Monthly Archives: January 2011

چھوٹی چھوٹی خبريں

اسلام آباد ۔ 30 جنوری 2011ء کے اخبار سے ۔ واشنگٹن کے دباؤ اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی جانب سے اسلام آباد کے حکمرانوں کو امریکی قاتل کی فوری رہائی کیلئے فون کرنے کے باوجود پنجاب حکومت کے ترجمان نے اس عزم کا اظہار کیا ہے قانون کے مطابق پیش رفت ہوگی اور رات کی تاریکی میں دو افراد کو قتل کرنے والے شخص کو امریکا بھیجنے نہیں دیا جائے گا۔ دفتر خارجہ اور پنجاب حکومت، دونوں نے اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ جمعرات کو لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کرنے والے امریکی باشندے ریمنڈ ڈیوس یا دوسرے امریکی کیلئے کوئی غیر معمولی رعایت اختیار کی جائے گی
ایک ایسے موقع پر جب دفتر خارجہ کا اصرار ہے کہ ہلیری کلنٹن نے فون کال کی اور اعلیٰ سطح پر رابطے ہوئے ہیں، وزارت خارجہ نے پرعزم ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ پنجاب حکومت کے ترجمان پرویز رشید کا کہنا ہے کہ ملکی قانون کے تحت کارروائی ہونا چاہئے اور امریکی قاتلوں کی قسمت کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا چاہئے۔ پرویز رشید نے کہا کہ صوبائی حکومت کی اصلیت کو افعال ہی ظاہر کرسکتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ یہ واقعہ امریکا اور پاکستان کے درمیان جنگ کا سبب بنے لیکن ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ پاکستانیوں کے قاتلوں کیلئے قانون کے مطابق نمٹا جائے اور اس معاملے میں میری پارٹی اور صوبائی حکومت کسی دباؤ میں نہیں آئے گی اور قانون کے تحت کارروائی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کا مقدمہ اب عدالت میں ہے اور اب وہی اس کی قسمت کا فیصلہ کرے گی اور یہ بھی اسے سفارتی استثنٰی حاصل ہے یا نہیں ۔
پنجاب پولیس کے ذارئع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں تین مقدمات درج کیے گئے ہیں جن میں سے اسلحہ اور دہرے قتل کے دو مقدمات ریمنڈ ڈیوس کے خلاف جبکہ ایک اور کیس بھی امریکی باشندے کے خلاف درج کیا گیا ہے جس کا نام تاحال معلوم نہیں ہوسکا۔
ریمنڈ ڈیوس سے گلوبل پوزیشننگ سسٹم (G P S) اور چہرے پر پہننے والا نقاب (Face Mask) برآمد ہونے کے بعد اس بات کے خدشات بڑھ گئے ہیں کہ وہ خفیہ (UnderCover) جاسوس تھا۔

لاہور ۔ 31 جنوری 2011ء بوقت 15:35 ۔ وطن پارٹی کے بیرسٹر ظفراللہ نے لاہور میں شہریوں کے قتل کیس میں گرفتار امریکی ریمنڈڈیوس کے خلاف آئین کے آرٹیکل184 3 کے تحت سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل نہیں ہے اور امریکی سفارت خانے نے اسے سفارت کار بھی غلط طور پر قرار دیاہے ۔ پٹیشن میں استدعا کی گئی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا یا امریکا کے حوالے نہ کرنے کا حکم دیا جائے

لاہور ۔ 31 جنوری 2011ء بوقت 15:50۔ وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی نے کہا ہے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنٰی حاصل ہے تو اسے امریکا کے حوالے کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں ریمنڈ کے خلاف کیس امریکا میں ہی چلے گا ۔ وہ اسلام آباد جاتے ہوئے لاہور ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفت گو کر رہے تھے۔ سردار آصف احمد علی کا کہنا تھاکہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو استثنٰی حاصل نہیں تو اس کا ٹرائل پاکستان میں ہی قانون کے مطابق ہو گا ۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ اسے استثنٰی نہیں تھا اس لئے کیس امریکا میں چلا

Let Joe Do It

“Who will do it ?”
“Let Joe do it”
“But Joe is not yet born, then who will do it ?”

يہ مکالمہ مجھے اسلئے ياد آيا کہ ميں نے “ميں کيا جواب دوں” کے عنوان سے تمام قارئين سے درخواست کی تھی کہ اپنی تعميری تجاويز سے نوازيں ۔ مجھے يہ لکھتے ہوئے صرف افسوس ہی نہيں بلکہ دُکھ ہو رہا ہے کہ بڑھ چڑھ کر باتيں کرنے اور بلند پايہ تحارير لکھنے ميں ہم لوگ سب سے آگے ہيں ليکن ميری اس درخواست کو جو ميرا نہيں آج کے جوانوں اور آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے کسی نے قابلِ اعتناء نہ سمجھا ۔ ميرا خيال تھا کہ عبداللہ صاحب مُلک و قوم کے مُخلص خدمتگار اور خير خواہ ہيں وہ ضرور اپنی عمدہ قابلِ عمل رائے سے نوازيں گے مگر شايد وہ کسی اس سے بھی زيادہ اہم کام ميں ہمہ تن گوش رہے

البرٹ آئنسٹائن جس کی ہر بات کو ہمارے مُلک کی اکثريت ہيرے سے زيادہ قيمتی سمجھتی ہے نے کہا تھا

گناہ و جُرم کرنے والوں کی وجہ سے دنيا خطرناک نہيں بنی بلکہ اُن اچھے لوگوں کی وجہ سے خطرناک بنی ہے جو بُرائی کو ديکھتے ہيں اور اس کے سدِ باب کيلئے کچھ نہيں کرتے

کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں ہوں گا کہ ہمارے ملک کی حالت ابتر بنانے ميں جوان نسل بھی برابر کی شريک ہے ؟

بلاگز پر بالخصوص تبصروں ميں کئی بار پڑھ چکا ہوں “ملک کی بہتری کيلئے وڈيرے ۔ سرداروں ۔ نوابوں اور موروثی حکمرانوں سے جان چھڑانا ضروری ہے ” اور يہ لکھنے میں عبداللہ صاحب پيش پيش ہوتے ہيں ۔ باتيں کرنا بہت آسان کام ہے اس کيلئے نہ تعليم کی ضرورت ہوتی ہے نہ عقل کی ۔ “حُکمران وڈيرے لُٹيرے” کا شور آئے دن اُٹھتا رہتا ہے مگر يہ شور کرنے والے خود ايک تنکا توڑنا بھی شايد اپنے آپ پر ظُلم سمجھتے ہيں ۔ جب تک عوام کچھ عملی قدم [توڑ پھوڑ کا نہيں صرف تعميری] نہيں اُٹھائيں گے کچھ نہيں بدلے گا اور حالات مزيد خراب اور ناقابلِ برداشت ہوتے جائيں گے ۔ قوميں تحمل اور بُردباری سے بنتی ہيں ۔ “فلاں جگہ آپريشن کرو” ۔ “فلاں جگہ مارشل لاء لگا دو” کے آوازے عقل اور حُب الوطنی سے عاری ہوتے ہيں

قوم کی بنياديں استوار کرنے کيلئے ذاتيات کو بھُلا کر اجتماعی جد وجہد سے کم کوئی نُسخہ نہيں ہے

وڈيرے اور لُٹيرے حکمرانوں سے چھُٹکارہ کيسے ؟

ميں نے پچھلے قومی و صوبائی انتخابات سے قبل ايک تحرير لکھی تھی جس ميں اس چھٹکارے کيلئے تجاويز ديں تھيں جو صرف ووٹرز کيلئے تھيں ۔ حالانکہ ميرا مشورہ غير جانبدارانہ اور خلوص پر مبنی تھا پھر بھی ميں کہہ سکتا ہوں کہ بلاگرز اور قارئين ميں سے بھی صرف چند ايک ہوں گے جنہوں نے ميرے مشورے پر عمل کيا ہو گا يا وہ خود پہلے سے ہی ايسا کرتے ہوں گے ۔ اگر ووٹر اس پر عمل کرتے تو آزمائے ہوئے لُٹيرے ہمارے حکمران بن کر آج ہمارے لئے سوہانِ روح نہ بنے ہوتے

ابھی چونکہ انتخابات ميں دوسال باقی ہيں اسلئے ميں اپنی متذکرہ تجويز کو مزيد مؤثر بنانے کيلئے تجويز دے رہا ہوں جس کيلئے عوام بالخصوص پڑھے لکھوں کی صدق دل اور صبر و تحمل کے ساتھ کوشش کی ضرورت ہے ۔ پہلے سب اپنے ساتھ عہد کريں کہ وہ اُس جماعت کا سياسی اور معاشرتی بائيکاٹ کريں گے جو ان اصولوں پر عمل پيرا نہيں ہو گی اور صرف اس جماعت کے نيک نام اُميدواروں کو ووٹ ديں گے جو ان اصولوں پر عمل کرے گی

مزيد پڑھنے سے پہلے ميری متذکرہ پرانی تحرير پڑھ ليجئے تاکہ بلاوجہ کے سوال دماغ کو پراگندہ نہ کريں

تمام لوگ اپنی اپنی جماعتوں کو انتخابات کے مندرجہ ذيل قوانين بنانے پر مجبور کريں

1 ۔ ہر سياسی جماعت کا باقاعدہ رجسٹر شدہ ايجنڈہ ہو جس پر عمل نہ کرنے والی جماعت پانچ سال کيلئے نا اہل قرار دی جائے

2 ۔ ہر سياسی جماعت مقررہ مدت [جو پانچ سال سے زيادہ نہ ہو] کے بعد اپنی جماعت کے ہر سطح کے انتخابات کرائے

3 ۔ انتخابات کی تاريخ سے 2 ماہ قبل اور انتخابی مُہم شروع ہونے سے پہلے مرکزی اور صوبائی حکومتيں اور اسمبلياں توڑ دی جائيں اور حکومت کا وقتی طور پر کام چلانے کيلئے مرکز ميں عدالتِ عظمٰی اور صوبوں ميں متعلقہ عدالتِ عاليہ آئين کے مطابق ايسے افراد مقرر کرے جو اس کام کے اہل ہوں ا ور ان کا کسی سياسی جماعت سے نہ تو تعلق ہو اور نہ وہ مستقبل ميں کم از کم پانچ سال تک کسی سياسی جماعت کے نمائندہ يا اُميدوار بنيں

4 ۔ انتخابات کی سياست ميں حصہ لينے والا سرکاری ملازم بشمول صدر اور گورنر ہر قسم کے قومی يا صوبائی عہدہ کيلئے نااہل قرار ديا جائے

5 ۔ انتخابی جلسہ ميں ہر اُميدوار اپنی جماعت کے ايجنڈہ کے تحت بات کرے ۔ دوسری جماعت کی برائی کرنا چاہے تو جس کی برائی کی جائے بات اس سياسی جماعت کے ايجنڈہ پر عمل نہ کرنے کی صورت ميں کرے يا ان کے ايجنڈہ پر تنقيد کرے ۔ يونہی کيچڑ اُچھالنے والے کے خلاف تاديبی کاروائی کی جائے

6 ۔ کسی اُميدوار کو سرکاری ٹرانسپورٹ يا کوئی اور سرکاری سہولت استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو ۔ ايسا کرنے والے اُميدوار پر پانچ سال انتخابات ميں حصہ نہ لينے کی پابندی لگا دی جائے

7 ۔ انتخابات کے دن کسی کو ذاتی يا سرکاری ٹرانسپورٹ پر ووٹرز کو لے جانے کی اجازت نہ ہو

8 ۔ ہر رجسٹر شدہ ووٹر کيلئے ووٹ ڈالنا لازمی ہو سوائے اس کے کہ وہ اتنا بيمار ہو کہ کسی صورت ووٹ نہ ڈال سکتا ہو

9 ۔ تمام ووٹرز کو سرکاری طور پر ٹرانسپورٹ مہياء کی جائے جس کے اخراجات اس حلقہ کے تمام اُميدوار برابر برابر قائم مقام حکومت کو پيشگی ادا کريں

ماضی معلوم ہے ۔ مستقبل کيا ہو گا ۔ کوئی بتائے

جمعرات 27 جنوری 2011ء کو امريکيوں کے ہاتھوں 3 پاکستانيوں کے بر سرِ عام قتل کے سلسلہ ميں ڈاکٹر منير عباسی صاحب نے سوال کيا ہے کہ “کیا تین پاکستانیوں کے قتل عمد میں ملوث امریکیوں کو سزا ہو گی؟”
اس سوال کا جواب دينے کيلئے واردات کی مکمل تفصيل اور ماضی ميں ايسے واقعات پر کی گئی حکومتی کاروائی مدِ نظر ہونا ضروری ہے ۔ ميں اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ دونوں کو بالکل مختصر يکجا کروں

واردات کے اجزاء
1 ۔ ريمنڈ ڈيوس نے پوليس کو بتايا تھا کہ وہ امريکی قونصليٹ ميں ٹيکنيکل ايڈوائزر ہے مگر بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ بزنس آفشل کے ويزہ پر پاکستان آيا ہوا ہے ۔ وہ ڈِپلوميٹ نہيں ہے

2 ۔ جہاں ريمنڈ ڈيوس گھوم رہا تھا اُس علاقہ ميں کسی امريکی کو جانے کی اجازت نہيں ہے

3 ۔ ريمنڈ ڈيوس جو کار چلا رہا تھا اُس پر نمبر پليٹ جعلی تھی

4 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس اسلحہ تھا جس کا اُس نے بيدردی سے استعمال کر کے دو پاکستانی جوانوں کی جان لے لی

5 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر وائرليس سيٹ رکھنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس وائرليس سيٹ تھا جسے استعمال کر کے اُس نے اپنے قونصليٹ سے مدد منگائی

6 ۔ ريمنڈ ڈيوس کا مؤقف ہے کہ اُس نے اپنے دفاع ميں گولی چلائی ۔ ہسپتال ميں موٹر سائيکل چلانے والے فيضان حيدر کے جسم سے 9 گولياں اور پيچھے بيٹھے فہيم کے جسم سے 5 گولياں نکالی گئيں ۔ کيا اپنے دفاع ميں 14 گولياں چلائی جاتی ہيں جبکہ ريمنڈ ڈيوس کو کوئی گولی نہ لگی اور نہ کوئی گولی باہر سے اُس کی کار کو لگی

7 ۔ فيضان حيدر اور فہيم کو ہلاک کرنے کے بعد ريمنڈ ڈيوس کار سے باہر نکلا اور ہلاک ہونے والوں کی تصويريں بناتا رہا ۔ جس پر ڈاکو حملہ کريں کيا وہ ايسا کرتا ہے ؟

8 ۔ ريمنڈ ڈيوس کو پوليس نے گرفتار کر ليا

9 ۔ ريمنڈ ڈيوس کے وائرليس پر پيغام دينے کے نتيجہ ميں امريکی قونصليٹ کی ايک گاڑی پر ڈرائيور کے ساتھ دو آدمی آئے جو سب امريکی تھے

10۔ اس گاڑی کی نمبر پليٹ بھی جعلی تھی

11 ۔ سڑک پر ٹريفک زيادہ ہونے کی وجہ سے قونصليٹ کی گاڑی کو سُست چلنا پڑ رہا تھا ۔ ڈرائيور جانے اور آنے والی سڑکوں کی درميانی پٹڑی کے اوپر سے گاڑی کو جمپ کرا کے آنے والی سڑک پر ٹريفک کے مخالف گاڑی چلانے لگا جس کے نتيجہ ميں ايک موٹر سائيکل سوار عبادالرحمٰن کو ٹکر ماری جو ہلاک ہو گيا

12 ۔ جب اُس نے بھاگنے کی کوشش کی تو لوگوں نے اُسے روکا جس پر ايک آدمی نے اپنی گن کا رُخ اُن کی طرف کر کے اُنہيں دھمکی دی ۔ لوگ پيچھے ہٹ گئے اور وہ بھاگنے ميں کامياب ہو گيا

ہمارا ماضی کيا بتاتا ہے ؟
لاہور کا واقعہ پچھلے تمام واقعات سے بہت زيادہ سنگين ہے البتہ ماضی کی کچھ مثاليں يہ ہيں جن ميں ہماری حکومت نے کوئی کاروائی نہيں کی تھی

1 ۔ پچھلے سال اسلام آباد ميں دو ڈچ باشندوں کو اپنی گاڑی ميں اسلحہ بشمول ہينڈ گرنيڈز ليجاتے ہوئے پوليس نے پکڑا ۔ امريکی سفارتخانے کے ايک اہکار سنّی کرسٹوفر نے انہيں چھڑانے کی کوشش کی ۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اسے جُرم قرار ديا ۔ سيکريٹيريٹ پوليس نے کيس کا انداج بھی کيا مگر حکومت نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے دی

2 ۔ جون 2009ء ميں ايک ڈبل کيبن پک اپ پشاور سے اسلام آباد آتے ہوئے جب گولڑہ چوک چيک پوسٹ پر پہنچی تو اُسے رُکنے کا اشارہ ديا گيا مگر وہ نہ رُکی ۔ پوليس نے وائرليس پر اگلی چيک پوسٹ کو اطلاع کر دی چنانچہ جی ۔ 9 کے پاس انہيں روک ليا گيا ۔ اس ميں تين امريکی جيفری ۔ جفڈک اور جيمز بل کوئين ۔ چارلی بنزک نامی ڈرائيور کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ يہ لوگ شلوار قميضيں پہنے تھے ۔ لمبی ڈاڑھياں رکھی تھيں اور پٹھانوں کا حُليہ بنايا ہوا تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 مشين گنز اور 4 پستول 9 ايم ايم کے تھے ۔ ايس پی کی مداخلت سے ان لوگوں کو جانے ديا گيا

3 ۔ اگست 2009ء ميں اسلام آباد پوليس کا انسپکٹر حکيم خان اپنی بيوی کے ساتھ پرائيويٹ کار ميں امريکی سفارتخانے کی قريبی چيک پوسٹ سے گذر رہا تھا ۔ اُسے امريکی سفارتخانے کے سکيورٹی آفيشل جان ارسو نے روکا اور گالياں ديں ۔ جب انسپکٹر حکيم خان نے اُسے کہا کہ وہ شارع عام پر گاڑياں چيک نہيں کر سکتا تو جان ارسو نے پستول نکال ليا اور کہا کہ وہ پاکستان ميں کسی بھی جگہ کوئی بھی چيز چيک کر سکتا ہے ۔ حکيم خان نے اپنے افسرانِ بالا کو اس واقعہ کی باقاعدہ تحريری اطلاع دی ۔ جان ارسو کے خلاف کوئی تاديبی يا قانونی کاروائی نہ کی گئی مگر اسے امريکا واپس بھجوا ديا گيا

4 ۔ اس کے بعد اگست 2009ء ہی ميں ايک پاکستانی جوان جو ڈپلوميٹک اينکليو ميں رہتا تھا دو دوستوں کے ساتھ اپنی کار ميں امريکی سفارتخانے کی چيک پوسٹ سے گزر رہا تھا کہ ايک يو ايس ميرين جو اپنی بيوی کے ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے وہاں سے گذر رہا تھا نے اس کی کار کو روکا اور ٹھُڈا مار کر کار کا سائيڈ کا شيشہ توڑ ديا اور صرف پاکستانی جوان کو ہی نہيں پاکستان کو بھی گالياں ديں ۔ پاکستانی جوانوں کے احتجاج کرنے پر يو ايس ميرين نے سکيورٹی گارڈز کو بلا کر انہيں 40 منٹ زيرِ حراست رکھا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ دوبارہ کبھی اُس سڑک پر گاڑی نہيں چلائيں گے

5 ۔ اگست 2009ء کے ہی آخری دنوں ميں سيکٹر ايف ۔ 6 ميں شيل پٹرول پمپ کے مالک محسن بخاری کو ميريئٹ ہوٹل کے قريب آغا خان روڈ کے ٹريفک سگنل پر 2 امريکيوں نے روک کر اپنی شناخت کرانے کو کہا ۔ پھر اُسے اُس کے پٹرول پمپ پر لے گئے جہاں امريکی سفارتخانے کی سکيوريٹی کی ٹيم بھی پہنچ گئی اور محسن بخاری سے 30 منٹ پوچھ گچھ کی گئی ۔ محسن بخاری سينٹ ميں ليڈر آف دی ہاؤس نيّر بخاری کا بھتيجا ہے

6 ۔ اگست 2009ء کے ہی اواخر ميں امريکی سفارت خانے کی ايک پراڈو اور ايک ڈبل کيبن پک اپ کو کشمير ہائی وے پر پشاور موڑ کے قريب پوليس نے روکا ۔ دونوں گاڑيوں کی رجسٹريشن پليٹيں جعلی تھيں ۔ امريکيوں نے چيکنگ کروانے سے انکار کيا ۔ بعد ميں کچھ افسران آ گئے اور ان سے درخواست کی کہ پوليس کو قانون کے مطابق اپنا کام کرنے ديں ۔ 4 امريکيوں پکل روبن کينتھ ۔ لسٹر ڈگلس مائيکل ۔ کلن ڈينن جيسن رابرٹ اور سٹيل جونيئر نے اپنے آپ کو يو ايس آرمی آفيشلز بتايا ۔ ان کے ساتھ احمد اللہ نامی ايک افغانی بھی تھا جو امريکی سفارتخانہ ميں رہتا تھا اور اُس کے پاس پاسپورٹ يا کوئی ٹريول ڈاکومنٹ نہ تھا ۔ صرف امريکی سفارتخانے کا ايک خط اُس کے پاس تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 رائفليں اور ايميونيشن تھا مگر کسی کے پاس لائسنس يا کوئی اور اٹھارٹی نہ تھی ۔ اُنہوں نے بتايا کہ وہ خيبر پختونخوا کی فرنٹيئر کور کے ساتھ کام کر رہے ہيں مگر اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا

موجودہ صورتِ حال يہ ہے کہ اسلام آباد ميں حکومت پر امريکی دباؤ جاری ہے اور امريکی ان قاتلوں کو بغير کسی کاروائی کے امريکا ليجانا چاہتے ہيں ۔ وزارتِ خارجہ انکار کر چکی ہے مگر وزارتِ خارجہ ماضی ميں بھی قانون کے مطابق انکار کرتی رہی ہے ۔ وزيرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ملک کے قانون کے مطابق کاروائی عمل ميں لائی جائے گی

پنجاب حکومت نے امريکی قونصليٹ سے کہا ہے کہ موٹر سائيکل سوار کو کچلنے والی گاڑی اور ڈرائيور پنجاب حکومت کے حوالے کيا جائے

احوالِ قوم ۔ 8 ۔ بُغز

اگر اک جواں مرد ہم در انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے قوم پر دل سے جان اپنی قرباں
تو خود قوم اس پر لگائے یہ بہتاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہے اس کی کوئی غرض اس میں پنہاں

وگر نہ پڑی کیا کسی کو کسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چالیں سراسر ہیں خود مطلبی کی
نکالے گر ان کی بھلائی کی صورت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ڈالیں جہاں تک بنے اس میں کھنڈت

سنیں کامیابی میں گر اس کی شہرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو دل سے تراشیں کوئی تازہ تہمت
منہ اپنا ہو گو دین و دنیا میں کالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ ہو ایک بھائی کا پر بول بالا

اگر پاتے ہیں دو دلوں میں صفائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہیں ڈالتے اس میں طرح جدائی
ٹھنی دو گروہوں میں جس دم لڑائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو گویا تمنا ہماری بر آئی

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

قانون کی خلاف ورزی صرف پاکستانی کرتے ہيں ؟ ؟ ؟

مندرجہ ذيل خبريں پڑھيئے اور اپنی قيمتی رائے کا اظہار کيجئے

لاہور ۔ امریکی قونصلیٹ سے منسلک امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس جمعرات کو اپنی گاڑی نمبر ایل ای جی 5445-10 پر کھانا کھانے کیلئے بادشاہی مسجد کے عقب میں واقع ایک ہوٹل جا رہا تھا جب وہ قرطبہ چوک پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ دو موٹرسائیکل سوار جنہوں نے اپنے جسم کے ساتھ اسلحہ لگایا ہوا ہے اور جیسے ہی ان کی موٹرسائیکل امریکی باشندے کی گاڑی کے سامنے آئی تو ریمنڈ ڈیوس نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک شخص موقع پر ہلاک ہوگیا اور دوسرا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا

ان میں سے ایک کی شناخت فیضان حیدر کے نام سے کی گئی اور وہ ٹمبر مارکیٹ راوی روڈ کا رہائشی تھا جبکہ اس کے بڑے بھائی کا کہنا ہے کہ فیضان کبھی بھی ڈکیتی کے مقدمات میں ملوث نہیں رہا ہے ۔ شاہدرہ میں اس کا بھائی کچھ عرصہ قبل قتل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے فیضان اپنے پاس پستول رکھتا تھا وہ پستول لائسنس پر تھا

ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والا دوسرا نوجوان 17 سالہ مزدور فہیم شمشاد بیگم کوٹ کا رہائشی تھا ۔ اس کی شادی 6 ماہ قبل ہوئی تھی ۔ اس کی بیوی شمائلہ ہلاکت کا سنتے ہی بیہوش ہو گئی ۔ فہیم سیکورٹی گارڈ شمشاد علی کے 5 بیٹوں اور 2 بیٹیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ فہیم کے والد شمشاد اور بھائی وسیم کا کہنا ہے کہ فہیم کسی غلط کام میں ملوث نہیں تھا ۔ اسے بے قصور مارا گیا اور ان کے ساتھ انصاف کیا جائے

بعد ازاں امریکی باشندے ریمنڈ ڈیوس نے فوری طور پر امریکی قونصلیٹ کوا طلاع دی جس پر اس کی حفاظت کیلئے ایک گاڑی میں سوار امریکی قونصلیٹ کے دو افراد تیز رفتاری سے قرطبہ چوک کی طرف آنے لگے تو ٹریفک بلاک ہونیکی وجہ سے ڈرائیور نے گاڑی ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوسری سڑک پر ڈال دی جس سے امریکی شہری کی گاڑی سامنے سے آنے والے موٹرسائیکل سوار سے ٹکرا گئی موٹر سائيکل سوار شدید زخمی ہوگیا اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال ميں چل بسا ۔

امریکی قونصلیٹ کی جس گاڑی کی ٹکر سے نوجوان عباد الرحمان جاں بحق ہوا اس پر جعلی نمبر پليٹ لگی تھی جس پر نمبر ایل زیڈ این 6970 لکھا تھا ۔ ذرائع کے مطابق یہ جس کار کا نمبر ہے وہ ساہیوال کے ایک شہری محمد ولدصوفی منور حسین کے نام رجسٹرڈ ہے

گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے موٹر سائیکل سوار عبادالرحمن کا تعلق گلشن راوی سے ہے ۔ وہ شاہ عالم مارکیٹ میں پلاسٹک کی بوتلوں کا کاروبار کرتا تھا اس کے سات بہن بھائی ہیں

موقعہ پر موجود لوگ مشتعل ہوگئے جنہوں نے اس گاڑی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو گاڑی میں سوار ایک شخص نے اپنی گن نکال لی جس سے لوگ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے

اس دوران سو سے زائد افراد موقع پر جمع ہوگئے جنہوں نے دونوں کاروں کو گھیرے میں لینے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ان کو روکا ۔ مشتعل ہجوم نے پرانی انارکلی تھانے کا گھیراؤ کیا اور امریکا اور پولیس کیخلاف نعرے لگائے اور ٹائروں کو آگ لگا کر ٹریفک بلاک کر دی

پولیس نے امریکی باشندے کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا

پولیس ذرائع کی ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ موٹر سائیکل سوار افراد نے امریکی شہری کو لوٹنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے فائرنگ بھی کی پولیس کو جائے وقوعہ سے دو پستول ملے ہیں جس میں ایک کی میگزین خالی جبکہ دوسرے کی میگزین میں گولیاں تھیں

وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے واقعہ کی مکمل تحقیقات کا حکم دیدیا

لاہور میں امریکن کونسل خانے کے اہلکار ریمنڈ ڈیوس کو 2 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے الزام میں آج عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ایف آئی آر نمبر 48/11کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ آج ریمنڈ ڈیوس کو ماڈل ٹاؤن کچہری میں سول جج کے سامنے پیش کیا جائے گا

معجزے

مونا [مُنٰی] سيّد صاحبہ نے بيان کيا کہ انسان جہاں بھی جاتا ہے اللہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے اور اس حوالے کو اس طرح بتايا کہ ہر انسان کے اپنے دو نقشِ پاء کے ساتھ دو اللہ کے نقشِ پاء ہوتے ہيں اور جب صرف دو نقشِ پاء ہوں تو اُس وقت اللہ نے انسان کو کسی بڑی آفت سے بچانے کيلئے اپنی آغوش ميں لے ليا ہوتا ہے ۔ ميں ان عوامل کو جب نقشِ پاء صرف دو ہی رہ جاتے ہيں معجزے کہتا ہوں

مونا سيّد صاحبہ نے فرمائش کی کہ “اپنی زندگی کا کوئی ایک ایسا لمحہ شیئر کرنا پسند کریں گے جب ‘ فٹ پرنٹس’ زندگی میں صرف دو ہی رہ گیے تھے ؟” ميں نے اللہ کو ہميشہ اپنے ساتھ پايا ۔ ميں کئی واقعات لکھ چکا ہوں ۔ پچھلے ہفتہ بھی “پاگل” کے عنوان سے اسی سلسلہ کی ايک تحرير شائع کی تھی ۔ سوچئے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی مجھے اپنی آغوش ميں اُٹھا نہ ليتا تو کيا ميں آج تک زندہ اور بصحت ہوتا

معجزہ اللہ الرحمٰن الرحیم کی قدرت کا مظہر ہوتا ہے ۔ معجزے انسان کو اللہ تعالٰی کی ہمہ گیر موجودگی اور خالق و مالک و قادر ہونے کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔ کچھ معجزے خاص قسم کے تھے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اپنے نبیوں کے ہاتھوں کروائے ۔ لیکن معجزے آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ میں صرف اپنے پر بيتے چند واقعات لکھنے لگا ہوں جن کا دنیاوی جواز نہ تھا لیکن ایسا صرف اللہ کی کرم فرمائی سے ہو گیا

میں ابھی ایک سال سے کم عمر کا تھا کہ میں بیمار ہوا علاج ہوتا رہا مگر مرض کی تشخيص کئی ماہ بعد ہوئی کہ زہرباد ہے ۔ یہ جسم کے اندر چھپا ہوا ایک خطرناک پھوڑا [abscess ] ہوتا ہے ۔ اُس جگہ جراہی سے سارا گندا مواد نکال دیا گیا مگر زخم بھرنے کو نہیں آ رہا تھا کيونکہ کئی ماہ بخار ميں مبتلا رہنے کے باعث جسم پر سے گوشت ختم ہو چکا تھا ۔ آخر سرجن نے میرے دادا سے کہا “میں جو کچھ کر سکتا تھا کر لیا ۔ اب سوائے بھگوان سے پراتھنا کے کوئی چارہ نہیں رہ گیا “۔ کچھ دنوں بعد میری طبیعت بہتر ہونا شروع ہو گئی

6 اگست 1964ء کو سکوٹر پر جاتے ہوئے حادثہ میں زخمی ہو کر بیہوش ہو گیا ۔ جب کافی دیر بعد ہوش آیا تو لوگ میرے مرنے پر کلمہ شہادت بھی پڑھ چکے تھے

دسمبر 1964ء میں ملیریا کی دوائی کھانے سے ردِ عمل ہوا ۔ میرے گردوں میں سے خون بہنا شروع ہو گیا لیکن مجھے سوائے کمزوری کے اور کچھ پتہ نہ چلا ۔ کمزوری بڑھتی دیکھ کر 3 روز بعد میں ہسپتال گیا ۔ وہاں میں پہنچ تو گیا لیکن جاتے ہی بیہوش ہو کر گر پڑا ۔ 3 دن بعد آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ خون کی بوتل لگی ہے ۔ ڈاکٹر پہنچ گیا اور میرا حال دریافت کیا ۔ اُس نے بتایا کہ جسم کا آدھا خون نکل گیا تھا ۔ بتایا گیا کہ ڈاکٹر بھی بہت پریشان رہے کہ میرے لئے کچھ کر نہ پا رہے تھے ۔ مزید 10 دن میں سر نہ اُٹھا سکا کیونکہ سر اُٹھاتے ہی بیہوشی طاری ہو جاتی تھی ۔ چلنے کے قابل ہونے میں مزید 2 ہفتے لگے

سن 1986ء میں میرے گردے میں پتھری بن گئی ۔ بہت علاج کرایا ۔ ہومیو پیتھی کے ایک مشہور معالج کا علاج بھی کئی سال کروایا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ آخر 1996ء میں لِتھو ٹرِپسی کروائی جس کے نتیجہ میں پتھری کے 2 ٹکڑے ہو گئے مگر خارج نہ ہوئی ۔ میں علاج بھی کرواتا رہا اور ہر 6 ماہ بعد الٹراساؤنڈ کرواتا رہا تاکہ پتہ چلتا رہے کہ پتھری نکل گئی یا کچھ چھوٹی ہوئی ۔ لیکن پتھری نہ نکلی اور نہ چھوٹی ہوئی ۔ تنگ آ کر 10 سال بعد یعنی 2006ء میں الٹرا ساؤنڈ اور علاج دونوں چھوڑ دیئے ۔ جون 2009ء میں یونہی خیال آیا کہ کہیں پتھری بہت بڑی نہ ہو گئی ہو تو جا کر الٹرا ساؤنڈ کروایا ۔ معلوم ہوا کہ پتھری نہیں ہے ۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا ” ذرا اچھی طرح دیکھیئے ۔ 2 پتھریاں تھیں دائیں گردے میں”۔ اُس نے دوبارہ الٹراساؤنڈ کیا مگر پتھری ندارد ۔ سُبحان اللہ

آخر ميں وقوع پذير ہونے والا معجزہ ميں 26 اکتوبر 2010ء کو تحرير کر چکا ہوں ۔ مزيد يہ کہ جب داہنی طرف پندرہ بيس منٹ ديکھتے ميری گردن تھک گئی تھی تو ميں نے سامنے ديکھنا شروع کيا تھا ۔ اسی دوران ايک انتہای تيز رفتار موٹر سائيکل نے مجھے ٹکر ماری ۔ ميں 10 فٹ دُور اَوندھا چہرے کے بل موٹر سائکل کے ساتھ گھسٹتا گیا اور میرا سر ہتھوڑے کی مانند بار بار سڑک پر پڑتا رہا ۔ اس کے بعد موٹر سائيکل مع سوار کے گر گيا ۔ جو شديد چوٹ ميرے سر پر لگی اس کی بناء پر ڈاکٹروں کا خيال تھا کہ ميں

1 ۔ مر جاؤں گا يا
2 ۔ مستقل بيہوش رہوں گا يا
3 ۔ ميری بينائی ضائع ہو جائے گی يا
4 ۔ ميرا دماغی توازن قائم نہيں رہے گا

مگر ميں اللہ کے فضل و کرم سے تندرست ہو گيا

اس کہتے ہیں جو اللہ چاہے ۔ اللہ مہربان تو کُل مہربان

جموں میں تعلیم و سیاست اور ہندوؤں کا رویّہ

جموں میں تعلیم و سیاست

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت عمدہ تھا ۔ ہمارا سکول باقی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ چھ مسلمان اور سات ہندو تھے اور لڑکیوں میں مسلمان ۔ سکھ اور عیسائی ایک ایک اور تین ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947ء میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر جو عمر ميں مجھ سے تین سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر اُس نے جیب سے چاقو نکالا اور اُسے میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ بڑی جماعت کے مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھٹ گیا

دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ میرے منع کرنے پر کیرتی کمار نے کہا “ہم تم مُسلوں کو ختم کر دیں گے” اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مُکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا خون دیکھ کے تمام لڑکیوں نے چیخنا شروع کر دیا اور لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔ شور سُن کر ٹیچر انچارج آ گئیں ۔ پرنسپل صاحب گو ہندو تھے مگر برہمن نہیں تھے ۔ اُنہوں نے تفتیش کے بعد کیرتی کمار کو جرمانہ کیا اور رمبیر کو سکول سے نکال دیا ۔ تفتیش کے دوران سوائے رمبیر اور کیرتی کمار کے ایک مشترکہ ہندو دوست اور ایک ہندو لڑکی کے میری جماعت کے سب لڑکوں اور لڑکیوں نے مجھے بے قصور بتایا

صوبہ کشمیر بشمول گلگت ۔ بلتستان اور لدّاخ میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے تین اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی ایک وجہ وہ پنڈت بھی تھے جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے ہندوستان کے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تک تھے جبکہ اوسطاً 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت میں تھے ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کا آبادی میں تناسب 80 فیصد سے زائد تھا

جموں شہر میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا

1947ء کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں کم از کم آٹھ سال تک کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا تو میں بھی جلوس میں شامل ہوا ۔ تمام بچوں کے ہاتھوں میں مسلم لیگ کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے تھے ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے

” لے کے رہیں گے پاکستان”۔
“بَن کے رہے گا پاکستان”۔
“پاکستان کا مطلب کیا لَا اِلَہَ اِلّاللہ”۔
“تم کیا چاہتے ہو ؟ پاکستان”۔

مسلمانوں کو یقین تھا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گاکیونکہ ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے دوسرے جموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر میرے دادا جان نے پاکستان کا ایک بہت بڑا جھنڈا ہمارے 30 فٹ بلند دومنزلہ مکان کی چھت پر 32 فٹ لمبے پائپ پر لگایا

ہندوؤں کا رویّہ

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر ریاست کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے باہر کے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو [زیادہ تر برہمن] آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان غالب اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ اچھا نہ تھا جو مندرجہ ذیل میرے آنکھوں دیکھے واقعات سے پتہ چلتا ہے

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا جس سے لڑکے کے کپڑے بھیگ گئے اور وہ ٹھیک طرح پانی پی بھی نہ سکا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی

ایک دن ایک برہمن پٹری [Foot Path] پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا “پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے” یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا “کپڑے بڑھشٹ کری گیا” مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا