Monthly Archives: October 2011

بجلی کی کمی کيوں ؟

تين صوبوں ۔ سندھ [بشمول کراچی] ۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں اليکٹرک ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے نقصانات 30 سے 40 فیصد ہيں جس کی بڑی وجہ بجلی کی چوری ہے
صرف اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا الیکٹرک سپلائی کمپنیاں منافع میں جا رہی ہیں
اس طرح ملک میں بجلی سے متعلقہ مجموعی نقصان 20 سے 25 فیصد ہے جو اسلام آباد ۔ لاہور ۔ فیصل آباد اور گوجرانوالا کی الیکٹرک سپلائی کمپنیوں سے بجلی حاصل کرنے والوں کو بلا قصور برداشت کرنا پڑ رہا ہے

گیس پر چلنے والے بجلی گھر [Power Plants] جن کی مجموعی پیداواری صلاحیت 1000 میگا واٹ سے زائد ہے وہ کام نہیں کر رہے ۔ فیصل آباد میں 210 میگا واٹ کا ایک پلانٹ گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑا ہے ۔ مظفرگڑھ ۔ گدو اور کوٹ ادُو میں واقع گیس پر چلنے والے پاور پلانٹس گیس کی عدم دستیابی اور فاضل پُرزے [Spare Parts] نہ ملنے کی وجہ سے پوری صلاحیت کے مطابق نہیں چل رہے
رقم [cick-backs] کے ملوث ہونے کی وجہ سے رقوم [Funds] اور گیس، رینٹل پاور پلانٹس [Rental Power Plants] اور آئی پی پیز [Independent Power Producing Companies (IPPs)] کو فراہم کی جا رہی ہے
تیل پر چلنے والے دیگر پاور پلانٹس کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے
حکمران سرکاری بڑے بجلی گھروں کو غيرمعياری [Sub-standard] ایندھن کی فراہمی میں ملوث ہیں اور معیاری ایندھن فراہم نہ کرنے سے مافیا بڑی رقم بنا رہا ہے

متحدہ عرب امارات کی طرف سے تحفے میں ملنے والا 200 میگا واٹ صلاحیت کا پلانٹ حکومت کی عدم دلچسپی اور رشوت [Kick-backs] کے مسائل کے باعث 2009ء سے اب تک فیصل آباد میں نصب نہیں ہو سکا

975 میگا واٹ بجلی کی صلاحیت والے 2 پاور پلانٹ 2008ء میں پی سی ون [P C-1] کی منظوری اور چینی کمپنی کو پیشگی 6 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود چیچو کی ملیاں اور نندی پور میں نصب نہیں کئے جا سکے جس کی وجہ سرکاری بجلی گھروں [Power Plants] کو رقم [Funds] کی عدم فراہمی ہے ۔ نندی پور منصوبہ کی مشینری 18 ماہ سے بے مقصد پڑی ہے جس کی وجہ سے منصوبہ کی قيمت بڑھتی جا رہی ہے ۔ چیچو کی ملیاں منصوبے کی مشینری تاحال درآمد نہیں کی گئی ۔ اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے تو ان سے پیداہونے والی بجلی آئی پیز پیز سے سستی ہوتی

حکومت گزشتہ ساڑھے 3 سالوں میں قومی گرِڈ میں صرف 122 میگا واٹ کرائے کی بجلی [Rental Power Plants] کا اضافہ کر سکی ہے
بہت سے قومی بجلی گھر [Public Sector Power Plants] جو گیس کی عدم دستیابی کے باعث 2009ء سے بند پڑے ہیں رقم [Funds] کی کمی کے باعث کسی دوسرے ایندھن [Feul] پر بھی منتقل نہیں ہو سکتے

وفاقی حکومت نے 56 کروڑ 40 لاکھ ڈالر يعنی تقريباً 48 ارب روپے زرِ مبادلہ کے سرمائے سے کرائے کے بجلی گھر لئے ۔ متعلقہ 8 کمپنیوں کو موبیلائزیشن ایڈوانس کی مد میں 25 ارب روپے ديئے گئے۔ 3 کمپنیوں سے عدالت نے 5 ارب روپے واپس دلوائے جبکہ 5 کمپنیوں سے ابھی بھی 20 ارب روپے واپس لینا باقی ہیں

کرائے کے بجلی گھروں کے سلسلے ميں عدالتِ عظمٰی ميں ہونے والی کاروائی يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

مزيد پھُرتياں

کے ای ایس سی نے 33 لاکھ روپے واجبات کی عدم ادائیگی پر قصر ناز اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کی بجلی منقطع کر دی
بعدازاں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے عملے نے غیر قانونی طور پر از خود بجلی بحال کرلی
ان دونوں مقامات سے کے ای ایس سی کو گزشتہ سال سے بل کی ادائیگی نہیں کی جارہی تھی
قصر ناز پر 22 لاکھ روپے اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس پر 11لاکھ روپے کے واجبات ہیں

وزيرِ خارجہ حنا ربانی کھر کے خاوند فيروز گلزار نے اپنے کارخانے گليکسی ٹيکسٹائل ملز واقع جھنگ مادھوکی روڈ کا بجلی کا بل مبلغ 7 کروڑ روپيہ جون 2011ء سے ادا نہيں کيا ہوا تھا تو واپڈا نے ستمبر 2011ء ميں بجلی کاٹ دی جو کہ شديد سياسی دباؤ کے تحت 12 گھنٹے کے اندر بحال کر دی گئی

کامياب منصوبہ بندی

ہماری عوام دوست حکومت کی کامياب منصوبہ بندی کی چند جھلکياں

يکم جنوری 2011ء سے 30 ستمبر 2011ء تک 9 ماہ ميں 2400 افراد نے غُربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر خُود کُشی کی کوشش کی
ان 2400 ميں سے 800 افراد کو بچا ليا گيا مگر 1600 افراد جان سے ہاتھ دھو بيٹھے
يعنی اوسط روزانہ 6 افراد
51 فيصد شہری غُربت کا شکار ہيں
جس دن کنڈیارو [سندھ] کے راجا خان نے غُربت اور بے روزگاری سے تنگ آ کر اسلام آباد پارلیمنٹ کے سامنے اپنی جان دی اور ریلوے کے 68 سالہ محمود خان نے 4 ہزار 8 سو روپے کی پینشن کا دو ماہ تک انتظار کرنے کے بعد لاہور کی سڑک پر اپنی جان دی ۔ اسی روز پاکستان کی وفاقی حکومت نے آئين ميں اٹھارويں ترميم کے تحت وزارتيں کم کرنے کی بجائے اس کی صريح خلاف ورزی کرتے ہوئے 4 نئی وزارتوں کی تشکیل کا اعلان کیا

ليزر جراحی ۔ کہانياں اور حقيقت

جب تک ہاتھی ديکھا نہ ہو کوئی لاکھ سمجھائے کہ ہاتھی ايسا ہوتا ہے ۔ کم ہی سمجھ ميں آتا ہے ۔ بعض اوقات عرصہ دراز پہلے ديکھے ہوئے اور حال ميں ديکھے ہاتھی ميں بھی فرق ہو جاتا ہے ۔ خير ۔ پہلے ميری آنکھ کی جراحی کی حقيقت پھر عام خيالات

ميں ڈاکٹر صاحب کی ہدائت کے مطابق 22 اکتوبر کو ساڑھے 5 بجے شام اُن کے مطب پہنچا ۔ معائنہ کے بعد اُنہوں نے ٹھيک کہا اور ميرے عذر مسترد کر ديئے ۔ ميرے احساس کے مطابق ميری آنکھ پہلے سے بہت بہتر تو ديکھ رہی ہے مگر معمول کے مطابق کام نہيں کر رہی ۔ جراحی کی روئيداد جو پہلے نہ لکھ سکا تھا يہ ہے

ڈاکٹر صاحب نے 6 اکتوبر 2011ء کو الٹرا ساؤنڈ کيلئے بُلايا ۔ ميں پيٹ کا الٹرا ساؤنڈ کئی بار کروا چکا تھا ۔ اس کيلئے پيٹ پر ايک کريم سی ملتے ہيں جس کے اُوپر ايک آلہ [probe] پھيرا جاتا ہے ۔ ميں سوچ ميں پڑ گيا کہ آنکھ کے ساتھ تو يہ عمل نہيں ہو سکتا پھر الٹرا ساؤنڈ کيسے ہو گا ؟ ہوا يہ کہ پہلے ميری آنکھ ميں کوئی دوائی ڈالی گئی جو ميرے خيال ميں اَيٹروپِين [Atropine] تھی ۔ 15 منٹ بعد مجھے ايک خاص کرسی پر بٹھا کر ايک دُوربين قسم کے آلے ميں ديکھنے کو کہا گيا ۔ پھر پلاسٹک کا ايک پنسل نما آلہ تھا جسے ميری بائيں آنکھ کے سامنے آہستہ آہستہ حرکت دی گئی ۔ اس ميں سے تيز سُرخ روشنی کی ايک مُنحنی لکير مجھے نظر آتی رہی مگر ميں نے بزور آنکھيں کھُلی رکھيں

جمعہ 7 اکتوبر کو ميں رات 8 بجے سے قبل مطب پہنچ گيا ۔ سوا 8 بجے ايک آدمی نے مجھے ايک کمرہ ميں لے جا کر بستر پر لٹا ديا اور ميری بائيں آنکھ ميں 3 مختلف دوائيوں کے قطرے ڈالے ۔ يہ قطرے ہر 15 منٹ کے بعد مزيد 3 بار ڈالے گئے ۔ آخری بار قطرے ڈالنے کے 15منٹ بعد جراثيم سے پاک [stirilised] لباس ميرے کپڑوں کے اُوپر ہی پہنايا گيا ۔ چپلی بھی دوسری پہنائی گئی اور مجھے آپريشن ٹھيئٹر [operation theatre] ميں لے جا کر ڈاکٹر صاحب نے بستر پر لٹا ديا ۔ ميرے سر سے پيٹ تک کو ايک موٹے سوتی کپڑے سے ڈھانپ ديا گيا ۔ پھر ايک اور سوتی کپڑے سے مجھے پاؤں تک ڈھانپ ديا گيا ۔ اس کے بعد ايک موٹے سے پلاسٹک يا ربڑ کے ٹکڑے سے ميرے سر سے پيٹ تک کو ڈھانپ ديا گيا

پھر ميری آنکھ ميں تين اطراف ميں ٹيکے [injections] لگائے گئے ۔ چند منٹ بعد کوئی روشنی کی گئی جو مجھے داہنی آنکھ سے اتنا کچھ اُوپر ہونے کے باوجود نظر آ رہی تھی چنانچہ ميں نے داہنی آنکھ بند کر لی کيونکہ بائيں آنکھ اب ميرے قابو سے باہر تھی يعنی سُن ہو چکی تھی ۔ اس کے بعد مجھے ايسے محسوس ہوتا رہا کہ ميری بائيں آنکھ پر چھوٹا سا شفاف [transperant] کاغذ کبھی رکھا جاتا ہے کبھی اُٹھا ليا جاتا ہے ۔ آدھے گھنٹے بعد ڈاکٹر صاحب نے ميرے سر کے نيچے داہنا ہاتھ اور کندھوں کے نيچے باياں بازو رکھ کر اُٹھايا ۔ اور چلاتے ہوئے باہر لے جا کر صوفہ پر بٹھا ديا ۔ جہاں ميری بيٹی ۔ ميرا بھائی اور ميری بيوی کا بہنوئی موجود تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اُن سے کچھ باتيں کيں ۔ اُنہوں نے يہ بھی کہا کہ “عام طور پر ہم ايک ہفتے بعد بھی بلاتے ہيں ليکن يہ 2 ہفتے بعد ہی آئيں” يعنی 22 اکتوبر کو ۔ احتياط يہ بتائی

کہ جھُکنا نہيں ۔ آنکھيں نہيں مَلنا ۔ وزن نہيں اُٹھانا اور باہر دھوپ ميں جانا ہو تو دھوپ کی عينک پہننا ۔ ميں نے خوراک کا پوچھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا “جو پہلے کھاتے ہيں وہی کھائيں”۔ ميں نے پوچھا “ٹھيک ہونے ميں کتنا وقت لگے گا ؟” تو ڈاکٹر صاحب نے کہا “2 يا 3 دن ميں بھی ٹھيک ہو تے ہيں اور ہفتہ بھی لگ جاتا ہے”۔ پونے 11 بجے رات ڈاکٹر صاحب نے ميرے ساتھ ہاتھ ملا کر ہميں رُخصت کيا

تصوير ميں وہ شيشی نظر آ رہی ہے جس ميں عدسہ [lense] تھا جو ايک سرِنج [sringe] کے ذريعہ ميری آنکھ ميں ڈالا گيا اور اندر جا کر وہ پھُول کر درست صورت اختيار کر گيا ۔ شيشی کے پيچھے ايک ڈبيہ نظر آ رہی ہے جس ميں عدسہ والی شيشی اور ايک معلوماتی کتاب تھی ۔ نيچے دوسری تصوير ميں متعلقہ سرِنج اپنے خانے ميں پڑی نظر آ رہی ہے

آپريشن کے بعد کسی نے امريکا ميں آپريشن کروايا تھا اُنہوں نے کہا “ايک ہفتہ کالی عينک پہننا جس کے اطراف بھی بند ہوں تاکہ آنکھوں کے پاس روشنی بالکل نہ جائے ۔ رات کو جالی والی عينک پہن کر سونا”۔ ميں نے کہا “مجھے تو ڈاکٹر صاحب نے ايسا کچھ نہيں کہا”۔ بتايا گيا کہ امريکا کے پڑھے ڈاکٹر صحيح ہوتے ہيں”
ايک اور نے پاکستان ميں آپريشن کروايا تھا ۔ اُنہوں نے کہا “نرم غذا کھا رہے ہيں ؟” ميں نے نفی کی تو بتايا کہ روٹی نہيں کھانا چاہيئے ۔ اس سے آنکھوں پر اثر پڑتا ہے
کسی نے کہا “کم از کم 2 ہفتے پرہيز کرنا چاہيئے ۔ آخر آنکھ کا معاملہ ہے”
ميری بڑی بہن جو خود ڈاکٹر اور پيتھالوجسٹ ہيں نے وہی کہا جو ميرے معالج ڈاکتر نے کہا تھا

مريض کو شک ہونے لگتا ہے کہ ڈاکٹر سے زيادہ وہ جانتے ہيں جو ڈاکٹر نہيں ہيں

آج کا دن اہم کيوں ؟

آج 24 اکتوبر ہے ۔ يہ دن کيوں اہم ہے ؟ اس کا پس منظر اور پيش منظر ميں اِن شاء اللہ ايک ہفتہ تک بيان کروں گا آج کی تحرير صرف 24 اکتوبر کے حوالے سے

ٹھیک آج سے 64 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے زور پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی

کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں
اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہ بیٹھیں گے

اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے

راشٹريہ سيوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل نے ضلع جموں کے مضافات اور دو دوسرے ہندو اکثريتی اضلاع ميں مسلمانوں کا قتلِ عام اور اُن کی فصلوں اور گھروں کو جلانا تو پہلے ہی شروع کر رکھا تھا ۔ اکتوبر 1947ء کے شروع ہی ميں اُن کی طرف سے يہ اعلان بر سرِ عام کيا جانے لگا کہ “مُسلے [مسلمان] عيد پر جانوروں کی قربانی کرتے ہيں ۔ ہم اس عيد پر مُسلوں کی قربانی کريں گے”۔ چنانچہ جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی شروع ہو گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک تھی

ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع میں تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر اکتوبر کے آخر میں بھارتی فوج بھی ان کے مقابلے پر آ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کشمير کو پاکستان سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا اور بمباری کے باوجود پُل محفوظ رہا

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے کچھ مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے ۔ باقی عام شہری تھے ۔ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی

بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر کے آزاد کرائے گئے علاقہ ميں پہنچنا شروع ہوگئے ۔ چند پاکستانی فوجی بھی انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی گئيں یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے

نغمہ ميرے وطن
پاکستان ريڈيو سے روزانہ سُنايا جانے والا نغمہ جو پچھلے 10 سال سے نہيں سُنايا جا رہا ۔ سُنئے پہلی اور اصل حالت ميں [The original version]جموں کشمير کے مناظر کے ساتھ

کرِيو مَنز جِرگاز جائے چمنو
ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن

سچائی ؟ ؟ ؟

ديکھيئے قبل اس کے کہ ويب سائٹ سے ہٹا دی جائے

1۔ لبيا پر قابض موجودہ حکمرانوں کا دعوٰی کہ معمر قذافی مقابلے ميں مارا گيا ۔
2 ۔ اتحادی فوجوں کے ترجمان کا دعوٰی کہ ہم نے قافلے کو نشانہ بنايا تھا ۔ ہميں عِلم نہيں تھا کہ اس ميں قذافی بھی ہے

گو مندرجہ بالا دعوے متضاد ہيں نيچے ديئے ربط پر وِڈيو سے معلوم ہوتا کہ دونوں دعوے غلط بھی ہيں
http://gawker.com/5851757/gaddafis-last-moments-caught-on-video

ايک قيدی کو ہلاک کرنا دُنيا کے کس قانون يا کس اخلاقی معيار کے مطابق درست ہے ؟

معمر قذافی کی منظر عام پر آنے والی نئی ویڈیو نے گذشتہ روز عبوری کونسل کے اس بیان کو تو یکسر غلط ثابت کردیا ہے کہ یہ لوگ دوران لڑائی مارے گئے۔ معمر قذافی کی گرفتاری کے فورا بعد کی ویڈیو کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہے۔ یہ ویڈیو ایک امریکی ویب سائٹ نے اپ لوڈ کی ہے

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح قذافی کو مارتے ہوئے لے جایا جا رہا ہے ۔ انہیں لاتیں اور گھونسے مارے جا رہے ہیں ۔ کچھ لوگ آوازیں بھی لگا رہے ہیں کہ جان سے نہ مارنا ۔ لیکن بالآخر قذافی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

ذہنی غلامی


ميں محمد بلال صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے قارئين کی سہولت کيلئے مندرجہ بالا عکسی عبارت کو يونی کوڈ ميں لکھ ديا ہے

غلامی سے آزادی تک

وہ ایک آزاد باپ کی غلام بیٹی تھی، بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرنے والی فکر انگیز تحریر
ڈاکٹر طاہر مسعود

“پاپا“ آج مس نے مجھے ایک ”ایڈوائس“ کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جب بھی تمہیں واش روم جانے کی ”پرمیشن“ لینی ہو تو انگلش میں کہنا ”Miss May I go to washroom?“
”مس کی ایڈوائس پہ تم نے ان سے کیا کہا۔“
“مس نے جیسا کہا میں نے Same کیا”
”گڑیا۔۔۔۔ تمہاری اردو تو گلابی اردو ہے“
”یہ گلابی اردو کیا ہوتی ہے؟“
”جس میں دوسری زبانون کے الفاظ شامل ہوں ۔ تم اردو کے ساتھ انگریزی ملا کر بولتی ہو ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔“
”کیوں اس سے کیا ہو جائے گا؟“
“اس سے زبان خراب ہوتی ہے۔ کیا تم نے کسی انگریز یا امریکی کو دیکھا ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہوئے اردو یا پھر کسی دوسری زبان کے الفاظ ملاتا ہو؟”
”انہیں اردو نہیں آتی ہو گی“
“ہمارے پاس جو لوگ اردو میں انگریزی کے الفاظ ملاتے ہیں کیا انہیں انگریزی آتی ہے۔ بس انگریزی کے چند الفاظ انہوں نے سیکھ لیے ہیں جنہیں اپنی گفتگو میں دہراتے رہتے ہیں”
”مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
“گڑیا فرق یہ پڑتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اردو میں انگریزی الفاظ ملانے سے ہماری قومی زبان بگڑ رہی ہے ۔ دیکھو! ملاوٹ بری چیز ہے۔ جیسے دودھ، مسالے اور دوسری چیزوں میں ہم ملاوٹ پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح زبان بھی خالص ہونی چاہیئے”
”لیکن ہماری مس تو کہتی ہیں کہ اردو کے بہت سے ورڈز انگریزی سے آئے ہیں“
“ہاں یہ صحیح ہے، اردو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن جب یہ ایک زبان بن گئی تو اب اس کی اپنی ایک گرامر ہے اور اپنے اصول و قواعد ہیں۔ اب مثلاً دیکھو ٹیلی وژن، ریڈیو اسٹیشن، کالج وغیرہ انگریزی کے الفاظ ہیں، جب یہ اردو میں آگئے تو اب یہ اردو ہی کے الفاظ بن گئے۔ اب ان الفاظ کو واحد سے جمع بنائیں گے تو اردو طریقے سے بنائیں گے۔ مثلاً کالج سے کالجز، اسٹیشن سے اسٹیشنز نہیں بنے گا بلکہ کالجوں اور اسٹیشنوں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو لفظ بحالتِ مجبوری انگریزی سے اردو میں آگیا وہ انگریزی کا نہیں رہا اردو کا ہو گیا”
“پاپا! آپ بہت Difficult باتیں کررہے ہیں
“اب دیکھو تم نے Difficult کا لفظ استعمال کیا ۔ اس کی جگہ تم مشکل کا لفظ بھی بول سکتی تھیں۔ جب کسی لفظ کو تم اردو میں ادا کر سکتی ہو تو اس کی جگہ انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھی بات ہے”
“مجھے اردو لفظ معلوم ہوں گے تبھی تو Use کروں گی”
یہ لفظ Use بھی انگریزی ہے۔ اردو ميں اس کے لیے استعمال کا لفظ ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اردو کتابیں اور رسالے پڑھا کرو
””پاپا! میں تو ٹی وی دیکھتی ہوں اور ٹی وی میں ساری ڈسکشن اسی طرح ہوتی ہے
”ڈسکشن نہیں گفتگو یا پھر تبادلہ خیال کہو۔ میرے خدا! تمہیں اردو کب آئے گی“
”میری اردو بہت ویک ہے پاپا “
“بہت سے لوگ فخر سے یہ بات کہتے ہیں ۔ انہیں انگریزی نہ جاننے پر شرمندگی ہوتی ہے لیکن اردو نہ آنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ غلامی کی نشانی ہے”
”تو کیا ہم لوگ غلام ہیں۔ انگریزی بولنے سے آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”انگریزی بولنے سے نہیں، انگریزی بول کر فخر کرنا اور اردو نہ جاننے پر شرمندگی محسوس نہ کرنا ذہنی غلامی کی نشانی ہے“
”کیا انگلش ڈریس پہننے سے بھی آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”کیوں نہیں، جب ہمارا اپنا لباس موجود ہے تو ہم انگریزوں کا لباس کیوں پہنیں۔ کیا انگریز ہمارا لباس پہنتے ہیں؟“
”پاپا ۔ آپ تو بہت کنزرویٹیو ہیں “
”نہیں بیٹا ۔ میں وہ آزاد ہوں جو غلاموں میں پیدا ہو گیا ہے“
”غلاموں کو آزاد کرنے کا کیا طریقہ ہے پاپا“
”اپنی زبان، اپنا لباس اور اپنی ثقافت اختیار کرنے سے آدمی آزاد ہو جاتا ہے“
”پھر تو ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے“
”نہیں وہ دن ضرور آئے گا۔ آج نہیں تو کل“
”ہماری آپ کی زندگی میں تو ایسا نہیں ہو سکے گا“
”نہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا مایوسی کو پسند نہیں کرتا“
تو پھر خدا ہماری Help کیوں نہیں کرتا؟”“
”جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا“
ہمیں اپنی Help خود کیسے کرنی چاہیے؟”“
”جو بات صحیح ہے، ہم اسے اختیار کرلیں، اس پر ڈٹ جائیں۔“
” It means آپ آزاد ہیں اور میں غلام ہوں۔ آزاد باپ کی غلام بیٹی”
”جس دن تم نے میری باتوں پر عمل کیا، تم بھی آزاد ہو جاؤ گی“
پاپا ۔ مجھے اسی سوسائیٹی میں Survive کرنا ہے”“
”تم عقل مند ہو، اپنی عمر سے بڑی باتیں کر لیتی ہو۔ تم چاہو تو تمہیں آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ معاشرہ بھی نہیں“
”چلیے آج سے میں انگریزی میں باتیں نہیں کروں گی“
انگریزی بولنے اور پڑھنے سے میں تمہیں منع نہیں کر رہا۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس میں سارے علوم کا خزانہ موجود ہے۔ اسے سیکھنا ضروری ہے، لیکن انگریزی کو برتر اور اردو کو کم تر سمجھنا بری بات ہے
”ابو ۔ آپ نے آج مجھے بہت اچھی باتیں بتائیں۔ میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔“
“ہاں پھر تو تم بھی آزاد ہو جاؤ گی۔ آزاد باپ کی آزاد بیٹی”

” ہونا ” اور ” سمجھنا ” ۔ بہتر کيا ؟

ميں آنکھ کی جراحی کے بعد 3 دن کمرہ بند [Room arrest] اور 4 دن گھر بند [House arrest] رہا ۔ نہ پڑھنے کی اجازت اور لکھنے کی تھی تو کيا کرتا ؟ ميں جسے بچپن سے پڑھنے اور لکھنے کی عادت ہے لمحہ بھر کيلئے سوچيئے کہ کيا حال ہوا ہو گا ميرا ؟ شکر ہے کہ دماغ پر پابندی نہ تھی ۔ چنانچہ کئی واقعات و مشاہدات پر غور جاری رہا ۔ آج ان ميں سے ايک مسئلہ جو ہر گھر [يا گھرانے] کا مسئلہ ہو سکتا ہے سپُردِ قلم کر رہا ہوں

اپنے ہموطنوں کی اکثريت کو ماہرِ نفسيات کے پاس جانے کی ضرورت ہے مگر ہمارے ہاں صرف پاگل کو يا اُسے جسے کسی مقدمہ ميں سزا ہونے سے بچانا ہو يا اُس سے جان چھڑانا ہو تو ماہرِ نفسيات کے پاس لے جاتے ہيں

صبح ناشتے کی ميز پر بيوی نے خاوند سے کہا “آج ذرا وقت پر آ جايئے گا ۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے”
خاوند بيوی کی بات ياد رکھتے ہوئے چھٹی ہوتے ہی گھر کی راہ ليتا ہے ۔ گھر ميں داخل ہوتا ہے تو بيوی گويا ہوتی ہے “ہاتھ منہ دھو کر آ جايئے ۔ چائے تيار ہے”
خاوند ہاتھ منہ دھو کر کھانے کی ميز پر پہنچتا ہے تو بيوی کھانے کی چيزوں والی طشتری آگے بڑھاتی ہے ۔ خاوند کچھ اپنی تھالی ميں رکھ ليتا ہے تو بيوی سُرعت سے پيالی ميں چائے اُنڈيل کر چينی ہلانے لگتی ہے
خاوند مُسکرا کر کہتا ہے ” کوئی وقت کا پابند ڈاکٹر لگتا ہے”
ڈاکٹر کے مطب پہنچنے پر خاوند تختی پر نظر ڈالتا جس پر تحرير ہے ماہر دماغی امراض ۔ وہ دل ہی دل ميں پريشان ہوتا ہے کہ ميری بيوی کو ايسی ضرورت کيوں پيش آئی ؟
ڈاکٹر کے پاس پہنچ کر جب خاوند اور بيوی بيٹھ جاتے ہيں تو بيوی ڈاکٹر سے مخاطب ہوتی ہے “يہ ميرے خاوند ہيں ۔ ہماری شادی کو 10 سال گذر چکے ہيں ۔ چند دنوں سے يہ عجيب سی بات کرنے لگے ہيں ۔ مجھے کہتے ہيں کہ ميں تمہيں اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
ڈاکٹر ” آپ ان کی بيوی ہيں نا ۔ تو اس ميں کيا بُرائی ہے ؟”
بيوی “ڈاکٹر صاحب ۔ آپ ميری بات نہيں سمجھ پائے ۔ ديکھيں نا ۔ يہ مجھے کہتے ہيں کہ يہ مجھے بيوی سمجھتے ہيں ۔ ميں تو ان کی بيوی ہوں پھر وہ ايسا کيوں کہتے ہيں ؟”
اسی دوران ڈاکٹر صاحب کسی کو ٹيليفون پر کہتے ہيں “آپ زيادہ مصروف تو نہيں ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذرا مطب ميں آ جايئے آپ کے مہمان آئے ہيں”
چند منٹ بعد مطب کے پچھلے دروازے سے ايک خاتون داخل ہوتی ہيں ۔ ڈاکٹر صاحب اُنہيں کرسی پر بيٹھنے کا اشارہ کر کے سامنے بيٹھے جوڑے ميں بيوی کو مخاطب کرتے ہيں ” يہ ميری بيوی ماہرِ نفسيات ہيں ۔ آپ ان سے اپنے لئے وقت لے ليجئے ”
پھر خاوند سے مخاطب ہو کر کہتے ہيں ” آپ کی بيگم صاحبہ کو نفسياتی مشورے کی ضرورت ہے”

کوئی اچھا موقع پا کر خاوند اپنی بيوی سے کہے ” ميں آپ کو اپنی بيوی سمجھتا ہوں”
اسی طرح ہر بيوی اچھا موقع پا کر اپنے خاوند سے کہے ” ميں آپ کو اپنا خاوند سمجھتی ہوں”

پھر جو جواب ملے اس سے ميرے علم ميں اضافہ فرمانا نہ بھولئے گا

اصل بات يہ ہے کہ بيوی يا خاوند ہونے کے بعد بيوی يا خاوند سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ بصورتِ ديگر مياں بيوی کے تعلقات مياں بيوی کے تمام عملی تقاضے پورے نہيں کريں گے