لڑکے سو لڑکے ۔ لڑکياں سُبحان اللہ

ايک ضرب المثل سکول کے زمانہ ميں پڑھی تھی “بڑے مياں سو بڑے مياں ۔ چھوٹے مياں سُبحان اللہ”۔ آجکل ويسے تو ميرے ہموطنوں کی اکثريت کا يہ طريقہ ہے کہ قوانين پر عمل کرنا دوسروں کی ذمہ داری ہے ان کی اپنی نہيں مگر اس ميدان ميں لڑکياں بھی لڑکوں سے پيچھے نہيں ہيں ۔ بلکہ ٹريفک قوانين کے لحاظ سے دو ہاتھ آگے ہی ہيں

بروز پير 12 ستمبر 2011ء کو ميں مغرب کے بعد کسی کام سے اپنی کورے کار ميں گھر سے نکلا ۔ گلی نمبر 30 سے ہوتا ہوا ايف 8 مرکز کی طرف جا رہا تھا ۔ سيدھا مرکز ميں داخل ہونے کا راستہ بند کيا گيا ہے اسلئے جوہر روڈ پر بائيں مُڑ کر پھر داہنی طرف گھومنا تھا ۔ ميرے آگے دو گاڑياں انتظار ميں تھيں ۔ جب سامنے سے گاڑياں آنا بند ہوئيں تو ميرے آگے والی گاڑياں حرکت ميں آئيں جن کے پيچھے ميں بھی چل پڑا ۔ جب ميں داہنی طرف موڑ کاٹ چکا تھا تو ايک زور دار اور لمبا ہارن سُنا ۔ آئينہ ميں پيچھے ديکھا تو کچھ فاصلے پر ايک سياہ کرولا کار فراٹے بھرتی آ رہی تھی جبکہ وہاں حدِ رفتار 25 کلوميٹر فی گھنٹہ ہے ۔ چند لمحے بعد اُس نے ميرے داہنے ہاتھ گذرتے ہوئے ميری طرف ديکھ کر ايک بار پھر سخت غُصے ميں زور سے ہارن کے بٹن پر ہاتھ مارا اور لمبا ہارن بجا کر فراٹے بھرنے لگی ۔ وہ ايک جوان لڑکی يا عورت کار ميں اکيلی تھی

کچھ عرصہ قبل ميں ايف 10 سے اپنے گھر ايف 8 آ رہا تھا ۔ خيابانِ جناح [پرويز مشرف نے جسےجناح ايونيو بنا ديا] پر ايف 9 کے بعد بائيں جانب مُڑنے کا اشارہ دے کر مُڑنے کيلئے گاڑی آہستہ کر لی ۔ چند لمحے بعد لمبے ہارن سنائی دينے لگے ۔ ميں حيران تھا کہ ميرے داہنی طرف دو گاڑياں گذر سکتی ہيں ۔ بائيں طرف سے ايک اور ميرے داہنے يا بائيں کوئی گاڑی نہيں اور ميں نے ابھی مڑنا بھی شروع نہيں کيا تو يہ ہارن کيوں ؟ اگلے لمحے جو کار ميرے پيچھے تھی وہ ميری داہنی طرف سے گذر کر سيدھی چلی گئی اور اُس کو چلانے والی جوان عورت مجھے اپنا مُکا دکھاتی گئی ۔ وہ کار ميں اکيلی تھی

ميں کار ميں بيٹھا سڑک پر جا رہا ہوں ۔ اچانک گاڑيوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ پھر ايک لمحہ پاؤں اکسلريٹر پر دوسرے لمحہ بريک پر ۔ ميرے آگے گاڑياں ميرے بائيں گاڑياں ۔ ميرے داہنے گاڑياں ۔ سب آہستہ آہستہ آگے کو کھِسکنے لگتے ہيں ۔ پيچھے سے ايک گاڑی کے ہارن کی آواز وقفے وقفے سے شروع ہو گئی ہے اور پہلے سے تنے اعصاب پر بھاری محسوس ہونے لگی ہے ۔ يا اللہ يہ کيا ہے ؟ کوئی ہارن کو ہارمونيم سمجھ کر بجا رہا ہے کيا ؟ بيزار دل کے ساتھ آئينے ميں ديکھتا ہوں ۔ ميری کار سے پچھلی کار ميں ايک جوان لڑکی يا عورت نے ہارن پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ چہرے پر غُصہ ہے ۔ اُس کی کار ميں اور کوئی سوار نہيں ہے

ميں سوچتا رہ گيا کہ کيا يہ دنيا مردوں کی ہے ؟

This entry was posted in آپ بيتی, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

12 thoughts on “لڑکے سو لڑکے ۔ لڑکياں سُبحان اللہ

  1. پاک گلیکسی

    حضرت لڑکیوں یا جوان عورتوں کے آگے آپ ہی کی گاڑی کیوں ہوتی ہے؟کبھی کسی لڑکی یا جوان عورت کی گاڑی کے پیچھے گاڑی رکھیں تو نا ہارن کا مسئلہ ہو گا اور نا ہی راستہ نہ ملنے کا۔

