Monthly Archives: July 2011

معمل میں عاملِ بے عمل

ایک دلچسپ واقعہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی ۔ 1984ء کاواقعہ ہے۔ میں غلام اسحاق خان صاحب، صاحبزادہ یعقوب خان ، ایچ یو بیگ صاحب اور جنرل عارف کے ساتھ پنسٹیک [PINSTECH] میں میٹنگ میں حصہ لینے گیا۔ میٹنگ کے بعد ہمیں نیو لیبز [New Labs] کا دورہ کرایا گیا وہاں ہاٹ لیب [Hot Lab] تھی جہاں تابکار اشیاء کا استعمال ہوتا تھا اور حفاظتی شیشے کے اندر ایسی اشیاء رکھی ہوئی تھیں اور باہر سے ایک مینوپلیٹر [Manipulator] کے ذریعے ان اشیاء کو ہلایا جا سکتا تھا ۔ یہ آلہ بس آپ پُتلی کے کھیل کی طرح سمجھ لیں جس میں ڈوریوں کی مدد سے پتلی کو نچایا جاتا ہے جبکہ اس آلہ میں دونوں ہاتھوں میں گرفت ہوتی ہے جن کی مدد سے شیشے کے پیچھے اندر کرین کی طرح اشیاء کو پکڑا جا سکتا ہے اور جائے مقررہ پر رکھا جا سکتا ہے ۔

غلام اسحاق خان صاحب نے اس محکمہ کے سربراہ سے کہا کہ وہ ذرا اس کو چلا کر دکھا دیں ۔ ان صاحب کا رنگ زرد ہو گیا اور کہا کہ وہ نہیں جانتے اور ٹیکنیشن جو یہ کام جانتا ہے اس کو آج آنے سے منع کر دیا تھا۔ غلام اسحاق خان صاحب ششدر رہ گئے اور مسکرا کر کہا کہ انہوں نے لاتعداد مرتبہ کہوٹہ میں ورکشاپوں کا دورہ کیا ہے وہاں تو محکمے کا سربراہ اپنے محکمے کے تمام آلات استعمال کر سکتا ہے۔ یہ میں نے پہلے دن سے ہی ہدایت کی تھی کہ محکمے کے سربراہ کا اپنے محکمے کے آلات سے پوری طرح واقف ہونا لازمی ہے۔تمام سائنسدانوں اور انجینئروں سے درخواست ہے اور نصیحت ہے کہ وہ اپنے محکمے میں استعمال ہونے والے آلات و ایکوپمینٹ سے پوری طرح آگاہی حاصل کریں اور اپنے ماتحتوں اور ساتھیوں کی نگاہ میں باوقار اور باعزت رہیں۔ آپ کی عزت جب ہی ہوتی ہے جب دوسروں کو علم ہو کہ آپ اپنے کام سے پوری طرح واقف ہیں اور ان کی رہنمائی کر سکتے ہیں

قسمت اور قانون

آج سے 17 سال 4 ماہ قبل 23 مارچ 1994ء کا واقعہ ہے کہ ايک امريکی رونلڈ اَوپس نے دِل شِکنی سے مغلوب ہو کر خود کُشی کا فيصلہ کيا جس کا واضح اظہار اُس کے چھوڑے ہوئے خط ميں تھا ۔ اُس نے ايک 10 منزلہ عمارت کی چھت سے چھلانگ لگائی ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے رونلڈ اَوپس نے غور نہ کيا کہ آٹھويں منزل سے نيچے عمارتی کام ہو رہا ہے اور ايک مضبوط جال لگايا گيا ہے کہ کوئی مزدور گر کر زخمی يا ہلاک نہ ہو

مزدوروں نے ديکھا کہ ايک آدمی اُوپر سے جال پر سر کے بل گرا ۔ وہ اُسے اُٹھا کر ہسپتال لے گئے جہاں اُسے مردہ بتايا گيا ۔ پوليس کے ڈاکٹر نے لاش کا معائنہ کرکے بتايا کہ اس کی موت سر ميں بندوق کی گولی لگنے سے ہوئی ہے

عمارت کی کھڑکيوں کا معائنہ کرنے پر پوليس نے ديکھا کہ نويں منزل پر ايک کھڑکی کا شيشہ گولی لگنے سے ٹوٹا ہوا ہے ۔ گولی چلنے والے کمرے ميں بوڑھے مياں بيوی رہتے تھے ۔ وقوعہ کے وقت وہ آپس ميں جھگڑ رہے تھے ۔ خاوند کے ہاتھ ميں بندوق تھی اور وہ بيوی کو مارنے کی دھمکی دے رہا تھا ۔ انہوں نے بتايا کہ يہ جھگڑا اُن کا آئے دن کا معمول ہے اور وہ اسی طرح اپنی بيوی کو دھمکی ديتا ہے اور بندوق کا گھوڑا بھی دبا ديتا ہے کيونکہ بندوق ميں کوئی کارتوس نہيں ہوتا ۔ مگر اس دن انہيں ٹھا کی آواز آئی جس پر وہ بھی حيران تھے

ہوا يہ تھا کہ بندوق سے درست نشانہ تو ليا نہیں گيا تھا اسلئے گولی اُس کی بيوی کو لگنے کی بجائے کھڑکی کا شيشہ توڑتی ہوئی رونلڈ اَوپس کے سر ميں پيوست ہو گئی ۔ اس طرح اس بوڑھے پر قتل کا مقدمہ بن گيا ۔ مقدمہ کے دوران مياں بيوی کا اٹل مؤقف تھا کہ اُنہوں نے کبھی بندوق ميں کارتوس نہيں ڈالے اور اُن کے عِلم ميں نہيں کہ بندوق ميں کارتوس کہاں سے آ گيا ۔ اس لئے رونلڈ اَوپس کی ہلاکت صرف ايک حادثہ ہے

قسمت کا چکر

پوليس نے تفتيش جاری رکھی ۔ اتفاق سے پوليس کو ايک ايسا آدمی ملا جس نے بتايا کہ اُس نے وقوعہ سے چند روز قبل بوڑھے جوڑے کے بيٹے کو بندوق ميں کاتوس ڈالتے ديکھا تھا ۔ اس بوڑھےجوڑے کا بيٹا رونلڈ اَوپس ہی تھا ۔ مزيد تفتيش سے معلوم ہوا کہ ماں نے اپنے بيٹے کی مالی امداد بند کر دی تھی ۔ بيٹا اپنے باپ کی عادت جانتا تھا کہ جب اُس کے ماں باپ جھگڑتے ہيں تو باپ خالی بندوق کی نالی اُس کی ماں کی طرف کر کے ہلاک کرنے کی اداکاری کرتا ہے ۔ وہ اپنی ماں سے بدزن تھا اور اسے ہلاک کرنے کيلئے اُس نے بندوق ميں کارتوس ڈال ديا کہ جب اُس کا باپ اگلی بار جھگڑے گا تو اس کی ماں ہلاک ہو جائے گی ۔ ليکن ايسا نہ ہوا

جب رونلڈ اَوپس نے خود کُشی کے لئے دسويں منزل سے چھلانگ لگائی تو اُسے معلوم نہ تھا کہ آٹھويں منزل پر مضبوط جال لگا ہے ۔ اگر وہ گولی سے ہلاک نہ ہوتا تو زندہ بچ جاتا ۔ دوسری صورت ميں اگر خودکشی کيلئے چھلانگ لگانے کے وقت رونلڈ اَوپس کے والدين کا جھگڑا نہ ہوتا يا نشانہ خطا نہ جاتا پھر بھی رونلڈ اَوپس زندہ رہتا

قانون

رونلڈ اَوپس نے اپنی والدہ کو قتل کرنے کی نيت سے بندوق ميں کارتوس ڈالا تھا ۔ اُس کی والدہ تو ہلاک نہ ہوئی وہ خود ہلاک ہو گيا ۔ قانون کے مطابق اگرچہ رونلڈ اَوپس نے اپنی ماں کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی مگر گولی ماں کی بجائے خود اُسے لگی اور وہ ہلاک ہو گيا ۔ چنانچہ اس کيس کو خود کُشی قرار ديا گيا

قومی حميت ابھی باقی ہے

خواجہ الطاف حسين حالی صاحب کے مندرجہ ذيل اشعار ميں نے بہت پہلے نقل کر کے مسؤدہ محفوظ کيا اور شائع کرنے کی فہرست ميں لگا ديا تھا ۔ ان کو شائع کرنے کی تاريخ آئی تو بلا وجہ خيال ہوا کہ ملتوی کيا جائے ۔ اس طرح دو بار ملتوی کيا اور بات مہينوں پر جا پڑی

پچھلے ہفتے ان کو شائع کرنے کی حتمی تاريخ 27 جولائی 2011ء مقرر کر دی ۔ سُبحان اللہ ۔ اللہ کا کرنا ديکھيئے کہ آج کا دن ان کيلئے ميرے خالق و مالک نے مُلک ميں وقوع پذير ہونے والے واقعات کے حوالے سے موزوں بنا ديا ہے ۔ سُبحان اللہ

نہیں قوم میں گرچہ کچھ جان باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ نہ اس میں وہ اسلام کی شان باقی
نہ وہ جاہ وحشمت کے سامان باقی ۔ ۔ ۔ پر اس حال میں بھی ہے اک آن باقی
بگڑنے کا گو ان کے وقت آگیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس بگڑنے میں بھی اک ادا ہے
بہت ہیں ابھی جن میں غیرت ہے باقی ۔ ۔ ۔ ۔ دلیری نہیں پر حمیت ہے باقی
فقیری میں بھی بوئے ثروت ہے باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ تہی دست ہیں پر مروت ہے باقی
مٹے پر بھی پندار ہستی وہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکاں گرم ہے آگ گو بجھ گئی ہے

سمجھتے ہیں عزت کو دولت سے بہتر ۔ ۔ ۔ فقیری کو ذات کی شہرت سے بہتر
گلیمِ قناعت کو ثروت سے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ انہیں موت ہے بارِ منت سے بہتر
سر ان کا نہیں در بدر جھکنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ خود پست ہیں پر نگاہیں ہیں بالا
مشابہ ہے قوم اس مریضِ جواں سے ۔ کیا ضعف نے جس کو مایوس جاں سے
نہ بستر سے حرکت نہ جبنش مکاں سے ۔ اجل کے ہیں آثار جس پر عیاں سے
نظر آتے ہیں سب مرض جس کے مزمن ۔ نہیں کوئی مُہلک مرض اس کو لیکن

بجا ہیں حواس اس کے اور ہوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں میل خور و نوش قائم
دماغ اور دل چشم اور گوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جونی کا پندار اور جوش قائم
کرے کوئی اس کی اگر غور کامل ۔ ۔ ۔ ۔ عجب کیا جو ہو جائے زندوں میں شامل
عیاں سب پہ احوال بیمار کا ہے ۔ کہ تیل اس میں جو کچھ تھا سب جل چکا ہے
موافق دوا ہے نہ کوئی غذا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہزالِ بدن ہے زوالِ قویٰ ہے
مگر ہے ابھی یہ دیا ٹمٹماتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجھا جو کہ ہے یاں نظر سب کو آتا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

بجلی کا بل زيادہ کيوں ؟

ہمارے موجودہ حکمران اتنے زيادہ عوامی اور حق پرست ہيں کہ ارد گرد وقوع پذير ہونے والے بھيانک مناظر سے عوام کی توجہ ہٹانے کيلئے گھر بيٹھے بٹھائے اُن پر بجلی کے بلوں کے ذريعہ اُنہيں مدہوش رکھتے ہيں تاکہ ان کی صحت پر ارد گرد کے ماحول کا بُرا اثر نہ ہو

اخبارات ميں چھپ رہا تھا مگر جب ہفتہ قبل بجلی کا بل ماہِ جون کا آيا تو يہی سوچتے رہے کہ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کيونکہ حکمران تو غلطی کر نہيں سکتے ۔ يہ الگ بات ہے کہ اُنہيں نہ کوئی کرايہ دينا پڑتا ہے اور نہ گيس ۔ ٹيليفون يا بجلی کا بل اور نہ پٹرول کی قيمت ۔کھانے پينے سميت اُن کے سب اخراجات عوام کی جيبوں سے نکالے پيسوں سے ادا ہو جاتے ہيں ۔ 3 دن مدہوش رہنے کے بعد خيال آيا کہ وجہ پچھلے بِلوں ميں تلاش کی جائے

موازنہ ۔ حال اور ماضی
اطلاع ۔ مندرجہ ذيل قيمتيں بشمول ٹيکس اور سرچارج ہيں

بجلی کے يونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 2005ء ۔ ۔ ۔ جولائی 2008ء ۔ ۔ ۔ جولائی 2011ء
پہلے 100 يونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 284.51 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 354.20 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 533.45 روپے
بعد کے 200 يونٹ ۔ ۔۔ 775.34 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 938.40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1612.10 روپے
بعد کے 400 يونٹ ۔ ۔۔ 2263.20 ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ 2838.00 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 5005.52 روپے
بعد کے 300 يونٹ ۔ ۔۔ 1697.40۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2128.50۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4684.74 روپے
بعد کے 100 يونٹ ۔ ۔۔ 680.40۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 709.50۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1561.58 روپے
1100يونٹ کی قيمت ۔ 5700.85۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4968.60۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13397.39 روپے

دوسرا گورکھدہندہ کہ بجلی کی يونٹيں يکدم اتنی زيادہ کيسے ہو گئيں ؟

يونٹوں کی تعداد اسلئے ڈيڑھ گُنا ہو گئی ہے کہ پوٹينشل ڈِفرينس جسے عام زبان ميں وولٹيج کہا جاتا ہے وہ پچھلے ايک ماہ ميں 180 سے 150 وولٹ تک رہی جبکہ 240 سے 220 وولٹ تک ہونا چاہيئے ۔ مطلب يہ ہوا کہ پاور فَيکٹر جو 0.9 ہونا چاہيئے بہت کم رہا ۔ جتنا پاور فيکٹر کم ہو گا ميٹر اتنا ہی تيز چلے گا ۔ سادہ الفاظ ميں اگر کسی نے حقيقت ميں 1000 يونٹ کی بجلی استعمال کی تو 180 سے 150 وولٹيج ہونے کی وجہ سے ميٹر ريڈنگ 1335 سے 1600 يونٹ ہو گی ۔ اس کُليئے کے تحت ہمارے جون 2011ء کے بل ميں جو ہميں ہفتہ قبل موصول ہوا 1535 يونٹ لکھے گئے ہيں ۔ اگر وولٹيج درست يعنی 240 سے 220 تک ہوتی تو ہمارے يونٹ 1000 کے قريب ہوتے

بجلی کم سپلائی کيوں ؟

کيپکو کے ايم ڈی نے بتايا ہے کہ بجلی پيدا کرنے کی صلاحيت طلب کو پوراکر سکتی ہے ۔ پيداوار ميں کمی کا سبب واجبات نہ ادا کرنا ہے جو کہ کھربوں روپے ہيں جس کے نتيجے ميں کيپکو بجلی پيدا کرنے والے اداروں کو ادائيگی نہيں کر پاتی اور بجلی پيدا کرنے والے استداد کے مطابق پيداوار نہيں کر سکتے ۔ ايک عرصہ سے مندرجہ ذيل حکومتوں اور اداروں کے ذمہ 4 کھرب 23 ارب يعنی 423000000000 روپے کيپکو کا واجب الادا ہے جو عوام کی مصيبتوں کا اصل سبب ہے

وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے ۔ 3 کھرب يعنی 300000000000 روپے
حکومت پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ارب ۔ يعنی 9000000000 روپے
حکومت سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 39 ارب يعنی 39000000000روپے
حکومت خيبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 39 ارب يعنی 39000000000روپے
کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 36 ارب يعنی 36000000000روپے

پوشاکيں اور نيمِ دروں

سائنس بہت ترقی کر گئی ۔ انسان بہت پڑھ لکھ گيا اور جديد ہو گيا ۔ مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
طور طريقے ميں پرانے جاہليت کے زمانہ ميں چلے گئے ہيں

لگ بھگ 6 دہائياں پرانی بات ہے کہ بچوں کے رسالے ميں ايک کارٹون چھپا تھا کہ ايک آدمی ننگ دھڑگ صرف جانگيہ يا کاچھا يا چڈی پہنے ہوئے بيری [بير کا درخت] پر چڑھا تھا اور بير توڑ کے کھا رہا تھا
ايک راہگذر ا نے پوچھا “صاحب ۔ کيا ہو رہا ہے ؟”
درخت پر چڑھے آدمی نے جواب ديا “اپنے تو 2 ہی شوق ہيں ۔ پوشاکيں پہننا اور پھل فروٹ کھانا”

ہماری موجودہ حکومت کے بھی 2 ہی شوق ہيں ۔ “جمہوريت پہننا اور مفاہمت کھانا”
:lol:

ميری بات کا يقين نہ ہو تو يہ خبريں پڑھ ليجئے

جمعہ [22 جولائی 2011ء] کے روز قومی اسمبلی میں بحث کے دوران وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ
کراچی ميں بدامنی برداشت نہیں کریں گے

President Zardari expressed concerned over the violent situation of the city

نيمِ دروں

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ فرماں روائے مغليہ شہنشاہِ محبت شاہجہان کی بيٹی محل کی کھڑکی سے باہر ديکھ رہی تھی ۔ اُس کی نظر ايک گدھے اور گدھی پر پڑی تو منہ سے نکل گيا “نيمِ دروں نيمِ بروں”
باپ نے پوچھا “بيٹی کيا ہوا ؟

بيٹی شاعرہ تھی شعر کہہ ديا
“در ہيبتِ شاہِ جہاں ۔ لَرزَد زمين و آسماں
اُنگُشت در دَنداں نہاں نيمِ درُوں نيمِ برُوں”

درست کہا تھا اُس نے ۔ عشرت العباد “درُوں”۔ اور ايم کيو ايم “برُوں”

[“دروں” معنی “اندر” اور “بروں” معنی “باہر”]

مانگنے والے ۔ جو ياد رہ جاتے ہيں

مانگنے والوں کی لاتعداد اقسام ہوں گی ميں صرف اُن اچھے يا بُرے مانگنے والوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنی کسی حرکت يا عمل کی وجہ سے ياد رہ جاتے ہيں ۔ اِن ميں بھيک مانگنے والے بھی ہيں اور مسجد کے نام پر مانگنے والے بھی ۔ پہلے ناپسنديدہ واقعات پھر وہ جو اپنے پيچھے ايک اچھا تاءثر چھوڑ گئے

ہم جھنگی محلہ راولپنڈی ميں رہتے تھے ۔ مغرب کے بعد ايک بہت مسکين اور نحيف آواز آتی “مائی جی ۔ روٹی”
ايک جھُکا ہوا آدمی اپنے سر اور جسم پر کمبل ڈالے ہوئے بھيک مانگ رہا ہوتا تھا ۔ ايک دن ميں مغرب کے بعد گھر واپس آ رہا تھا کہ يہی آواز ہماری گلی ميں سے سُنائی دی ۔ جب ميں اپنی گلی کی طرف مُڑا تو گلی ميں کوئی نہ تھا ۔ ميں حيران ہو کر واپس بھاگا اور اس جوان صحتمند کو ديکھا جو ايک لمحہ پہلے گلی سے نکل کر گيا تھا ۔ اگلے دن “مائی جی ۔ روٹی’ کی نحيف آواز آئی تو ميں گھر سے نکل کر جا کر وہاں کھڑا ہو گيا جہاں ہماری گلی بڑی گلی سے ملتی تھی ۔ جونہی وہ مانگنے والا اُسی طرح کمبل ڈالے نکلا ميں نے پيچھے سے کمبل پکڑ ليا ۔ اندر سے ہٹا کٹا جوان نکل آيا جو کمبل سنبھال کر بھاگ گيا ۔ اس دن کے بعد ہماری گلی ميں اُس کی آواز نہ آئی

ميں انجنيئرنک کالج لاہور ميں پڑھتا گھر سے کالج جانے کيلئے بس پر جا رہا تھا ۔ بس جہلم رُکی ۔ ميں بس سے نکل کر باہر کھڑا ہو گيا ۔ چند منٹ بعد ايک خانہ بدوش قسم کی جوان پلی ہوئی عورت آ کر بھيک مانگنے لگی ۔ کچھ فاصلے پر اسی کی طرح کی تين چار عورتيں اور تھيں ۔ خطرہ پہچانتے ہوئے ميں نے خيرات دينے کی بجائے “معاف کرو” کہا مگر وہ ميری تھوڑی پکڑ پکڑ کے مانگنے لگ گئی ۔ ميں وہاں سے ہٹ کر بس کے ساتھ لگ کے کھڑا ہوگيا ۔ وہ پيچھے آ گئی اور اتنی قريب کہ اگر ميں يکدم وہاں سے چلا نہ جاتا تو اس کی چھاتی کے اُبھار ميرے سينے سے ٹکراتے ۔ ميں بس کے اندر چلا گيا ۔ کنڈکٹر نے اُسے روک ديا اور کہنے لگا “يہ بے غيرت عورتيں ہيں اسی طرح جوان سواريوں کو تنگ کرتی ہيں

ہم 1994ء ميں اسلام آباد منتقل ہو گئے ۔ گيٹ کے باہر کی گھنٹی بجی ميں نے گھر کے اندر سے انٹرکام کا رسيور اُٹھايا ۔ آواز آئی “آپ خوش قسمت ہيں ۔ آپ سے ملنے کيلئے حضرت خود تشريف لائے ہيں”۔ ميں گيٹ پر پہنچا ۔ داڑھيوں والے 4 آدمی کھڑے تھے ۔ مدعا پوچھا تو کسی مسجد کيلئے چندہ مانگا ۔ ميں نے پوچھا “کونسی مسجد ؟” جواب ملا “يہ جی يہ ساتھ والی”۔ مزيد سوال پوچھنے پر جھوٹ ثابت ہو گيا مگر ان لوگوں کو کوئی شرمندگی نہ ہوئی

بالا کے برعکس

جب ہم 1964ء سے قبل جھنگی محلہ ميں رہتے تھے ايک آدمی صرف رمضان کے مہينہ ميں سحری کے وقت آواز لگاتا ” اللہ کے پيارو ۔ اللہ والو ۔ تيری بستی ميں بولتا سائیں نا”۔ بہت گرجدار مگر من بھاتی آواز ۔ وہ کچھ نہيں مانگتا تھا ۔ صرف ستائيسويں روزے کی سحری کے وقت کہتا “بابا اپنی بستی واپس جا رہا ۔ بابا کو کچھ دے دو”۔ ايک سحری کا مجھے ياد ہے کہ ہمارا دروازہ کھٹکھٹايا ۔ ميں باہر گيا تو کہا “سائيں بابا کو روزہ نہيں رکھواؤ گے ؟” ميں دوڑ کر اندر گيا ۔ جو پراٹھا اور سالن ميں نے کھانا تھا لا کر اُسے ديا ۔ وہ بولا ” مجھے پانی کا ايک گلاس بھی دے جاؤ ۔ پھر اپنا روزہ رکھو”۔ کئی سال وہ آتا رہا ۔ پھر ايک رمضان کا مہينہ آيا مگر سائيں بابا نہ آيا ۔ اگلے روز محلے ميں سب ايک دوسرے کو کہہ رہے تھے “سائیں بابا نہيں آيا ؟” کوئی نہيں جانتا تھا وہ سائيں بابا کہاں سے آتا تھا اور کہاں چلا گيا ۔ اُسے ديکھے 5 پانچ دہائياں ہونے کو ہيں مگر مجھے اُس کی شکل اب بھی ياد ہے اور اُس کی آواز اب بھی ميرے کانوں ميں گونجتی ہے

اسلام آباد ميں ايک مانگنے والی باقاعدہ 2 سے 6 ہفتے کے وقفے سے آتی ۔ کہتی “مدد کر ديں” ۔ ایک دن میں اُسے پيسے دينے گيا تو ديکھا تيس پينتيس سال عمر ہو گی ۔ ميلے کچيلے کپڑے ۔ چہرے پر تھکاوٹ اور پريشانی کے آثار ۔ ساتھ ايک کوئی 3 سال کی بچی اور ايک بچہ چند ماہ کا گود ميں جسے وہ اينٹی بائيوٹک شربت کی ايک خوراک پلا رہی تھی ۔ ميں نے پوچھا “ان بچوں کا باپ کہاں ہے ؟” بولی “نشہ کرتا ہے”۔ اسی حال ميں وہ کئی سال آتی رہی ۔ پيسے لے کر چلی جاتی ۔ جولائی 2009ء ميں ہم لاہور چلے گئے ۔ فروری 2011ء ميں واپس آئے ۔ جون کے شروع ميں ايک دن انٹرکام کی گھنٹی بجی ۔ ميں نے رسيور اُٹھايا ۔ ايک زنانہ آواز آئی “بچے يتيم ہيں ۔ مدد کر ديں”۔ ميں پيسے دينے گيا تو وہی عورت جو پہلے صرف “مدد کر ديں” کہتی تھی ۔ صاف ستھرے کپڑے ۔ چہرے پر پہلے جيسی ہوائياں نہيں اُڑ رہی تھيں ۔ بچے بھی ساتھ نہ تھے ۔ ميں نے پيسے ديئے ۔ وہ چلی گئی ۔ گيٹ سے واپس آتے ہوئے ميں نے سوچا “اس کا خاوند شايد اس کيلئے عذاب تھا ۔ مر گيا تو اس کا بوجھ ہلکا ہو گيا”

کچھ سال پيشتر ايک دن دوپہر کے ڈھائی بجے تھے ۔ گيٹ کی گھنٹی بجی ۔ رسيور اُٹھايا ۔ آواز آئی ” بھوکا ہوں بابا ۔ کھانا کھلا دو”۔ ميں پيسے لے کر باہر نکلا ۔ اُس نے پيسے لينے سے انکار کر ديا ۔ ميں نے کہا ” اس وقت روٹی يا چاول کچھ بھی نہيں ہے”۔ کہنے لگا “بابا ۔ 2 دن کی باسی ہو تو وہ لا دو”۔ ميں اندر گيا بيوی سے پوچھا “انڈے ہيں ؟” بولی “نہيں”۔ ميں نے کہا “اچھا روٹی پکوا دو يا پکا دو ۔ سالن ميں قريبی مارکيٹ سے لے آتا ہوں”۔ گوندھا ہوا آٹا بھی صرف ايک روٹی کا تھا ۔ ميں وہی لے کر باہر گيا ۔ اور مانگنے والے سے کہا “ميں ابھی بازار سے سالن لے کر آتا ہوں”۔ بولا “کہاں جاؤ گے ۔ بابا ۔ پانی لادو ميں پانی سے کھا لوں گا”۔ ساتھ والوں کا نوکر کھڑا سُن رہا تھا بولا “سر ۔ ميں ابھی اندر سے کچھ لے کر آتا ہوں”۔ وہ اچار سے بھری پيالی لے کر آ گيا ۔ بابا نے روٹی پر اچار اُنڈيل ليا ۔ کھا کر پانی پيا ۔ اللہ کا شکر ادا کيا اور بولا “بابا ۔ دو دن سے بھوکا تھا ۔ آج پيٹ ميں کچھ چلا گيا ۔ اللہ بھلا کرے”۔ ميں ديکھتا رہا ۔ وہ چلتا ہوا سيدھا گلی سے نکل گيا ۔ مجھے جب بھی وہ شخص ياد آتا ہے ميں آنسو بہائے بغير نہيں رہ سکتا

ہميں اللہ نے اتنی زيادہ نعمتيں دے رکھی ہيں ۔ ہم اللہ کا کتنا شکر ادا کرتے ہيں ؟ ايک وہ کہ 2 دن بعد ايک روٹی مل گئی تو شکر گذار ہوا اور مطمئن بھی

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ کل ۔ آج اور کل

اگر آدمی ماضی پر روتا رہے
اور
مستقبل کيلئے پريشان رہے
تو
اُس کا آج بھی غارت چلا جائے گا

ماضی کو کوئی بھی تبديل نہيں کر سکتا
مستقبل کيلئے پريشان رہنے سے حال بھی برباد ہو جائے گا

درست سوچ يہ ہے کہ جو انتخاب آج کيا جائے گا
عمومی طور پر اُس کا اثر آنے والے کل پر ہو گا
چنانچہ مستقبل اچھا بنانے کيلئے آج ہی کچھ کرنا ہو گا