Daily Archives: September 20, 2011

لڑکے سو لڑکے ۔ لڑکياں سُبحان اللہ

ايک ضرب المثل سکول کے زمانہ ميں پڑھی تھی “بڑے مياں سو بڑے مياں ۔ چھوٹے مياں سُبحان اللہ”۔ آجکل ويسے تو ميرے ہموطنوں کی اکثريت کا يہ طريقہ ہے کہ قوانين پر عمل کرنا دوسروں کی ذمہ داری ہے ان کی اپنی نہيں مگر اس ميدان ميں لڑکياں بھی لڑکوں سے پيچھے نہيں ہيں ۔ بلکہ ٹريفک قوانين کے لحاظ سے دو ہاتھ آگے ہی ہيں

بروز پير 12 ستمبر 2011ء کو ميں مغرب کے بعد کسی کام سے اپنی کورے کار ميں گھر سے نکلا ۔ گلی نمبر 30 سے ہوتا ہوا ايف 8 مرکز کی طرف جا رہا تھا ۔ سيدھا مرکز ميں داخل ہونے کا راستہ بند کيا گيا ہے اسلئے جوہر روڈ پر بائيں مُڑ کر پھر داہنی طرف گھومنا تھا ۔ ميرے آگے دو گاڑياں انتظار ميں تھيں ۔ جب سامنے سے گاڑياں آنا بند ہوئيں تو ميرے آگے والی گاڑياں حرکت ميں آئيں جن کے پيچھے ميں بھی چل پڑا ۔ جب ميں داہنی طرف موڑ کاٹ چکا تھا تو ايک زور دار اور لمبا ہارن سُنا ۔ آئينہ ميں پيچھے ديکھا تو کچھ فاصلے پر ايک سياہ کرولا کار فراٹے بھرتی آ رہی تھی جبکہ وہاں حدِ رفتار 25 کلوميٹر فی گھنٹہ ہے ۔ چند لمحے بعد اُس نے ميرے داہنے ہاتھ گذرتے ہوئے ميری طرف ديکھ کر ايک بار پھر سخت غُصے ميں زور سے ہارن کے بٹن پر ہاتھ مارا اور لمبا ہارن بجا کر فراٹے بھرنے لگی ۔ وہ ايک جوان لڑکی يا عورت کار ميں اکيلی تھی

کچھ عرصہ قبل ميں ايف 10 سے اپنے گھر ايف 8 آ رہا تھا ۔ خيابانِ جناح [پرويز مشرف نے جسےجناح ايونيو بنا ديا] پر ايف 9 کے بعد بائيں جانب مُڑنے کا اشارہ دے کر مُڑنے کيلئے گاڑی آہستہ کر لی ۔ چند لمحے بعد لمبے ہارن سنائی دينے لگے ۔ ميں حيران تھا کہ ميرے داہنی طرف دو گاڑياں گذر سکتی ہيں ۔ بائيں طرف سے ايک اور ميرے داہنے يا بائيں کوئی گاڑی نہيں اور ميں نے ابھی مڑنا بھی شروع نہيں کيا تو يہ ہارن کيوں ؟ اگلے لمحے جو کار ميرے پيچھے تھی وہ ميری داہنی طرف سے گذر کر سيدھی چلی گئی اور اُس کو چلانے والی جوان عورت مجھے اپنا مُکا دکھاتی گئی ۔ وہ کار ميں اکيلی تھی

ميں کار ميں بيٹھا سڑک پر جا رہا ہوں ۔ اچانک گاڑيوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ پھر ايک لمحہ پاؤں اکسلريٹر پر دوسرے لمحہ بريک پر ۔ ميرے آگے گاڑياں ميرے بائيں گاڑياں ۔ ميرے داہنے گاڑياں ۔ سب آہستہ آہستہ آگے کو کھِسکنے لگتے ہيں ۔ پيچھے سے ايک گاڑی کے ہارن کی آواز وقفے وقفے سے شروع ہو گئی ہے اور پہلے سے تنے اعصاب پر بھاری محسوس ہونے لگی ہے ۔ يا اللہ يہ کيا ہے ؟ کوئی ہارن کو ہارمونيم سمجھ کر بجا رہا ہے کيا ؟ بيزار دل کے ساتھ آئينے ميں ديکھتا ہوں ۔ ميری کار سے پچھلی کار ميں ايک جوان لڑکی يا عورت نے ہارن پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ چہرے پر غُصہ ہے ۔ اُس کی کار ميں اور کوئی سوار نہيں ہے

ميں سوچتا رہ گيا کہ کيا يہ دنيا مردوں کی ہے ؟