Daily Archives: April 14, 2011

خدا ۔ منطق ۔ عقل اور سائنس ۔ دوسری اور آخری قسط

پچھلی قسط ميں سوال ” خدا کے وجود کا کيا ثبوت ہے ؟” کے حوالے سے عقل ۔ منطق اور سائنس پر کچھ بات کی گئی تھی ۔ آج مزيد مثالوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہيں

آج سے شايد 3 دہائياں قبل 24 دسمبر کو ايک ہوائی جہاز ايميزان کے جنگلوں کے اُوپر سے پرواز کے دوران لاپتہ ہو گيا ۔ تلاشِ بسيار کے باوجود نہ جہاز کا ٹکڑا ملا نہ کسی انسان کا مگر حادثہ کے 10 دن بعد ايک جوان لڑکی خود چلتی ہوئی جنگل کے محافظوں کے ايک خيمے تک پہنچ گئی اور بتايا کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ اُس ہوائی جہاز ميں سفر کر رہی تھی ۔ وہ بيہوش ہو گئی تھی ۔ ہوش آنے پر اُس نے اپنے آپ کو زمين پر پايا اور چلتی ہوئی وہاں پہنچی ہے

کيا عقل اور منطق سے ايسے واقعات کی تشريح ہو سکتی ہے ؟ نہيں ۔ اس عمل کا عامل وہی عقلِ کُل ہے جسے ہم خدا کہتے ہيں

عقل اور منطق کس کی مِلکيت ہے ؟

چھ سات دہائياں پيچھے کا واقعہ ہے کہ لندن کے دماغی امراض کے اسپتال کا سربراہ ڈاکٹر ايک دن شام کو کام ختم کر کے گھر جانے کيلئے سڑک پر کھڑی اپنی کار کے پاس پہنچا تو ديکھا کہ ايک پہيئے کی چاروں ڈھبرياں [Nuts] غائب ہيں ۔ وہ پريشان کھڑا تھا کہ ہسپتال کی دوسری منزل سے آواز آئی
“ڈاکٹر کيوں پريشان ہو ؟”
ڈاکٹر “کوئی شرير لڑکا ميری کار کے ايک پہيئے کی چاروں ڈھبرياں لے گيا ہے ۔ ميں گھر کيسے جاؤں گا”
وہ شخص “ڈاکٹر ۔ باقی تين پہيئوں سے ايک ايک ڈھبری اُتار کر اس ميں لگا لو اور گاڑی آہستہ چلاتے سپيئر پارٹس کی دکان تک چلے جاؤ ۔ وہاں سے 4 ڈھبرياں خريد کر پوری کر لينا”
ڈاکٹر “کمال ہے ۔ تم پاگل ہو کر بھی مجھ سے زيادہ عقل رکھتے ہو”

ايک صدی کے قريب پرانی بات ہے جب پہلا راکٹ بنانا شروع کيا گيا تھا ۔ تجربہ کيلئے جب راکٹ فائر کيا جاتا تو اُس کے پر اُکھڑ جاتے اور راکٹ ھدف تک نہ جاتا ۔ کئی ماہ مُلک کے عقلمند [Think Tanks] مختلف طريقے آزماتے رہے مگر کاميابی نہ ہوئی ۔ آخر تمام فيکٹريوں ميں کام کرنے والوں سے مشورہ لينے کا سوچا گيا ۔ ايک فيکٹری ميں ايک مزدور تھا جو اپنی نااہلی کی وجہ سے 14 سال سے فرش صاف کرنے سے آگے نہ بڑھ سکا تھا ۔ اُس کے فورمين نے اُس کی رائے پوچھی تو اُس نے کہا “اسے سوراخدار [Perforated] بنا دو”۔ اس پر عمل ہوا اور تجربہ کامياب ہو گيا ۔ اس مزدور کو انعام و اکرام سے نوازا گيا ۔ اس کے اعزاز ميں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کيا گيا ۔ وہاں اس سے کہا گيا کہ “جو تجويز بڑے بڑے عقلمند نہ دے سکے تمہارے دماغ ميں کيسے آئی ؟”وہ بولا “ٹائيلٹ پير کو نہيں ديکھا ؟ کبھی وہاں سے نہيں پھٹتا جہاں سوراخ ہوتے ہيں”

پہلی صورت ميں ايک پاگل کے پاس ايک ماہر اور تعليميافتہ ڈاکٹر کی نسبت زيادہ عقل نظر آتی ہے جبکہ دوسرے معاملہ ميں ايک جاہل کی بيوقوفی عقل کا نمونہ بن گئی ۔ ہم کس عقل کی بناء پر خدا کے وجود کے منکر بننا چاہتے ہيں ؟

تھوڑی سی بات سائنسی ترقی کی

آج کا انسان سمجھتا ہے کہ ترقی کے جس عروج پر آج وہ ہے ماضی کا انسان اس کی گرد کو بھی نہ پا سکا تھا ۔ يہی سوچ ہے جو آدمی کو انسانيت سے وحشت کی طرف ليجاتی ہے ۔ اگر سائنس آج ماضی کی نسبت بہت زيادہ ترقی کر چکی ہے تو اس کے پاس مندرجہ ذيل اور اسی طرح کے مزيد عوامل کا حل کيوں نہيں ہے ؟

سمندر کی تہہ ميں ايک ليبارٹری جس ميں خالص سونے کے ہاتھوں کی انگليوں پر رکھا خالص کوارٹز کا 5 سينٹی ميٹر قطر کا کُرہ کس نے بنايا اور سمندر کی تہہ ميں ليبارٹری کيسے بنی جو آج بھی ناممکن نظر آتا ہے ؟

سسلی کے قريب سمندر کی تہہ ميں پڑی بادبانی کشتی ميں سے لکڑی کا بنا ہوا کمپيوٹر ملا ۔ يہ کس نے بنايا اور اس سے کيا کام ليا جاتا تھا ؟

جنوبی افريقہ کے صديوں سے غير آباد علاقے ميں ايروڈروم [Aerodrome] جسے آجکل ايئرپورٹ کہا جاتا ہے کے آثار ملے ۔ يہ ايرو ڈروم کس نے بنائی اور يہاں سے کيا اُڑتا تھا ؟

اہرامِ مصر کی کيا ٹيکنالوجی تھی کہ کوئی سوراخ نظر نہ آنے کے باوجود اندر ہوا چلتی محسوس ہوتی ہے ؟

گرم حمام آگرہ کس طرح بنايا گيا تھا کہ اس ميں ہر وقت پانی گرم رہتا تھا ؟ اسے انگريزوں نے توڑا مگر پھر آج تک نہ بن سکا

تدبير کے پر جلتے ہيں تقدير کے آگے ۔ تدبير انسانی عقل ہے جو اللہ ہی نے تفويض کی ہے اور تقدير اللہ کی منشاء ہے ۔ انسان کی بدقستی يہ ہے کہ جس کام کيلئے عقل عطا کی گئی وہاں تو استعمال کرتا نہيں ۔ اُلٹا عقل تفويض کرنے والے کے خلاف عقل استعمال کرنا شروع کر ديتا ہے

اے انسان ۔ عقل کُل صرف اللہ کی ذات ہے وہی خالق و مالک ہے ۔ مان لے کہ تيری عقل ناقص ہے اور تيری جو بھی خُوبياں ہيں وہ سب اللہ کی تفويض کی ہوئی ہيں
سب کچھ ديا ہے اللہ نے مجھ کو
ميری تو کوئی بھی چيز نہيں ہے
يہ تو کرم ہے ميرے اللہ کا
مجھ ميں ايسی کوئی بات نہيں ہے