Monthly Archives: December 2010

بدلہ انسانوں سے مگر ۔ ۔ ۔

ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی ميں خود ہی کچھ مفروضے بنا کر اپنا اوليں حق سمجھتے ہوئے اُن پر بے دھڑک عمل کرتے ہيں ۔ ان ميں سے ايک ہے بدلہ ۔ جب ہم کوئی بھی جنس ليتے ہيں مثال کے طور پر گوشت ۔ گاجريں ۔ سيب ۔ چنے کی دال ۔ وغيرہ تو اس کے بدلے ميں وہی کچھ ديتے ہيں جو اس جنس کے برابر ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر چنے کی دال کا نرخ اگر 50 روپے فی کيلو گرام ہے تو ايک کيلو دال کے بدلہ ميں ہم 50 روپے ہی ديں گے ۔ کبھی 51 روپے يا زيادہ دينا تو کُجا دينے کا سوچيں گے بھی نہيں

جب اختيار ہمارے ہاتھ ميں آجاتا ہے تو ہمارا طرزِ عمل يکسر تبديل ہو جاتا ہے مثال کے طور پر

انسانوں کے ساتھ سلوک
اگر کسی نے ايک گالی دی تو ہم جب تک اُسے حتٰی الوسعت دو چار گلياں دو چار تھپڑ دو چار گھونسے رسيد نہيں کر ليں گے ہمار بدلہ پورا نہيں ہو گا

کسی نے غلطی سے يا جان بوجھ کر ہمارے گھر کے آس پاس کوڑا پھينک ديا ۔ يہ ان کے نوکر کی غلطی ہو سکتی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ہمسائے سے آرام سے بات کر کے اسے بہتری کی طرف مائل کريں ہمارا بدلہ کم از کم يہ ہوتا ہے کے ہمسائے کو بلا کر بے عزت کيا جائے يا گلی ميں اس کے مکان کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے گالياں دی جائيں

ہم اپنے گھر کے اندر سے ديوار کے اُوپر سے کوڑا لُڑھکا ديں ۔ وہ ہمسائے کے گھر کے اندر گرے اور ہمسايہ وہ کوڑا واپس پھينک دے تو ہمارے دل کو اس وقت تک اطمينان نہيں آتا جب تک اور کچھ نہيں تو دو چار گالياں واپس پھنکنے والے کو اس کے منہ پر نہ دے ليں

مندرجہ بالا واقعات سب حقائق کی بنياد پر ہيں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں سے متعلق ہيں ۔ اب ايک ايسا واقعہ جس نے مجھے ورطے ميں ڈال ديا تھا ۔ ہم 2005ء ميں ڈيفنس فيز 5 کراچی کی ايک کوٹھی ميں کرائے پر رہ رہے تھے ۔ ميں قريبی مارکيٹ سے ايک سرکٹ بريکر لينے گيا ۔ ميں سرکٹ بريکرز ديکھ رہا تھا کہ ايک گاہک نے آکر دکاندار سے کہا کہ “اليکٹريشن چاہيئے” ۔ دکاندار نے خشکی سے کہا کہ “نہيں ہے” ۔ گاہک نے برہمی دکھائی تو دکاندار نے اسے کھری کھری سُنا ديں ۔ نوبت گندھی گاليوں تک پہنچی ۔ جب گاہک چلا گيا تو ميں نے دکاندار کو کہا “ديکھئے آپ دکاندار ہيں ۔ آپ کو گاہک کے ساتھ ايسا سلوک نہيں کرنا چاہيئے”۔ دکاندار بولا “صاحب ۔ پچھلے ماہ انہوں نے اليکٹريشن مانگا ۔ ميں نے اُجرت طے کر کے بھيج ديا ۔ کام کرنے کے بعد اليکٹريشن نے اُجرت مانگی تو آدھے پيسے ديئے ۔ اليکٹريشن نے اسرار کيا تو اُسے تھوڑے سے اور پيسے دے کر دھکا ديا اور کہا جا اب يہاں سے ۔ اليکٹريشن نے پھر اسرار کيا تو تين بھائيوں نے مل کر اس کی درگت بنا دی اور دھکے دے کر باہر نکال ديا”

اللہ کا فرمان ۔ جسے ہم شايد زيرِ غور نہيں لاتے

سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ

اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے

سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، (فی الواقع) اللہ تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر (الزام) کا کوئی راستہ نہیں۔‏

یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏

اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام) ہے۔‏

سورت 2 البقرہ آيت 263 ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو ، اور اللہ تعالٰی بےنیاز اور بردبار ہے۔

سورت 41 حٰمٓ السّجدہ يا فُصّلَت آيات 34 تا 36 ۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ، برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔
اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں ، اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

نظامِ حکومت

يہ تحرير ميں نے فروری 2010ء کے شروع ميں لکھی تھی مگر ميری غلطی کی وجہ سے کہيں اِدھر اُدھر ہو گئی اور شائع ہونے سے رہ گئی ۔ اس کی اہميت آج بھی اتنی ہے جتنی دس ماہ قبل تھی اسلئے شائع کر رہا ہوں

عدالتِ عظمٰی میں کچھ اعلٰی سرکاری ملازمین کی درخواست زیرِ سماعت تھی کہ اُنہیں نظرانداز کرتے ہوئے کچھ دوسرے حضرات کو فیڈرل سیکریٹری بنا دیا گیا ہے جو اُن سے جُونیئر تھے ۔ 2 جنوری 2010ء کو حکومت کی طرف سے جواب داخل کیا گیا جس میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ اعلٰی عہدوں پر تقرری کا کُلی اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے اور وزیرِ اعظم ہی نے ان لوگوں کا تقرر کیا ہے اسلئے اس کے خلاف چارہ جوئی نہیں ہو سکتی ۔ اس پر کچھ پڑھے لکھے حضرات [بلاگر نہیں] نے تعجب کا اظہار کیا تو صورتِ حال کو واضح کرنے کا خیال آیا

ہمارے مُلک میں زیادہ تر قوانین تو جیسا سب جانتے ہیں وہی چل رہے ہیں جو ہندوستان پر قابض انگریزوں نے بنائے تھے ۔ 1955ء میں سرکاری ملازمت کے قوانین بنائے گئے تھے جن کی چار اہم خصوصیات تھیں

1 ۔ پرِیویلج لِیو [privilege] کا مطلب اختیاری چھٹی نہیں بلکہ استحقاقی رُخصت ہے جس کا ملازم کو حق ہے اور سوائے غیرمعمولی حالات کے ملازم کو یہ چھٹی دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا
2 ۔ کسی عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُس کا اعلٰی عہدیدار لکھے گا تاکہ ذاتی چپقلش اور عناد کے اثر کو روکا جائے
3 ۔ سالانہ رپورٹ لکھتے ہوئے درجن بھر خصوصیات کی تشخیص لکھنا ہوتی تھی ۔ اگر کوئی کمی لکھی جائے تو اس کی وجوہات لکھنا ہوتی تھیں جن کی پڑتال کی جا سکتی تھی ۔ مرتبات صرف تین ہوتے تھے اوسط سے کم ۔ اوسط اور اوسط سے زیادہ ۔ اوسط عہدیدار کو بھی قابل اور ترقی کا اہل سمجھا جاتا تھا ۔ اِن قوانین کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ عام آدمی اوسط ہوتے ہیں ۔ اوسط سے اُوپر اور نیچے صرف چند ہوتے ہیں ۔ اگر صلاحیت کے خانے میں ناقابل لکھ دیا جائے تو اُس کی مضبوط وجوہات لکھنا ہوتی تھیں
4 ۔ تمام عہدیداروں کی ترقی اس کی سینیاریٹی اور قابلیت [Seniority cum fitness] کی بنا پر ہوتی

ایک عوامی دور آیا جس میں سارا نظام بدلا گیا اور 1973ء میں انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نام پر نئے قوانین بنائے گئے جن کے تحت مندرجہ بالا قوانین کی شکل کچھ یوں ہو گئی

1 ۔ چُھٹی صرف بڑے افسر کی مہربانی یا زور دار کا حق بن گیا ۔ استحقاق والی بات ختم ہو گئی
2 ۔ عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُسی کو لکھنے کا اختیار دے دیا گیا
3 ۔ سالانہ رپورٹ میں خصوصیات تو درجن سے زیادہ کر دی گئیں لیکن ترقی کیلئے صرف آخری خانہ جس میں ترقی کی اہلیت لکھنا ہوتی ہے حتمی قرار دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری رپورٹ میں عہدیدار کا کام بہت عمدہ لکھ کر قابلیت کے خانہ میں ناقابل لکھ دیا جائے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مرتبات تین سے بڑھا کر چھ کر دیئے گئے ۔ اوسط سے کم ۔ اوسط ۔ اوسط سے زیادہ ۔ اچھا ۔ بہت اچھا اور بے مثال ۔ چنانچہ جن کی سفارش جتنی بڑی ہوتی یا جو اپنے صاحب کی ذاتی خدمت سب سے زیادہ کرتا ہے اُسے اتنا اچھا لکھ دیا جاتا ہے ۔ باقیوں کو اوسط جس کا عِلم متعلقہ عہدیدار کو اُس وقت ہوتا ہے جب اس کی ترقی رُک جاتی ہے ۔ جس عہدیدار کو تین بار اوسط لکھ دیا جائے پھر چاہے وہ بہتر رپورٹیں لیتا رہے اُس کی ترقی اگلے دس سال میں ممکن نہیں ہوتی
4 ۔ فیڈرل سیکریٹری اور فیڈرل ایڈیشنل سیکریٹری اور ان کے متوازی عہدوں کو مکمل طور پر سربراہِ حکومت کے اختیار میں دے دیا گیا کہ جسے چاہے ان عہدوں پر بٹھا دے ۔ باقی عہدیداروں کی ترقی کیلئے بھی سینیاریٹی کو ثانوی حیثیت دے دی گئی
5 ۔ ایک بغلی داخلہ [lateral entry] کا قانون بھی بنایا جس کے تحت جسے حکمران چاہیں سڑک سے اُٹھا کر کسی بھی سرکاری عہدے پر بٹھا دیں

انتظامی اصلاحات 1973ء کی بدولت نااہليت اور اقرباء پروری نے روز افزوں ترقی کی اور اب يہ حال ہے کہ اکثر ذہین محنتی لوگ سرکاری ملازمت کرنا نہیں چاہتے

فرضی داستانيں اور حقيقت

مندرجہ ذيل ربط پر کلک کيجئے اور پڑھيئے کہ بھارتی حکومت کے جھوٹے واويلے کے مقابلے ميں حقيقت کيا ہے
Myth & Reality

اگر نہ کھلے تو مندرجہ ذيل يو آر ايل پر پڑھيئے

http://iabhopal.wordpress.com/2010/12/08

آسيہ ۔ عافيہ ۔ قانون ۔ انصاف

ميرے ہموطنوں کی اکثريت سنجيدہ قسم کی کُتب اور مضامين پڑھنے کيلئے وقت نکالنے سے قاصر ہيں ۔ ناول ۔ افسانے ۔ چٹخارے دار کہانياں پڑھنے اور مووی فلميں اور ڈرامے ديکھنے کيلئے اُن کے پاس وافر وقت ہوتا ہے ۔ البتہ بشمول سنجيدہ اور قانونی ہر موضوع پر تبصرہ کرنا اُن کے بائيں ہاتھ کا کھيل ہے ۔ چاہيئے تو يہ تھا کہ اس موضوع پر کوئی ماہرِ قانون جيسے شعيب صفدر صاحب قلم کاری کرتےليکن وہ شايد آجکل زيادہ اہم امور سے نپٹنے ميں مصروف ہيں

ميں قانون کا نہ تو طالب علم ہوں اور نہ ماہر مگر سرکاری ملازمت کی مختلف منازل [اسسٹنٹ منيجر ۔ منيجر ۔ پروڈکشن منيجر ۔ ورکس منيجر ۔ پرنسپل ۔ جنرل منيجر اور ڈائريکٹر] طے کرتے ہوئے اپنے تکنيکی کام کے ساتھ قانونی کاروائيوں سے بھی نبٹنا پڑتا رہا ۔ اس فرض کو بحُسن و خُوبی انجام دينے کيلئے قوانين کا مطالعہ کيا اور الحمد للہ کئی مشکل قانونی معاملات نبٹائے

آسيہ اور عافيہ کے مقدموں اور فيصلوں پر کئی خواتين و حضرات نے طويل جذباتی تحارير لکھيں ۔ ابھی تک اکثريت کے ذہنوں ميں ابہام ہے کہ دونوں کے مقدمات کے فيصلوں ميں سے کون سا درست ہے اور کون سا غلط ۔ اُميد ہے کہ مندرجہ ذيل قانونی صورتِ حال سے وضاحت ہو جائے گا

انسان کے حقيقی عمل سے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے علاوہ کوئی واقف نہيں ۔ عدالتيں شہادتوں کی بنياد پر قانون کے مطابق فيصلہ کرنے کی پابند ہوتی ہيں ۔ اگر وہ ايسا نہيں کرتيں ہيں تو انصاف نہيں ہوتا بلکہ انصاف کا خون ہوتا ہے اور انصاف کا خون صرف وطنِ عزيز ميں ہی نہيں ہوتا رہا بلکہ دنيا کے تمام ممالک بشمول امريکا ميں ہوتا آيا ہے ۔ اس سلسلہ ميں اب امريکا انسانيت کی تمام حدود پار کر چکا ہے ۔ وہاں ملزم کو اپنی مرضی کی سزا دينے کيلئے نيا قانون بنا کر ملزم کے تمام انسانی اور قانونی حقوق سلب کر لئے جاتے ہيں

انصاف کيلئے قانون کا تقاضہ

فيصلہ کرنے کيلئے عدالت کا انحصار شہادتوں پر ہوتا ہے جو تين قسم کی ہوتی ہيں
1 ۔ مادی اور واقعاتی
2 ۔ دستاويزی
3 ۔ شخصی

آسيہ کے مقدمہ ميں چونکہ صرف زبان کا استعمال ہوا اور کوئی دستاويز يا ہتھيار استعمال نہيں ہوا اسلئے فيصلہ کا انحصار صرف شخصی شہادتوں پر تھا
واقعہ کے بعد گاؤں کے لوگوں نے سب کو اکٹھا کيا جس ميں آسيہ سے جواب طلبی کی گئی تو آسيہ نے اقرار کيا کہ اُس نے توہينِ رسالت کا جُرم کيا ہے اور معافی کی درخواست کی
جُرم کسی شخص کے خلاف نہيں کيا گيا تھا بلکہ اللہ جل شانُہُ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے خلاف کيا گيا تھا جسے معاف کرنے کا کوئی انسان مجاز نہ تھا

آسيہ کے واقعہ کے سلسلہ ميں مروجہ قانون کے مطابق مندرجہ ذيل اقدامات لازم تھے

کسی ايک آدمی کی طرف سے متعلقہ تھانے ميں رپورٹ درج کرانا جسے ايف آئی آر کہتے ہيں ۔ جو کہ دو عورتوں نے درج کرائی جو عينی شاہد تھيں
چار پانچ سال قبل مقدمہ کی کاروائی سول جج کی عدالت ميں ہوا کرتی تھی جو قانون ميں تبديلی کے بعد ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج نے کرنا تھی اور ايسا ہی ہوا
چار پانچ سال قبل تفتيش متعلقہ تھانيدار کرتا تھا جو قانون ميں تبديلی کے بعد سپرنٹنڈنٹ پوليس کرتا ہے ۔ سيشن جج کے حکم پر تفتيش سپرنٹنڈنٹ پوليس نے کی جو عدالت ميں پيش کی گئی
مدعيان اور آسيہ نے عدالت ميں شہادتوں کے ذريعے اپنے آپ کو درست ثابت کرنا تھا ۔ مدعيان کی طرف سے آسيہ کے خلاف 6 گواہ پيش ہوئے جن ميں سے ايک کی گواہی عدالت نے مسترد کر دی ۔ آسيہ کی طرف سے کوئی گواہ پيش نہ ہوا
آسيہ کے وکيل نے صرف دو اعتراضات داخل کئے
تحقيقات ايس پی نے کرنا تھيں مگر ايس ايچ او نے کيں ۔ [يہ غلط تھا]
صوبائی يا وفاقی حکومت سے اجازت نہيں لی گئی [قانون کے مطابق اس کی ضرورت نہ تھی]

آسيہ کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالتِ اعلٰی ميں اپيل کرے جو شايد وہ کر چکی ہے

آسيہ کے برعکس عافيہ کے سلسلہ ميں ہتھيار يعنی بندوق استعمال ہوئی چنانچہ اس سلسلہ ميں تينوں قسم کی شہادتيں پيش ہو سکتی تھيں
مزيد چونکہ عافيہ کو موقع پر ہی گرفتار کر ليا گيا تھا ۔ اسلئے فيصلہ ميں مادی اور واقعاتی شہادتوں کا وزن زيادہ ہونا لازم تھا

خيال رہے کہ عافيہ کو سزا القاعدہ سے تعلق يا عافيہ کے دہشتگردی ميں ملوث ہونے کی وجہ سے نہيں دی گئی

شخصی شہادت ميں جو کچھ سامنے آيا وہ يہ ہے
عافيہ نے بندوق اُٹھائی ہوئی تھی جس کا رُخ امريکی فوجی کی طرف تھا
اُس نے کارتوس چلائے مگر کوئی گولی امريکی فوجی کو نہ لگی

ميں شہادت کا باقی حصہ جو سراسر عافيہ کے حق ميں جاتا ہے فی الحال چھوڑ رہا ہوں ۔ قانون کے مطابق جو پاکستان ۔ امريکا اور باقی دنيا ميں بھی ايک ہی ہے لازم تھا کہ
عافيہ نے جو بندوق استعمال کی تھی اُسے بغير ننگے ہاتھ لگائے اس کی قسم ۔ پروڈکشن کا سال يا تاريخ اور سيريل نمبر ريکارڈ کر کے بندوق پر موجود اُنگليوں کے نشانات کے پرنٹ لے کر محفوظ کر لئے جاتے اس کے بعد بندوق کو ايک تھيلے ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا
جو کارتوس عافيہ نے چلائے تھے اُن کے خولوں کی قسم ۔ ان پر موجود پروڈکشن کا سال اور لاٹ نمبر [Lot n#] ريکارڈ کر کے محفوظ کر ليا جاتا اور پھر خولوں کو ايک تھيلی ميں ڈال کر سربمہر کر ديا جاتا

انصاف اور قانون کا تقاضہ تھا کہ مندرجہ بالا تينوں شہادتيں مقدمہ کے دوران عدالت ميں پيش کی جاتيں مگر ہوا يہ کہ جب عافيہ کے وکيل نے پوچھا “وہ بندوق کہاں ہے جو عافيہ کے ہاتھ ميں تھی ؟”
جواب ملا “وہ استعمال کيلئے فوجيوں کو دے دی گئی تھی نمعلوم اب کہاں ہے”
پھر عافيہ کے وکيل نے پوچھا “اس بندوق پر سے جو انگليوں کے نشانات لئے گئے وہ کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “بندوق پر انگليوں کے نشانات نہيں پڑتے”۔[يہ سراسر جھوٹ تھا کيونکہ دھات ۔ پلاسٹک اور پالِشڈ لکڑی پر انگليوں کے واضح نشانات بنتے ہيں اور بندوق آجکل لوہے کی بنی ہوتی ہے جس کے فورآرم اور بٹ [Forearm & Butt] پلاسٹک کے بنے ہوتے ہيں ۔ 30 سال قبل يہ پالشڈ لکڑی کے بنے ہوتے تھے
عافيہ کے وکيل نے مزيد پوچھا “جو کارتوس عافيہ نے چلائے اُن کے خول کہاں ہيں ؟”
جواب ملا “پتہ نہيں وہ کہاں ہيں”

مندرجہ بالا جوابات کے بعد انصاف کا يہ تقاضہ تھا کہ ملزمہ عافيہ کو فوری طور پر رہا کر ديا جاتا مگر اُسے 76 سال کی قيد ہوئی جو يکے بعد ديگرے بھگتنا ہے

خيال رہے کہ ذولفقار علی بھٹو کو جن تين اہم شہادتوں کی بنا پر مجرم ٹھہرايا گيا تھا اُن ميں سے ايک جائے واردات سے ملنے والے چلائے گئے کاتوسوں کے خول تھے

مقدمہ کی مزيد خامياں
گواہ غريب افغان ہے جو گواہ بننے کی حامی بھرنے کے بعد سے امريکا ميں ہے ۔ اسے امريکا کی شہريت دے دی گئی ہے اور ساری عمر وظيفہ کا وعدہ ہے
مشکوک شہادتی بيانات
عافيہ کے ہاتھ ميں بندوق تھی جو اس نے امريکی فوجی پر تانی ہوئی تھی ۔ عافيہ کھڑی تھی
دوسرے بيان ميں وہ چارپائی پر دو زانو تھی
افغان نے عافيہ کو دھکا ديا
جب تک عافيہ پر گولياں نہيں چلائی گئيں عافيہ سے بندوق چھينی نہيں جا سکی
امريکی فوجی جو عافيہ کی حفاظت پر معمور تھا اس نے وہاں بندوق رکھی جو عافيہ نے اُٹھا لی
دوسرا بيان ہے کہ عافيہ نے حفاظت پر معمور امريکی فوجی سے بندوق چھين لی

سوالات
جس امريکی فوجی کی لاپرواہی سے بندوق عافيہ کے ہاتھ ميں گئی تھی اُس کے خلاف کيا تاديبی کاروائی کی گئی ؟
[پاکستان ميں ايسے فوجی کا کورٹ مارشل کر کے اُسے ملازمت سے برطرف کر ديا جاتا]
عافيہ عورت تھی يا کہ ہاتھی کہ افغان جو جفاکش ہوتے ہيں نے عافيہ کو دھکا ديا مگر عافيہ کا توازن قائم رہا اور بندوق چھيننے کيلئے عافيہ کے پيٹ ميں گولياں مارنا پڑيں [ٹانگوں پر نہيں]

رہی امريکا کی انسانيت سے محبت اور قانون کی پاسداری تو يہاں پر اور يہاں پر کلِک کر کے ديکھيئے کہ امريکی کتنے ظالم اور وحشی ہوتے ہيں ۔ يہ راز کھُل جانے پر امريکی حکومت نے تصاوير ميں واضح نظر آنے والے 4 فوجيوں ميں سے صرف ايک کے خلاف مقدمہ چلايا جو کہ پرائيويٹ کنٹريکٹ سولجر تھی اور اُسے صرف 3 ماہ قيد کی سزا دی جو بعد ميں کم کر کے ايک ماہ کر دی گئی

احوالِ قوم ۔ 5 ۔ سوچ

سدا اہلِ تحقیق سے دل میں بل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے
فتاووں پہ بالکل مدارِ عمل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے
کتاب اور سنت کا ہے نام باقی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدا اور نبی سے نہیں کام باقی

جہاں مختلف ہوں روایات باہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کبھی ہوں نہ سیدھی روایت سے خوش ہم
جسے عقل رکھے نہ ہر گز مسلم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسے ہر روایت سے سمجھیں مقدم
سب اس میں گرفتار چھوٹے بڑے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ پر ہماری یہ پتھر پڑے ہیں

کرے غیر گربت کی پوجا تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ٹھہرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ دن رات نذریں چڑھائیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شہیدوں سے جاجا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے ۔ ۔ ۔ ۔ نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے

وہ دیں جس سے توحید پھیلی جہاں میں ۔ ۔ ہوا جلوہ گر حق زمین و زماں میں
رہا شرک باقی نہ وہم و گماں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بدلا گیا آکے ہندوستاں میں
ہمیشہ سے اسلام تھا جس پہ نازاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دولت بھی کھو بیٹھے آخر مسلماں

تعصب کہ ہے دشمنِ نوعِ انساں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھرے گھر کئے سینکڑوں جس نے ویراں
ہوئی بزمِ نمرود جس سے پریشاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا جس نے فرعون کو نذرِ طوفاں
گیا جوش میں بو لہب جس کے کھویا ۔ ۔ ۔ ۔ ابو جہل کا جس نے بیڑا ڈبوبا
وہ یاں اک عجب بھیس میں جلوہ گر ہے ۔ ۔ چھپا جس کے پردے میں اک ضرر ہے
بھرا زہر جس جام میں سر بسر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آبِ بقا ہم کو آتا نظر ہے
تعصب کو اک جزوِ دیں سمجھے ہیں ہم ۔ ۔ ۔ جہنم کو خلدِ بریں سمجھے ہیں ہم

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی