Monthly Archives: April 2011

نئے ڈرامہ کے ذریعے عدلیہ، میڈیا اور قوم کا وقت برباد کرنے کا کیاجواز؟

سليم صافی کے مضمون کا درجِ ذيل حصہ ماضی ميں گذرے حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے وہی سمجھ سکتے ہيں جو اُس دور ميں بالغ النظر تھے

بنیادی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کو 3 ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے
پہلا دور ۔ 1968ء سے 1970ء تک ۔ جو نہایت بھرپور تھا اور جس میں وہ ایک انقلابی لیڈر کے طور پر ابھرے۔ اس دور میں وہ متنازع بھی تھے لیکن مغربی پاکستان کی اکثریت کی صفوں میں نہایت مقبول بھی رہے

دوسرا دور ۔ ان کا اقتدار یعنی 1970ء سے 1977ء تک ۔ ان کا یہ دور نہایت متنازع ہے ۔ اس میں انہوں نے اپنے دشمنوں کی تعداد بڑھائی
اس دور میں
ڈاکٹر نذیر کی ہلاکت
لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے پر فائرنگ
ایف ایس ایف کی تشکیل
بلوچستان آپریشن اور
اسی نوع کے دیگر ہزاروں ناپسندیدہ واقعات ہوئے
اس دور کے بھٹو کے کارنامے بھی بہت ہیں لیکن اس کے شدید متنازع ہونے میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتیں
تیسرا دور ۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد کا دور ہے ۔ یہ دور نہایت تابناک اور شاندار ہے ۔ پھانسی نے بھٹو کو ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔ اس دور میں وہ متنازع سے غیرمتنازع لیڈر بنتے گئے ۔ خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود جیسے ان کے شدید مخالفین نے بھی ان کو معاف کردیا اور ان کے بیٹے ۔ان کی بیٹی اور پھر داماد کے ہمسفر بن گئے ۔ بھٹو ایک جماعت کی بجائے قوم کے لیڈر بن گئے اور ہم [سليم صافی] جیسے طالب علم بھی ہر سال ان کی برسی اور سالگرہ کے موقع پر ان کی یاد میں کالم لکھ کر ان کی پھانسی کو ملک و قوم کے لئے شدید نقصان قرار دینے لگے

لیکن افسوس کہ اب ان کے سیاسی جانشین [حادثاتی سہی] ان کو ایک بار پھر متنازع کرنے لگے ہیں ۔ اب جب ان کا مقدمہ دوبارہ زندہ ہوگا تو ان کے 1968ء سے لے کر 1977ء کے سیاسی دور کے واقعات بھی زندہ ہوں گے
اگر بھٹو کی قبر بولے گی
تو پھر ڈاکٹر نذیر اور ایف ایس ایف کے ہاتھوں مرنے والے دیگر لوگوں کی قبریں بھی خاموش نہیں رہیں گی
اور جب وہ بولیں گی تو بھٹو ایک بار پھر متنازع بنیں گے

حجامت اور سياستدان

ا يک پھولوں کی دکان کا مالک بال ترشوانے حجام کی دکان پر گيا ۔ بال ترشوا کر اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
دوسرے دن حجام دُکان پر آيا تو ايک شکريہ کا کارڈ اور درجن گلاب کے پھول دُکان کے سامنے پڑے تھے

اُس دن ايک پوليس والا بال ترشوانے آيا تو حجام نے اُسے بھی کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے روز حجام دکان پر آيا تو ايک پيسٹريوں کا ڈبہ اور ساتھ شکريہ کا کارڈ دُکان کے سامنے پڑے تھے

تيسرے دن ايک پاليمنٹيرين بال ترشوانے آيا ۔ جب وہ اُجرت دينے لگا تو حجام نے کہا کہ وہ ہفتہ خدمتِ خلق منا رہا ہے اسلئے اُجرت نہيں لے گا
اگلے دن جب حجام دُکان پر پہنچا تو درجن بھر پارليمنٹيرين بال ترشوانے کيلئے دُکان کے سامنے قطار لگائے ہوئے تھے

طالبان ۔ امريکا اور افغان

تاءثر يہی ديا جاتا ہے کہ امريکا کی تکليف صرف طالبان کو ہے کيونکہ امريکا افغانستان کو تعليم و ترقی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے مگر طالبان تعليم اور ترقی کے دُشمن ہيں ۔ يہ حقيقت کے برخلاف صرف معاندانہ بہتان تراشی ہے ۔ دہشتگرد طالبان نہيں بلکہ امريکا ہے ۔ بات افغانستان کی ہو رہی ہے ۔ نام نہاد پاکستانی طالبان کی نہيں ۔ نام نہاد پاکستانی طالبان امريکا کے زر خريد [mercenaries] ہيں اور انہيں يہ نام افغانستان کے طالبان کو بدنام کرنے کيلئے ديا گيا ہے ۔ اگر افغان مُلا عمر کے خلاف ہوتے تو مُلا عمر کب کا ہلاک يا گرفتار ہو گيا ہوتا

افغانستان ميں جمعہ يکم اپريل 2011ء کے واقعات کی جھلکياں

امریکی پادری کے ہاتھوں قرآن مجید کی بے حرمتی اور اسے نذر آتش کئے جانے کے خلاف احتجاج کے دوران شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں مظاہرین نے اقوام متحدہ کے ہیڈ کوراٹر پر حملہ کیا ۔ اس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ کے 8 کارکنوں اور تین مظاہرین سمیت 11 افراد ہلاک ہوگئے۔ افغان پولیس کے ترجمان لعل محمد احمد زئی نے کہا کہ مظاہرین کے احتجاج میں ہلاک ہونے والے اقوام متحدہ کے تمام کارکن غیر ملکی تھے جن میں تین اہلکار اور پانچ نیپالی گارڈز شامل تھے اور ان میں سے دو کا گلا کاٹ دیا گیا۔

پولیس کے مطابق مظاہرین کی تعداد ایک ہزار لے لگ بھگ تھی ۔ مظاہرین نے جمعہ کی نماز کے بعد احتجاج شروع کیا جو ابتدا میں پرامن تھا لیکن دو تین گھنٹے کے بعد مظااہرین اقوام متحدہ کے دفتر پر پہنچ گئے اور انہوں نے ہیڈ کورارٹر میں داخل ہونے کی کوشش کی ۔ محافظوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں 3 مظاہرین ہلاک ہوگئے۔اس کے بعد دونوں جانب سے تشدد کا استعمال شروع ہوگیا۔ ہلاک شدگان میں ناروے، سویڈن اور رومانیہ کا ايک ايک اہلکار اور نیپال سے تعلق رکھنے والے 5 گارڈز شامل ہيں

امریکہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی اور اسے جلانے کے واقعہ کے خلاف کابل میں جمعہ کی نماز کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی عمارت تک مارچ کیا اور امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے

مظاہرین قرآن مجید کی بے حرمتی کے علاوہ افغانستان میں مستقل امریکی فوجی اڈوں کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرے میں شریک ایک شخص مولا داد نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور یہاں مستقل امریکی اڈے قطعی برداشت نہیں کئے جائیں گے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ایک مقرر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ فرعون ہاوٴس ہے

ہرات میں بھی ہزاروں مظاہرین نے امریکی پادری کی جانب سے قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف سڑکوں پر مارچ کرکے احتجاج کیا

مالی بے ضابطگياں امريکا کی سرپرستی ميں

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کے انتہائی کرپٹ ممالک میں افغانستان کا نمبر صومالیہ کے بعد دوسرا ہے حالانکہ دونوں ملکوں میں قائم حکومتیں امریکی اتحادی ہيں اور امريکا کی ہی سرپرستی میں کام کررہی ہیں

[غور کيا جائے تو پاکستان میں مالی بے ضابطگيوں کی بنياد بھی امريکا نے رکھی اور مالی بے ضابطگيوں کی سرپرستی بھی کر رہا ہے]

دورِ حاضر کی شاعری

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عفونت میں سنڈاس سے جو ہے بدتر
زمیں جس سے ہے زلزلہ میں برابر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملک جس سے شرماتے ہیں آسماں پر
ہوا علم و دیں جس سے تاراج سارا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ علموں میں علمِ ادب ہے ہمارا

برا شعر کہنے کی گر کچھ سزا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبث جھوٹ بکنا اگر ناروا ہے
تو وہ محکمہ جس کا قاضی خدا ہے ۔ ۔ ۔ مقرر جہاں نیک و بد کی سزا ہے
گنہگار واں چھوٹ جائینگے سارے ۔ ۔ ۔ جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے

زمانہ میں جتنے قلی اور نفر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کمائی سے اپنی وہ سب بہرہ ور ہیں
گویئے امیروں کے نورِ نظر ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ڈفالی بھی لے آتے کچھ مانگ کر ہیں
مگر اس تپِ دق میں جو مبتلا ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ خدا جانے وہ کس مرض کی دواہیں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی