Monthly Archives: March 2011

جمہوريت اور انسانی حقوق ؟؟؟؟؟

لیبیا پرمغربی ممالک کے فضائی اور میزائل حملوں سے 48 افراد ہلاک اور 150 زخمی ہو گئے ۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کے ایڈمرل ولیم گورٹنے نے کہا ہے کہ ہفتے کو امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں اور آبدوزوں سے 110 سے زائد ٹاما ہاک کروز میزائل فائر کئے گئے اور لیبیا میں20 سے زائد دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنا یا گیا اور فضائی دفاعی نظام ناکارہ بنادیا گیا

ایڈمرل ولیم گورٹنے کا کہنا تھا کہ میزائل حملہ کثیرالجہتی”آپریشن اوڈیسی ڈان “کا پہلا مرحلہ ہے۔ پپینٹاگون کے مطابق کارروائی میں امریکا، برطانیہ، فرانس، کینیڈا اور اٹلی حصہ لے رہے ہیں ۔ اتحادی افواج نے طرابلس کے علاوہ زوارہ، مصراتہ، سِرت اور بن غازی پر بھی حملے کئے

لبيا کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حملوں میں ایک اسپتال اورمصراتہ شہر کے قریب فوجی کالج کو بھی نشانہ بنایا گیا

لیبیا نے طرابلس میں ایک فرانسیسی طیارہ مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے تاہم فرانس کا کہنا ہے کہ تمام طیارے بحفاظت اپنے اڈوں پر واپس آگئے ہیں۔ واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ لیبیا میں امریکی زمینی فوج نہیں بھیجی جارہی

افریقی یونین نے لیبیا کے خلاف فوجی کارروائی کی مخالفت کرتے ہوئے حملے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے کہا ہے کہ مغربی طاقتیں لیبیا میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں

پيغام يا سوال ؟؟؟

ويلنٹائن ڈے سے کچھ روز قبل مجھے موبائل فون پر ايک پيغام ملا تھا ۔ يہ پيغام ہے يا ہمارے ماتھے پر ايک سواليہ نشان ؟

کچھ جوان بيٹھے خوش گپياں کر رہے تھے کہ ويلنٹائن ڈے کا ذکر شروع ہوا تو اس کی تياريوں کی منصوبہ بندی ہونے لگی ۔ اچانک ان ميں سے ايک جوان بولا “اوئے ۔ ايک عيسائی نے عيدالفطر بڑے جوش سے منائی”

سب اُس کی طرف ہکا بکا ہو کر ديکھنے لگے مگر وہ بولتا گيا
“سُنا تم نے کہ ايک ہندو نے عيدالاضحٰے پر بکرے کی قربانی دی اور ايک يہودی نے رمضان کے روزے رکھے”

ويلنٹائن کی منصوبہ بندی کرنے والا جوان بولا “کيا ہانک رہے ہو ۔ ايسا ہو ہی نہيں سکتا”

پہلے والا جوان بولا “تو يہ سب کيا ہے ؟ مسلمانوں نے نيو ايئر منايا ۔ بسنت منائی ۔ ايف ايم 90 نے راکھی کی تقريب منعقد کی ۔ تم لوگ ويلنٹائن منانے کی تياری ميں ہو”

اقوامِ متحدہ يا مسلم دُشمن متحدہ ؟

اقوامِ متحدہ جس پر مُسلم دُشمن قوتوں کی اجاراہ داری ہے نے آج تک جو فيصلہ بھی کيا وہ ان اجارہ داروں کی مرضی کے مطابق کيا جو انتہائی خود غرض اور متعصب ہيں

نيچے درج تازہ فيصلہ پڑھنے سے پہلے تصور ميں جموں کشمير کے باشندوں کا جمہوری حق [جد و جہد آزادی] اور بھارتی افواج کے عوام پر کئی دہائيوں پر محيط ظُلم و استبداد کو مدِ نظر رکھا جائے تو اقوامِ متحدہ کی مُسلم دُشمنی کھُل کر سامنے آ جاتی ہے ۔ بالخصوص جب جموں کشمير ميں عوام کو اُن کا حق دينے کی قراداديں اسی نام نہاد اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے منظور کی تھيں جو 63 سال سے عمل کيلئے چيخ رہی ہيں

نیویارک میں ہونے والے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے لیبیا پر فضائی حملے کی منظوری دی ۔ لیبیا کو نو فلائی زون قراردینے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔ ووٹنگ میں 10 اراکين نے حصہ لیا جب کہ روس اور چین سمیت 5 ارکين نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ سلامتی کونسل کے کسی رکن نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا ۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ لیبیا کے شہریوں کی حفاظت کے لئے تمام اقدامات کئے جائیں گے اور حکومت مخالف قوتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا

لیبیا نے سلامتی کونسل کی قرارداد کو ملکی وحدت اور استحکام کے لیے خطرہ قرار دیدیااور کہا ہے کہ باغیوں کے ساتھ جنگ بندی کے لیے تیار ہیں

امن کی آشا اور بھارت

پاکستانی لوگ معدودے چند بھارتی صحافيوں کو ساتھ ملا کر جتنا چاہے “امن کی آشا” کا پرچار کر ليں جب تک بھارتی حکومت يا بھارتيوں کی اکثريت ظُلم کی دو دھاری تلوار ميان ميں نہيں ڈالے گی “امن” بھارت اور پاکستان ميں انجان کا خواب ہی رہے گا

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا سولہواں اجلاس [28 فروری سے 25 مارچ 2011ء] جنیوا ميں جاری ہے جس ميں ساری دنيا سے انسانی حقوق کے کئی نمائندے شريک ہيں ۔ کانفرنس کے ايک اجلاس ميں ایک افریقی انسانی حقوق کارکن مچیلن ڈجوما نے ايک 17 سالہ کشمیری لڑکی انیسہ نبی کو پيش کيا کہ وہ جموں کشمير ميں اپنے پر بيتی روداد سنائے

انیسہ نبی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے اپنے والدین کے ساتھ ظلم و زیادتی کی روداد سنائی تو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں موجود سفارتکار اور کارکن اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ انیسہ نبی نے سفارتکاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرائی ۔ اس موقع پر ایک کشمیری این جی او ، کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل افیئرز(کے ایچ اے) کے نمائندے بھی پیلس آف نیشنز، جنیوا میں سفارتکاروں میں لابنگ کررہے تھے ۔کے ایچ اے کے پروگرام ڈائرکٹر الطاف حسین وانی نے کہا کہ انیسہ ایک ہفتے سے ہمارے ساتھ ہے لیکن آج اس نے ہم سب کو رونے پر مجبور کردیا

اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور قتل عام کا نشانہ بننے والوں کی تصویروں کی ایک نمائش بھی ہوئی جس نے انیسہ کے کیس کو مزید موثر اور مضبوط کردیا

انیسہ نبی نے اپنی تقریر نارمل انداز میں شروع کی لیکن جب اس نے اپنے والد کا تذکرہ کیا تو اس کی آواز گھٹنے لگی۔ اس کے والد کو 24 جولائی 1996ء کو بھارتی اہلکار اغوا کرکے لے گئے تھے لیکن آج تک اس کا پتہ نہیں چلا۔ اس وقت انیسہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کی والدہ نے انیسہ کے والد کی تلاش کے لئے مہم چلائی اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں اس کی بازیابی کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ انیسہ کی والدہ کو بدترین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں

انیسہ کی و الدہ کو اس کی سزا یہ ملی کہ 2003ء میں بھارتی فوجیوں نے گھر میں گھس کر اس پر گولیاں چلائیں اور انہیں شہید کردیا ۔ اس وقت انیسہ کی والدہ انیسہ کے چھوٹے بھائی کو گود میں اٹھائے ہوئے تھیں۔ بھارتی فوجیوں نے ان کی گود میں اس بچے کی پروا بھی نہیں کی اور وہ شدید زخمی ہوا ۔ اگرچہ اس کی زندگی بچ گئی لیکن گولیوں سے اس کی ایک ٹانگ معذ ور ہوگئی

جب انیسہ نبی تقریر کے دوران اس واقعہ کے تذکرے پر پہنچی تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ انیسہ نے جب اپنی گفتگو شروع کی تو ہال میں انتہائی خاموشی تھی حالانکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سائڈ لائن سمیناروں میں ایسا کبھی نہیں ہوتا

انیسہ نبی کی کہانی سن کر ایک بھارتی سفارتکار جو وہاں موجود تھا اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اٹھ کر چلا گیا ۔ ایک بھارتی اسکالر ڈاکٹر کرشنا اہوجا نے جو ایک کشمیری ہندو ہیں انیسہ کو اپنی بیٹی کی طرح آغوش میں لے کر تھپکا ۔ اقوام متحدہ کے ایک سینیئر افسر نے انیسہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کو انصاف دلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم کے خلاف اقوام متحدہ کے ہر فورم میں آواز اٹھائیں گے

جموں کشمیر میں میرا بچپن

ہماری رہائش رياست جموں کشمیر کے سردیوں کے صدرمقام جموں توی [صوبہ جموں] کے سب سے بڑے محلہ میں تھی جس کے رہائشی سب مسلمان تھے ۔ اس محلہ کے دو اطراف دریائے توی اور ایک طرف نہر تھی ۔ ان دونوں کا فاصلہ ہمارے گھر سے ایک اور دو کلومیٹر کے درمیان تھا ۔ جموں شہر کے ڈھائی اطراف دریائے توی بہتا تھا اور ایک طرف دریائے چناب سے نکالی ہوئی نہر ۔ ایک جگہ نہر کے اُوپر پل بنا کر دریائے توی کو نہر کے اوپر سے گذارا گیا تھا

نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا اس لئے ہم سردیوں میں توی پر اور گرمیوں میں نہر پر جاتے تھے ۔ گرمیوں میں بھی ہم 10 منٹ سے زیادہ نہر میں رہیں تو دانت بجنے لگتے تھے ۔ توی کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں لیٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں ۔ نہر کے پانی میں ریت ہوتی تھی ۔اگر پانی برتن میں نکال کر رکھ دیں تو ریت بیٹھنے کے بعد پانی شفاف ہو جاتا تھا

جموں میں بارشیں بہت ہوتیں تھیں اولے بھی پڑتے تھے مگر برف کئی کئی دہائياں نہیں پڑتی تھی ۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے بارش کے بعد سڑکیں اور گلیاں صاف شفاف ہو جاتی تھیں

گرمیوں کا صدرمقام سرینگر تھا وہاں چھ ماہ برف جمی رہتی تھی ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم سرینگر میں گذارتے اور اردگرد کے سر سبز اور برف پوش پہاڑوں کی سیر کرتے ۔ سرینگر میں ہم کشتی پر بنے گھر [House Boat] میں رہتے تھے جس میں 2 سونے کے کمرے مُلحق غُسلخانے اور ایک بڑا سا بيٹھنے اور کھانے کا کمرہ [Drawing cum Dining Room] ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک Cook Boat ہوتی تھی جس میں باورچی خانہ کے علاوہ ملازمین کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے

لوگ چھوٹی کشتیوں میں پھول ۔ پھل ۔ سبزیاں اور مچھلی بیچنے آتے تھے ۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں وہ ساتھ نہیں لاتے تھے بلکہ مانگنے پر اُسی وقت جال پھینک کر پکڑ دیتے

چاندنی راتوں میں شکارے میں دریا کی سیر کرتے بہت مزہ آتا ۔ شکارہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورتی سے سجی ہوئی کشتی ہوتی ہے جس میں بیٹھنے کی جگہ کے اردگرد مہین رنگدار کپڑے کے پردے لٹکے ہوتے ہیں

میرے والد صاحب کا کاروبار یورپ اور مشرق وسطہ میں تھا ۔ ان کا ہیڈکوارٹر طولکرم [فلسطین] میں تھا ۔ والد صاحب سال دو سال بعد ايک دو ماہ کے لئے جموں آتے تھے اور کبھی ہماری والدہ صاحبہ کو بھی ساتھ لے جاتے ۔ 1946ء میں والد صاحب ہماری والدہ صاحبہ اور 5 سالہ چھوٹے بھائی کو اپنے ساتھ فلسطین لے گئے اور میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس جموں ميں رہے

میں 10 سال کا تھا جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا ۔ میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اواخر ستمبر 1947ء میں اپنے بزرگوں سے الگ ہو گئے اور پھر 18 دسمبر 1947ء کو پاکستان پہنچنے پر ہماری اُن سے ملاقات ہوئی

پاکستان بننے سے پہلے کے 6 ماہ میں جو کچھ میں گلیوں اور بازاروں میں دیکھ چکا تھا اور بڑوں کے منہ سے سُن چکا تھا اور پھر جدائی کے ڈھائی تين ماہ کے دوران جس دور سے ہم گذرے اُس نے مجھے اتنی چھوٹی عمر میں غور و فکر کا عادی بنا دیا تھا ۔ میں ساری عمر اپنے وطن پاکستان کی بنتی اور بگڑتی صورت پر غور و فکر کر کے حقائق کا ہمیشہ متلاشی رہا

11 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم کی وفات کے بعد ملک غلام احمد کو گورنر جنرل بنایا گیا تو کچھ متفکر بزرگوں نے ایسا تاءثر دیا تھا کہ حقدار تو مولوی اے کے فضل الحق تھے جنہوں نے 23 مارچ 1940ء کو قرادادِ پاکستان پیش کی تھی یا سردار عبدالرب نشتر تھے لیکن خاموشی رہی ۔ پھر جب ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو پاکستان کی پہلی اور آزادانہ درست طریقہ سے منتخب ہونے والی اسمبلی توڑ دی تو مجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ وفا کا جنازہ نکل گیا ہے ۔ اس کے بعد وقفہ وقفہ سے وفا کے جسم پر نشتر داغے جاتے رہے اور رفتہ رفتہ ماحول ایسا بن گیا کے لوگ جفا کو ہی وفا سمجھنے لگے

ایسے ماحول نے مجھے زندگی میں کئی بار سوچنے پر مجبور کیا کہ “کیا میں اس دنیا کی بجائے کسی اور سیّارے کی مخلوق ہوں ؟” اگر میرا خالق و مالک جو رحمٰن و رحیم اور قادر ہونے کے ساتھ کریم بھی ہے میری رہنمائی نہ فرماتا اور میری حفاظت نہ کرتا تو میں کئی دہائیاں قبل ہی کہيں سڑکوں پر دھکے کھا رہا ہوتا یا کسی کال کوٹھری کی زینت بن جاتا ۔ اس کیلئے میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے

احوالِ قوم ۔ 10 ۔ خوشامد

خوشامد وہ عِلّت ہے جو دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے اور قوموں کی تباہی کا اصل سبب ہے ۔ خوشامد عصرِ حاضر ميں ہماری قوم کے اعلٰی اور پڑھے لکھے طبقہ ميں گھر کر چکی ہے ۔ نتيجہ سب کے سامنے ہے

خوشامد میں ہم کو وہ قدرت ہے حاصل
کہ انساں ہو ہر طرح کرتے ہیں مائل
کہیں احمقوں کو بناتے ہیں عاقل
کہیں ہوشیاروں کو کرتے ہیں غافل
کسی کو اتارا کسی کو چڑھایا
یو نہیں سیکڑوں کو اسامی بنایا
روایات پر حاشیہ اک چڑھانا
قسم جھوٹے وعدوں پہ سو بار کھانا
اگر مدح کرنا تو حد سے بڑھانا
مذمت پہ آنا تو طوفاں اٹھانا
یہ ہے روزمرہ کا یاں ان کے عنواں
فصاحت میں بے مثل ہیں جو مسلماں
اسے جانتے ہیں بڑا اپنا دشمن
ہلمارے کرے عیب جو ہم پہ روشن
نصحیت سے نفرت ہے، ناصح سے اَن بَن
سمجھتے ہیں ہم رہنماؤں کو رہزن
یہی عیب ہے، سب کو کھویا ہے جس نے
ہمیں ناؤ بھر کر ڈبویا ہے جس نے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

دِل کے پھپھولے جل اُٹھے ۔ ۔ ۔ ۔

دِل کے پھپھولے جل اُٹھے سِينے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
جل کے دل خاک ہوا آنکھ سے رويا نہ گيا

ملک کے حُکمران بالخصوص پی پی پی اور ايم کيو ايم ڈرامہ ڈرامہ کھيل رہے ہيں اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

کراچی کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں پانچ افراد جاں بحق ہوگئے ہيں اور 12 گاڑیاں جلادی گئی ہیں۔ شہر میں گزشتہ شب سے فائرنگ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اب تک متعدد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی ۔ فائرنگ کے واقعات کے نتیجے میں شہر کے مختلف علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہوگئی۔لیاری،اورنگی ٹاؤن،کھارادر،گلستان جوہر،شانتی نگر اور قریبی علاقوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کے واقعات پیش آئے جبکہ آٓئی آئی چندریگر روڈ ،ایم اے جناح روڈ، اور اس سے متصل شاہراہوں پر رات گئے دیر تک کھلے رہنے والے چائے کے ہوٹل اور دکانیں بھی بند کروادی گئیں ۔ شہر کی کشیدہ صورتحال کے باعث وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق نے آج تمام تعلیمی ادارے بند رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جامعہ کراچی کے رجسٹرار نے اعلان کیا ہے کہ جامعہ کراچی کے تحت آج ہونے والے تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں، انھوں نے کہا کہ نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا