Monthly Archives: August 2011

عيد الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر
سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے
اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین

ابراھيم نے يومِ آزادی کيسے منايا ؟

ميرے پيارے پوتے ابراھيم کی عمر 14 اگست 2011ء کو 2 سال 3 ہفتے ہوئی ۔ ابراھيم ماشاء اللہ بہت پيارا اور دوستی بنانے والا بچہ ہے ۔ اُس نے دبئی ميں اپنے مُلک پاکستان کا يومِ آزادی کچھ اس طرح منايا

خالص پاکستانی لباس پہنا

ابراھيم يا اس کی عمر کا ہر بچہ سالگرہ کا مطلب اتنا جانتا ہے کہ اُس دن ايک کيک کاٹا جاتا ہے
ابراھيم کو جب بتايا گيا کہ پاکستان کی سالگرہ ہے تو کيک ہونا ضروری ٹھہرا

سالگرہ کا کيک کاٹ کر تالياں بجائی جاتی ہيں اور سالگرہ مبارک کہا جاتا ہے مگر يومِ آزادی پر کيک کاٹنے سے پہلے ابراھيم نے ” پاکستان زندہ باد ” کا نعرہ پورے جوش سے لگايا

19 اگست سے ابراھيم اور اُس کے والدين ہمارے پاس اسلام آباد ميں ہيں ۔ عيد کے بعد واپس دبئی جائيں گے ۔ آجکل ابراھيم کی توجہ کا مرکز دادا ۔ دادی اور پھوپھو ہيں ۔ اسلئے ہر وقت دادا ۔ دادو اور پھوپھو کی گردان ہوتی رہتی ہے

جب ابراھيم 19 اگست کو پہنچا تو دادی کو بستر پر بے حال ليٹا ديکھ کر اُس کے قريب کم ہی جاتا تھا ۔ چند دن سے ابراھيم کی دادی نے بيٹھنا شروع کيا ہے تو ابراھيم بہت جوش و خروش ميں ہے

ہمارے پاس پلاسٹک کی کرسياں ہيں ۔ ايک ايک کر کے گھسيٹ لاتا ہے اور دادی کے بستر کے پاس پہلی رکھ کر کہتا ہے ” دادا کرسی ۔ دادا بيٹھيں”۔ دوسری لاکر کہتا ہے ” ابراھيم کرسی اور خود بيٹھ جاتا ہے”

جہاں ميرا موبائل فون ۔ تسبيح يا عينک پڑے ديکھتا ہے اُٹھا کر ميرے پاس پہنچ جاتا ہے اور ميرے ہاتھ ميں ديتے ہوئے کہتا ہے “دادا فون يا دادا تسبيح” ۔ عينک کہنا نہيں جانتا تو کہتا ہے ” دادا يہ”

کلمہ گو ۔ يا ۔ مسلمان

زندگی ميں بارہا بار يہ فقرہ سُننے ميں آيا “ميں کلمہ گو ہوں” يا “ميں مسلمان ہوں”

ہاں ۔ کلمہ [دِل سے] پڑھا جائے تو آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ۔ مگر بات يہاں ختم نہيں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے

کلمہ اسی طرح ہے جيسے بچہ سکول ميں داخل ہونے کيلئے ابتدائی لوازمات پورے کر لے ۔ سکول میں داخل ہونے کے بعد اصل مرحلہ شروع ہوتا ہے ۔ پڑھنا لکھنا سيکھا جاتا ہے ۔ کچھ یاد کيا جاتا ہے ۔ کئی امتحانات دیئے جاتے ہيں ۔ 10 سال کی محنت کے بعد میٹرک پاس کی سند ملتی ہے

میٹرک کی بنیاد پر پيٹ پالنے کيلئے شايد ہی کوئی ملازمت ملے چنانچہ مزيد پڑھا اور ياد کيا جاتا ہے اور اسے جاننے کے ثبوت کے طور پر امتحانات دے کر اِن ميں کاميابی حاصل کی جاتی ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے جاتے ہيں اور بعض اوقات رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو جاتا ہے ۔ پھر کہيں جا کر ايک خاندان پالنے کيلئے مناسب ملازمت کی توقع بنتی ہے ۔ مگر ملازمت حاصل کرنا بھی کوئی آسان کام نہيں ہوتا ۔ ملازمت مل جانے کے بعد بھی محنت جاری رکھنا پڑتی ہے اور ڈانٹيں بھی برداشت کرنا پڑتی ہيں

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ بھی يہ سمجھا جائے کہ والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور جنت کا حقدار بھی چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کرے ۔ سچ نہ بولے ۔ انصاف نہ کرے ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کرے ۔ دوسروں کا حق مارے ۔ ظُلم کرے ۔ وغيرہ

افسوس کہ ہمارے ہاں عام طور پر کچھ ايسا ہی عقيدہ پايا جاتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خيال ہے کہ مسلمان تھوڑی سزا کے بعد جنت ميں چلے جائيں گے

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ جسے معبود مان ليا اُس کا ہر فرمان کے مطابق حاضر دماغی کے ساتھ عمل فرض بن جاتا ہے ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے ناول پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ؟

مسلمان کون ہوتا ہے ؟ اس کی تشريح قرآن شريف ميں جا بجا موجود ہے ۔ اختصار کی خاطر قرآن شريف کے صرف وہ حوالے جہاں مسلمان کے کچھ اوصاف اکٹھے رقم کئے گئے ہيں

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آيت ۔ 36 ۔ اور اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک و احسان کرو اور رشتہ داروں سے اور یتیموں سے اور مسکینوں سے اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھی سے اور راہ کے مسافر سے اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (غلام، کنیز) ۔ یقیناً اللہ تعالٰی تکبّر کرنے والے اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا

سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آيت ۔ 112 ۔ وہ ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے (یا راہ حق میں سفر کرنے والے) رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کی تعلیم کرنے والے اور بری باتوں سے باز رکھنے والے اور اللہ کی حدوں کا خیال رکھنے والے ۔ اور ایسے مومنین کو خوشخبری سنا دیجئے ‏

سورت ۔ 23 ۔ المؤمنون ۔ آيات ۔ 1 تا 9 ۔ یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کر لی ۔ جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں ۔ جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔ جو زکوۃ ادا کرنے والے ہیں ۔ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں ۔ جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کر جانے والے ہیں ۔ جو اپنی امانتوں اور وعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں

علامہ اقبال نے سچ کہا ہے

زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

روزے کا تقاضہ قسط 3 ۔ برتاؤ يا طرزِ عمل

سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آيت ۔ 36 ۔ اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا ‏

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيات ۔ 26 تا 29 ۔ اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے
اور اگر تم اپنے پروردگار کی رحمت (یعنی فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تمہیں امید ہو ان (مستحقین) کی طرف توجہ نہ کر سکو تو ان سے نرمی سے بات کہہ دیا کرو اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کر لو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو) تو ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔

سورت ۔ 17 ۔ بنیٓ اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 53 ۔ اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) ان میں فساد ڈلوا دیتا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ ‏

سورت ۔ 24 ۔ النّور ۔ آيت ۔ 30 و 31 ۔ مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ انکے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے (اور) جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ ان سے خبردار ہے اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش ( کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈیوں غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (چھنکار کی آواز کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور (مومنو!) سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت ۔ 6 ۔ پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اور مہاجرین سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو (تو اور بات ہے) یہ حکم کتاب (یعنی قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آيت ۔ 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 42 ۔ الشّورٰی ۔ آيت ۔ 38 ۔ اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں

سورت ۔ 42 ۔ الشّورٰی ۔ آيت ۔ 40 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کر دے تو اسکا بدلہ خدا کے ذمے ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

سورت ۔ 46 ۔ الاحقاف ۔ آيت ۔ 15 ۔ اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اسکو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار ! مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں انکا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح (و تقوٰی) دے میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں

سورت ۔ 60 ۔ ممتحنہ ۔ آيت ۔ 8 ۔ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے خدا تم کو منع نہیں کرتا خدا تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ‏

روزے کا تقاضہ قسط 2 ۔ رويّہ

ميں نے اس سلسلہ ميں پچھلی تحرير 17 اگست کو لکھی تھی ۔ آج کی تحرير شائع کرنے ميں 2 دن کی تاخير بحالتِ مجبوری ہو گئی ہے . پچھلے 2 دن يعنی ہفتہ اور اتوار بھی سختی کے رہے ۔ بيگم کی طبيعت بہت خراب رہی ۔ اتوار کو اسعاف [Ambulence] بُلا کر ہسپتال ليجانا پڑا ۔ اللہ ہماری خطائيں معاف کرے اور ہميں ہر امتحان ميں پورا اُترنے کی توفيق عطا فرمائے

اعتدال

اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے اس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی ہے (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے[سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 143]

اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ اسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے [سورت ۔25 ۔ الفرقان ۔ آيت 67]

غرور

تاکہ تم اپنے فوت شدہ کسی چیز پر رنجیدہ نہ ہو جایا کرو اور نہ عطا کردہ چیز پر گھمنڈ میں آجاؤ اور گھمنڈ اور شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا [سورت ۔ 57 ۔ حديد ۔ آيت 23]

اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اسکے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبّر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا [سورت ۔ 4 ۔ النِّساء ۔ آيت 36]

اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دیں [سورت ۔ 93 ۔ ضحٰی ۔ آيت 10]

مذاق اُڑانا

مومنو ۔ کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد بُرا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں [سورت ۔ 49 ۔ الحُجرات ۔ آيت 11]

عيب جوئی

بڑی خرابی ہے ہر ایسے شخص کی جو عیب ٹٹولنے والا غیبت کرنے والا ہو [سورت 104 ۔ الھُمَزہ ۔ آيت 1]

خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو اور خدا سب کچھ سنتا اور جانتا ہے [سورت ۔ 4 ۔ النِّساء ۔ آيت 148]

اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ ہیں اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم کسی کی غیبت کرو ۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ؟ تم کو اس سے گھن آئے گی اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [سورت ۔ 49 ۔ حُجرات ۔ آيت 12]

مزاج

اور کبیرہ گناہوں سے اور بےحیائیوں سے بچتے ہیں اور غصے کے وقت (بھی) معاف کر دیتے ہیں [سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آيت 37]‏

اللہ ہميں قرآن شريف کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے تاکہ ہم مسلمان بن سکيں آمين يا رب العالمين

پريشانی ۔ پھر گھر ميں رونق

ميری بيگم کی طبيعت چند دن کچھ سنبھی تو روبصحت ہونے کی اُميد بندھی تھی ۔ بُدھ بتاريخ 17 اگست 2011ء طبعيت پھر زيادہ خراب ہونا شروع ہوئی اور جمعرات کی صبح بہت زيادہ خراب ہو گئی ۔ ساڑھے 9 بجے بمُشکل کار ميں ڈالا اور ہسپتال کی طرف بھاگا جہاں 10 بجے آئی سی يو ميں داخل کر کے ہارٹ اور بلڈ پريشر مَونيٹر اور آکسيجن لگا دی گئی ۔ بيٹی کو ٹيليفون پر اطلاع دی ۔ وہ دفتر سے چھٹی کر کے پہنچ گئی

ہسپتال ميں مختلف دوائياں ڈرِپ کے ذريعہ دی جانے لگيں مُختلف ٹيسٹ کئے گئے ۔ 4 بجے بعد دوپہر ڈاکٹر سے اجازت لے کر واپس گھر لوٹے ۔ 8 ہفتوں ميں يہ چھٹی بار تھی جن ميں سے ايک بار 50 گھنٹے ہسپتال ميں رہی تھيں ۔ آئی سی يو ميں 1500 روپے فی گھنٹہ کے ساتھ ڈاکٹر کے ہر پھيرے کا 1000 روپيہ ۔ دوائيوں اور ٹيسٹوں کا خرچ الگ ہونے کی وجہ سے جب طبيعت کچھ سنبھل جائے تو ڈاکٹر گھر جانے کی اجازت دے ديتے ہيں

اس بار خيال کيا گيا کہ شايد دوائيوں کا ردِ عمل ہوا ہے جو 6 اگست کو پرانی بند کر کے نئی دی گئی تھيں چنانچہ وہ دوائياں بند کر کے کچھ نئی تجويز کی گئی ہيں ۔ ہميں پرائيويٹ ہسپتال ميں اسلئے جانا پڑ رہا ہے کہ سرکاری ہسپتال ميں اتنے زيادہ مريض ہوتے ہيں کہ علاج ميں تاخير کے سبب مريض کی حالت قابو سے باہر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اللہ سب پر اپنا کرم کرے

ميں نے بيگم کے يومِ پيدائش پر دعا کی درخواست کی تھی اور اللہ کی مہربانی سے بہت سے قارئين نے نيک دعاؤں سے نواز کر مجھے احسانمند کيا تھا

گھر ميں رونق

جمعہ 19 اگست 2011ء کو ميرا چھوٹا بيٹا ” فوزی ” مع ميری چھوٹی بہو بيٹی اور ميرے پيارے پوتے ” ابراھيم ” کے صبح سويرے دبئی سے اسلام آباد ہمارے پاس پہنچ گئے اور اِن شااللہ عيدالفطر کے بعد واپس جائيں گے ۔ ماشاء اللہ گھر ميں بہت رونق ہو گئی ہے

ابراھيم اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھو کے پاس آ کر بہت خوش ہے ۔ ابراھيم کی عمر 2 سال 3 ہفتے ہے اور کوئی کوئی لفظ بولتا ہے مگر دادا ۔ دادو ۔ پھوپھو ۔ نانا ۔ نانی ۔ ماموں اُس نے بہت جلد سيکھ ليا تھا ۔ ماشاء اللہ خوش مزاج بچہ ہے ۔ سب کا دوست ۔ مگر دادا کے ساتھ دوستی کچھ زيادہ ہے ۔ مجھے اِدھر اُدھر ہونے نہيں ديتا ۔ يہ فجر کی نماز کے بعد کا وقت ہے اور ابراھيم سويا ہوا ہے ورنہ ميں يہ لکھ نہ سکتا

بيگم اس متواتر سمجھ ميں نہ آنے والی بيماری اور پے در پے شديد حملوں کی وجہ سے بہت کمزور ہو چکی ہيں ۔ اُميد ہے کہ پوتے کی موجودگی اور پوتے کے دادی سے پيار کے نتيجہ ميں بيگم کی صحت پر اچھا اثر پڑے گا ۔ اللہ اپنا کرم فرماتے ہوئے انہيں جلد مکمل شفا اور تندرستی عطا فرمائے آمين

روزے کا تقاضہ قسط 1 ۔ پرہيز لازم

کچھ قارئين نے فرمائش کی تھی کہ ميں اس ماہِ مبارک سے استفادہ حاصل کروں ۔ ميں ان کا مشکُور ہوں کہ انہوں نے مجھ سے اچھی بات کی توقع کی ۔ ميں نے “روضہ يا فاقہ” کے عنوان سے اس سلسلہ کا آغا کر ديا تھا البتہ معذرت خواہ ہوں کہ ذاتی مجبوريوں کے باعث مزيد لکھنے ميں تاخير ہو گئی ہے

وطن عزيز ميں عام تاءثر پايا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھ لئے تو فرض پورا ہو گيا ۔ صورتِ حال اتنی آسان نہيں ہے ۔ ويسے تو مُسلمان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال اور ہر لمحے ميں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے احکام کی تعميل کرے اور اُس کی خوشنودی کو مدِ نطر رکھے مگر روزے کے ساتھ اس کا اہتمام زيادہ اہميت اختيار کر جاتا ہے

ميں اِن شاء اللہ اپنی طرف سے يا اپنے الفاظ ميں لکھنے کی بجائے اللہ الرحمٰن الرحيم الکريم جو قادر اور مالک بھی ہے کے فرمان ہی کا ترجمہ بيان کرنے کی سعی کروں گا ۔ مطالعہ کا فہم بڑھانے اور اس کا بوجھ کم رکھنے کيلئے اسے چند اقساط ميں کچھ عنوانات کے تحت بيان کرنے کوشش کی جائے گی ۔ اللہ مجھے توفيق عطا فرمائے آمين ثم آمين

پرہيز کيجئے ۔ بچيئے

اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو۔ یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔ اور ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو۔ ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہو اور خدا کے عہد کو پُورا کرو۔ ان باتوں کا خدا تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو [سورت ۔6 ۔ الانعام ۔ آيت ۔152]

اور جس چیز کا تجھے عِلم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب سے ضرور باز پرس ہوگی۔ [سورت ۔ 17 ۔ بنی اسراءيل يا الاِسراء ۔ آيت36] ‏

اے اہل ایمان ۔ بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [سورت 49 ۔ الحجرات ۔ آيت ۔ 12]

جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں بیشک تمہارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے وہ تم کو خوب جانتا ہے جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے تو اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ جو پرہیزگار ہے وہ اس سے خوب واقف ہے [سورت ۔ 53 ۔ النم ۔ آيت 32]