  2. انکل ٹام

    اجمل چاچا میں تو یہ ہی سمجھا ہوں کہ آج کے دور میں صرف وہی کامیاب ہے جو روتا رہے ساتھ مین دوسرے کو مارتا رہے پھر روتا رہے کہ مجھے مار پڑتی ہے مجھے حقوق نی ملتے ۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    پاک گليکسی کۓ شاہکار صاحب
    جناب ميری گاڑی لڑکی يا عورت کی گاڑی کے آگے نہيں آتی بللکہ وہ کہيں سے آ دھمکتی ہيں تو رعب جماتنے کی کوشش کرتی ہيں ۔ ميں نہ خود کبھی کسی لڑکی کے پيچھے گيا ہوں اور نہ ميری گاڑی جاتی ہے ۔ اگر اتفاقيہ طور پر کسی لڑکی کی گاڑی کے پيچھے ميری گاڑی آ جائے تو ميں بريک لگا کر کسی اور گاڑی کو درميان ميں آنے کی جگہ دے ديتا ہوں ۔ کيونکہ گھوڑے کی طرح اس کی اگاڑی بُری اور پچھاڑی بھی بُری

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    شعيب صاحب
    يہ نئی سوچ کی نئی باتيں ہيں اور ميں پرانا آدمی ہوں ۔ ميں نے جس مُلک ميں کار چلانا سيکھا تھا وہاں ہارن بجانہ گالی دينے کے برابر سمجھا جاتا تھا اور ميں گالی دينا پسند نہيں کرتا

  5. بدتمیز

    آپ شریف بندے ہیں۔ امریکہ میں‌ بھی بڑے شہروں میں ایسے خبیث موجود ہوتے ہیں۔ میں ہمیشہ ہارن بجانے والے کے آگے گاڑی روک کر شیشے سے ہاتھ نکال کر پوچھتا ہوں کہ کیا مسئلہ ہے۔ اگر پچھلے کو عقل آ جائے اور دوبارہ ہارن نہ مارے تو میں گاڑی آگے بڑھاتا ہوں‌ورنہ ادھر اس وقت تک رکا رہتا ہوں جب تک اس کا ہارن بند نہ ہو جائے۔
    پاکستان میں میرے چچا ہارن والے کو رستہ دے کر اس کے پیچھے گاڑی لگا کر اس وقت تک ہارن دیتے رہتے ہیں جب تک وہ گھبرا کر کسی گلی میں مڑ نہ جائے۔ :twisted:

  6. ڈاکٹر جواد احمد خان

    واقعی یہ ایک عجیب سا رویہ ہے جو میں نے محسوس کیا ہے خواتین ڈرائیورز میں۔۔۔۔
    ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین ڈرائیورز نے اپنے خوف کو جارحانہ رویہ سے بدل دیا ہے :lol:
    پچھلی بار چھٹیوں میں ، اپنے بیٹے کے ساتھ کے ایف سی گیا موٹر سائیکل پر۔۔۔۔ واپسی پر دیکھا کہ ایک کرولا میری موٹرسائیکل کے سامنے کھڑی ہے اور دو نوجوان خواتین خونی نگاہوں سے مجھے اپنی بائیک کا لاک کھولتے دیکھ رہی ہیں۔ غالباََ انہیں یہ غصہ تھا کہ انکی کرولا کا راستہ میں نے روک دیا ہے۔ مجھے سمجھ میں انکا التفات نہیں آیا کیونکہ جب میں آیا تو کرولا نہیں تھی۔ اور مجھے واپسی میں بھی 5 منٹ سے زیادہ نہیں لگے اور سب سے مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ کرولا کے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی۔ خاتون چاہتیں تو بہت آرام سے ریورس کرکے گاڑی نکال سکتی تھیں۔ :)
    ابھی میں لاک کھول ہی رہا تھا کہ شدید غصہ کے عالم میں خاتون نے زور زور سے ہارن دینا شروع کردیا ۔ میں ہارن کو شدید ضرورت کے تحت بجانے پر یقین رکھتا ہوں اور بلا وجہ ہارن بجانے کو اپنی اور سامنے والے کی توہین سمجھتا ہوں۔ اب جب خاتون نے ہارن بجانا شروع کیا تو میرے اندر کا کمینہ انسان جاگ گیا۔۔۔
    میںسب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بائیک کی سیٹ پر خاتون کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور ایک نہایت کمینی اور اوباش قسم کی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا لی :twisted: ۔۔۔جسے دیکھ کر وہ خاتون نروس ہوگئیں اور گاڑی ریورس کرکے نکال کر لے گئیں۔
    اور سب ھنسی خوشی اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔۔۔۔ دی اینڈ :-D

  7. Pingback: لڑکے سو لڑکے ۔ لڑکياں سُبحان اللہ | Tea Break

  8. دوست

    افتخار اجمل صاحب آپ شرافت کی وجہ سے مار کھا جاتے ہیں ورنہ بدتمیز اور ڈاکٹر جواد صاحب کے تبصروں سے یہ مسئلہ، مسئلہ نہیں رہتا۔ :-D :-D :-D

  9. انکل ٹام

    جواد بھإی ، اگر میں مسکراہٹ سجاوں تو میرے پیلے پیلے دانتوں کے درمیاں ایک کالا کیڑا کھایا ہوا بھی نظر آے گا ۔ یہ بتائیے کہ میرے جیسے شریف النفس انسان کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے ۔ :mrgreen:

  10. درویش خُراسانی

    انکل ٹام بھائی۔۔۔ اوہ سوری چچا

    آپ اپنے اس کالے دانت کو چونا یا سفید پینٹ بھی لگا سکتے ہیں، نہیں تو ایمرجنسی میں سفید سلوشن ٹیپ کا استعمال بھی مفید ہے۔

    افتخار انکل
    نہ اتنا میٹھا بننا ہے کہ لوگ کھا جائیں اور نا ہی اتنا کڑوا کہ لوگ پھینک دیں،ان جیسی خواتین کو سبق سکھانا کوئی بڑا مسئلہ تو نہیں ۔معمولی غصہ اگر دکھایا جائے تو انکی سیٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.