Monthly Archives: April 2011

مُلک کے اصل ستون

پچھلے دنوں نعيم اکرم ملک صاحب نے علی الصبح کا ايک خوشگوار نظارہ لکھا تھا ۔ بات چل نکلی ہے تو اس سلسلہ ميں کچھ مزيد معلومات سپُردِ قلم کر رہا ہوں تاکہ کہيں کوئی يہ نہ سمجھ بيٹھے کہ يہ مُلک لُٹيروں اور اٹھائی گيروں کی حکمرانی کے نتيجہ ميں چل رہا ہے ۔ پہلے نعيم اکرم ملک صاحب کی تحرير پر ميرے تبصرہ کی تلخيص

بہت اچھا کيا آپ نے لکھ کر ۔ ميں سوچتا ہی رہا کہ لکھوں لکھوں ۔ آپ نے جس ريستوراں کا حوالاديا ہے وہ زين ہُوئی يا ضيافت ہے جہاں آپ 2 اور 3 سو روپے کے درميان اچھا کھانا کھا سکتے ہيں ۔ ضيافت کے مالکان غُرباء کو صبح ناشتہ مُفت دينے کے ساتھ ساتھ دن ميں جو کھانا بچ جاتا ہے رات کو غرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ ريستوراں رات 10 بجے بند کر ديا جاتا ہے ۔ کراچی ميں عالمگير ٹرسٹ والے غريبوں کو بالخصوص رمضان کے مہينے ميں مفت کھانا کھلاتے تھے ۔ لاہور ميں تاجر لوگ يہ کام مختلف جگہوں پر کر رہے ہيں ۔ 28 ستمبر 2010ء کو حادثہ کے بعد مجھے بيہوشی ميں لاہور جنرل ہسپتال پہنچا ديا گيا تھا ۔ 2 دن بعد ميں ہوش ميں آيا تو ميری بيٹی نے نرس سے کہا “ابو نے 2 دن سے کچھ نہيں کھايا ۔ کيفيٹيريا کہاں ہے ؟” نرس نے کہا “ان کيلئے ابھی ناشتہ آ رہا ہے”۔ ناشتہ ميں اُبلا انڈا کيک ۔ دودھ کی ڈبيہ اور چائے تھی ۔ بيٹی نے پوچھا “يہ سب ہسپتال والے ديتے ہيں ؟” تو نرس نے کہا “نہيں ۔ يہ مخيّر حضرات لاتے ہيں ۔ ايک صبح سب مريضوں کو ناشتہ ديتا ہے ۔ ايک دوپہر کا کھانا اور ايک رات کا کھانا”۔ جو لوگ دور دراز سے مريضوں کے ساتھ آتے ہيں وہ کھُلے ميدان ميں پڑے رہتے تھے ۔ پنجاب حکومت نے اُن کيلئے بند برآمدے بنا ديئے ہيں اور لوگ ديگيں پکا کر اُن کيلئے دے جاتے ہيں ۔ گورمے والے رات کو جو کچھ بچتا ہے اپنے چھوٹے ملازمين اور غُرباء ميں تقسيم کر ديتے ہيں ۔ يہی راولپنڈی اور اسلام آباد ميں راحت بيکرز والے کرتے ہيں ۔ بحريہ ٹاؤن والے بھی ايک ہسپتال ميں دوپہر کا کھانا ديتے ہيں

ايک صحافی اور رُکن قومی اسمبلی کی حيرت کا سبب

ڈاکٹرزکی ہڑتال کے دوران میں نے میو اسپتال کا دورہ کیا اور جب میں اسپتال کے باورچی خانے میں جا نکلا تو جو کچھ دیکھا وہ معجزے سے کم نہ تھا۔ باورچی خانہ مکمل صاف ستھرا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ 2002ء سے لے کر اب تک اسپتال کے تمام وارڈز میں موجود مریضوں، جن کی تعداد 1600 سے 1700 تک ہوتی ہے، کو کھانا مفت دیا جاتا ہے اور اُس کا اہتمام عوام کی طرف سے دیئے جانے والے عطیات سے کیا جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ ناقص خوراک ہو گی مگر جب میں نے اُس دن دوپہر کو دیئے جانے والے پالک گوشت کو چکھا تو ایک اور حیرت میری منتظر تھی۔ میرے ساتھ موجود نوجوان ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس کھانے کا معیار ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ میرا یہاں آنا کوئی طے شدہ پروگرام نہ تھا اور نہ ہی میں کوئی لاٹ صاحب تھا کہ جس کے لئے کوئی اہتمام کیا جاتا۔ ناشتہ اس باورچی خانے میں تیار کیا جاتا ہے اور تمام اسپتال جو پاکستان یا شاید جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا اسپتال ہے، کے وارڈز میں تقسیم کیا جاتاہے۔ ہر روز ڈبل روٹی ”ونڈر بریڈ “ کی طرف سے مفت آتی ہے۔ دوپہر کے کھانے کے لئے گوشت ایدھی فاؤنڈیشن کی طرف سے آتا ہے۔ مگر ہر روز تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد کے لئے وحدت روڈ کے ایک شخص کی طرف سے آتا ہے جو گمنام رہنا پسند کرتا ہے

جتنا زیادہ میں اس معاملے کو جانتا گیا، میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیلانی پلاسٹک جن کا رنگ روڈ پر کہیں پلانٹ ہے ہر ماہ 300,000 روپے ۔ فیصل آباد کے گوہر اعجاز 165,000 روپے ۔ بادامی باغ اسپئر پارٹس مارکیٹ کے مدثر مسعود 50,000 روپے اور برانڈ رتھ روڈ کے شاہد صدیق 25,000 روپے باقاعدگی سے بھیجتے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور بھی ہوں گے مگر میں معذرت خواہ ہوں کہ اُن کے نام سے ناواقف ہوں۔ کچھ اور بھی ہیں جو گاہے بگاہے عطیات بھیجتے رہتے ہیں۔ یہ صورت حال اب کی ہے مگر 2002ء سے لیکر 2008ء تک کھانے کا تمام بل ایل جی الیکٹرانکس والے ادا کرتے تھے۔ پھر بعض وجوہات کی بنا پر اُن کی طرف سے سلسلہ جاری نہ رہ سکا تو بحران نے دیگر امکانات پیدا کر دیئے۔ 2010ء میں سیٹھ عابد نے ایک کروڑ روپے دیئے اور یوں یہ سلسلہ جاری ہے ۔ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن جو ڈاؤ میڈیکل کالج کراچی سے الحاق رکھتا ہے، بھی عوام کے چندے پر چل رہا ہے۔ عمران خان کا شوکت خانم کینسر اسپتال بھی عطیات پر چل رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب لوگوں کو یقین ہو کہ اُن کا روپیہ خورد برد نہیں ہو گا تو وہ دل کھول کے دیتے ہیں
ہم اپنی ترجیحات کا درست تعین کیوں نہیں کر سکتے؟
ہمارا حکمران طبقہ سرابوں کے پیچھے کیوں بھاگتا ہے؟
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی توانائی اسکول اور اسپتال بنانے میں لگائیں

بلاگر کی گذارش
اب بھی وقت ہے کہ ہم کھوکھلی تقارير کرنے اور شور مچانے کی بجائے خاموشی سے ملک کی تعمير ميں حصہ ليں اور ساتھ ساتھ اپنی عاقبت بھی سنورايں ۔ يہ کوئی مشکل کام نہيں ہے ۔ تھوڑا سا وقت نکال کر کسی بھی سرکاری ہسپتال ميں جائيں اور انجمن بہبود مريضاں [Patients Welfare Commitee] جو کم از کم پنجاب کے ہر سرکاری ہسپتال ميں ڈاکٹروں اور نرسوں نے بنائی ہوئی ہيں کا پتہ کريں کہ کس طرح غريب مريضوں کی امداد کی جا سکتی ہے ۔ پھر چرغے اور پِزّے کھانے بند کر کے رقم بچائيں اور اپنی عاقبت بنائيں

اسی کام کی تعليم کے سلسلہ ميں بھی ضرورت ہے ۔ باقی صوبوں کا مجھے علم نہيں ۔ پنجاب ميں ايک ايجوکيشن فاؤنديشن اس سلسلہ ميں اچھی خدمات انجام دے رہی ہے ۔ اس کے زيادہ تر اراکين نيک دل تاجر لوگ ہيں ۔ تعليم ميں حصہ ڈالنے کيلئے ان سے رابطہ کيجئے

پھر آپ فخر سے سينہ تان کر گا سکيں گے
ہم ہيں پاکستانی ہم تو جيتيں گے

دہشتگردی کیخلاف جنگ ۔ سی آئی اے اور آئی ایس آئی دُوبدُو

تقریباً 7 سال قبل صدر پرویز مشرف نے سی آئی اے کی این سی ایس کے ساتھ بغیر پائلٹ طیاروں کے ذریعے اہم انسانی اہداف کو نشانہ بنانے کا معاہدہ کیا، 18 جون 2004ء کو این سی ایس کے خصوصی سرگرمی ڈویژن (ایس اے ڈی) کے زیراستعمال بغیر پائلٹ طیارے نے جنوبی وزیرستان میں پہلا انسانی ہدف شکار کیا

صدر پرویز مشرف نے ایک اور بھی معاہدہ کیا جس کے تحت خصوصی سرگرمی ڈویژن (ایس اے ڈی) کے سپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) کو پاکستان کے ایس ایس جی کمانڈوز کی تربیت کیلئے پاکستان آنے کی اجازت دی گئی

2005ء ۔ 2006ء ۔ 2007ء ۔ 2008ء اور 2009ء میں بالترتیب ایک ۔ 3 ۔ 5 ۔ 35 اور 53 ڈرون حملے ہوئے ۔ 2010ء میں 117 ڈرون حملے ہوئے جن میں سے 104 شمالی وزیرستان میں ہوئے

2004ء سے 2011 کے دوران حافظ گل بہادر کے علاقے کو 70 بار ۔ حقانی نیٹ ورک کو 56 بار ۔ ابوکاشہ العراقی کو 35 بار ۔ مُلا نذیر کے علاقے کو 30 بار اور محسود کے علاقے کو 29 بار نشانہ بنایا گیا

2010ء کے وسط تک سی آئی اے کے ایس اے ڈی اور ایس او جی نے امریکا کی ایس او سی (سپیشل آپریشنز کمانڈ) کے عناصر کے ساتھ مل کر سینکڑوں اضافی ایجنٹ بھیجنے شروع کردیئے ۔ سی آئی اے کے ان تمام ایجنٹوں نے پاکستان کی عسکریت پسند تنظیموں اور پاکستان کی جوہری تنصیبات کا سراغ لگانے کی سرگرمیاں شروع کردیں

2010ء کے آخر سے اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ آئی ایس آئی اور سی آئی اے میں شدید رسہ کشی جاری ہے ۔ 27 جنوری 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس نے 2 پاکستانیوں کو قتل کردیا اور آئی ایس آئی نے واقعہ کو بڑی مہارت کے ساتھ دہشت گردی کیخلاف جنگ کی شرائط دوبارہ طے کرنے کیلئے استعمال کیا

23 فروری 2011ء کو امريکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ایڈمرل مائیک مولن افغانستان میں ایساف کمانڈر جنرل پیٹرس ۔ کمانڈر سپیشل آپریشنز کمانڈ ایڈمرل اولسن نے اومان میں آرمی چیف جنرل کیانی ۔ ڈی جی ایم او میجر جنرل جاوید اقبال (ان کو اب لیفٹیننٹ جنرل بنا دیا گیا ہے) سے ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں کچھ امور پھر سے طے ہوئے کیونکہ اس ملاقات کے ایک ہفتے کے اندر پاکستان میں تقریباً 30 سی آئی اے ایجنٹوں نے اپنی سرگرمیاں معطل کردیں ۔ 16 مارچ 2011ء کو ڈیوس کو رہا کردیا گیا اور یہ خبریں ہیں کہ 2 ہفتوں کے اندر 331 سی آئی اے ایجنٹ پاکستان چھوڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں

7 اپریل 2011ء کو میرین کور کے جنرل جیمز میٹس نے کچھ مزید امور طے کرنے کیلئے آرمی چیف سے ملاقات کی اور 4 روز بعد غالباً شراکت داری کے کچھ نئے ضوابط طے کرنے کیلئے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے سی آئی اے کے سربراہ لیون پینیٹا اور ایڈمرل مولن کے ساتھ ظہرانہ کیا ۔ اس بات کے شواہد ہیں کہ یہ مذاکراتی عمل اچھا نہیں جا رہا ۔ آئی ایس آئی اس بات پر مصر ہے کہ 1979ء تا 1989ء والے ریگن دور کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے ۔ جس کے تحت سی آئی اے نے سعودی ادارے المخبرات الاماہ کے ذريعہ جنگ کیلئے مالی مدد دی اور آئی ایس آئی نے اس جنگ کا انتظام و انصرام کیا جبکہ دوسری طرف سی آئی اے کو آئی ایس آئی پر اب اعتماد نہیں رہا اور اسی پر ڈیڈ لاک ہے

واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی مرکز برائے امن و سٹرٹیجک سٹیڈیز کے پروفیسر کرسٹائن فیئر کے مطابق ”ان [پاکستان] کو انڈیا سے مقابلے اور معیشت کیلئے ہماری رقم اور ہتھیاروں کی ضرورت ہے“ اور ”ہمیں ان [پاکستان] کے جوہری ہتھیاروں ۔ عسکریت پسندوں اور ان دونوں ميں باہمی ربط کی بنا پر ان کی ضرورت ہے“

تحرير ۔ ڈاکٹر فرخ سلیم
ڈاکتر فرخ سليم مرکز برائے تحقيق و تحفظاتی مطالعہ ۔ سياسی اور معاشی تحفظ مقامی و ماحولياتی مسائل کے ايگزيکٹِو ڈائريکٹر ہيں

احوالِ قوم ۔ 17 ۔ آدميت کا زيور

ہوئے زیورِ آدمیت سے عاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معطل ہوئیں قوتیں ان کی ساری
نہ ہمت کہ محنت کی سختی اٹھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ جراءت کہ خطروں کے میداں میں آئیں
نہ غیرت کہ ذلت سے پہلو بچائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ عبرت کہ دنیا کی سمجھیں ادائیں

نہ کل فکر تھی یہ کہ ہیں اس کے پھل کیا ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہے آج پروا کہ ہونا ہے کل کیا
نہیں کرتے کھیتی میں وہ جاں فشانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہل جوتتے ہیں نہ دیتے ہیں پانی
پہ جب یاس کرتی ہے دل پر گرانی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کہتے ہیں حق کی ہے نامہربانی

نہیں لیتے کچھ کام تدبیر سے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سدا لڑتے رہتے ہیں تقدیر سے وہ
کبھی کہتے ہیں ہیچ ہیں سب یہ ساماں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ خود زندگی ہے کوئی دن کی مہماں
دھرے سب یہ رہ جائینگے کاخ و ایواں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔نہ باقی رہے گی حکومت نہ فرماں
ترقی اگر ہم نے کی بھی تو پھر کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بازی اگر جیت لی بھی تو پھر کیا

مگر اک فریق اور ان کے سوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرف جس سے نوعِ بشر کو ملا ہے
سب اس بزم میں جن کا نور و ضیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب اس باغ کی جن سے نشوونما ہے
ہوئے جو کہ پیدا ہیں محنت کی خاطر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے ہیں زمانہ کہ خدمت کی خاطر

نہ راحت طلب ہیں نہ محنت طلب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لگے رہتے ہیں کام میں روز و شب وہ
نہیں لیتے دم ایک دم بے سبب وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت جاگ لیتے ہیں سوتے ہیں تب وہ
وہ تھپکتے ہیں اور چین پاتی ہے دنیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کماتے ہیں وہ اور کھاتی ہے دنیا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

کيا عالمِ دين حسِ مزاح نہيں رکھتے ؟

شیخ عبداللہ المطلق سعودی عرب کے بڑے علماء کی کمیٹی کے رُکن ہیں ۔ اُنکا شمار فی البدیہ اور فوراً فتویٰ دینے کے حوالے سے مشہور ترین علماء میں ہوتا ہے ۔ اپنی بذلہ سنجی ۔ ظریف اور پُر مزاح طبیعت کی وجہ سے عوام میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ براہ راست پروگراموں میں اُن سے پوچھے گئے سوالات کے جواب سننے کے لائق ہوتے ہیں

ایک سائل “شیخ صاحب کیا پینگوئن کا گوشت کھانا حلال ہے؟”
شیخ صاحب “اگر تجھے پینگوئن کا گوشت مل جاتا ہے تو کھا لینا”

ایک سائل “شیخ صاحب میں نے غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے ۔ اب کس طرح اُس سے رجوع کروں؟”
شیخ صاحب “میرے بھائی طلاق ہمیشہ ہی غصے کی حالت میں دی گئی ہے ۔ کیا کبھی تو نے ایسا سنا یا دیکھا ہے کہ کسی نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور وہ مزے سے بیٹھا تربوز کے بیج چھیل کر کھا رہا تھا ؟”

ایک سائل “شیخ صاحب ۔ میرے موبائل میں قرآن شریف کی بہت سی تلاوت بھری ہوئی ہے ۔ کیا میں موبائل کے ساتھ بیت الخلاء میں جا سکتا ہوں ؟”
شیخ صاحب “ہاں جا سکتے ہو ۔ کوئی حرج نہیں”
سائل “شیخ صاحب ۔ میں موبائل میں قرآن شریف کے بھرے ہونے کی بات کر رہا ہوں”
شیخ صاحب “میرے بھائی کوئی حرج نہیں ۔ قرآن شریف موبائل کے میموری کارڈ میں ہوگا ۔ تم اُسے ساتھ لیکر بیت الخلاء میں جا
سکتے ہو”
سائل “لیکن شیخ صاحب ۔ قرآن کا معاملہ ہے اور بیت الخلاء میں ساتھ لے کر جانا اچھا تو ہرگز نہیں ہے ناں”
شیخ صاحب “کیا تمہیں بھی کُچھ قرآن شریف یاد ہے ؟”
سائل “جی شیخ صاحب ۔ مُجھے کئی سورتیں زبانی یاد ہیں”
شیخ صاحب “تو پھر ٹھیک ہے ۔ اگلی بار جب تُم بیت الخلاء جاؤ تو اپنے دماغ کو باہر رکھ جانا”

ایک سائلہ “شیخ صاحب ۔ کچن میں برتن دھونے سے کیا میرا وضو ٹوٹ جائے گا ؟”
شیخ صاحب “کیا تیرے برتن پیشاب کرتے ہیں ؟”

ایک سائل “شیخ صاحب ۔ میری بیوی انتہائی موٹی اور بھدی ہے ۔ میں اُسکا کیا کروں ؟”
شیخ صاحب “میرے بھائی ۔ تیرے اُوپر اور میرے اُوپر اللہ تعالیٰ کی ایک جیسی رحمت ہے”

مکمل پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

ويکھ بنديا

ويکھ بنديا اسماناں تے اُڈدے پنچھی
ويکھ تے سہی کی کردے نيں
نہ او کردے رزق ذخيرہ
نہ او بھُکھے مردے نيں
کدی کسے نيں پنکھ پکھيرو
بھُکھے مردے ويکھے نيں ؟
بندے ای کردے رزق ذخيرہ
بندے ای بھُکھے مردے نيں

کلام بابا بھُلے شاہ

اُردو ترجمہ
ديکھ اے انسان آسمان پر اُڑتے پرندے
ديکھو تو سہی کہ کيا کرتے ہيں
نہ وہ کرتے ہيں رزق ذخيرہ
نہ وہ بھوکے مرتے ہيں
کبھی کسی نے پرندوں کو
بھوکے مرتے ديکھا ہے ؟
انسان ہی کرتے ہيں رزق ذخيرہ
اور انسان ہی بھوکے مرتے ہيں

باپ اور بیٹے میں فرق

ایک 85 سالہ باپ اپنے 45 سالہ بیٹے کے ساتھ گھر کے بڑے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک کوّے نے کھڑکی کے پاس آ کر شور مچایا
باپ کو نجانے کیا سوجھی اُٹھ کر بیٹے کے پاس آیا اور اُس سے پوچھا “بیٹے یہ کیا چیز ہے ؟”
بیٹے نے جواب دیا “یہ کوّا ہے”
یہ سُن کر باپ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا ۔ کُچھ دیر بعد وہ پھر اُٹھ کر اپنے بیٹے کے پاس آیا اور پوچھا “بیٹے ۔ یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے حیرت کے ساتھ باپ کی طرف دیکھا ور پھر اپنا جواب دُہرایا “یہ کوّا ہے”
کُچھ دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا اور تیسری بار پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
بیٹے نے اپنی آواز کو اونچا کرتے ہوئے کہا “ابا جی یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے”
تھوڑی دیر کے بعد باپ پھر اُٹھ کر آیا ور چوتھی بار بیٹے سے پوچھا “بیٹے یہ کیا ہے ؟”
اس بار بیٹے کا صبر جواب دے چُکا تھا۔ نہایت اُکتاہٹ اور ناگواری سے اپنی آواز کو مزید بُلند کرتے ہوئے اُس نے کہا “کیا بات ہے آج آپکو سُنائی نہیں دے رہا کیا ؟ ایک ہی سوال کو بار بار دُہرائے جا رہے ہيں ۔ میں کتنی بار بتا چُکا ہوں کہ یہ کوّا ہے یہ کوّا ہے ۔ کیا میں کسی مُشکل زبان میں آپکو بتا رہا ہوں جو اتنا سادہ سا جواب بھی سمجھ نہيں آرہا ہے يا آپ کو سُنائی دے رہا ہے ؟”
اس کے بعد باپ اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد باپ واپس آیا تو ہاتھ میں کُچھ بوسیدہ سے کاغذ تھے ۔ کاغذوں سے لگ رہا تھا کہ کبھی کسی ڈائری کا حصہ رہے ہونگے ۔ کاغذ بیٹے کو دیتے ہوئے بولا “بیٹے ۔ دیکھو ان کاغذوں پر کیا لکھا ہے ؟”
بیٹے نے پڑھنا شروع کیا ۔لکھا تھا
“آج میرے بیٹے کی عمر 3 سال ہو گئی ہے ۔ اُسے کھیلتے کودتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھ دیکھ کر دِل خوشی سے پاگل ہوا جا رہا ہے ۔ اچانک ہی اُسکی نظر باغیچے میں کائیں کائیں کرتے ایک کوّے پر پڑی ہے تو بھاگتا ہوا میرے پاس آیا ہے اور پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ میں نے اُسے بتایا ہے کہ یہ کوّا ہے مگر اُسکی تسلی نہیں ہو رہی یا شاید میرے منہ سے سُن کر اُسے اچھا لگ رہا ہے ۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد آ کر پھر پوچھتا ہے یہ کیا ہے ؟ اور میں ہر بار اُسے کہتا ہوں یہ کوّا ہے ۔ اُس نے مُجھ سے یہ سوال 23 بار پوچھا ہے اور میں نے بھی اُسے 23 بار ہی جواب دیا ہے ۔ اُسکی معصومیت سے میرا دِل اتنا خوش ہو رہا ہے کہ کئی بار تو میں جواب دینے کے ساتھ ساتھ اُسے گلے لگا کر پیار بھی کر چُکا ہوں ۔ خود ہی پوچھ پوچھ کر تھکا ہے تو آکر میرے پاس بیٹھا ہے اور میں اُسے دیکھ دیکھ کر فدا اور قُربان ہو رہا ہوں

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔ سورت ۔ 17 ۔بنٓی اسرآءيل يا الاسراء ۔ آيت ۔ 23
وَقَضَی رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاہُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ كِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَھُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَھُمَا قَوْلًا كَرِيمًا
ترجمہ ۔ اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو

تحرير ۔ محمد سليم ۔ بقيہ يہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔ يہاں اس سلسلہ ميں ميرا ايک ذاتی تجربہ

شايد 1951ء کی بات ہے جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ميں کسی سلسلہ ميں راولپنڈی سے لاہور روانہ ہوا ۔ ٹرين 8 بجے صبح روانہ ہوئی ۔ ہفتہ کے درميانی دن تھے اسلئے ٹرين ميں بھيڑ نہ تھی ۔ 4 سواريوں کی نشست پر ميں ايک بزرگ اور ايک تين ساڑھے تين سال کا بچہ بيٹھے تھے ۔ بچہ بزرگوار کا پوتا تھا ۔ جونہی ٹرين روانہ ہو کر پليٹ فارم سے باہر نکلی بچہ کھڑکی سے باہر ديکھنے لگ گيا
ايک کھمبہ نظر آيا تو دادا سے پوچھا “يہ کيا ہے ؟”
دادا نے بڑے پيار سے مسکرا کر کہا “يہ کھمبا ہے”

سب جانتے ہيں کہ ريلوے لائن کے ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھمبے ہوتے ہيں
بچہ ہر دوسرے تيسرے کھمبے کی طرف اشارہ کر کے کہتا “يہ کيا ہے ؟”
اور دادا اُسی طرح پيار سے مسکرا کر کہتے “يہ کھمبا ہے”

غرضيکہ جہلم تک جب بچہ تھک کر سو گيا تو ميرے حساب سے وہ يہ سوال ساٹھ ستّر بار دہرا چکا تھا اور بزرگوار نے اُسی طرح پيار سے اور مسکرا کر جواب ديا تھا

بچے کے سونے کے بعد ميں نے بزرگوار سے کہا “آپ کی ہمت ہے کہ آپ متواتر اتنے پيار سے جواب ديتے گئے ۔ آپ تھک گئے ہوں گے ؟”
وہ بزرگ بولے “اب سو گيا ہے ۔ ميں آرام کر لوں گا”

ميں مسکرائے بغير نہ رہ سکا کيونکہ بچہ اُن کی گود ميں سويا ہوا تھا ۔ وہ کيسے آرام کر سکتے تھے

قارئين متوجہ ہوں

پچھلے سال شکايات ملی تھيں کہ ميرا بلاگ نہيں کھُلتا ۔ يہ مسئلہ دبئی اور پاکستان ميں ہوتاہے کيونکہ دنوں جگہوں پر اتصالات کمپنی ہے ۔ ميں نے اس سلسلہ ميں پی ٹی سی ايل سے رابطہ کيا ۔ اُنہوں نے معاملہ پی ٹی اے پر ڈال ديا تو ميں نے پی ٹی اے کو تحريری شکائت کی جس پر اُنہوں نے کاروائی کی ۔ اس کے بعد مجھے کئی قارئين نے بتايا کہ ميرا بلاگ اُن کے ہاں کھُلنے لگ گيا تھا
اس کے بعد ڈائل اَپ کنکشن والے ايک دو قارئين نے بتايا کہ بلاگ کبھی کھُلتا ہے مگر عام نہيں کھُلتا تو ميں نے اپنے بلاگ سے جاوا سکرپٹ ہٹا دی اور بھی کئی تبديلياں کيں

کچھ دن قبل پھر ايک شکائت آئی کہ ميرا بلاگ نہيں کھُل رہا ۔ ميں نے اپنے انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر [مائيکرونيٹ] سے رابطہ کيا ۔ اُنہوں نے پڑتال کر کے بتايا ہے کہ مندرجہ ذيل عمل کيا جائے تو کوئی وجہ نہيں کہ ميرا بلاگ نہ کھُلے ۔ ميں نے اُن سے کہا کہ انٹرنيٹ استعمال کرنے والا ہر شخص ايسا کرتا ہو گا مگر اُن کا خيال ہے کہ بہت سے لوگوں کا اس کا علم ہی نہيں ہے ۔ اسلئے جن خواتين و حضرات نے پہلے ايسا نہيں کيا وہ اب کر ليں ۔ جنہوں نے پہلے کيا ہوا ہے وہ بھی ديکھ ليں کہ کہيں انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر نے ڈی اين ايس کے نمبر بدل تو نہيں ديئے

اپنے انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر سے مندرجہ ذيل معلومات ليجئے

Preferred DNS Server
Alternate DNS Server

مندرجہ بالا معلومات جو کہ ہندسوں ميں ہوں گی مل جانے کے بعد مندرجہ ذيل عمل کيجئے ۔ [پہلے دو مرحلوں کو چھوڑ کر براہِ راست تيسرے مرحلہ پر بھی جايا جا سکتا ہے]

1. In lower tool bar, or wherever it is, right-click on internet icon (blinking double-monitor)

2. Then, left-click on “Open Network Connections”

3. Then, right-click on “Local Area Connection”

4. Then, left-click on “Properties”

5. Then, double-click on “Internet protocol (TCP/IP)

اب جو مينيو کھُلے گا اس ميں مندرجہ ذيل کے سامنے وہ ہندسے لکھ ديجئے جو انٹرنيٹ سروس پرو وائيڈر نے بتائے تھے

Preferred DNS Server

Alternate DNS Server