 ۔ أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى 0 وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَھَدَى 0 وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَی 0 فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْھَرْ 0 وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْھَرْ 0 وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ 0

ترجمہ ۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ 0 اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا 0 اور تنگدست پایا تو غنی کر دیا 0 تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا 0 اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں 0 اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا 0

اب دوسرا مسئلہ جو آپ نے احمد رضا بریلوی صاحب کے نام منسوب کیا ہے
“نجد” کے معنی عورت کے پستانوں کی مانند ” اُبھری ہوئی چیز” کیسے بنے میری سمجھ میں نہیں آ رہا
” نجد” فعل اور اسم دونو طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیت ۔ 10 میں ” نجدین” آیا چنانچہ بطور اسم استعمال ہوا ہے ۔ ” نجد” اسم ہو تو اس کے معنی ہیں “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” جسے انگریزی میں plateau کہتے ہیں ۔
فعل کے طور پر نجد کے معنی ہیں ۔ جان بچانا ۔ چھڑانا ۔ نجات دلانا ۔ رہا کرانا
عورت کے سینے کے اُبھاروں کو “سطح مرتفع” یا “بلند ہموار مقام” نہیں کہا جا سکتا
محمود الحسن اور اشرف علی تھانوی صاحبان کے تراجم عربی لفظ ” نجد” کے قریب ترین ہیں
سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ کی آیات ۔ 5 تا 11 پڑھیں تو عورت کے سینے کے اُبھار کسی طرح فِٹ نہیں ہوتے
نیچے طاہر القادری صاحب کا ترجمہ نقل کر رہا ہوں جو فی زمانہ بریلوی مسلک کے سب سے بڑے عالم ہیں ۔ انہوں نے بھی “دو راستے” لکھا ہے

سورت ۔ 90 ۔ الْبَلَدِ ۔ آیات ۔ 5 تا 11 ۔ 5 ۔ أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْہِ أَحَدٌ
کیا وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر ہرگز کوئی بھی قابو نہ پا سکے گا؟
6 ۔ يَقُولُ أَہْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا
وہ (بڑے فخر سے) کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال خرچ کیا ہے
أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَہُ أَحَدٌ7 ۔
7. کیا وہ یہ خیال کرتا ہے کہ اسے (یہ فضول خرچیاں کرتے ہوئے) کسی نے نہیں دیکھا
8 ۔ أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَيْنَيْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں بنائیں
9 ۔ وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ
اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دئیے)
10 ۔ وَہَدَيْنَاہُ النَّجْدَيْنِ
اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیئے
11 ۔ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ
وہ تو (دینِ حق اور عملِ خیر کی) دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہی نہیں ہوا

میلادالنبی ۔ ایسا کیوں ؟

پچھلے دنوں ایک کتبہ کتابِ چہرہ (Face Book) پر گردش میں نظر آیا جس میں قرآن شریف کے حوالے سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جشنِ عید میلادالنبی منانا چاہیئے ۔ پہلے اس کتبے کو پڑھ لیجئے پھر وہ آیات جن کا حوالہ بطور ثبوت پیش کیا گیا ہے اُن کا اصل ترجمہ کتبہ کے بعد نیچے پڑھ لیجئے اور موازنہ کر لیجئے کہ درست کیا ہے

سورت آل عمران ۔ آیت 103 ۔ اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔
سورت الضحٰی ۔ آیات 9 تا 11 ۔ تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا ۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں ۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا۔
سورت یونس ۔ آیت 58 ۔ کہہ دو کہ (یہ کتاب) خدا کے فضل اور اس کی مہربانی سے (نازل ہوئی ہے) تو چاہئے کہ لوگ اس سے خوش ہوں۔ یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔
سورت انبیاء ۔ آیت 107 ۔ اور (اے محمد!) ہم نے تم کو تمام جہاں کے لئے رحمت (بناکر) بھیجا ہے
سورت آل عمران ۔ آیت 164 ۔ کا ترجمہ یہ ہے ۔خدا نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجے جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے ‏
سورت ابراھیم ۔ آیت 7 ۔ اور جب تمہارے پروردگار نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کے) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔ ‏
سورت ابراھیم ۔ آیت 5 ۔ اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی نشانیاں دیکر بھیجا کہ اپنی قوم کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لے جاؤ۔ اور انکو خدا کے دن یاد دلاؤ۔ اور اس میں ان لوگوں کے لئے جو صابر و شاکر ہیں (قدرت خدا کی) نشانیاں ہیں۔

لڑکپن کی باتيں قسط 1 ۔ بادنُما

ميں ايک دستاويز کی تلاش ميں اپنے دارالمطالعہ ميں مختلف الماريوں ميں پڑی ہوئے کاغذات کے انباروں کو کھنگال رہا تھا کہ کچھ لڑکپن کی کارستانياں ہاتھ لگيں جو کاغذ کے خستہ ہو جانے کے باوجود نمعلوم کس طرح ضائع ہونے سے کئی دہائياں بچی رہيں ۔ انہيں ديکھ کر اُس زمانہ کی ياديں تازہ ہوئيں ۔ ايک فہرست ملی ميرے سميت ہماری دسويں جماعت حصہ الف مسلم ہائی سکول راولپنڈی کے طلباء کی جس ميں ان کے پنجاب يونيورسٹی کے 1953ء ميں دسويں کے امتحان ميں حاصل کردہ نمبر بھی لکھے ہيں ۔ يہ دستاويزات رفتہ رفتہ منظرِ عام پر لائی جائيں گی ۔ آج مزيد دو کا ذکر

يہ سکول ميں نويں جماعت کی ميری عام استعمال کی بياض [rough copy] کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر جو اشعار لکھے ہيں يہی ميرے لئے مشعلِ راہ رہے اور شايد انہی کی بناء پر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے زندگی ميں کامياب کيا ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

نيچے ميری انجنيئرنگ کالج کے پہلے سال کی عام استعمال کی بياض کے سرِ ورق کا عکس ہے ۔ اس پر ميں نے اپنے لئے ھدايات لکھی تھيں اور ہر ماہ کی پہلی تاريخ کو انہيں پڑھ کر ميں اپنے کردار و عمل کو پرکھتا تھا کہ ميں جامد ہوں ۔ مائل بہ تنزل ہوں يا کہ ترقی کی طرف گامزن ۔ [پڑھنے ميں آسانی کيلئے اس عکس پر کلِک کيجئے ۔ عکس بڑا ہو جائے گا]

تبدیلی ؟ ؟ ؟

آجکل مُلک میں تبدیلی لانے کا بڑا غُوغا ہے ۔ سب سے زیادہ تبدیلی کی تکرار عمران خان کی طرف سے ہے جو اپنے ہر جلسے میں بڑے طمطراق سے تبدیلی کی بات کرتا ہے ۔ عمران خان کا دعوٰی ہے کہ وہ اور تو اور پٹواری اور تھانہ نظام کو بھی 3 ماہ میں درست کر دے گا ۔ سُنا اور دیکھا تو یہ ہے کہ بڑے بڑے تناور حکمران بلند دعوؤں کے ساتھ آئے اور کئی کئی سال حکومت کر کے چلے اور بہتری کی بجائے ابتری ہی دیکھنے میں آئی

تقریریں اور جلسے کرنے والوں کے ہاتھوں ہم نے کبھی کسی مُلک کو درست ہوتے نہیں دیکھا ۔ مُلک تو ایک طرف ایک صوبہ بھی چھوڑیئے ۔ ایک ضلع کے نظام کو بھی درست کرنا ہو تو مٹی کے ساتھ مٹی ہونا پڑتا ہے ۔ اگر یقین نہ آئے تو سندھ کے عبدالستار ایدھی صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح تبدیلی لا رہے ہیں یا پنجاب کے مُنشی خان صاحب کو دیکھئے کہ کس طرح اُنہوں نے لاہور میں اتنا بڑا ہسپتال بغیر کسی آواز کے بنایا

تبدیلی آئے گی
جب عوام کا رویہ بدلے گا
جب عوام کو احساس ہو گا کہ غلط لوگوں کو مُنتخب کر کے اور غلط لوگوں کی پیروی کر کے اپنا حال خود خراب کرتے ہیں
جب وہ سمجھیں گے کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے کچھ بہتر نہیں ہو گا بہتری اس وقت آئے گی جب سب اپنے آپ کو درست کرنے میں لگ جائیں گے
جب یہ کہنے یا سوچنے کی بجائے کہ “پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟” سب اس پر غور کریں گے کہ “ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے اور آئیندہ پاکستان کیلئے کیا کریں گے”۔

البتہ ایک صاحب نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ

پاکستان ؟

سلطنتِ خدا داد پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا اور اِن شاء اللہ قائم رہے گا

پاکستان کے کل اور آج کے متعلق اگر آپ یہ تقریر ٹی وی نیوز 1 پر پہلے نہیں سُنی تو اب ضرور سُنیئے تاکہ آپ جان سکیں کہ پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے کیسے کیسے دشوار وقتوں سے نبُرد آزما رہا مگر اللہ نے کامران کیا کیونکہ اکثریت محبِ وطن اور مخلص تھی ۔ پچھلی ایک دہائی سے پاکستان کا جو حال کیا گیا ہے ایسا ماضی میں نہ تھا

https://www.facebook.com/photo.php?v=104302499612263

ایک نئی مصیبت ۔ ۔ ۔ مدد ۔ مدد

ورڈ پریس پر بلاگ رکھنے والوں سے التماس ہے کہ وہ توجہ دیں اور میری مُشکل حل کریں

میں مندرجہ ذیل بلاگوں پر آج سے قبل بغیر کسی مُشکل کے تبصرے کر چکا ہوں

http://tehreemtariq.wordpress.com
http://aqilkhans.wordpress.com
http://dinraat.wordpress.com

کل یعنی مورخہ 18 مارچ 2012ء کو میں نےان بلاگوں پر تبصرہ لکھا ۔ جب شائع کرنے کی کوشش کی تو شائع نہ ہوا اور مندرجہ ذیل عبارت لکھی ہوئی نمودار ہوئی

That email address is associated with an existing WordPress.com (or Gravatar.com) account. Please click the back button in your browser and then log in to use it.

عورت ۔ جنّت بھی جہنّم بھی

میں نے 6 مارچ اور 13 مارچ کو جو لکھا اس سے شاید عورتوں کی مخالفت کا پہلو نکلتا ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ قاریات ان تحاریر کے سبب مجھ سے ناراض بیٹھی ہوں یا کوسنے دے رہی ہوں ۔ میں نے افسانے کبھی شوق سے نہیں پڑھے اور عملی زندگی گذاری ہے اور لکھتا ذاتی مشاہدے اور مطالعہ کے زیرِ اثر ہوں ۔ میرا مدعا کسی کی مخالفت یا عیب جوئی کی بجائے معاشرے کی بہتری کی خاطر حقائق کو برسرِ عام لانا ہوتا ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک قول رقم کیا جاتا ہے ” عورت بیک وقت جنّت کی حور اور جہنّم کی بھٹی ہے ”

میں عورت کی اول الذکر خصوصیت کی بات کروں گا اور اس میں ذاتی تجربہ کی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ کُنبہ پروری کی زد میں آ جانے کا خدشہ ہے وجہ یہ ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے کُنبے کی تمام عورتیں یعنی ماں ۔ بہنیں ۔ بیوی ۔ بیٹی اور بہو بیٹیاں بہت ہمدرد اور جانثار عطا کیں ۔ چنانچہ بات مشاہدے کی

کچھ سال پرانا واقعہ ہے کہ یورپ میں جا بسنے والے ایک پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھاتے پیتے والدین نے اپنی پڑھی لکھی خوبصورت لڑکی کی منگی اُس کی مرضی پوچھے بغیر یورپ کے ایک دوسرے شہر میں رہائش رکھنے والے اپنے جیسے خاندان کے لڑکے سے طے کر دی ۔ لڑکی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی تھی جو شادی میں تاخیر کا سبب بن رہا تھا ۔ کچھ لوگوں کو شُبہ ہونا شروع ہوا کہ لڑکی جان بوجھ کر تاخیر کر رہی ہے ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ایک دن وہ لڑکا ٹریفک کے حادثہ میں شدید زخمی ہو گیا ۔ ان وجوہ پر ہسپتال میں ہوش سنبھالنے کے بعد لڑکے نے لڑکی والوں کو پیغام بھجوایا کہ وہ کوئی اور اچھا لڑکا تلاش کر کے اپنی بیٹی کی شادی کر دیں ۔ والدین نے یہ بات اپنی بیٹی کو سنائی ۔ لڑکی نے سب سُن کر والدین سے لڑکے کے پاس جا کر اُسے دیکھنے کی اجازت مانگی تو وہ حیران ہوئے ۔ بیٹی کے اصرار پر اُسے اجازت دے دی

لڑکی دوسرے شہر ہسپتال میں اپنے منگیتر کے پاس پہنچی ۔ لڑکا اُسے دیکھ کر خوش ہوا اور اُس کا شکریہ ادا کیا ۔ پھر اُسے بتایا کہ وہ اپاہج ہو چکا ہے اور بچ گیا تو ساری زندگی بستر پر اور ویل چیئر پر گذارے گا اسلئے وہ کسی اور کو اپنا زندگی کا ساتھی بنا لے ۔ لڑکی نے اپنے منگیتر سے کہا کہ ”جو کچھ ہوا اُس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں تو پھر اس کی سزا تمہیں کیوں ملے ۔ تمہیں ایک اچھی نرس کی ضرورت ہے اور بیوی سے بہتر اور کوئی نرس نہیں ہو سکتی“۔ لڑکے نے اُسے بہت سمجھایا اور کہا کہ ”میری خوشی اسی میں ہے کہ تم اپنی زندگی برباد نہ کرو ۔ میں اب تمہارے قابل نہیں رہا“۔ لڑکی چلی گئی اور گھر پہنچتے ہی اپنے والدین سے کہا کہ ”فوراً میری شادی میرے منگیتر کے ساتھ کر دیں“۔

شادی کیا کرنا تھی وہ لوگ لڑکے کے شہر گئے اور نکاح پڑھوا دیا ۔ اس کے بعد لڑکی نے اپنے خاوند کی تیمارداری شروع کر دی ۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد گھر سنبھالنے کے ساتھ ساتھ خاوند کی خدمت کرتی ہے ۔ جہاں جاتی ہے خاوند کو ساتھ لے کر جاتی ہے ۔ گاڑی سے اُتار کر ویل چیئر پربٹھاتی اور ویل چیئر کو خود چلاتی ہے ۔ کسی صورت بھی خاوند کو معذوری کا احساس نہیں ہونے دیتی

عورت جنّت کی حور نہیں تو پھر کیا ہے ؟