Daily Archives: December 1, 2010

وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا

نہرمیں خون

ہمارے ساتھ جموں چھاؤنی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹے میں اور کرنل عبدالمجيد صاحب کا بيٹا 10 سال کے ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئےجمعرات 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم لڑکوں نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا

مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ بُدھ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے