Monthly Archives: January 2011

ہم ۔ ۔ ۔ يا ۔ ۔ ۔ ہم ہی ہم

نامعلوم کيوں ميں اپنے وطن کے معاشرے ميں مدغم نہ ہو سکا ۔ ميرے لئے ميرے ارد گرد کا ماحول ناقابلِ فہم ہی رہا ۔ شايد مجھ ميں خامياں بہت زيادہ ہيں يا ميں کم علم ہوں يا ميں ترقی نہ کر سکا ۔ ميرے بہت کم دوست بنے ليکن اللہ کی مہربانی ہے کہ جو آدھی درجن حضرات ميرے دوست ہيں ان پر ميں بھروسہ کر سکتا ہوں کہ بوقتِ ضرورت ميرے کام آئيں گے اور کام آتے رہتے ہيں

آج جو کچھ ميں لکھنے جا رہا ہوں بھِڑوں کے چھتے ميں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہو سکتا ہے يا کم از کم تُند و تيز جملوں کا حملہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ لکھنے کو بہت کچھ ہے ليکن ميں اپنے ہموطنوں کی صرف ايک عادت جو وہ کہيں بھی چلے جائيں عام طور پر ان کا پيچھا نہيں چھوڑتی کی صرف چند مثاليں نقل کر رہا ہوں

1 ۔ تين چار دوست جب اکٹھے ہوتے تو جو دوست موجود نہ ہوتا اس کی غلطياں بيان کی جاتيں اور اس پر تبصرے کئے جاتے اور اس کی بيوقوفيوں پر قہقہے لگائے جاتے ۔ اگر ان ميں سے ايک چلا جاتا تو جانے والے کے متعلق وہی کچھ کيا جاتا ۔ اور اگر کوئی اور آ جاتا تو وہ بھی اسی لايعنی گفتگو ميں شامل ہو جاتا

2 ۔ ايسی باتيں بڑے وثوق کے ساتھ بيان کی جاتيں ہيں جو عملی طور پر ممکن نہ ہوں
طرابلس لبيا ميں تھا تو ايک ہموطن سينيئر انجيئر صاحب نے کہا “يہ ليبی انتہائی بيوقوف لوگ ہيں ۔ ايک دن ميں نے ديکھا کہ ايک ليبی اپنی بند فيملی کار ميں اُونٹ بٹھا کر لے جا رہا تھا “۔ ميں نے ان سے کہا “پک اپ ميں ليجا رہا ہو گا”۔ مگر وہ مُصِر تھے کہ پيجو فيملی کار ميں لے کر جا رہا تھا [جو کہ ممکن ہی نہ تھا]

3 ۔ ايک ہموطن جو اعلٰی عہديدار تھے نے بتايا “يہ عرب بہت جاہل قوم ہيں ۔ ايک پاکستانی بنک ميں اکاؤنٹ کھلوانے لگا تو
اسے کہا “اسماء ثلاثہ”
اُسے سمجھ نہ آئی تو کسی نے بتايا کہ “اپنا ۔ اپنے باپ کا اور اپنے دادا کا نام بتاؤ”
اس نے کہا ” نويد سن آف”
تو عرب کہنے لگا “بس بس ہو گئے تين”
کچھ دن بعد مجھے اُسی بنک ميں جانے کا اتفاق ہوا تو ميں نے ديکھا کہ وہاں سب اہلکاروں نے ميرے ساتھ شُستہ انگريزی ميں بات کی

4 ۔ ميں مسجد نبوی ميں نماز کيلئے بيٹھا تھا کہ ايک ہموطن ميرے پاس آ کر بيٹھ گئے
تھوڑی دير بعد گويا ہوئے ” آپ کب سے يہاں ہيں ؟”
ميں نے بتايا “دو ہفتے کيلئے عمرہ کرنے آيا ہوں ۔ 5 دن گذر گئے ۔ 10 دن بعد واپس چلا جاؤں گا”
بولے “چھوڑيں جی ۔ سب ايسے ہی کہتے ہيں ۔ واپس کوئی نہيں جاتا ۔ ميں بھی عمرہ کرنے آيا تھا تين سال قبل”

5 ۔ جو ہموطن لبيا ۔ سعودی عرب يا متحدہ عرب امارات جاتے ۔ پاکستان آنے پر يا وہاں ملاقات ہو تو کہتے ” عرب بہت بُرے لوگ ہيں ۔ ميں تو اس سال کنٹريکٹ ختم ہونے کے انتظار ميں ہوں ۔ واپس چلا جاؤں گا”۔ مگر يہ سب حضرات بيس بائيس سال بعد ريٹائرمنٹ پر ہی وطن واپس آئے

6 ۔ ايک صاحب پاکستان ميں ايک دھوکا دہی ميں ملوث قرار ديئے گئے مگر قبل اسکے کہ انہيں فارغ کيا جائے ملازمت چھوڑ کر چلے گئے ۔ لوگوں کو بتايا کہ متحدہ عرب امارت ميں ملازمت مل گئی ہے ۔ ايک سال بعد انگريزی سوٹ پہنا ہوا اور ہاتھ ميں بريف کيس پکڑے ادارے ميں آئے اور کسی کو بتايا پچاس لاکھ روپيہ جمع کر ليا ہے کسی کو کچھ بتايا اور انہيں پاکستانی سرکار کی نوکری کے طعنے دے کر چلے گئے ۔ کچھ ماہ بعد ميرا سابقہ ماتحت افسر اور سکول کے زمانہ کا ہمجماعت جو تين سال کی چھٹی لے کر متحدہ امارات ميں ملازمت کر رہا تھا واپس آيا ۔ وہاں کے حالات کے متعلق بات کرتے ہوئے متذکرہ بالا افسر کا بھی ذکر کيا کہ “بے چارہ بُرے حال ميں تھا ہموطنوں نے مدد کی اور واپسی کا ٹکٹ خريد کر ديا”

7 ۔ جو ہموطن دساور ميں ملازمت وغيرہ کر کے آتے ہيں کوئی وہاں کی تعرفيں کرتے نہيں تھکتا اور بتاتا ہے کہ وہ وہاں بادشاہ ہے اور کوئی وہاں کی برائياں بيان کرتے نہيں تھکتا ۔ بہت کم ايسے ہيں جو اصل صورتِ حال بتاتے ہيں

8 ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے وطن سے باہر درجن بھر ممالک ميں رہنے کا موقع ديا ۔ وہاں ديکھا کہ جہاں دو چار ہموطن اکٹھے ہيں وہ ايک دوسرے کے خلاف کام کر رہے ہيں ۔ جبکہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ ايک دوسرے کی مدد کرتے نظر آئے ۔ ميں نے 1975ء میں متحدہ عرب امارات ميں ديکھا تھا کہ بھارت سے آئے لوگوں نے ايک ايسوسی ايشن بنا رکھی تھی ۔ جو نيا شخص بھارت سے آتا روزگار ملنے تک اس کا کھانا پينا رہنا اور اس کے روزگار کيلئے کوشش کرنا اس ايسوسی ايشن کے ذمہ ہوتا ۔ جب وہ برسرِ روزگار ہو جاتا تو وہ بھی اپنی آمدن کا شايد 5 فيصد اس ايسوی ايشن کو دينے لگ جاتا

9 ۔ تمام ممالک کے سفارتخانے اپنےملک کے لوگوں کی ہر طرح سے مدد کرنے کی کوشش کرتے ہيں ۔ ان کے برعکس ہمارے سفارتخانوں کے متعلق کچھ ہموطنوں نے کہا “بھارت کے سفارتخانہ جانے کيلئے ويزہ نہيں لينا پڑتا مگر اپنے سفارتخانہ ميں جانے کيلئے ويزہ کی ضرورت ہے”

10 ۔ ہموطنوں ميں کسی کو تنگ کرنا يا چھيڑنا يا اس کے خلاف افواہيں پھيلانا عام طور پر شايد عقلمندی کی علامت سمجھا جاتا ہے

11 ۔ دوسرے کا حق مارنے يا اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا ہموطنوں ميں شايد ذہانت سمجھا جاتا ہے

12 ۔ وعدہ کر کے نہ نباہنا شايد مہارت اور ہوشياری سمجھا جاتا ہے

13 ۔ راہ جاتی جوان لڑکيوں کو چھيڑنا يا ان پر آواز کسنا کئی جوان لڑکے اور مرد شايد اپنا حق سمجھتے ہيں ۔ ميں نے صرف کراچی ميں جوان لڑکيوں کو نو وارد لڑکوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ديکھا ۔ دسمبر 1960ء ميں ڈی جے سائنس کالج کی طالبات نے مجھے گھير ليا اور فرسٹ ايئر کا طالب علم سمجھ کر بيوقوف بنانے کی کوشش کی ۔ ميں اُن کی باتيں سُن کر محظوظ ہوتا رہا پھر ميں نے کہا “آپ نے مجھے اپنے پرنسپل صاحب کے دفتر کا راستہ بتانے کی پيشکش کی ہے بہت شکريہ مگر اس وقت مجھے اپنے ہمجماعت لڑکوں سے ملنا ہے جو اين ای ڈی انجنيئرنگ کالج ميں ٹھہرے ہيں”۔ يہ کہتے ہی جھُرمٹ چھَٹ گيا ۔ اس کے بعد ميں نے 1984ء ميں کراچی يونيورسٹی ميں ايک نوجوان لڑکے کے ساتھ لڑکيوں کا حُسنِ سلوک ہوتے ديکھا۔ وہ بيچارہ پريشان تھا کيونکہ اُسے بھاگنے بھی نہيں ديا جا رہا تھا

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ظالم

ڈراموں کی کہانياں اور افسانے لکھنے والوں ۔ ناول نگاوں اور صحافيوں نے ہمارے ملک ميں ايسی فضا تيار کی ہے کہ ہر طرف مرد کے ظُلم کا ڈھنڈورہ پيٹا جاتا ہے اور عورت کی ہر تکليف مرد کے سر منڈھ دی جاتی ہے ۔ علمِ شماريات کا اصول ہے کہ اُوپر اور نيچے کے 34 فيصد کو چھوڑ کر درميانے 66 فيصد کو بنياد بنايا جائے تو درست صورتِ حال سامنے آتی ہے ۔ ہمارے ہاں عام رجحان يہ ہے کہ درميانے يا سفيد پوش 66 فيصد افراد کو يکسر نظرانداز کر کے اُوپر والے يعنی مالدار ايک فيصد يا پھر غربت کی لکير سے نيچے والے 33 فيصد ميں سے چند کی مثال لے کر ساری توانائی اسی پر خرچ کر دی جاتی ہے ۔ مرد کو ظالم قرار دينے کی بنياد يہی ہے

بلاشُبہ عورت پر ظُلم کے اکثر واقعات ان اوپر کے ايک فيصد اور نيچے کے 33 فيصد لوگوں ہی ميں ہوتے ہيں ۔ اوپر کے ايک فيصد ميں ہونے والے واقعات بہت کم منظرِ عام پر آتے ہيں ۔ نيچے کے 33 فيصد ميں ہونے والے واقعات کو عام طور پر وقعت نہيں دی جاتی ۔ بچے اُٹھائے گھر گھر جا کر بھيک مانگنے والی عورتوں سے بات کر کے ديکھ ليجئے ۔ کسی کا خاوند نشئی ہو گا کسی کا جوئے باز يا کسی اور لَت ميں اور بيوی کی مانگی ہوئی بھيک بھی بعض اوقات اس سے چھين لے گا اور اس کی پٹائی بھی کرتا ہو گا

بھاری اکثريت يعنی 66 فيصد کا حال يہ ہے کہ بيٹے ماؤں کے حُکم سے اور خاوند بيوی کی مرضی سے باہر شاذ و نادر ہی ہوتے ہيں ۔ ان ميں ايک خاصی تعداد ايسے خاوندوں کی ہے جو بيوی کی ہم خيالی نہ کرنے پر اُس کی سرزنش کا شکار ہوتے ہيں ۔ ان گھرانوں ميں اکثر کمانے والے خاوند کے پاس جتنے جوڑے کپڑے ہوتے ہيں بيوی کے پاس اس سے 4 گُنا ہوتے ہيں ۔ خاوند کے پاس 5 سے 15 سال پرانے کپڑے ہوتے ہيں اور بيوی کے پاس 3 سال سے زيادہ پرانا کوئی لباس نہيں ہوتا ۔ اس پر بھی بيوی کو اچھے کپڑے نہ ہونے کی شکائت ہوتی ہے

بيوی ملازمت کرتی ہو تو اس کے پاس خاوند سے 20 گُنا زيادہ لباس ہوتے ہيں اور خاوند کو آئے دن بيوی کے طعنے بھی سننا پڑتے ہيں ۔ استثنٰی تو ہر جگہ ہوتا ہی ہے ۔ بلا شُبہ ايسی بيوياں بھی ہيں جو کما کر اپنے خاوندوں کی گھر چلانے ميں بہت مدد کرتی ہيں ۔ امورِ خانہ داری بھی سنبھالتی ہيں اور خاوند کی تابعداری بھی کرتی ہيں

بيٹے کی شادی ہو يا بيٹی کی ان 66 فيصد لوگوں ميں اول رائے ماں کی اور پھر بہنوں کی ہوتی ہے ۔ ماں کی طرف سے دھمکی آخری حربہ ہوتی ہے اور وہ کامياب رہتی ہے جن ميں سے کچھ يہ ہيں ۔ “ميں تمہيں دودھ نہيں بخشوں گی”۔ “ميں نے تجھے پال پوس کر اسلئے جوان کيا تھا کہ تُو مجھے ہی تج دے”۔ “اُس کے ساتھ شادی کرنا ہے تو مجھے مار ڈالو يا گھر سے نکال دو”۔ “اس گھر ميں وہ رہے گی يا ميں”

ماں اپنی پسند کی بہو لانے کے بعد بھی حکومت مکمل اپنے ہاتھ ميں رکھنا چاہتی ہے اور نتيجہ بہو پر ظُلم کی صورت ميں نکلتا ہے ۔ اور اگر بہو تيز ہو تو ساس پر ظُلم ہوتا ہے مگر دونوں صورتوں ميں خاوند يا بيٹا موردِ الزام ٹھہرايا جاتا ہے يا سولی پر لٹکا رہتا ہے ۔ بعض گھرانوں ميں بيٹيوں کی حکومت ہوتی ہے جو بيٹيوں کی شادی ہو جانے کے بعد بھی قائم رہتی ہے ۔ اس کے نتيجہ ميں مياں بيوی يا کم از کم بيوی عذاب ميں مبتلا رہتی ہے

ظالم پھر بھی مرد کو کہا جاتا ہے جس کی صرف ايک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اور گھر ميں گڑ بڑ کا ذمہ دار گھر کا سربراہ ہوتا ہے

اصل ظالم کون ؟

اصل ظالم جو ہيں اُن کی بات کوئی نہيں کرتا ۔ نہ کسی اخبار ميں ان کے بارے ميں کچھ شائع ہوتا ہے اور نہ کسی ٹی وی چينل پر اس سلسلہ ميں کچھ دکھايا جاتا ہے ۔ يہ چھياسٹھ فيصد ميں سے وہ پڑھے لکھے خاوند ہيں جو ديکھنے ميں تو بہت وضع قطع رکھتے ہيں مگر معاشرہ کے ناسور ہيں ۔ اپنی بيويوں کو آزادی کے نام پر بننے سنورنے کا موقع يا ترغيب دے کر اُنہيں اُونچی سوسائٹی کی فرد ہونے کا احساس دلاتے ہيں اور پھر اُنہيں اپنی مادی ترقی کا ذريعہ بناتے ہيں ۔ ايسی عورتيں ہائی سوسائٹی کے چکر ميں اپنے اندر کی عورت کو مارفين کھلا ديتی ہيں اور عورت کی بجائے رونقِ محفل بن جاتی ہيں ۔ ميں مزيد کچھ لکھنا مناسب نہيں سمجھتا ۔ قارئين سمجھ جائيں گے کہ يہ سب کيا ہے

جن کے نقشِ قدم پر يہ عورتيں چلنے کا شوق رکھتے ہوئے اُن کے ہاں کی عورتيں غلط راہ کو محسوس کر نے کے بعد اسے تج کر دنيا کے سچے دين اسلام کو اختيار کر رہی ہيں

پاگل

ہاں جناب ۔ ميں پاگل ہوں ۔ کيونکہ ميرے گرد کے لوگوں نے مجھے کئی موقعوں پر يہی کہا “پاگل ہو گئے ہو کيا ؟ ” مگر میں ٹھہرا پاگل اسلئے اُن کے نصائح ميری سمجھ ميں کبھی نہ آئے ۔ مختلف انواع کی وارداتوں میں سے نمونہ کيلئے صرف ایک ايک تحرير کر رہا ہوں

ايک قسم کا نمونہ
میں جب گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ 14 اگست کو سُنا کہ راجہ بازار خُوب سجايا گيا ہے ۔ اپنے دو ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ مغرب کی نماز کے بعد راجہ بازار کی سير کا قصد ہوا ۔ مرکزی جامعہ مسجد کی طرف سے نمک منڈی جو ميوہ منڈی بھی کہلاتی تھی تک پہنچے تو دل سَير ہو گيا اور واپس لوٹے ۔ ہم تينوں تيز چلنے کے عادی تھے ۔ ہمارے سامنے تين چار لڑکياں آ گئيں جو ہمارے آگے چل رہی تھيں ۔ ابھی اُنہيں اورٹيک کرنے کا سوچا ہی تھا کہ سامنے سے تين ہٹے کٹے لڑکے آتے ہوئے نظر آئے ۔ صاف نظر آيا کہ اُن کی نيت ان لڑکيوں سے ٹکرانے کی ہے ۔ ميں جلدی سے اُچک کر اُن لڑکيوں کے سامنے پہنچا اور دونوں بازو اطراف میں پھيلا کر لڑکوں کے ساتھ سينہ بسينہ پوری قوّت سے ٹکرايا ۔ اس ناگہانی ٹکر کے نتيجہ ميں درميان والا لڑکا گر گيا ۔ ميری عمر اس وقت 16 سال تھی ۔ فوری طور پر کچھ بڑی عمر کے لوگوں نے مجھے الگ کر کے اُن لڑکوں کو پکڑ ليا

آگے بڑھے تو ميرے دو ساتھی کہنے لگے “يار ۔ تُو تَو پاگل ہے ۔ اچھا ہوا لوگوں نے اُنہيں سنبھال ليا ورنہ اُنہوں نے تمہاری ہڈيوں کا قيمہ بنا دينا تھا”

دوسری قسم کا نمونہ
ميں نے ملازمت کے دوران 1965ء میں تيرنا سيکھنا شروع کيا ۔ ابھی چند دن گذرے تھے کہ گرمی زوروں پر تھی تو میں نے دفتر سے آتے ہی اپنے کمرے سے توليہ اور سومنگ کاسٹيوم پکڑا اور سوِمِنگ پُول پہنچا ۔ غُسلخانہ ميں کپڑے تبديل کئے اور نہا کر باہر نکلا ہی تھا کہ ايک دس بارہ سالہ لڑکے نے 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگائی مگر اُوپر آنے کی بجائے دس گيارہ فٹ پانی کے نيچے ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ ميں اُسے ڈوبتے ديکھ نہ سکا اور میں نے بھاگ کر 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی ۔ نمعلوم کيسے میں سيدھا گہرائی ميں گيا ميرے پاؤں زمين سے ٹکرائے تو میں نے پوری قوّت سے زمين کو دھکا ديا اور دونوں ہاتھ سيدھے اُوپر کو اُٹھا ديئے ۔ ميں تيزی سے اُوپر کی طرف اُبھرا ۔ اسی دوران ميں نے ڈوبتے لڑکے کو نيچے سے دونوں ہاتھوں سے اُوپر کی طرف اُچھالنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد ميرا سر پانی سے باہر نکلا ۔ میں نے اپنے جسم کو نيچے کی طرف دھکيلا اور جب لڑکے سے نيچے ہو گيا تو اُوپر اُٹھتے ہوئے لڑکے کو پھر اُوپر کی طرف دھکيلا ۔ میں اور لڑکا دونوں پانی کی سطح پر پہنچ گئے ۔ اتنی دير میں دو تيراک تالاب میں کود چُکے تھے جو لڑکے کو کنارے پر لے آئے

اس واقعہ کے بعد کئی دن تک میں لوگوں سے سُنتا رہا “تم نے کمال پاگل پن کيا ۔عجب پاگل ہو تم ۔ ڈوب جاتے تو”۔

تيسری قسم کا نمونہ
مجھے مارچ 1983ء ميں ايک جديد ترين فنی تربيتی مدرسہ [State-of-the-art Technical Training Institute] کی منصوبہ بندی ۔ نشو و نما اور تکميل [Planning, development and completion] کا کام سونپا گيا ۔ ميں نے منصوبہ بندی کے بعد پہلے سارے نصاب جديد ضروريات کے مطابق ڈھالے پھر عملی کام کی منصوبہ بندی کی ۔ 1985ء ميں ايک سی اين سی تربيتی کارخانے کی پيشکشيں بھی طلب کيں [offers were invited for establishment of computerised numerical controled machines training workshop] ۔ جب پيشکشيں موصول ہو چکی تھيں تو اُوپر سے حُکم آيا کہ فلاں کمپنی کی پيشکش قبول کر لو ۔ يہ پہلے مجھے موصول نہ ہوئی تھی پھر بھی ميں نے اس کا مطالعہ کيا ۔ يہ ايک تو بہت مہنگی تھی دوسرے ہماری ضروريات پوری نہيں کرتی تھی تيسرے فاضل پرزہ جات کی ضمانت بھی نہ تھی ۔ قوانين کے تحت ميں اُوپر سے آنے والی پيشکش کی حمائت نہيں کر سکتا تھاسو ميں نے ساری تفصيل لکھ کر بھيجی ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ ميرا وہاں سے تبادلہ کر ديا گيا اور ميری دو سال کی تمام محنت اور اس کے اچھے نتائج سے قطع نظر کرتے ہوئے سال کے آخر ميں ميری سالانہ رپورٹ ميں لکھا گيا not fit for promotion

ساتھی کہنے لگے ” تم بھی پاگل ہو ۔ کيا پڑی تھی قوم کا پيسہ بچانے کی ؟ صاحب بہادر کو خوش کرتے ترقی پاتے”

چوتھی قسم کا نمونہ
جب 4 اگست 1992ء کو مجھے ڈائريکٹر پی او ايف ويلفيئر ٹرسٹ بنايا گيا تو چند ماہ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ عوام کی کم اور افسران کی زيادہ ويلفيئر ہوتی ہے ۔ میں نے پيچ کسنے شروع کئے تو کچھ افسران کو پريشانی ہوئی اور ميرے خلاف ہوا گرم ہونا شروع ہوئی ۔ نوبت بايں جا رسيد کہ مجھے 2 سال بعد يہ نوکری چھوڑنا پڑی جبکہ مجھے 7 سال يہ نوکری کرنے کی اُميد تھی يعنی 60 سال کی عمر تک

ساتھيوں نے کہا “تم بھی پاگل ہی ہو ۔ جو دوسرے کرتے تھے کرتے رہتے ۔ تمہيں کيا پڑی تھی ايمان داری دکھانے کی ۔ خواہ مخوا اپنے رزق پر لات مار دی”۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ تنقید

کسی پر تنقید کرنے سے قبل

جس پر تنقيد کرنے کو ہيں کچھ دیر اس کے نقشِ قدم پر چل کر دیکھیئے

اس طرح آپ اُسے پہلے سے بہتر سمجھ چکے ہوں گے

اور تنقید کرنا ہوئی تو بہتر طریقہ سے کر سکیں گے

کيا معلوم اس طرح آپ تنقيد کے ناخوشگوار عمل سے بچ ہی جائيں

انتباہ

کسی صاحب نے ميرا نام استعمال کر کے مختلف بلاگز پر فضول قسم کے تبصرے شروع کر رکھے ہيں

تمام بلاگرز سے درخواست ہے کہ ميرے نام سے کيا گيا تبصرہ اگر غير مہذب يا بے تُکا يا قابل اعتراض ہو تو سمجھ ليجئے کہ وہ تبصرہ ميرا نہيں ہے

جموں کشمیر کے جوانوں نے ہتھیار کیوں اٹھائے

جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے تیسری سیاسی تحریک جو 1931ء میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری ہے ۔ دوسری مسلح جدوجہد 1989ء میں شروع ہوئی وہ پاکستان کی حکومت کی مدد کے بغیر آج تک جاری ہے ۔ اس دوسری مسلح تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کے ایماء پر شروع کی گئی ۔ حقیقت کچھ اس طرح ہے

ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988ء میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی ۔ دسمبر 1988ء میں راجیو گاندھی کے پاکستان کے دورہ سے پہلے جہاں کہیں “کشمیر بنے گا پاکستان” یا ویسے ہی جموں کشمیر کا نام لکھا تھا وہ مِٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار دیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا

بے غيرتی يہاں تک پہنچی کہ ملاقات يا مذاکرات کے بعد بھارت اور پاکستان کے وقت کے حاکموں راجيو گاندھی اور بينظير بھٹو نے مشتکہ پريس کانفرنو کی جس ميں ايک صحافی نے جموں کشمير کے بارے ميں سوال کيا ۔ راجيو گاندھی نے اُسے غصہ ميں ڈانتتے ہوئے کہا “جموں کشمير بھارت کا اٹُوٹ اَنگ ہے”۔ اور بينظير بھٹو دوسری طرف منہ کر کے ہنستی رہيں

اُسی زمانہ میں خیر سگالی کرتے ہوئے حکمرانوں نے اُن راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظُلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ اس طرح جموں کشمیر کے کئی سو رضاکار مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی

بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی بے حُرمتی کی ۔
یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو نوجوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی

ميں کيا جواب دوں ؟

ميری تحرير شکست خوردہ قوم پر ايک قاری عمران اقبال صاحب نے مندرجہ ذيل تبصرہ کيا ہے جس ميں ايک اہم قومی معاملہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ آج کی جوان نسل سے ميری درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں

عمران اقبال صاحب لکھتے ہيں ۔ ۔ ۔

کل جب آپ سے بات ہوئی تو آپ نے کہا تھا کہ “پاکستان پہلے ایسا نہیں تھا” اور پھر آپ نے مثال دی کہ “پہلے اگر کسی پارک میں لوگ گھاس پر چل رہے ہوتے تھے تو دوسرے لوگ کہتے تھے کہ بھائی اگر آپ نے بیٹھنا ہے تو گھاس پر بیٹھ جاؤ ورنہ راہ داری پر چلو” ۔۔۔ یہ تھیں قدریں۔۔۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ “آج کی نسل اور ہم سے پہلی نسل میں کیا بنیادی فرق ہو گیا جو اب پہلے جیسی مروت نہیں رہی ؟” ۔۔۔ اور آپ نے جواب دیا تھا کہ “دین اور قانون سے بيگانگی”۔۔۔

میرے خیال میں۔۔۔ ہم اس حد تک پست اقدار اپنا چکے ہیں کہ اب اسے بدلنے میں ایک پوری نسل کی کوششیں چاہئیں ۔۔۔ ہماری نسل کے خون میں بے ایمانی، بے قدری اور بے مروتی بھری جا چکی ہے۔۔۔ اور میں اس کا قصور پچھلی نسل کو دونگا۔۔۔ انہی کی اسلام دوری اور مادی دنیا میں آگے بڑھنے کے شوق نے ہم سے وہ ساری اقدار چھین لیں جو کبھی ہمارا اثاثہ تھے۔۔۔ اور بقول آپ کے کہ پہلی تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے تو جب گھر بھر میں دین کا نام نہ ہو اور ہر وقت مادی مسائل کا ذکر ہو تو ہم بھی وہی سوچیں گے اور کریں گے جو ہمارے بڑوں نے کیا۔۔۔

جب میں “اپنی نسل” کی بات کرتا ہوں تو میں خود سمیت کسی کو الزام نہیں دے رہا لیکن کھلے دماغ اور دل سے سوچیئے کہ کیا ہماری نسل واقعی بے راہ روی کا شکار نہیں ؟ ۔۔۔ ہم میں وہ کونسی خامیاں‌نہیں رہ گئيں جو ہم نے قرآن میں ان قوموں کے بارے میں پڑھیں ہیں جن پر اللہ نے عذاب نازل فرمایا۔۔۔

لیکن ہم بخشے جا رہے ہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے سبب۔۔۔ ورنہ جو خامیاں ہم میں ہیں ان کے باعث اب تک ہم بندر یا سُوّر بن چکے ہوتے یا ہمیں بھی آسمان تک لے جا کر الٹا پھینک دیا جاتا۔۔۔

آپ نے فرمایا تھا کہ” آج کی نسل بہت بہتر ہے” تو میں آپ سے اس بات پر اس حد تک اتفاق کرتا ہوں کہ دنیاوی علم اور کچھ کر دکھانے کی جہت نے ہمیں بہت فاسٹ فارورڈ کر دیا ہے۔۔۔ شاید میں کنویں کے مینڈک کی طرح ہوں جسے کچھ نظر نہیں آ رہا لیکن مجھے پڑھے لکھے، سوچنے سمجھنے والے اور لوجیک کے ساتھ گفتگو کرنے والے عالم دین سے ملنے کا اب بھی بہت انتظار ہے۔۔۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک یا ڈاکٹر اسرار احمد کو بہت سن چکا ہوں لیکن انہیں بھی صرف ایک خاص طبقہ ہی فالو کر رہا ہے۔۔۔ ہمیں چاہیے ایسے لوگ جو محلوں کی مساجد میں یہ خدمت انجام دیں ۔۔۔

میرا ماننا یہ بھی ہے کہ اگر ہمارا دین راسخ ہو جائے اور عقیدہ میں کوئی کمی نہ رہ جائے تو دنیا میں رہنے کے ہمارے اطوار ہی بدل جائیں گے۔۔۔ پھر لوگ قانون کی پاسداری بھی کریں گے اور ان میں توکل بھی آ جائے گا۔۔۔ اور میرے خیال میں توکل علی اللہ دنیا بھی بنا دیتا ہے اور آخرت بھی۔۔۔

عمران اقبال صاحب نے عجمان سے مجھے ٹيليفون کيا اور سير حاصل گفتگو کی ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ميرے ملک ميں ايسے جوان ہيں جو درست معلومات حاصل کرنے اور اپنے علمِ نافع ميں اضافہ کرنے کی کوشش ميں لگے رہتے ہيں ۔ ميں عمران اقبال صاحب کی صرف دو باتوں پر اپنا خيال پيش کروں گا

درست ہے کہ آج کی جوان نسل کی بے راہ روی ان سے پہلی نسل يعنی ميری نسل کی عدم توجہی يا غلط تربيت يا خود غرضی کا نتيجہ ہے مگر کُلی طور پر پچھلی نسل اس کی ذمہ دار نہيں

درست ہے کہ ہماری مسجدوں کی بھاری اکثريت پر غلط قسم کے لوگ قابض ہيں ۔ مگر اس کی وجہ بھی ہم خود ہی ہيں ۔ ہم ميں سے کتنے ہيں جنہوں نے مساجد ميں دينی لحاظ سے بہتری کيلئے خلوصِ نيت سے کوشش کی ہے ۔البتہ نکتہ چينی کرنے کيلئے اکثريت ميں ايک سے ايک بڑھ کر ہے

اسلام آباد کی سب سے بڑی سرکاری مسجد جسے لوگ لال مسجد کہتے ہيں کے خطيب کو حکومت گريڈ 12 کی تنخواہ ديتی ہے باقی مساجد ميں گريڈ 10 اور 8 کی ۔ دسويں جماعت کے بعد 8 سال علمِ دين حاصل کرنے والے کتنے ايسے خدمتگار ہو سکتے ہيں جو گريڈ 12 يا 10 يا 8 ميں ملازمت اختيار کريں گے ؟ جب حکومت ان کی سند کو ماسٹرز کے برابر مانتی ہے تو پھر ان لوگوں کو دوسری جامعات سے ماسٹرز کرنے والوں کی طرح گريڈ 15 کيوں نہيں ديا جاتا ؟ خاص کر اسلئے کہ ان لوگوں نے ايک اہم دينی فريضہ ادا کرنا ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کسی کے دل ميں خيال پيدا ہو کہ پھر يہ سب کہاں چلے جاتے ہيں ؟ ان ميں کئی ساتھ ساتھ بی ا انگلش اور ايم اے انگلش کے امتحان پاس کر ليتے ہيں اور مسجد کی بجائے دوسری ملازمتيں اختيار کرتے ہيں ۔ صرف چند ايسی مساجد کے خطيب بنتے ہيں جہاں جائز آمدن کا کوئی اور ذريعہ بھی ہو ۔ ايسی مساجد کے طور طريقے ہی الگ ہوتے ہيں ۔ کوئی کہيں چندہ مانگنے نہيں جاتا ۔ جمعرات کی روٹی کا کوئی رواج نہيں ہوتا اور نہ کسی کے گھر ميں ختم کے نام پر کھانا کھاتے ہيں ۔ يہاں يہ واضح کرنا بے جا نہ ہو گا کہ ايسے امام مسجد بھی ہيں جنہوں نے دينی تعليم کے ساتھ ساتھ معاشيات يا رياضی يا سائنس کی کم از کم گريجوئيشن کی ہوئی ہے